قسط نمبر 2

3.2K 184 26
                                    


"کیسی گزر رہی ہیں تمہاری چھٹیاں مشال " سروج نے پوچھا 
"بہت ہی بور... تم کب واپس آؤ گی .صائم نے ساری چھٹیاں سوتے گزار دی اور مانی نے اپنے بابا کے ساتھ آفس جا کر  میں تمہیں بہت مِس کر رہی ہوں سروج " 
"یہ غلط بات ہے مِشی تم نے مجھے مِس نہیں کیا .میں بلکل فری ہوں "شان کی مسکراہٹ بھری آواز فون میں سے آئی 
"شان ..!!سروج تم کہاں ہو یہ شان تمہارے ساتھ کیسے ؟" مشال حیران ہوتے ہوئے بولی 
" میں کل رات کو واپس آگئ تھی اور شان کہ ساتھ ابھی تمہارے گھر کے باہر کھڑی ہوں دروازہ کھولو " 
"کیا ..!!!!" مشال فوراً اٹھ کر دروازے کی طرف بھاگی اور دروازہ کھول کر سروج کے گلے لگ گئی ."
 "I miss you so much sarooj " 
"میں بھی یہاں ہوں " شان  منہ بنا کر بولا
 " ہاں ہاں نظر آرہا ہے کیسے ہو تم شان " 
"کیسا ہوں گا آپ کے بغیر " شان نے دکھ سے کہا 
"  ذیادہ فری مت ہو ...اچھا تم دونوں اندر آؤ۔۔۔۔۔ بیٹھو میں صائم اور مانی کو بھی بولا لیتی ہوں " 
"مِشی ہم نے بتا دیا ہے آرہے ہیں وہ. تم ادھر آکر بیٹھ جاؤ " سروج مشال کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے آئی 
تھوڑی دیر بعد ہی صائم اور مانی بھی آگئے اب وہ سب لاؤنج میں بیٹھ کر باتوں میں مصروف تھے
" پھر نیو سمیسٹر سٹارٹ ,پھر سے پڑھائی سٹارٹ ...."صائم دکھ سے بولا "بس بھی کردو اتنی چھٹیاں سو سو کر دل نہیں بھرا تمہارا "
"یار میں تو بہت ایکسائیٹیڈ ہوں کل کے لیے " مشال اپنے بال ٹھیک کرتے ہوئے بولی 
"کیوں مِشی "شان اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا 
"کیوں کے کل نیو سٹوڈنٹ نے آنا ہے اس لیے .......مانی بیا کو بھی ساتھ لے آتے "
" اس کے آنے کی خوشی کل منا لینا اور بیا نوٹس بنا رہی تھی اس لیے نہیں آئی ....اور بس بھی کرو .تم سب کی تیاریاں ہی نہیں ختم ہورہی میں گاڑی سٹارٹ کررہا ہوں جلدی نیچے آؤ" یہ کہہ کر مانی نیچے چلا گیا باقی سب بھی اس کے پیچھے گاڑی میں بیٹھ گئے اور پھر مانی نے گاڑی  ریسٹورنٹ کی طرف موڑ لی
---------------------------------------
" یہ دیکھو مانو میں تمہارے لیے کیا لے کر آئی ہوں " 
"کیا لائی ہو " ماہنور اپنا بیگ سائڈ پر کرتے ہوئے بولی 
"تمہاری دکھ سکھ کی ساتھی ..تمہاری فیورٹ آئس کریم" 
"تھینک یو نِمی "
"اچھا بس بھی کرو  یہ روتی ہوئی شکل درست کرو تمہیں تو  خوش ہونا چاہیے کہ میں نے اپنے خوبصورت ہاتھوں سےتمہیں آئس کریم دی ہے ورنہ جانتی نہیں ہو کتنی مشکلوں سے کنٹرول کیا ہے میں نے " نِمی کی بات پر ماہنور ہنس پڑی .
" ہاں پتا ہے مجھے کتنی بھوکی ہو تم........آئی مِس یو سو مچ نمی جلدی سے آجانا"وہ اس کے گلے لگ گئی 
" آئی مِس یو ٹو مانو میں جلدی آجاؤں گی اگر پیپر کا مسلہ نہ ہوتا تو میں ابھی تمہارے ساتھ چلتی .کوئی بھی مسئلہ ہو تو بابا کو بتا دینا اور وہ کہہ رہے تھے وہ خود تمہیں  ائیرپورٹ سے ریسیو کریں گے " 
"اس کی کیا ضرورت تھی میں خود ٹیکسی پر چلی جاتی اڈریس مجھے پتا ہے " 
" ایک لگاؤں گی .میڈم کے   نخرے ہی نہیں ختم ہوتے  .اچھا اب جاؤ فلائٹ کا ٹائم ہورہا ہے"
"خداحافظ نمی .اپنا بہت خیال رکھنا " ماہنور زور سے اس کے گلے لگ گئی اور سامان اٹھا کر چلی گئی 
"خدا حافظ  میری جان " نرمین ٹوٹی ہوئی آواز میں بولی وہ جو اتنے دنوں سے مضبوط بنی ہوئی تھی جس نے یہ سوچ لیا تھا وہ نہیں روئے گی آج اس کی ہمت ٹوٹ گئ تھی وہ کبھی ماہنور کو اپنے آپ سے دور نہ کرتی لیکن وہ اسے روز روز ٹوٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی یہاں رہ کر وہ کبھی اپنے ماضی سے نہیں نکل سکتی تھی اس لیے نرمین نے زبردستی اس کو بھیجا تھا .
نمی نے ماہنور کی سلامتی سے پہنچنے کی دعا کی اور اپنے آنسو صاف کرکے  ہاسٹل کی طرف چل پڑی . 
------------------------------------------
ائیرپورٹ سے نکلتے ہی ضمیر صاحب اسے نظر آگئے 
"بیٹا آنے میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی " ضمیر صاحب نے   ماہنور سے پوچھا .
"نہیں انکل کوئی پریشانی نہیں ہوئی سارا سفر اچھا گزرا "
"یہ تو اچھی بات ہے .چلو اب ڈنر کرنے چلتے ہیں " 
"نہیں انکل میں نے پلین میں کھا لیا ہے .مجھے بھوک نہیں ہے " 
"اچھا چلو پھر آپ کو آپ کے فلیٹ پر چھوڑ دیتا ہوں  تھک گئی ہو گی  جا کر ریسٹ کرلو صبح یونیورسٹی بھی جانا ہے " وہ یہ کہتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئے اور ماہنور بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئ آدھے گھنٹے بعد وہ لوگ گھر  میں موجود تھے .
" اچھا بیٹا اب میں چلتا ہوں سارا گھر آپ نے دیکھ لیا . سکینہ صاحبہ آپ کے ساتھ ہی رہیں گی اور ڈرائیور آپ کو صبح یونیورسٹی چھوڑنے کے لیے آجائے گا باقی کوئی بھی ٹینشن ہو آپ مجھے بتا دینا .اوکے " ضمیر صاحب ماہنور کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے جانے کے لیے مڑنے لگے جب وہ فوراً بولی 
" تھینک یو سو مچ انکل آپ نے میرے لیے بہت کچھ کیا ہے .تھینک یو " ماہنور روتے ہوئے ان کے گلے لگ گئی .
"کیسی باتیں کر رہی ہو .نرمین اور آپ میرے لیے برابر ہو .میری دو بیٹیاں ہیں تو پھر تو یہ میرا فرض ہے.  اچھا چلو چپ کرو روتے نہیں جا کر فریش ہو جاؤ آپ تو اتنی اچھی بچی ہو .اب میں بھی چلتا ہوں .خدا حافظ .ٹیک کیئر " 
"خدا حافظ انکل " 
"میم آپ کا سامان روم میں سیٹ کر دیا ہے آپ جا کر فریش ہو جائیں " 
"آپ مجھے میم مت کہیں  میرا نام ماہنور ہے تو آپ مجھے نام سے ہی بلائیں. اوکے. اب آپ بھی جاکر ریسٹ کرلیں صبح ملتے ہیں .گڈنائیٹ "ماہنور ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے پیار سے بولی .
"گڈنائیٹ بیٹا "
ماہنور نے کمرے میں آکر کپڑے بدلے پھر وضو کر کے عشاء کی نماز پڑھی اس کے بعد سونے کےلیے لیٹ گئی تھکن کی وجہ سے نیند اس پر جلدی ہی  مہربان ہوگئی تھی .     -----------------------------------
صبح بہت ہی حسین تھی ٹھنڈی ہوائیں چاروں سو پھیلی ہوئی تھی
"اسلام وعلیکم! آنٹی کیا حال ہے آپ کا " ماہنور ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے بولی .
"وعلیکم اسلام !میں ٹھیک ہوں .ہوگئ تیار آپ . رات کو نیند آرام سے آگئی تھی "
"جی آرام سے آگئ تھی .اور آپ اتنی محنت نا کیا کریں اتنا کچھ بنا دیا آپ نے ناشتے میں "
"کوئی بات نہیں بیٹا رات کو تو کھانا کھایا نہیں اب ناشتہ پیٹ بھر کر کرو پڑھائی آسان کام نہیں ہے اور آپ تو ہو بھی نازک سی جان کچھ کھایا پیا کرو ." 
" فکر نا کریں دیکھنا میں کتنی فرمائشیں  کروں گی آپ سے اوکے .ناشتہ اتنا کافی ہے ڈرائیور انکل ویٹ کر رہے ہیں میں  چلتی ہوں ویسے بھی آج پہلا دن ہے دعا کیجئے گا خداحافظ"ماہنور جوس پی کر جانے کے لیے اٹھ گئی .
"بلکل جو کہو گی وہ بنا دوں گی میری بیٹی  ہو اللہ آپ کو کامیاب کریں .اور ہاں اپنا خیال رکھنا " انہوں نے مانو کو گلے لگایا اور پیار سے کچھ پڑھ کر اس پر پھونک ماری تو وہ مسکرادی
(سکینہ صاحبہ ضمیر صاحب کے گھر کی ملازمہ تھی لیکن کسی نے بھی کبھی انہیں ملازمہ نہیں ماناں تھا سب انہیں فیملی کا ہی ایک فرد مانتے تھے انکی کوئی اولاد نہیں تھی اور شوہر کی وفات ہوگئ ہوئی تھی)
----------------------------------------
لندن کا موسم کافی ٹھنڈا تھا ایسے میں یونیورسٹی کے نیو سمیسٹر کی شروعات تھی...... 
 "مِشی اب تک آئی کیوں نہیں اتنا لیٹ تو وہ کبھی نہیں ہوئی .سروج اس نے تمہیں کچھ بتایا تھا " شان بار بار داخلی دروازے کی طرف دیکھ کر بول رہا تھا 
"اس نے میسج کر دیا ہے آرہی ہے کچھ دیر تک " سروج شان کے باربار پوچھنے پر جھنجھلا گئ تھی 
"یار شان حد ہوگئی ہے بارہ بجے ہوئے ہیں شکل میں..... آجائے گی وہ" 
" شٹ اپ صائم فکر ہورہی ہے مجھے  ہم سب سے پہلے موجود ہوتی ہے وہ  اور آج سب آگئے ہیں مگر وہ نہیں آئی "
" سروج کو بتا دیا ہے اس نے بس آرہی ہے ٹینشن نا لو " مانی شان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا
"ہمم" شان موبائل نکال کر سائڈ پر ہوگیا 
----------------------------------------------
"میں  فری ہوکر آپ کو کال کردوں گی  " ماہنور گاڑی سے نکلتے ہوئے بولی .
"اللہ تعالی مجھے ہمت دینا پہلی دفعہ میں اکیلی کہیں آئی ہوں نِمی بھی نہیں ہے میرے  ساتھ " ماہنور آہستہ آہستہ چلتی  ہوئی یونیورسٹی میں داخل  ہوئی.
وہ  اپنی جھیل سی آنکھوں سے پوری یونیورسٹی کا جائزہ لے رہی تھی اور اسی دوران وہ کسی سے ٹکرا گئی اور سامنے والے کی ساری کتابیں گیرا دی .
 ماہنور گھبراتے ہوئے بولی 

زیست کا سفر   از قلم  رافعہ عزیزWhere stories live. Discover now