#Aqeedat_by_HinaButt
#7th_Episode"آپ کو نیچے آنا چاہیے تھا۔ اسے اچھا لگتا۔ اب وہ چھوٹی نہیں رہی۔"
"ہاں معلوم ہے مجھے مگر میں کیا کروں؟ اسے دیکھ کر مجھے وہ دن یاد آ جاتا ہے جب وہ مجھ سے چھین لی گئی تھی۔"
کسی کا تصور اس کا لہجہ بھگو گیا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ پاس بیٹھی عورت نے اپنے شوہر کو دیکھا جو ویسا بالکل نہیں رہا تھا جیسا سترہ سال پہلے تھا۔__________________________________________
وہ یونیورسٹی پہنچی تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ اس شخص سے کچھ بھی ایکسپکٹ کر سکتی تھی مگر یہ سب کبھی نہیں۔ ساری گراؤنڈ سٹوڈنٹس سے بھری تھی۔ سٹیج پہ کھڑا ریعان اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ غالیہ کی ہونق شکل دیکھ کر اس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ در آئی۔ سٹیج کے پاس غالیہ کے سنٹر کے سارے بچے بھی موجود تھے اور ان سب کے ہاتھوں میں غبارے تھے۔
"وہ سراپا سامنے ہے استعارے مسترد
چاند، جگنو، پھول، خوشبو اور ستارے مسترد
تذکرہ جن میں نہ ہو ان کے لب و رخسار کا
ضبط وہ ساری کتابیں، وہ شمارے مسترد"
(ظفر اقبال)
ریعان نے مائیک میں اشعار پڑھے اور غالیہ کو سٹیج پر بلایا۔
غالیہ مارے حیرت کے اپنی جگہ سے ہل نہ پائی۔
"غالیہ۔۔۔"
اریج نے اسے پکارا جو ابھی بھی بت بنی کھڑی تھی۔
"جیری ذرا مجھے ایک تھپڑ لگانا۔"
"تھپڑ تو ویسے ہی پڑ گیا ہے تمہیں۔ اب جاؤ وہاں۔"
اریج نے ہنستے ہوئے کہا۔ وہ بے یقینی سے چلتی ہوئی سٹیج تک آئی۔ ریعان نے ہاتھ آگے بڑھا کر اسے اوپر کھینچا۔
"سو آر یو ریڈی مس غالیہ؟"
غالیہ کو سانس لینا محال ہو رہا تھا۔ وہ سب لوگ جن کے سامنے اس نے پچھلے تین سال اس کی درگت بنائی تھی، ان سب کے سامنے وہ اس کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا۔ وہ اسے سٹیج کے درمیان لے کر گیا اور خود گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ وہ ابھی بھی اس کا ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔
"میں ریعان احمد پوری یونی کے سامنے غالیہ شاہمیر سے اپنی تمام کوتاہیوں کی معافی مانگتا ہوں۔"
غالیہ ارد گرد دیکھنے لگی۔ سب ان دونوں کی طرف متوجہ تھے۔ سب سٹوڈنٹس جانتے تھے کہ ریعان نے اپنی یونی لائف میں اور اب ٹیچر بن کر بھی غالیہ کو بہت تنگ کیا تھا۔
"کیا تم غالیہ شاہمیر سے غالیہ ریعان بننا پسند کرو گی؟ میں تمہیں ہمیشہ چاہتا رہوں گا اور تمہیں کبھی ذرا برابر بھی تکلیف نہیں پہنچنے دوں گا۔ یقین کرو تمہارے لیے یہ جھاڑیوں جیسے بال بھی کٹوا لوں گا۔"
اس کا لہجہ شرارت سے بھرپور مگر محبت سے چور تھا۔
غالیہ کا دل چاہا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے۔
"بولو غالیہ کیا تمہیں اس بندر کا ساتھ قبول ہے؟"
'اف یہ بندہ۔'
"غالیہ آپی سے یس۔"
ایک بچے نے کہا تو سب ہی شروع ہو گئے۔ ہر طرف سے یہی آواز آنے لگی۔ غالیہ شرم سے لال ہو چکی تھی۔ اس نے اریج کی طرف دیکھا تو اس کے ساتھ شائق کھڑا نظر آیا۔ اسے وہاں اریج نے ہی بلایا تھا۔ شائق نے سر اثبات میں ہلانے کا اشارہ کیا تو بالآخر وہ بول اٹھی۔
"یس۔"
جیسے ہی اس نے کہا، سب بچوں نے غبارے ہوا میں بلند کر دیے۔ ریعان کھڑا ہو گیا اور ذرا آہستہ آواز میں غالیہ سے کہا
"میں ڈیل جیت گیا۔"
وہ جو شرم سے کچھ بول نہ پا رہی تھی اب اس نے غصے سے ریعان کی طرف دیکھا جو کہ ہنس رہا تھا۔
YOU ARE READING
"عقیدت" از "حناء بٹ"
General Fiction"عقیدت ہی موحد کو موحد بناتی ہے۔ عقیدت کے بغیر موحد کچھ نہیں۔ اِس دنیا میں کوئی بھی عقیدت کے بغیر موحد نہیں بن سکتا۔" - عقیدت از حناء بٹ