2nd part نورِصبح (باب ۱)

143 8 6
                                    

"شمائلہ، کل مجھے فارم ہر صورت میں چاہیے۔" کاپی پر تیزی سے قلم چلاتی وہ اپنے پہلو میں بیٹھی شمائلہ سے بولی جو پریکٹیکل کاپی میں اپنے ایکسپیریمینٹ کی ریڈنگ نوٹ کر رہی تھی۔ پھر سر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے بولی "اچھا ٹھیک ہے پر مجھسے امیر مت رکھنا کہ اس پاگلپن میں تمہارا ساتھ دونگی۔"
اس کی بات پر فطرہ نے اسے گھور کر دیکھا اور بہت شرارتی لہذا میں بولی "تمسے کہہ بھی کون رہا ہے ویسے بھی تم سے نہیں ہو پائے گا۔"
اس پر شمائلہ منہ بنا کر بولی "جی پتہ ہے ہمیں کہ مس فطرہ جیسی قابل دوشیزہ نہیں ہوں میں جس کو ایم فل میں داخلہ سے پہلے ہی لیکچرر بننے کا اعزاز حاصل ہو جائے۔ لیکن اتنی بیوقوف بھی نہیں ہوں کہ اس اسکالرشپ کے لئے اپلائی کروں جس کو پانے کے لیے اچھے اچھے اسکالرز کے دانتوں تلے پسینہ آ جاتا ہے۔"
اس بار فطرہ سنجیدہ ہوئی اور دھیرے سے بولی "تمہیں معلوم ہے کہ میں یہ اسکالرشپ کیوں حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ امی کے بہت سے مسائل کو میں اس کے ذریعے حل کر سکتی ہوں صرف مالی طور پر ہی نہیں بلکہ معاشرے میں ایک اچھا مقام حاصل کرنے کے لئے بھی بہت ضروری ہے کہ میں نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی ایک مضبوط مستقبل دوں۔ پھر کوئی میری امی سے مجھے لے کر سوال نہیں کریگا۔" آخری جملہ کہتے ہوئے اس کی سنہری آنکھوں میں جگنوں جھلملانے لگے۔" شمائلہ نے اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور بولی "مجھے یقین ہے تم یہ اسکالرشپ لے کر ہی رہوگی ان شاءاللہ۔" اور اسے واقعی فطرہ کی قابلیت پر یقین تھا اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ جو ایک بار ٹھان لی پھر کر کے ہی چھوڑتی پس یقین نہیں تھا تو اس بات پر ک کیا دراصل جو فطرہ سوچ رہی وہ ہوگا؟ کیا لوگوں کے سوالات بند ہو سکتے؟ نہیں، یہ واحد شہر ہے دنیا کی جو انسان کے مرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بات ابھی وہ فطرہ کو واضح طور پر نہیں بتا سکتی تھی جو اب اسکی پریکٹیکل کاپی پر جھکی اسکی ریڈنگ میں ہوئی غلطیوں کو درست کر رہی تھی۔ شمائلہ بھی سر جھٹک کر اسکے ساتھ ہی کاپی پر جھک گئی۔
************************************
"

وَسَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْن(۱۴۴)
اور عنقریب اللہ شکر ادا کرنے والوں کو صلہ عطا فرمائے گا۔"
(سورہ العمران ۱۴۴)
وہ صبح اپنے کمرے سے باہر نکل کر سیدھا لاؤنج میں جدّتی (عربی میں دادی کے لئے استعمال ہوتا) کے پاس آیا تو وہ ابان کو قرآن مجید پڑھانے میں مصروف تھیں اور اسکی نظر قرآن مجید کی اس آیت پر آ رکی۔ وہ یکایک کھڑا ہوا۔ 'عازل بچے کیا ہؤا؟ خیر تو ہے؟' شاہانہ بیگم اسے بیٹھے سے کھڑے ہوتا دیکھ کر بولیں۔
' جی جدّتی سب ٹھیک ہے بس ایک ضروری کام یاد آ گیا۔' یہ کہتے ہوئے وہ الٹے قدموں سے واپس اپنے کمرے میں آ گیا۔ جاۓ‌نماز بیچھا کر شکرانے کے نوافل ادا کرنے کھڑا ہو گیا۔ وہ کیسے بھول گیا۔ رات اسکی اور ضیغم کی واپسی خاصی دیر سے ہوئی تھی اور وہ اس قدر تھکاوٹ کا شکار تھا کہ کپڑے تبدیل کرتے ہی نیند کے آغوش میں چلا گیا تھا صبح کیونکہ اطوار تھا تو وہ دیر تک سوتا رہا تھا۔ فجر بھی نیند میں ادا کرکے سو گیا تھا۔ اور اب اٹھا تو اس کے ذہن سے بلکل نکل گیا تھا ابان کے ذریعے اللہ نے اسے یاد دلایا تھا۔ ایسا ہی تھا وہ، کوئی اچھا کام مکمل ہوتا یا کوئی خوشخبری ملتی تو سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرنے اس کی بارگاہ میں حاضر ہوتا۔ اور اگر اداس ہوتا تو بھی اپنے غم میں اللہ کو شریک کرتا۔ ایک ایک بات جب تک اللہ سے نہیں کر لیتا تھا اسے سکون نہیں ملتا تھا۔ کچھ ایسا ہی تھا وہ سید عازل وجیہہ۔ اور اس کو ایسا بنانے میں پورا ہاتھ تھا اسکی پیاری جدّتی کا، اسکی دادی شاہانہ بیگم کا۔
************************************
'مینے تو حمزہ کے ابا سے دیا کہ اگر لڑکا اچھا ہے تو ہاں کرنے میں دیر نہیں لگایں آخر کو دو اور بیٹیوں کی شادی کرنی ہے۔ اب سامعہ کا فرض پورا ہو تو وانیا اور رابیعہ کے بارے میں سوچیں۔' آج ملکہ خالا آیئں تھیں اور سامعہ کے آنے والے رشتے کے بارے میں مسلسل بولے جا رہی تھیں۔ سامعہ کا تو بہانا تھا درحقیقت وہ بار بار یہ جتانے کی کوشش میں مصروف تھیں کہ فطرہ سے کافی چھوٹی ہونے کے باوجود نہ صرف سامعہ کے لئے رشتے آ رہے بلکہ وہ لوگ سنجیدگی سے اس کی شادی کے بارے میں سوچ بھی رہے تھے۔
' حالانکہ دیکھا جائے ابھی میری بچی کی عمر ہی کیا ہے؟ فطرہ سے بھی پانچ سال چھوٹی ہے۔ ' کباب کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے وہ آمینہ سے بولیں۔
'جی خالہ جانی یہ تو درست فرمایا آپ نے۔ سامعہ کہیں سے بھی میری ہم عمر نہیں لگتی ماشاءاللہ صحت مند اتنی ہے کہ مجھسے کیا فطرہ آپی سے بھی بڑی لگتی ہے۔' صلہ جو خاموشی سے ایک طرف کاؤچ پر اپنی کتابوں میں مصروف تھی، جب برداشت نہیں ہوا تو بول ہی پڑی۔
'ہاں تو ماشاءاللہ کھاتے پیتے گھرانے کی ہے تو لگنی بھی چاہیے‌۔' خالہ کو صلہ کی بات کچھ زیادہ پسند نہیں آئی تھی۔
'جی خالہ جانی تبھی تو ماشاءاللہ کہا میں نے۔ کچھ زیادہ ہی پیاری ہو گئی ہے‌ موٹی کالی بھنس کھا کھاکر۔' آدھا جملہ اس نے منہ میں ہی ادا کیا کیونکہ امّی اسے ہی گھور رہی تھیں۔ سامعہ لمبے قد کی مالک تھی اور وزن بھی اسکا اچھا خاصہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ نہ صرف صلہ بلکہ فطرہ سے بھی عمر میں بڑی لگتی تھی اور رہی سہی کسر اس کے عام سے نین نقش اور سانولی رنگت نے پوری کردی تھی۔ اگر وہ نک سک سی تیار ہو کر میک اپ میں نہ رہتی تو یقیناً اپنی عمر سے دوگنی نظر آتی۔
************************************
وجیہہ کہیں جا رہے ہو؟ شاہانہ بیگم نے سید وجیہہ احمد کو باہر نکلتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
'جی اماں آج مسٹر درانی کے یہاں لنچ ہے بس امبر کو کلب سے پک کرتا ہوا وہیں جاؤنگا۔ کیوں خیریت آپکو کوئی کام ہے؟' وجیہہ صاحب نے بڑے مصروف انداز میں ان سے پوچھا۔
' بس بیٹا آج نوشابہ کی بچی کا نکاح ہے اور یہ کچھ رقم اور زیورات اس کے یہاں بھیجنے تھے باقی سامان تو میں پہلے ہی انوار کے ساتھ بھیج چکی ہوں اگر تم یہ دیتے ہوئے چلے جاؤ تو بہت خوش ہونگے وہ لوگ آخر پیڑھی در پیڑھی ہمارے خاندان کی خدمت انجام دیتا رہا ہے انکا خاندان کچھ فرائض تو ہمارے بھی بنتے ہیں۔' شاہانہ بیگم نے اپنی خاندانی خادمہ کا ذکر کیا جسکی بیٹی کا آج نکاح تھا پر وہ اپنے گھٹنوں کے درد کی وجہ سے نہیں جا سکتی تھیں۔
'بیشک اماں آپ نے ٹھیک فرمایا کسی بھی قسم کی مالی امداد ہمیں انکو فراہم کرنی چاہیے اگر کوئی بھی ضرورت ہو تو بتائیےگا مجھے ابھی تو مجھے دیر ہو رہی ہے امبر بھی میرا انتظار کر رہی ہے۔ یہ دیکھیں پھر کال آ گئیں اسکی۔ یہ سب آپ انوار کے ساتھ ہی بھیج دیں۔ اچھا اماں وقت پر دوا لے لیے گا۔ فی آمان اللہ ۔'
اور شاہانہ بیگم بس ان کو جاتے دیکھتی رہ گئیں۔
************************************
سید احمد شیراز اور شاہانہ بیگم کی تین اولادیں تیں۔ سب سے بڑے سید وجیہہ احمد تھے ان سے چھوٹے سید فصیح احمد اور سیدہ شگفتہ جڑواں تھے۔ وجیہہ صاحب سب سے بڑے اور سب سے فرمابردار تھے پر شاہانہ بیگم کی یہ خوش فہمی اس وقت ٹوٹی جب انہوں نے اپنے سب سے لائق بیٹے کی شادی ان کی پسند کے مطابق ان کی ہم جماعت امبر سے کرا دی جو دیکھنے میں بےہد خوبصورت تھیں پر عادت میں بلکل ایسی تھیں جیسے ایلیٹ کلاس کی بیوی ہوتیں کیٹی پارٹی، سوشل ورک، این جی او کے ارد گرد ہی انکی زندگی گھومتی تھی اور دھیرے دھیرے وجیہہ صاحب کو بھی انہوں نے اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ شاہانہ بیگم یہ سب دیکھتیں اور اندر ہی اندر غمزدہ ہوتیں۔ سید احمد شیراز انہیں سمجھاتے کہ وہ دل برداشتہ نہ ہوا کریں اللہ کی اس میں کوئی مصلحت ہے وہ بیٹے بہو کو اپنی زندگی انکے مطابق گزار نے دیں اور اپنی توجہ فصیح اور شگفتہ کی طرف مائل کریں۔
بڑے بیٹے کی کسک کو دل میں دبائے وہ باقی دونوں بچوں کی جانب مائل ہو گئیں۔ پھر انہوں نے سید فصیح احمد کی شادی اپنی پسند کے مطابق انکی چچا ذاد آرفع سے کری اور شگفتہ کے لیے بھی اپنے بھتیجے کا انتخاب کیا اور گزرتے وقت نے ثابت کر دیا کہ انکا انتخاب غلط نہیں تھا۔ آرفع نماز روزے کی پابند بہت ہی فرمابردار بہو ثابت ہوئیں وہیں جمال راشد بھی انکی بیٹی کو پھولوں پر رکھتے تھے اور ان کی امید کی مطابق خاصے مزہبی بھی تھے۔ شاہانہ بیگم بھی کسی ہد تک سید وجیہہ احمد کے بدلے رویہ کو بھول گیں۔ اور جب امبر اور وجیہہ صاحب کے یہاں معصوم فرشتہ سید عازل وجیہہ اس دنیا میں آیا تو اس کی ہر چھوٹی بڑی ذمہداری کو اپنے سر لے لیا۔ وہ نہیں چاہتیں تھیں کہ عازل ملازموں کے رہم و کرم پر رہے کیونکہ امبر نے عازل کے تین ماہ کا ہوتے ہی اپنی کارکردگی دوبارہ شروع کر دی تھیں۔ عازل جب ایک سال کا تھا تو اللہ نے ضیغم کی صورت میں سید فصیح اور آرفع کے آنگن میں پھول کھلایا۔ جہاں عازل نرم سنجیدہ طبیعت کا مالک تھا وہیں ضیغم شوخ چنچل مزاج رکھتا تھا۔ عازل اور ضیغم جب چار اور تین سال کے تھے تو آرفع ایک بار پھر امیر سے ہوئیں اس بار اللہ نے شگفتہ پر بھی کرم کیا اور ایک ساتھ دو پیارے پیارے پھولوں سے نواز دیا۔ جہاں شگفتہ کے صارم اور سمیرا نے آنکھیں کھولیں وہیں آرفع اور فصیح کے ماہ رخ نے آ کر پورے گھر ممکو مکمل کر دیا۔
اب شاہانہ بیگم نے اپنی ساری توجہ اپنے آنگن کے معصوم فرشتوں پر مرکوز کر دی۔ دنیاوی اخلاقی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں نے دینی تعلیم پر خاص توجہ دی جو غلطی وجیہہ صاحب کی دفعہ ہوئی وہ نہیں چاہتیں تھیں کہ اب دوبارہ وہ غلطی دوبارہ پیش آنے اسی لیۓ وہ عازل پر خاص توجہ دیتی تھیں۔ نرم دل، ہنس مکھ غرض سبھی عادتیں اسنے اپنی دادی اور دادا کی پائیں تھیں شاید اسی لیے وہ اپنی ماں کے برعکس وہ اپنی دادی کے قریب تھا۔
تبھی تو وہ شاہانہ بیگم کی پریشانی فوری طور پر پہچان لیتا اور ابھی بھی اسی وجہ سے وہ نوشابہ کے گھر بیٹھا تھا اس نے اپنی پیاری جدّتی کی پریشانی ہمیشہ کی طرح چٹکیوں میں دور کر دی تھی۔
************************************
' فطرہ یار ادھر آؤ بڑی زبردست چیز دیکھاتی ہوں ' فطرہ فلؤ کی وجہ سے آج یونیورسٹی نہیں گئی تھی تو شمائلہ دو کلاس اٹینڈ کر کے فطرہ کے پاس اس کے گھر میں موجود تھی اسکا دل فطرہ کے بغیر
نہیں لگتا تھا بچپن کا ساتھ تھا دونوں کا اور اس وقت دونوں چھت پر دھوپ میں بیٹھیں مزے سے چلغوزے پر ہاتھ صاف کر رہی تھیں جب اچانک شمائلہ نے اپنے بیگ میں سے موبائل نکالتے ہوئے اس سے کہا۔ فطرہ نے ابرویں اٹھا کر اسے دیکھا مانو پوچھ رہی ہو ' کیا ؟'
' کل بابا جان کے ڈرائیور کی شادی تھی۔ بابا کے ساتھ میں بھی گئی تھی۔'
' تم کیوں ؟' فطرہ حیران ہوئی۔
' وہ دراصل مجھے عرشیہ کی مایوں کے لیے اپنا جوڑا لینے بوتیک جانا تھا تو بابا کے ساتھ گئی اور راستے میں بابا کو پانچ منٹ کے لئے اسکے نکاح میں شرکت کرنی پڑی کیونکہ قاضی صاحب کی طبیعت آخر وقت پر بگڑ گئی تو دیر ہونے کے باعث بابا نے مجھے گاڑی میں انتظار کرنے کے بجائے عورتوں کے مہمان خانے میں بھیج دیا۔ ' وہ پھر سے چلغوزے کھانے میں مصروف ہو گئی۔ فطرہ قدرے بیزاری سے اسے دیکھتے ہوئے بولی ' تو ؟ نکاح ہؤا کہ نہیں ؟'
' یہی تو بتا رہی ہوں یار نکاح جس نے پڑھایا وہ خد ہمارا ہم عمر تھا۔ وہ بھی شاید کچھ امداد لے کر آیا تھا سب کے کہنے پر اسنے نکاح پڑھایا اور میں تو حیران ہی رہ گئی جس روانگی سے اسنے با قاعدہ قرآن کریم کی سورتوں کو پڑا جیسے حافظِ قرآن ہو۔ اس عمر میں اکثر نوجوان کہاں اتنا مزہبی ہوتے ہیں۔ ' شمائلہ بہت جوش میں اسے سب بتا رہی تھی۔
' چلو شکر اسکا نکاح ہؤا ' وہ بس اتنا ہی بولی۔
' ویسے بندا تھا بڑا شاندار اسی لیۓ تو اس کے سب کو منہ کرنے کے باوجود بھی میں نے اندر سے چھپ کر اسکی ویڈیو بنائی ہے وہی دیکھاتی ہوں تمہیں یہ دیکھو ، اسکی بات مکمل ہونے سے قبل ہی فطرہ نے اسکا موبائل اچک کر اسی کے بیگ میں واپس ڈال دیا۔
'یہ کیا ؟' وہ حیران تھی۔
' اول تو یہ کسی کی چھپ کر ویڈیو بنانا بہت ہی غیر اخلاقی حرکت ہے وہ بھی تب جب وہ انسان ہرگز نہیں چاہتا ہو ۔' وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بولی۔
' تو وہ لڑکا تھا ایسا تو چلتا ہے۔' وہ پھر سے اسکی بڑی بڑی سنہری آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔
' لڑکا ہے تو کیا ؟ اگر یہی حرکت کوئی لڑکا ہمارے ساتھ کرے یا کسی اور لڑکی کے ساتھ کرے تو ایسے لڑکے کو ہم کیا کہتے ہیں تم اچھی طرح جانتی ہو۔ یہاں تک کہ ہم اور ہمارا معاشرہ ہمارا قانون بھی اسکو سزا دینے سے گریز نہیں کرتا۔ پھر وہی بات ہم پر لازم کیوں نہیں؟ عزت سب کی ہوتی ہے خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی۔ عزت کا تعلق صرف صنفِ نازک سے جوڑ دینا غلط ہے۔ دوسری بات یہ جو ہم آجکل فیسبک، واٹس ایپ اور دیگر ویب سائٹس پر ویڈیوز دیکھتے ہیں خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی ہوتے تو وہ سب ہی نا محرم ہیں۔ کیا ہمارا دین کسی نا محرم کو دیکھنے کی اجازت دیتا ہے؟ ' فطرہ بڑی سنجیدگی سے اس سے مخاطب تھی۔
' اب تم زیادتی کر رہی ہو اب ہر کوئی کسی کو غلط نظر سے نہیں دیکھتا۔ یہ تو محض ایک مشغلہ ہے تفریح کا ۔' شمائلہ اب ذرا سیدھی ہو کر بیٹھی۔
' میں زیادہ گہرائی میں نہیں جاؤں گی لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ اگر اللہ نے نہ محرم اور محرم کا احکام دیا ہے تو اس کی ضرور وجہ ہے اور مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ذات ہماری بہتری کے لیے ہی ہمیں کسی بات سے روکتی ہے۔' وہ خاموش ہو گیی۔
' ہاں تو مجھے بھی اس میں کوئی شک نہیں اور تمہاری بات سے اتفاق رکھتی ہوں۔' یہ کہ کر شمائلہ نے بیگ سے موبائل نکالا اور ویڈیو ڈیلیٹ کر دیا۔ اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیں۔
' آؤ نیچے چلیں کھانے کی تیاری کرتے ہیں۔' فطرہ اسکا ہاتھ پکڑ کر نیچے باورچی خانے میں لے جانے لگی۔

۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔

Noor E Subha (نورِ صبح)Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon