باب 2

244 18 12
                                    

ہلکی براؤن آنکھیں، عام سا ہیرکٹ،سانولی رنگت اور عام سا چہرہ۔ سفید شرٹ جسکی آدھی آستینوں کو موڑ کر کہنی تک کیا ہوا تھا۔کالی پینٹ جسکی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ گھاس پر بیٹھی لڑکی (جو  کسی ڈائیری پر کچھ لکھنے میں مگن تھی)کو بہت چاہت سے دیکھ رہا تھا۔لڑکی کے چہرے پر اداسی سی چھائی ہوئی تھی۔سانولا رنگ، ہلکی براؤن آنکھیں، عام سے نقوش اور چہرے کے گرد لپٹے ہوے دوپٹے میں وہ اس لڑکے کو بہت معصوم اور پیاری لگ رہی تھی۔وہ اسکو دیکھتے ہوئے یہ بھول گیا تھا کہ وہ یونیورسٹی کی کینٹین میں کھڑا ہوا ہے۔
اسے دور سے کوئی پکارہا تھا.
"ماشاءاللہ" اس نے بے ساختہ کہا ۔

پیچھے سے کسی نے اس کے کندھے کو تھپتھپایا ۔وہ آہستہ سے پیچھے موڑا جیسے ابھی تک گہری سوچوں میں ہو۔ آواز دینے والا اسکا دوست عبداللہ تھا
ن
"ابے اوئے؟ سالے تجھے تقریباً دو منٹ سے پکارہا تھا میں اور تو کھڑا کھڑا سورہا ہے" عبداللہ نے چائے کا کپ پکڑاتے ہوئے اس سے کہا

" کیا.....کیوں پکارہا تھا؟" اس نے غیر حاضر دماغی سے پوچھا
"پوچھنا تھا کہ تجھ نواب زادے کو چائے کے ساتھ  کچھ اور کھانا تو نہیں! " عبداللہ نے کہا

"نہ........نہیں کچھ نہیں چاہیئے۔" وہ کسی اور ہی سوچ میں تھا

"اتنی جلدی جواب دینے کا شکریہ!" عبداللہ نے تنزیہ کہا
"اب جلدی چل کلاس میں، ورنہ سراجمل پہلے پہنچ گئے تو لیکچر دینگیں۔" عبداللہ نے کہتے ہوئے چائے کا سپ لیا
دوسرے لڑکے نے بغیر جواب دیئے ساتھ چلنا شروع کردیا
وہ چائے پیتے ہوئے اپنے ڈپارٹمنٹ تک پہنچے تو عبداللہ کو یاد آیا کہ اس نے تو سراجمل کا دیا ہوا اسائنمنٹ کیا ہی نہیں۔

"ابے یار میں نے تو اسائنمنٹ کیا ہی نہیں۔ تونے کیا ہے ؟" اس نے مڑ کے پوچھا

"کیا؟" وہ جو خیالوں کی دنیا میں تھا چونک گیا

عبداللہ کو شدید غصہ آیا

"یار میں کب سے تجھ سے باتیں کرہا ہوں اور تو کسی اور ہی دنیا میں ہے۔ کیا ہوگیا ہے ؟" عبداللہ نے تنگ آکر کہا
دوسری طرف سے جواب پھر نہ آیا
عبداللہ نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھ  اس کو جھنجھوڑ کر کہا

"وحاج ......!!! کچھ ہوا ہے کیا؟" عبداللہ نے فکرمندی سے پوچھا

"نہیں ہوا کچھ۔۔۔ بس ہم کلاس نہیں لے رہے آج کی۔" وحاج خود اصل وجہ نہیں جانتا تھا

"تو بس کلاس کی وجہ سے اتنا اپسیٹ نہیں ہوسکتا وجہ کچھ اور ہے۔" عبداللہ اپنے دوست کو اچھے سے جانتا تھا

"میں اپسیٹ تو بالکل نہیں ہوں۔ بس گھر چلتے ہیں۔" وحاج تھکن محسوس کرہا تھا

"چل ٹھیک ہے چلتے ہیں۔" عبداللہ کو گھر جانا ہی ٹھیک لگا اور وہ پارک ہوئی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے

گاڑی کا پورا راستہ خاموشی میں گزرا لیکن وحاج  اپنی پسند کے گانے سنتا رہا اور گنگناتا رہا۔ عبداللہ کو تھوڑا فریش لگا لیکن اس نے وحاج کے یونیورسٹی والے رویے کے بارے میں کوئی بات کرنا مناسب نہ سمجھا

عبداللہ نے عالیشان بنگلے کے سامنے گاڑی روکی اور وحاج کی جانب دیکھ  کر گاڑی انلوک (unlock) کی

"بات سن ... آج آفس ائگا؟" عبداللہ وحاج سے مخاطب تھا
"ہاں اجائونگا۔" وحاج کچھ سوچ کر بولا اور گاڑی سے اتر گیا
وحاج کے اترتے ہی عبداللہ نے ہورن دیا تاکہ چوکیدار جلد دروازہ کھول دیں
اور دروازہ فوراً کھول دیا گیا۔ عبداللہ نے گاڑی راکٹ کی تیزی سے آگے بڑھائی۔
وحاج چوکیدار کے سلام کا جواب دیتے ہی پورچ کو عبور کرتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا 
وارڈروب (wardrobe) سے کپڑے نکالے اور شاور لینے چلاگیا۔تقریباً 15 منٹ بعد آیا تولیا اپنی جگہ پر لٹکاتے ہوئے دیکھا کہ سائیڈ ٹیبل پر ملازمہ کھانا رکھ کر جا چکی ہے۔کھانے کو نظرانداز کرتے ہوئے کمرے کی لائیٹس بند کیں اور بیڈ پر گر گیا یعنی سوگیا۔

'جاری ہے '
___________*_____________*__________
If you like it then vote for it .
And let me know in comments section below.
Share your thoughts.

~fan girl Muntaha Warsi 🌸

محبت کیجئے پر ذرا خیال کیجئے Where stories live. Discover now