تقلید اور تلفیق (3)

25 0 0
                                    

تقلید اور تلفیق:  چند اصولی گزارشات (3)
-------------
امام غزالی بھی !
-----
جی ہاں۔ جو بات امام دبوسی نے کی، وہی بات آپ کو امام غزالی (م 505ھ) کے ہاں بھی اسی ترتیب سے ملتی ہے ؛  یعنی پہلے تقلید پر شدید تنقید ، پھر اس کے جواز یا وجوب کے قائلین کے دلائل کا محاکمہ اور اس کے بعد عامی کےلیے عالم کے فتوی پر عمل کے وجوب کا موقف ! (ویسے  بھی امام غزالی اور ان کےجلیل القدر استاذ امام الحرمین الجوینی پر امام دبوسی کا بہت گہرا اثر تھا جو ان کی تالیفات میں قدم قدم پر نظر آتا ہے۔) تو جب امام غزالی اس مقام پر آجاتے ہیں تو خود ہی سوال اٹھادیتے ہیں کہ ابھی تو آپ نے تقلید پر اتنی شدید تنقید کی ہے اور اب آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں یہی تو عین تقلید ہے؟ پھر دیکھیے، غزالی اس کا جواب کیا دیتے ہیں؟
فإن قيل : فقد أبطلتم التقليد ، وهذا عين التقليد ؛ قلنا : التقليد قبول قول بلا حجة ، وهؤلاء وجب عليهم ما أفتى به المفتي بدليل الإجماع ؛ كما وجب على الحاكم قبول قول الشهود، ووجب علينا قبول خبر الواحد ؛ وذلك عند ظن الصدق ، ووجوب الحكم عند الظن معلوم بدليل سمعي قاطع ، فهذا الحكم قاطع،  والتقليد جهل ۔
آسان الفاظ میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ تقلید بغیر حجت کے کسی کا قول قبول کرنے کا نام ہے جو جہالت ہے جبکہ عامی کا مفتی کے قول پر عمل کرنا بغیر حجت کے نہیں بلکہ کئی دلائل سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہ اس پر واجب ہے ۔ (تقلید کے اس مفہوم کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کیجیے۔ آگے یہ چیز کام آئے گی۔ )
دلچسپ بات یہ ہے کہ تقلید کے شدید ترین ناقدین میں علامہ شوکانی (1250ھ) کا بھی نام لیا جاتا ہے لیکن جو بات دبوسی اور غزالی نے کہی ہے، شوکانی نے اس سے سر مو انحراف نہیں کیا ۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
ھو العمل بقول الغیر من غیر حجۃ ۔
اس کے بعد تصریح کرتے ہیں کہ کیا کچھ تقلید کی اس تعریف سے خارج ہے؟
فیخرج العمل بقول رسول اللہ ﷺ ، و العمل بالاجماع، و رجوع العامی الی المفتی ، و رجوع القاضی الی شھادۃ العدول ، فانھا قد قامت الحجۃ فی ذلک۔
تو صاحب، یہ تو ہوا اس عامی کی تقلید کا مسئلہ جس پر لازم ہے کہ وہ مفتی کے فتوی پر عمل کرے ۔ یہ مذموم تقلید نہیں ، بلکہ واجب تقلید ہے ۔
اس عامی کو یہیں رہنے دیجیے کیونکہ سردست ہم اس بحث میں نہیں جانا چاہتے کہ کیا اس عامی پر کسی خاص مفتی/مجتہد کے تمام فتاوی /اجتہادات کی پابندی لازم ہے یا نہیں؟ یہ بحث ، جسے تقلید شخصی کی بحث کہا جاتا ہے، خلطِ مبحث کا ایک بڑا سبب ہے ۔ آگے اس کے ایک خاص پہلو پر ہم گفتگو کریں گے۔ فی الوقت اسے نظرانداز کیجیےکیونکہ اب ہم اس عالم کی پوزیشن پر بات کرنا چاہیں گے جو اپنے سے بڑے عالم کی تقلید کرتا ہے۔
(جاری)

تقلید اور تلفیق (چند  اصولی گزارشات)Wo Geschichten leben. Entdecke jetzt