Episode 3

78 3 0
                                    

#Aqeedat_by_HinaButt
#3rd_Episode

چار بجے کے قریب وہ سو کر اٹھی۔ اُس وقت تک اریج واپس آ کر اپنے بیڈ پہ سو چکی تھی۔ غالیہ نے موبائل چیک کیا۔ پہلے تو انجان نمبر سے میسجز اور ڈھیر ساری مسڈ کالز دیکھ کر حیران ہوئی اور اُس سے زیادہ حیرت میسجز پڑھنے کے بعد ہوئی۔
"آئی ایم ایکسٹریملی سوری غالیہ فور ٹوڈے"
"پک اپ دا فون۔"
"آئی ایم سوری۔ آئی ریئلی ایم۔"
'یہ کون؟ کہیں ہٹلر تو نہیں؟ نہیں نہیں اب اتنا بھی چیپ نہیں ہے وہ کہ مجھے میسجز اور کالز کرے مگر اور کون ہو گا جو مجھے آج کے لیے سوری کہے اور اگر وہی ہے تو میرا نمبر بھلا کیسے۔۔۔'
وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ اُس کی نظر ساتھ والے بیڈ پہ سوئی ہوئی اریج پہ پڑی۔ اُس نے اٹھ کر اُس کا بلینکٹ کھینچ کر اُتارا۔
"جیری"
غالیہ کے چیخنے پہ اریج ہڑبڑا کر اٹھی۔
"کیا ہوا کیا ہو گیا؟
"یہ تو ابھی قاشی بھائی بتائیں گے تمہیں کہ کیا ہوا اور کس نے کیا۔"
"کیا تم ظالم نند بن جاتی ہو ہر دو منٹ بعد۔ اب تو میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔"
"اب تم نے 'کچھ' نہیں، 'بہت کچھ' کیا ہے۔"
"ہوا کیا ہے؟"
"یہ اپنے چہیتے سر کو میرا پرسنل نمبر کس خوشی میں دے کر آئی ہو؟"
"غالیہ پاگل ہو گئی ہو کیا؟ میں اب اتنی بھی سٹوپڈ نہیں۔"
اریج نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
"ہاں معلوم ہے۔ آپ اِس سے بھی زیادہ سٹوپڈ ہیں۔"
فون کی بیل بجی تو دونوں کا دیہان غالیہ کے موبائل کی طرف گیا۔
"اسے تو میں بتاتی ہوں۔"
غالیہ نے جا کر بیڈ سے موبائل پکڑا اور بغیر دیکھے کہ کس کا فون ہے، فون اٹھا کر بولنا شروع کر دیا۔
"آپ ہوش میں تو ہیں؟ کیوں مجھے کالز اور میسجز کر رہے ہیں؟ ٹیچر ہیں تو ٹیچر ہی بن کر رہیں۔ پہلے سینیئر تھے تب بھی چین نہیں تھا، اب غلطی سے ٹیچر بن گئے ہیں تو ابھی بھی آپ کو سکون نہیں۔ بگاڑا کیا ہے میں نے آپ کا؟ اور آج آپ کو معافی مانگنا بھی یاد آگیا ہے۔ معافی مانگنے سے بہتر ہوتا ہے کہ انسان اپنا رویہ درست کر لے اور ویسے بھی اب میں نے آئندہ آپ کی کلاس میں آنا ہی نہیں۔ جس سے مرضی شکایت کریں اور اریج نے آپ کو میرا نمبر دے کر جو غلطی کی ہے وہ۔۔۔"
اس سے پہلے کہ وہ اور کچھ بولتی فون پہ ایک آواز اُبھری۔
"غالیہ"
غالیہ نے فون کان سے ہٹا کر سکرین پہ شائق کا نام دیکھا۔
'اُف بھائی۔ میں نے بولنے سے پہلے نمبر کیوں نہیں دیکھا غور سے؟'
غالیہ نے فون واپس کان کے ساتھ لگایا۔
"بھائی آپ؟"
"اریج کو فون دو۔"
"بھائی وہ"
"گڑیا میں نے کہا ہے اریج کو فون دو ابھی۔ مجھے بات کرنی ہے اُس سے"
"بھائی ہیں۔تم سے بات کرنی ہے۔"
غالیہ نے اریج کو فون پکڑایا اور خود واش روم چلی گئی۔
اریج کانپتے ہاتھوں کے ساتھ فون پکڑ کر کان کے پاس لے کر گئی۔ وہ خوف زدہ ہو گئی تھی کہ اب شائق سے اُسے ضرور ڈانٹ پڑے گی کیونکہ غالیہ شائق کو بتا چکی تھی کہ اریج نے ہی ریعان کو اُس کا نمبر دیا ہے اور شائق تو غالیہ کی بات پہ آنکھیں بند کر کے یقین کر نے والوں میں سے تھا۔
"اریج؟"
" ججی۔۔۔"
اریج نے ڈرتے ہوئے جواب دیا۔ شائق غصے کا بہت تیز تھا مگر غصہ اُسے صرف غلط بات پہ آتا تھا۔
"کیا ہوا؟"
شائق کا لہجہ بالکل نارمل تھا۔
"میں۔۔۔ میں۔۔۔ میں نے نہیں دیا شائق۔"
"اوہ ڈیئر وائف معلوم ہے مجھے۔ میں نے دیا ہے اُسے نمبر۔"
"میں سچ کہہ رہی ہوں۔ میں نے نہیں۔۔۔"
آنسو اُس کے حلق میں اٹک گئے۔
"اریج آر یو سِک؟ میں کہہ رہا ہوں کہ میں نے دیا ہے اور تم پھر وہی بات کر رہی ہو اور پگلی رو کیوں رہی ہو؟"
"مجھے پتہ ہے آپ مجھے بہت ڈانٹیں گے مگر میں نے سچ میں۔۔۔"
"شٹ اپ اریج۔ کیا ہو گیا ہے؟ میں کیوں ڈانٹوں گا؟ میاں بیوی کے رشتے میں پیار و محبت کے ساتھ اعتماد بھی ضروری ہے اینڈ آئی ٹرسٹ یو ایڈیٹ۔ یہ کوئی بات یے رونے والی؟ اگر تم ایسا کرتیں، تب بھی میں نہ ڈانتا کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ تم بہت بے وقوف سہی مگر ذرا سی سمجھ دار بھی ہو۔ اگر کچھ کرو گی تو کسی وجہ سے ہی کرو گی۔ چلو رونا بند کرو جلدی سے۔"
اریج نے اپنے آنسو صاف کیے۔
"میں ڈر گئی تھی کہ کہیں آپ۔۔۔"
"ایک تو میری بہن کے ساتھ رہتے ہوئے بھی تم اتنی ڈر پھوک ہو۔"
"وہ آپ نے کہا کہ آپ  نے سر کو۔۔۔"
"اوہ ہاں۔ بھئی اب تو چار پانچ باتیں میں بھی اس ریعان کے بچے کو سناؤں گا۔ میری بیوی کو بھی رلا دیا۔"
"کیا مطلب؟"
"بیگم صاحبہ یہ جو ریعان ہے نا، یہ غالیہ کا، میرا مطلب ہے ہمارا کزن ہے۔ اُس نے صبح مجھ سے نمبر لیا تھا۔ مجھے شروع سے ہی معلوم کہ یہ تم لوگوں کی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اور اب تم دونوں کی کلاس کو پڑھاتا بھی ہے اور یہ بھی کہ وہ غالیہ کو بہت تنگ کرتا ہے۔ غالیہ کی یونیورسٹی سٹارٹ ہونے سے پہلے تایا ابو نے بابا سے ریعان کے لیے غالیہ کا رشتہ مانگا تھا۔ ریعان کے ہر طرح سے غالیہ کے قابل ہونے کے باوجود بابا اتنی جلدی اُس کی شادی نہیں کرنا چاہتے تھے اور ریعان بھی تب پڑھ رہا تھا۔ اِس لیے بابا نے تایا ابو سے کہہ دیا کہ جب غالیہ اپنی سڈیز کمپلیٹ کر لے گی تو تب ہی کچھ سوچیں گے۔ اور یہی وجہ ہے کہ غالیہ کو بھی ابھی کچھ نہیں بتایا۔ تایا ابو وغیرہ گاؤں میں رہتے ہیں۔ شہر بہت کم آتے ہیں۔ بس ریعان ہی پہلے پڑھائی کی وجہ سے ادھر رہتا رہا ہے اور اب جاب کی وجہ سے۔ بہت محنتی اور سلجھا ہوا ہے۔ مجھے تو غالیہ کے لیے بہت مناسب لگتا ہے اور وہ غالیہ کو پسند بھی کرتا ہے۔ چونکہ تایا ابو کی فیملی بہت کم آتی ہے ہمارے ہاں اور ریعان تو جب بھی آیا، غالیہ کی غیر موجودگی میں ہی آیا اس لیے اسے یہ بھی نہیں پتا کہ ریعان اُس کا کزن ہے۔ میں نے ابھی اسی لیے فون کرنا تھا کہ اگر غالیہ کو اس کا فون آئے تو تم سنبھال لینا۔ زیادہ کچھ الٹا نہ بول دے مگر اب لگتا ہے کہ کوئی فائدہ نہیں۔ چلو ریعان کی قسمت۔ سنے پھر ساری کڑوی کسیلی۔ اتنا تو تنگ کرتا ہے میری گڑیا کو۔"
شائق کے چپ ہونے پہ بھی اریج کچھ نہ بولی۔
"اریج؟"
"جی؟"
"کیا بات ہے؟"
"کچھ نہیں۔"
"پھر بول کیوں نہیں رہی؟"
"آپ بول رہے تھے تو میں کیا بولتی؟"
"سوری مجھے تمہیں پہلے بتا دینا چاہیے تھا۔"
"شائق؟"
"یس مسز شائق؟"
شائق نے اتنے پیار سے کہا کہ اریج کا چہرہ دہکنے لگا۔
"وہ۔۔۔وہ۔۔۔"
"ہا ہا ہا ڈونٹ ٹیل می تم بلش کر رہی ہو۔"
اریج سے کچھ نہ بولا گیا۔
"مسز؟"
"جی؟"
"یار کبھی کچھ بول دیا کرو پیار سے۔ شوہر ہوں تمہارا۔"
"وہ۔۔۔وہ نماز پڑھنی تھی تو فون۔۔۔"
"اوہ سوری۔ چلو بعد میں کرتا ہوں پھر بات۔ ٹیک کیئر۔ اللہ حافظ۔"
"اللہ حافظ۔"
اریج نے فون بند کر کے غالیہ کے سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دیا۔ اتنے میں غالیہ بھی نہا کر نکل آئی۔ آرام سے چلتے ہوئے اریج کے پاس آئی اور پیچھے سے اس سے لپٹ گئی۔
"ریئلی سوری جیری۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ بھائی ہیں فون پہ۔"
اریج چپ رہی۔ غالیہ اس سے علیحدہ ہوئی اور اس کے چہرے کا رخ اپنی طرف کیا
"کیا بہت ڈانٹا ہے؟"
"کیوں؟ ڈانٹنا کیوں تھا؟"
"کیا مطلب بھائی نے کچھ نہیں کہا؟"
"نہیں"
"کیوں؟ میرا مطلب ہے انہوں نے کچھ نہیں سنا؟"
"اپنی اکلوتی بیوی سے انہیں بہت پیار ہے۔ اس لیے۔"
"ہا ہا ہا ہا ہا یہ تھوڑی ہی دیر میں ہو کیا گیا ہے۔ پہلے تو تمہارا رنگ اُڑ گیا تھا۔ ویسے جیری سوری۔ جب تم نے کہہ دیا تھا کہ تم نے نہیں دیا تو مجھے مان لینا چاہیے تھا۔ پر اگر تم نے نہیں دیا تو پھر کس نے؟"
"وہ۔۔۔"
غالیہ کا فون پھر سے بجا۔
"السلام علیکم۔ ہاں دانیہ؟ میں آ رہی ہوں۔ بس نکلنے لگی ہوں۔ تم مجھے لسٹ وٹس ایپ کر دو جو کچھ بھی چاہیے۔ میں آتے ہوئے لے آؤں گی۔ اوکے۔ اللہ حافظ۔"
فون بند کر کے وہ اریج کی طرف مڑی۔
"اچھا میں چلتی ہوں۔ پہلے ہی لیٹ ہوگئی ہوں۔ سب بچے ویٹ کر رہے ہیں۔"
"اوکے۔ دیہان سے جانا۔"
"اچھا بی اماں۔"
غالیہ نے اپنا بیگ اور گاڑی کی چابی پکڑی اور سنٹر جانے کے لیے نکل گئی۔

"عقیدت" از "حناء بٹ"Where stories live. Discover now