نورِ صبح (باب۔۱)

360 16 6
                                    

(پہلا حصّہ)

دسمبر کی سرد برستی رات تھی۔ وہ بنا کسی گرم لباس کے باریک کاٹن کے کرتے میں ملبوس، گھٹنوں پر سر رکھے باہر سیڑھیوں پر بیٹھی تھی۔ سرد برستی بوندوں نے اسے بھی سرد بنا دیا تھا۔ یا شاید سرد تو وہ پہلے ہی ہو چکی تھی لیکن اسکے سرد ہونے کی وجہ کیا تھی یہ اسے بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اسی نقطہ پر اپنے آس پاس سے گم یہاں بیٹھ کر گھنٹوں سے سوچ رہی تھی پر کوئی سرا ہاتھ نہئں آ رہا تھا۔ امی کی ڑانٹ، نانی جان کی کٹیلی نظریئں، مومانی-خالا کی تیخی زبانیں یہاں تک کہ ابا کی خاموشی بھی اس کے اندر کی بیچینی کی وجہ نہ تھی۔ ان سب کی تو وہ بچپن سے عادی تھی۔ خاموش طبیت اور حساس وہ شروع سے تھی، سب کی تیز اور تیخی نظروں اور کڑوی باتوں کو وہ بڑے صبر سے مسکرہ کر برداشت کر جاتی تھی۔ یہ الگ بات تھی کہ ہمیشہ وہ چپ نہیں رہ پاتی تھی اور جب چوٹ زیادہ لگتی تو جواب اسکی زبان سے نہ چاہتے ہوئے بھی پھیسل جاتا۔ لیکن ان باتوں کو وہ کبھی دل پرنہیں لیتی تھی، تھوڑی دیر آبدیدہ رہتی اکیلے میں رو لیتی اور پھر نرم مسکراہٹ لبوں پر سجا لیتی۔ لیکن اب اسکے اندر ایک اضطراب سا رہتا جیسے وہ چاہ کر بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
بات ابھی بھی اتنی بڑی نہیں ہوئی تھی۔ نانی اماں نے بس اتنا کہا تھا "آمینہ! کب تک بیٹھا کر رکھنا ہے اسے؟ عمر نکل گئی تو کوئی پوچھیگا بھی نہیں۔ ابھی رشتے آ رہے ہیں تو نہ شکری مت کر خدا کی رہمت کی، یہ بھی سب کو نصیب نہیں ہوتے اور نہ جانے کتنی لڑکیاں اچھے رشتوں کے انتظار میں بڑھی ہو جاتی ہیں۔ اور ایک تو ہے! آخر کتنا پڑھایگی؟ اپنا فرض پورا کیوں نہیں کرتی؟" نانی اماں آج اچھے بھلے موڈ میں تھیئں۔ صرف ۲۶ سال کی عمر تھی اس کی اور خاندان والوں کو لگتا اس کی عمر نکل گئی ہے۔
دل کا موسم عجیب ہوا تو وہ اپنے گھر آ گئی اور اضطراب زیادہ بڑا تو سرد برستی بارش میں اپنے آس پاس حتہ اپنے آپ سے لاپروہ سیڑھیوں پر بیٹھی بھیگ رہی تھی۔
"فطرہ! کیا ہوا؟ یہاں کیوں بیٹھی ہو؟ " جب وہ گھر آئیں تھیئں تو وہ سونے لیٹ چکی تھی اور اب وہ شفیق صاحب کے لئے پانی لینے اٹھئیں تو اسے اتنے سرد موسم میں بھیگتا دیکھ کر ہیران رہ گیئں۔ وہ چونک کر اٹھی جیسے کسی گہری سوچ سے باہر آئی ہو۔
"کچھ نہیں امی ! سر میں درد تھا تو بارش کا لطف لینے یہاں آ بیٹھی۔" آنکھیں چرا کر لبوں پر تبسم سجا کر تصلی دی۔
"یہ بھی کوئی بات ہوئی؟ سر میں درد تھا تو ٹیبلیٹ لے کر سو جاتی یا مجھے اٹھا لیا ہوتا۔ یہاں ٹھنڈ میں بغیر سویٹر کے یہاں بیٹھی ہو، سر درد ایسے سہی ہوگا؟ عجیب الٹی لڑکی ہو!" امی کا موڈ سردی میں اور گرم ہونے لگا۔
"اوہ ہو امی! جا رہی ہوں نہ، آپ تو بس شروع ہی ہو جاتی ہیئں۔" وہ سیدھا اوپر بھاگی اور ادھر امی دیر تک منہ بگاڑے اسے جاتا دیکھتی رہیئں۔ "دماغ ہی خراب ہو گیا ہے اس لڑکی کا تو۔" وہ بڑبڑا کر رہ گیئں۔

۔۔۔۔

پُورے منظر پر خاموشی طاری تھی۔ نیم اندھیرے میں دور سے کہیں اذان کی صرہ بلند ہونے لگی۔ بارش کا زور ٹوٹنے کے بعد ہر طرف اچھی بھلی خنکی ہو گئی تھی، سرد موسم کو اور سرد بنا دیا تھا۔ پھر ایک ایک کر کے آس پاس کی اور دور دراز کی سب مسجدوں سے صدایئں بلند ہونے لگیئں تو اللہ کا بلاوہ آنے پر لوگ دھیرے دھیرے اپنے نرم بسترچھوڑ کر اللہ کی عبادت کے لۓ جانے لگے۔
شاہانہ بیگم اُٹھیئں تو دیکھ کر اطمینان کی سانس لی کہ انکا لاڈلا پوتہ ہر روز کی طرح وقت پر نماز کے لیۓ اٹھ کر مسجد جانے کی تیاری میں تھا۔ اس کی یہی عادت ان کو سب سے زیادہ پسند تھی کہ وہ کچھ بھی کر رہا ہوتا پر اپنے فرض کو انجام دینا وہ کبھی نہیئں بھولتا تھا۔ رات بھی وہ دیر سے آیا تھا اور شدید فلو کا شکار تھا۔ اسی لیۓ شاہانہ بیگم اسے دیکھنے آیئں تھیں اور یہ دیکھ کر انہیں بےانتہا خوشی ہویئ تھی کہ وہ زمانے کے ساتھ ساتھ اللہ سے کبھی غافل نہیئں ہوتا خواہ صحت تھوڑی بوجھل ہی کیوں نہ ہو پر یہ بوجھل پن وہ اپنے اور اللہ کے درمیان نہیئں آنے دیتا تھا۔

Noor E Subha (نورِ صبح)Où les histoires vivent. Découvrez maintenant