باب۔ ۴

105 9 15
                                    

وہ جاتی سردیوں کی شام تھی۔ سردی کی شدت میں اب کمی آنے لگی تھی اور موسم اب گلابی ہو چلا تھا حالانکہ صبح اور شام کی خنکی ابھی برقرار تھی ۔ وہ سر جھکائے ہوئے سیدھے چلتی جا رہی تھی اور دماغ میں کل خالہ اور ممانی کی آمد گھوم رہی تھی ۔ ملکہ خالا نے سامعہ کی بات طے کر دی تھی اور مہینے بھر بعد کی تاریخ بھی دے دی تھی لڑکے والوں کو چونکہ جلدی تھی تو اتنا اچھا رشتے کو ہاتھ سے نکال دینا بے وقوفی تھی ۔ اب جتنا اچھا وہ بتا رہی تھی اس کی پول نیلو ممانی یہ کہہ کر کھول گیں ۔ " اچھا لڑکا ہے تھوڑا موٹا ہے بظاہر روزگار بھی اچھا ہے بزنس مین ہے پر بزنس بھی اسکا اپنا نہیں بڑے بھائی کا ہے جو کسی کے ساتھ پارٹنرشپ میں قائم کیا ہوا ہے ۔"
وہ سیدھی لائن میں چلتی بس یہی سوچ رہی تھی سامعہ کی شادی کی خبر سے لوگ اس پر اور آمینہ پر کتنے سوالات کی بوچھاڑ کریں گے ۔ حالانکہ خاندان کے لوگ اس کے بارے میں جانتے تھے اس کے باوجود بھی زہر میں بجھے ہوئے لفظوں کے تیر چلانے سے بعض نہیں آتے تھے ۔ وہ آنے والے وقت کے بارے میں سوچتی ہوئی چلی جا رہی تھی ۔ دنیا بھی کتنی عجیب ہے دوسروں کے چہروں پر غم ڈھونڈتی ہے اور اپنے لئے صرف خشی کی توقع رکھتی ہے ۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ ابھی اسی دنیا سے اسے ایسے لوگ بھی ملنے والے ہیں جو اس کے چہرے پر غم نہیں خوشی ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے ۔ چلتی چلتی وہ اب اس اسٹور کے باہر کھڑی تھی جہاں وہ اکثر اپنے بوجھل پن کو ختم کرنے آتی تھی یہ اسکا واحد پسندیدہ مشغلہ تھا اس کے پاس اتنے کپڑے نہیں تھے جتنے اسکارف تھے ۔ اسکارف اتنے بڑے لیتی تھی کہ اس کا نقاب اور پردہ با آسانی ہو جاتا تھا اور ہر اسکارف کے ساتھ میچ کرتا بیگ لیتی تھی ۔ آج بھی وہ سفید عبایا پر مہرون رنگ کا اسکارف پیشانی سے آگے نکال کر اوڑھے ہوئے تھی نیچے سے اسکارف کے ایک کونے سے اسنے نقاب کیا تھا ۔ اس کی آنکھوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تھا، ہاتھوں میں دستانے اور پیروں میں جرابیں پہن ہوئے تھی ۔ وہ جس وقت اسٹور میں داخل ہوئی تھی اسے نہیں پتہ تھا کہ اس کی زندگی میں آج نیا موڑ آنے والا ہے۔

*****************************************

"جناب ہم اندر آ سکتے ہیں؟" ضیغم دروازے پر دستک دیتے ہوئے بولا۔
وہ جو پچھلے دس منٹ سے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو آن کرے مسلسل دیکھے جا رہا تھا یقیناً دماغی طور پر کہیں اور موجود تھا۔ "ہاں آ جاؤ باہر کیوں کھڑے ہو؟ تمہیں کب سے اجازت طلب کرنے کی ضرورت پڑنے لگی؟" وہ اس کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے بولا۔
"جب سے آپ اپنے ہوش و حواس سے بیگانہ ہوئے ہیں جناب!"
" کیا مطلب؟" وہ نا سمجھتے ہوئے بولا۔
" ہادی آیا ہے نیچے۔ کہہ رہا ہے عازل کو مسلسل کال کر رہا ہوں پر جواب نہیں دے رہا۔ " وہ گہری نظروں سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔
" اوہ! شاید موبائل سائلینٹ پر تھا۔ میں آتا ہوں پانچ منٹ میں فریش ہو کر تم لوگ باہر لان میں انتظار کرو۔" وہ برق رفتاری سے بستر پر سے اٹھتا ہوا بولا۔ وہ جانچتی نظروں سے اسے دیکھتا ہوا باہر نکل گیا۔

Noor E Subha (نورِ صبح)Where stories live. Discover now