Episode 2

72 3 1
                                    

#Aqeedat_by_HinaButt
#2nd_Episode

"اب آپ کیسا محسوس کر رہی ہیں؟ آپ بے ہوش ہو گئی تھیں ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں۔ آپ کا بیٹا ٹھیک ہو جائے گا۔ کیوں پریشان ہوتی ہیں؟ اللہ جی بہتر کریں گے سب۔"
نرس کچھ کہہ رہی تھی مگر مجھے صرف اپنی دوست یاد آرہی تھی اور شدت سے یاد آ رہی تھی۔
"ہاں معلوم ہے۔ مگر انسان ہوں نا۔ کبھی کبھار تکلیف برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے سسٹر۔"
"ارے ڈاکٹر ادیان بہت اچھے ہیں۔ آپ کے بیٹے کا اچھے سے علاج ہو گا یہاں۔ دیکھیے گا وہ گھر چلا جائے گا آپ کے ساتھ چار پانچ دن تک۔"
"اور جو لوگ مر جائیں، اُن کو کیسے واپس اپنے پاس لا سکتے ہیں سسٹر؟"
نرس میری طرف دیکھنے لگی مگر مجھے ہوش کہاں تھا۔ مجھے تو اپنے کانوں میں وہ ہنسی سنائی دے رہی تھی جو بہت خوبصورت تھی۔
"آپ ریسٹ کریں۔"
"نہیں کرنا مجھے ریسٹ۔ میری بہن کہاں ہے؟ لاؤ اُسے۔ میری انیا کو لے کر آؤ۔ وہ کیسے مر سکتی ہے۔ مجھے، مجھے کیسے چھوڑ کے جا سکتی ہے وہ؟ پہلے بھی وہ گئی تھی۔ ناراض ہے وہ مجھ سے۔ میں منا لوں گی اُسے۔ بولو اپنے ڈاکٹر کو میری دوست کو میری بہن کو مجھے واپس لا کے دے۔ وہی لے کر گیا ہے۔ لاؤ واپس۔"
نرس باہر کو بھاگی
"سر وہ مس عقیدت کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔ وہ چیخ رہی ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا بول رہی ہیں کہ میری بہن کو لاؤ۔ وہ نہیں مر سکتی۔ سر مجھے تو لگتا ہے وہ پاگل ہیں۔"
"سسٹر"
ادیان نے غصے سے کہا اور روم کی طرف گیا
'یہ سر کو کیا ہو گیا'

ادیان کمرے میں میں آیا تو میں بیڈ سے اتر کر اُس کے سامنے آئی اور اُس کا گریبان پکڑ لیا۔
"آپ، آپ کی وجہ سے میری دوست مجھ سے دور گئی ہے۔ آپ کی وجہ سے ناراض ہوئی تھی وہ مجھ سے۔ آپ کو تو کوئی بھی لڑکی مل جاتی۔ کیوں میرے پیچھے پڑ گئے تھے آپ۔ مجھے تو اور دوست نہیں ملنی تھی نا۔ وہ میری بہن تھی۔ میری بہن چھین لی آپ نے۔ آپ کو ذرا ترس نہیں آیا؟ میرے پاس تھا ہی کیا سوائے چند رشتوں کے؟ آپ نے میرے ساتھ بہت برا کیا یے۔ وہ اتنی تکلیف میں رہی اور میں اُس کے پاس نہیں تھی۔ اُس کی ایک اور بار آواز بھی نہیں سن سکتی۔ آپ بہت برے ہیں۔ میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔ کبھی معاف نہیں کروں گی۔ کبھی نہیں۔"
میری آواز اتنی اونچی تھی کہ باقی ڈاکٹرز بھی وہاں آ گئے۔ مگر دروازہ لاکڈ ہونے کی وجہ سے وہ لوگ اندر نہ آ سکے۔ میں رو رہی تھی اور غصے میں بولتی جا رہی تھی مگر اُس شخص نے مجھے بولنے سے روکا نہیں کیونکہ اگر میں ابھی بھی نہ کہتی تو سب کچھ اندر ہی سہہ کر مزید دکھی ہوتی رہتی۔ کچھ دیر بولنے کے بعد میں پھر اپنے حواس کھو بیٹھی۔

______________________________________

انیا کو بھلانا ممکن نہیں تھا مگر مجھے خود کو موحد کے لیے سنبھالنا تھا۔ اُس دن کے بعد میرا ادیان سے سامنا نہیں ہوا۔ موحد کو وہ اُس وقت چیک کرنے آتا جب میں نماز پڑھنے جاتی تھی۔ چار دن بعد موحد بہت بہتر تھا اور اُسے ڈسچارج کر دیا گیا۔ میں ڈیوز کلیئر کروا کر موحد کو لینے کے لیے روم کی طرف جا رہی تھی کہ کوریڈور میں میرے سامنے ادیان آ گیا.
"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔"
"جی کہیے؟"
"عقیدت پلیز۔ یہاں کھڑے ہو کر تو میں بات نہیں کر سکوں گا۔ پلیز آپ میرے روم میں۔۔۔"
"نہیں ڈاکٹر۔ آپ یہیں کہیے جو کہنا ہے۔ ویسے بھی مجھے اپنے بیٹے کو اب گھر لے کر جانا ہے۔"
"ٹرائے ٹو انڈرسٹینڈ۔"
"آئی ڈو۔ بٹ یو ڈونٹ۔ میں یہاں اپنا تماشا بنوانے نہیں آئی۔ آپ کو جو کہنا ہے یہیں پہ کہہ سکتے ہیں۔"
"آپ مجھے میری ہی نظروں میں مزید کتنا گرائیں گی؟"
"آپ کو بس یہی کہنا تھا؟"
"اگر میں آپ سے وہی پہلے والی درخواست کروں تو آپ کا کیا جواب ہو گا؟"
میرے لیے یہ بہت ان ایکسپکٹڈ تھا۔
'کیا وہ شخص ابھی بھی آگے نہیں بڑھا تھا؟ نہیں مجھے نہیں سوچنا کچھ بھی۔'
"میری آپ سے انیا کی دوست کی حیثیت سے کبھی بھی پہچان نہیں رہی۔ میں آپ کو عقیدت ہونے کے حوالے سے جانتا ہوں اور آپ بھی یہ اچھے سے جانتی ہیں۔ پھر بھی آپ نے میرا سوال حل کیے بغیر چھوڑ دیا۔ وجہ میں جانتے ہوئے بھی سمجھنا نہیں چاہتا۔ یقین کریں دکھ اِس بات کا بھی نہیں ہوا مگر آپ نے مجھے اعتبار کے قابل بھی نہیں سمجھا، اِس بات کا مجھے ضرور دکھ ہوا تھا۔"
"آپ نے غلط راہ چنی ہے ڈاکٹر ادیان۔ میری زندگی میں ایسا آپشن ہے ہی نہیں۔"
"زندگی آپشنز پہ نہیں چلا کرتی، یہ آپ مجھ سے زیادہ اچھے سے جانتی ہیں۔"
"جانتی ہوں اسی لیے آپ سے کہہ رہی ہوں کہ آپ ابھی بھی اپنے لیے بہتر فیصلہ کریں اور لوٹ جائیں۔"
"ایسا ممکن نہیں ہے۔ خیر آپ گھر جائیے۔ رات ہو رہی ہے۔ موحد کو ون ویک کے بعد چیک اپ کے لیے لے آئیے گا۔"
وہ کہہ کر چلا گیا اور میں موحد کے پاس چلی گئی۔ پھر تھوڑی دیر میں ہم گھر چلے گئے۔

"عقیدت" از "حناء بٹ"Where stories live. Discover now