باب 1

514 27 34
                                    

" میں تیار ہوں " کھلی راہداری سے آتی ہوئی ہوا اسکے لمبے سیدھے بالوں کو جھلارہی تھی۔
" آرہی ہوں نا بس دو منٹ " اپنے کمرے کے سامنے بنی نفیس سی راہداری میں کھڑی وہ اپنی امی سے مخاطب تھی جو اسکو یونیورسٹی سے دیر ہونے پر ہلکے لہجے میں ڈانٹتے ہوئے نیچے ناشتے کے لیے بلارہی تھیں ۔
___________*____________*___________

دراز قد،کھڑی ہوئی ناک، ہلکی براؤن آنکھیں، ماڈرن ہیرکٹ،کالی شلوار قمیض کی موڑی ہوئ آستینیں، گوری کلائ پر بھاری گھڑی کی چمک بتارہی تھی کہ وہ کتنی قیمتی ہوگی۔ وہ تیار ہوچکا تھا کہیں جانے کے لئے ۔
"یہ اتنا ہینڈسم لڑکا اس چھوٹے سے گھر میں کیوں ہے ؟ عباس علی تجھے کسی عالیشان ہویلی میں کسی حور کے ساتھ ہونا چاہئے"۔اس نے آئینے میں دیکھتے ہوئے خود کلامی کر کے قہقہہ لگایا۔پھر امپورٹد پرفیوم کی شیشی اٹھا کر اپنے اوپر چھڑکنے لگا اور اس پورے مرحلے میں آئینے میں اپنے بننے والے عکس کو دیکھتے ہوئے مسکراتا رہا ۔
___________*___________*____________

"اسلام و علیکم تایا جان ، تائ جان ، امی جی اور عباس ...... بھائی ! " اس نے نیچے آتے ہی ایک سانس میں سب کو سلام کر کے سانس لیا ۔ عباس کو بھائی وہ صرف بڑوں کی موجودگی میں کہا کرتی تھی ۔سب نے مسکرا کر اسکو جواب دیا ۔ عباس علی نے بھی اسکو مسکرا کر دیکھا تو نورزہرا جو اپنے معصوم سے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرے ہوئے ناشتے کی میز کے ساتھ لگی کرسی پر بیٹھ رہی تھی عباس کی مسکراہٹ سے شرما کر اسکی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئ ۔

"اج اتنی دیر کردی تم نے نورو اب ٹھیک سے ناشتہ کرو کل بھی تم بغیر ناشتہ کیے چلی گئ تھیں اگر اب ایسا کیا تو میں تمہیں یونیورسٹی نہیں جانے دونگی سمجھ گئیں؟" پروین زہرا ناشتہ کی میز پر بھیٹے اپنی اکلوتی بیٹی کو ہلکے پھلکے انداز میں ڈانٹتے ہوئے وارننگ دے رہی تھیں ۔ سب نورزہرا کو پیار سے نورو کہ کر پکارتے تھے۔

"امی آپ بس ایسے ہی پریشان ہورہی ہیں میں نے ناشتہ نہیں کیا تھا لیکن تائی جان مجھے روز جتنے پیسے دیتی ہیں اس میں آرام سے میں لنچ کر لیتی ہوں اور پھر بھی کچھ روپے بچ جاتے ہیں۔" نورزہرا امی کو یقین دلانے کی کوشش کرہی تھی۔ اور تائی جان مسکرا دیں ۔

"ویسے امی میں جانتی ہوں کے آپ میرا جانا بند نہیں کرینگیں لیکن میں سمجھ گئی!" نورو نے پروین زہرا سے شرارتی انداز میں کہا ۔

"ارے عباس بھائی آپ ابھی جاتے ہوئے مجھے یونیورسٹی چھوڑدینگے؟"وہ ناشتہ کر چکی تھی ۔
تائی جان جو میز پر سے برتن سمیٹ رہی تھیں ایک دم سے رک گئیں اور کہا
"نورو جلدی تیار ہوکر رابعہ کے ساتھ چلی جایا کرو نہ عباس کو بہت لمبا راستہ طے کرنا پڑتا ہے صرف تمہیں چھوڑنے کے لئے۔"

"جی اچھا تائی جان" نورزہرا نے کہا مگر وہ اداس سی ہوگئی تھی ۔

"ہاں ضرور چھڑدونگا بس جلدی سے گاڑی میں اجاو" عباس کلائی میں بندھی گھڑی کو یکھتے ہوئے باہر چلاگیا ۔ نورزہرا روز جان بوجھ کر دیر کرتی تاکہ وہ عباس علی کے ساتھ جاسکے ۔ یونیورسٹی کافی دور تھی تو وہ اور عباس بہت مزے کرتے ہوئے جاتے کے نورو کو سفر چھوٹا لگتا ۔
___________*____________*___________
عباس گاڑی میں بیٹھا ہوا اسکا انتظار کر رہا تھا کہ وہ آگے کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔بیٹھتے ہی اسے عباس کے پرفیوم کی خوشبو آئی جس کو وہ ہزاروں خوشبوؤں میں پہچان سکتی تھی۔
عباس نے پورچ سے گاڑی نکالی اور ڈرائیونگ کرتے ہوئے روڈ پر آگیا ۔
نورزہرا سادہ رہنا پسند کرتی لیکن جب کبھی بھی اسکو عباس کے ساتھ جانا ہوتا تو وہ ہلکا پھلکا میک اپ کرلیتی۔ نورزہرا جانتی تھی کہ اج جمعہ ہے تو عباس کالے رنگ کے کپڑے پہنے گا تو اسنے بھی آج کالے رنگ کا جوڑا پہنا۔سر پر وہ ہمیشہ الگ اسٹائل میں دوپٹہ باندھتی تھی۔ سانولی رنگت اور عام سے چہرے پر معصومیت ہی تھی بس۔

محبت کیجئے پر ذرا خیال کیجئے Where stories live. Discover now