#Aqeedat_by_HinaButt
#4th_Episodeعلیشہ کلاس میں جانے لگی تو باہر آتے لڑکے سے ٹکرا گئی۔ اونچے لمبے قد اور کشادہ جسامت والے شخص سے ٹکرانے پر اس کا سر بری طرح سے چکرا گیا اور اس کا فون بھی ہاتھ سے پھسل کر نیچے فرش پہ جا گرا۔
"آئی ایم سوری۔"
موحد نے جھک کر فون اٹھایا اور پارکنگ ایریا والی لڑکی کو دیکھتے ہی آنکھیں پھیل گئیں۔
"اندھے ہو کیا؟ نظر نہیں آتا؟"
اپنے ماتھے کو ہاتھ سے ملتے ہوئے علیشہ نے اسے جھاڑا۔
"پہلے نظر نہیں آرہا تھا اور اب مجھے تاڑ رہے ہو۔ کوئی شرم لحاظ ہے یا نہیں؟"
موحد کو سمجھ نہ آیا کہ وہ سوری بھی کہہ چکا تھا۔ پھر بھی وہ اسے ہی سنا رہی تھی۔ حالانکہ غلطی علیشہ کی تھی۔ کلاس میں داخل ہوتے وقت اس کا دیہان فون کی جانب تھا۔
"غلطی میری نہیں ہے میڈم۔"
"ہاں اب تو یہی کہو گے اور یہ میں کیا پچاس سال کی بوڑھی عورت ہوں جو میڈم کہہ رہے ہو مجھے؟"
"نہیں میں تو۔۔۔"
"کیا میں تو؟ اور اب ہٹ بھی چکو۔ خود تو کلاس لینی نہیں ہو گی۔ مجھے تو جانے دو اندر۔"
"آپ کا فون۔"
موحد نے فون اُس کی طرف بڑھایا۔ علیشہ نے اس کے ہاتھ سے فون چھینا جس سے اس کے لمبے ناخن موحد کے ہاتھوں پہ لکیریں چھوڑ گئے۔ فون لے کر وہ ایک طرف سے ہو کر اندر کو بڑھ گئی۔
'سچ میں جنگلی بلی ہے یہ تو۔'
موحد نے اپنا ہاتھ دیکھا اور مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔__________________________________________
دل درد سے نڈھال ہے، تم کیوں چلے گئے؟
تم سے میرا سوال ہے، تم کیوں چلے گئے؟اب بھی عذاب بن کے گزرتے ہیں رات دن
اب بھی یہی ملال ہے، تم کیوں چلے گئے؟جانا ہی تھا تو پہلے ہی عادت نہ ڈالتے
آخر یہ کیسی چال ہے، تم کیوں چلے گئے؟کانٹوں کے جیسا مجھ کو لگے میرا ہر لباس
کاندھوں پہ غم کی شال ہے، تم کیوں چلے گئے؟جب تھے نہیں مسیحا تو دعویٰ کیا تھا کیوں؟
یہ کیسا اندمال ہے، تم کیوں چلے گئے؟تم تھے تو کیسے راستے کٹتے تھے خود بخود
اب راستوں میں جال ہے، تم کیوں چلے گئے؟سب کچھ ہے میرے پاس، الم، دکھ، اُداسیاں
بس اِک خوشی کا کال ہے، تم کیوں چلے گئے(زین شکیل)
وہ ہمیشہ کی طرح اُس روز بھی رات کو ٹیرس پہ موجود تھا۔ علیشہ اُس کے لیے کافی لائی تھی۔ مگ اُسے پکڑا کر وہ اُس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ رات کے اس پہر وہ کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتا تھا مگر علیشہ اُس کی لاڈلی بھتیجی تھی۔ وہ اُسے منع ہی نہ کر پاتا بلکہ اُسے اس کا اپنے پاس آنا اچھا لگتا تھا۔ اس کی شرارتیں کسی کی یاد تازہ کر دیتی تھیں۔
"چاچو آپ کو چاچی سے بہت محبت تھی نا؟"
"ہاں۔"
" وہ کیسی تھیں؟"
علیشہ روز کیا جانے والا سوال دہرا رہی تھی۔ اسے بنا دیکھے ہی اپنی چچی سے محبت تھی۔
"وہ۔۔۔ وہ مجھے بہت پیاری تھی علیشہ۔"
کسی کا چہرہ آنکھوں کے سامنے لہرایا اور ایک آنسو اس کے گال سے پھسلتا ہوا گود میں رکھے کافی کے مگ میں جا گرا۔
"وہ پہلی اور آخری لڑکی تھی جس کے دل کو فتح کرنے کی میں نے دعا مانگی تھی۔ وہ میری رگوں میں دوڑتے ہوئے خون میں شامل ہے۔ اُس کی باتیں، اُس کی مسکراہٹ، اُس کا غصہ، ناراضگی، اُس کا پیار، ایک ایک چیز ابھی بھی میرے دل اور دماغ میں نقش ہے۔ اگر یہ سب میرے اندر سے نکال دیا جائے تو میرا یہ چلتا پھرتا وجود جمود کا شکار ہو جائے گا اور مر تو میں اُسی دن گیا تھا جب وہ گئی تھی۔ ہاں مگر ایک پچھتاوا ہے جو میری سانسیں اٹکائے رکھتا یے۔ مجھے چھٹکارا ہی نہیں ملتا اس قید سے۔"
وہ آہستہ آہستہ لب ہلا رہا تھا۔ اُس کے آنسو سوکھ چکے تھے مگر علیشہ رو رہی تھی۔
"آپ ہر روز تو ڈھونڈنے جاتے ہیں۔"
"مگر مجھے آج تک کامیابی نہیں ہو سکی۔ اگر میں پہلے ہی آزاد ہو گیا اور اُس نے مجھ سے سوال کیا تو میں کیا کہوں گا علیشہ؟"
اس نے سوالیہ نظروں سے علیشہ کی جانب دیکھا اور ہر روز کی طرح آج بھی جواب نہ دینے والا اٹھ کر چلا گیا اور وہ پیچھے رات کے اندھیرے میں اپنے کھوئے ہوئے روشنی کے دیے کو تلاش کرتا رہا۔
YOU ARE READING
"عقیدت" از "حناء بٹ"
General Fiction"عقیدت ہی موحد کو موحد بناتی ہے۔ عقیدت کے بغیر موحد کچھ نہیں۔ اِس دنیا میں کوئی بھی عقیدت کے بغیر موحد نہیں بن سکتا۔" - عقیدت از حناء بٹ