Episode 8 #Last_Episode

90 6 2
                                    

Last Episode !

#Aqeedat_by_HinaButt
#8th_Episode

دو دن بعد ان کا نکاح تھا۔ نکاح کے بعد وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا۔ ریعان نے شائق سے رخصتی کروانے کا کہا تو وہ مان گیا اور باقی سب کو بھی منا لیا۔ شائق نے غالیہ کو آ کر بتایا
"مگر بھائی۔"
"گڑیا کچھ ماہ بعد بھی تو یہی ہونا تھا۔ اچھا ہے ابھی ہی سہی۔ اب اپنا لاسٹ سمسٹر گھر پہ ہی دل لگا کر پڑھنا۔"
"بھائی۔۔۔"
شائق نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگایا اور اس کے سر پہ پیار دیا۔

__________________________________________

وہ اس وقت اپنی ڈائری لکھ رہی تھی جب موحد کا فون آیا۔
"آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا ماما۔"
"کیا ہوا موحد؟ تم تو ہوسپٹل جانے والے تھے نا؟"
"جی۔ اچھا ہوا کہ میں چلا گیا ورنہ مجھے کبھی پتا ہی نہ چلتا کہ میں اپنے باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیموں کی سی زندگی گزار رہا ہوں۔"
"حیدر نے کچھ کہا ہے؟ پتا نہیں وہ لڑکا پھر سے کیوں آ گیا ہے۔ میں نے کہا بھی تھا تم سے کہ اس سے دور رہو۔ وہ فضول باتیں کرتا ہے تم سے۔ تم۔۔۔"
"نہیں ماما۔ اس بار حیدر نے تو کچھ کہا ہی نہیں۔ ہاں مگر وہ ہمیشہ سے سچا تھا۔ آپ جھوٹی تھیں۔"
"موحد کیا ہوا ہے؟ جانو گھر آؤ۔ ہم بات کرتے ہیں نا۔"
موحد اکثر اس موضوع پہ اس سے بات کرتا تھا۔ کبھی کبھار اسے بہت فرسٹریشن بھی ہوتی مگر پھر وہ نارمل ہو جاتا تھا۔ لیکن آج سے پہلے اس نے عقیدت سے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی۔
"میں نے جب بھی بابا کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے جھوٹ کہا کہ وہ اس دنیا میں نہیں۔ ارے آپ تو میری ماما ہی نہیں۔"
"موحد"
"کہہ دیں پھر سے کہ یہ جھوٹ ہے۔"
"ہاں یہ سچ ہے کہ میں نے تمہیں جنم نہیں دیا مگر۔۔۔"
"مگر کیا؟ میں نے ہمیشہ آپ کو سچا سمجھا مگر آپ۔۔۔"
"موحد یہ سچ ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تمہارے بابا اس دنیا میں نہیں۔"
وہ رو رہی تھی۔ اسے لگا کہ سارے سفر کی تھکان اسے آج ہی محسوس ہو رہی ہے۔
"بس کریں۔ اور کتنی بار غلط بیانی کریں گی؟ میرے بابا زندہ ہیں اور میں انہیں ڈھونڈ لوں گا۔آپ نے مجھے میرے بابا سے دور کر کے اچھا نہیں کیا۔ میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔"
موحد فون بند کر چکا تھا۔ موبائل اس کے ہاتھ سے پھسل کر زمین پہ گر گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔
"موحد۔۔۔"
ٹیبل پہ گرنے سے پہلے یہ وہ آخری لفظ تھا جو اس کے لبوں نے ادا کیا۔

__________________________________________

"چاچو"
"ہاں؟"
علیشہ سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔
"چاچو مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے۔"
"ہاں بولو۔"
علیشہ کے دل میں جو بھی تھا اس نے اسے بتا دیا۔
"تم سچ کہہ رہی وہ علیشہ؟"
وہ بیمار ہونے کے باوجود بستر سے اتر کر اس کے پاس آیا۔
"میں پورے یقین سے تو نہیں کہہ سکتی مگر مجھے یہی لگتا ہے۔"
"مجھے اس سے ملنا ہے ابھی۔"
"ابھی تو شاید اس کے لیے آنا ممکن نہ ہو چاچو۔ کل پیپر کے بعد مل لیجیے گا۔"
"نہیں علیشہ ابھی پلیز۔"
"اچھا میں اسے کال کرتی ہوں۔"
علیشہ کافی دیر اس کا نمبر ٹرائی کرتی رہی مگر وہ آف تھا۔
"چاچو ابھی آپ آرام کریں۔ ہم کل اس بارے میں بات کریں گے۔"
وہ واپس بستر پہ لیٹ گیا مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔

"عقیدت" از "حناء بٹ"Donde viven las historias. Descúbrelo ahora