تقلید اور تلفیق (2)

45 0 0
                                    

تقلید اور تلفیق:  چند اصولی گزارشات (2)
-------------
دوسرا سوال:
-----
اقبال کے ایک مصرعہ پر ہم نے پچھلی قسط ختم کی تھی ۔ اب ان کے ایک شعر سے دوسری قسط کا آغاز کرتے ہیں:
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے!
یہ شعر پڑھ کر تقلید کے خلاف کف اڑانے والے واعظین یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ خود یہ شعر کہنے والا مذہبی و قانونی امور کے علاوہ دنیوی معاملات میں بھی ، یہاں تک کہ شعر و ادب میں سخت مقلد تھا۔ خیر، اس وقت خدانخواستہ "اقبال شکنی" کا کوئی ارادہ نہیں بلکہ صرف اس طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ تقلید پر تنقید کرنے والے بیسویں صدی کے مصنفین جب تقلید کے خلاف اصول فقہ کی کتب سے عبارات نقل کرتے ہیں تو وہ اس حقیقت پر غور کرنے کی زحمت کیوں گوارا نہیں کرتے کہ اصول فقہ کی مذکور ہ کتب کے مصنفین خود بھی مقلد ہی تھے! تو پھر تقلید پر ایسی تنقید کے بعد خود تقلید ہی کرنے کا مطلب کیا ہوا؟
اب قبل اس کے کہ کوئی نوخیز محقق ان کبار فقہاء کو تضاد کا شکار قرار دے ، بہتر ہوگا کہ ان عظیم الشان اور فقید المثال لوگوں کا موقف خود انھی کی زبان میں واضح کیا جائے ۔
امام ابو زید الدبوسی (م 430 ھ) نے اپنی معرکہ آرا کتاب "تقویم الادلۃ" میں علم اصول فقہ کا جو تفصیلی ڈھانچا مرتب کرکے دیا بعد میں آنے والوں نے اصول فقہ پر جتنا بھی کام کیا ہے، اسی ڈھانچے کے اندر رہ کر کیا ہے اور اس لحاظ سے "علم اصول فقہ کا پرنسپل آرکیٹیکچر "کا خطاب انھی کےلیے مناسب ہے (جوزف شاخٹ نے یہ خطاب امام شافعی کو دیا ہے جو بوجوہ صحیح نہیں ہے)۔ اس کتاب میں انھوں نے دیگر مباحث کے علاوہ تقلید کی بحث بھی اٹھائی ہے اور بالکل پہلا جملہ یہ لکھا ہے:
قال جمھور اھل العلم بلاخلاف : ان القول بالتقلید باطل۔
اس کے بعد انھوں نے تفصیل سے ان لوگوں کے دلائل ذکر کیے ہیں جو تقلید کے جواز یا وجوب کے قائل ہیں اور پھر ایک ایک کرکے ان میں سے ہر ہر دلیل کا جواب دیا ہے۔ لوگ عام طور پر پوری بحث پڑھتے نہیں ہیں۔ اس لیے یہاں تک وہ اش اش کر اٹھتے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ بات پوری ہوگئی۔
تاہم امام دبوسی اس کے بعد فرماتے ہیں کہ تقلید چار طرح کی ہے :
ایک ، امت کی جانب سے صاحبِ وحی کی تصدیق ؛
دو، عالم کی جانب سے اپنے سے بڑے عالم کے موقف کی تصدیق ؛
تین، عام لوگوں کی جانب سے  اپنے زمانے کے علماء کی تصدیق ؛ اور
چار، بچوں کی جانب سے والدین یا اصاغر کی جانب سے اکابر کی تصدیق ۔
پھر وہ یہ تصریح کرتے ہیں کہ ان میں پہلی تین قسمیں بغیر استدلال کے ، یعنی بغیر سوچے سمجھے ، نہیں ہیں ، اور اس لیے وہ صحیح ہیں جبکہ چوتھی قسم اس وجہ سے باطل ہے کہ یہ استدلال پر مبنی نہیں ہے۔
والوجوہ الثلاثۃ صحیحۃ لانہ یقع عن ضرب استدلال ۔۔۔ والباطل ھو الوجہ الرابع لانھم اتبعوہ بھوی نفوسھم بلا نظر عقلی واستدلال و عملوا عمل البھائم۔
(جاری)

تقلید اور تلفیق (چند  اصولی گزارشات)Wo Geschichten leben. Entdecke jetzt