تقلید اور تلفیق (7)

4 0 0
                                    

تقلید اور تلفیق:  چند اصولی گزارشات (7)
-------------
چھٹا سوال: کسی اور مذہب پر فتوی کیسے دیا جاسکتا ہے؟
-------------
ہمارے مفتیانِ کرام یہ سوال عام طور پر یوں کرتے ہیں:
"کن حالات میں کسی اور کے مذہب پر فتوی دیا جاسکتا ہے؟"
ہمارے لیے سوال کا یہ زاویہ زیادہ اہم ہے کہ کسی اور کے مذہب پر فتوی دیا کیسے جاسکتا ہے؟ یعنی اس کا عقلی و اخلاقی جواز کیا ہے؟ اس عقلی و اخلاقی جواز سے قبل پھر یہ تقسیم یاد کیجیے کہ یہ سوال جس مفتی کے سامنے ہے وہ خود مجتہد ہے یا عامی؟
اگر وہ مجتہد ہے تو وہ دوسرے کے مذہب پر فتوی کیسے دے سکتا ہے؟ اس پر تو اجتہاد لازم ہے اور پھر اجتہاد کے مطابق فتوی دینا لازم ہے؛ اور اگر وہ عامی ہے تو اس پر تو مجتہد کی اتباع لازم ہے؛ وہ تو مجتہدین کی آرا کے درمیان ترجیح کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔
ہاں، یہ ہوسکتا ہے کہ وہ خود مجتہد ہو ، اپنے اجتہاد پر ہی فتوی دے اور یہ فتوی کسی اور مجتہد کے قول کے ساتھ موافق ہوجائے تو ایک سطح بین قاری یہ سمجھ بیٹھے کہ اس نے دوسرے مجتہد کے مذہب پر فتوی دیا ہے ۔ عام طور پر جو مثالیں دی جاتی ہیں، کہ امام ابویوسف نے فلاں موقع پر امام مالک کے قول پر فتوی دیا  یا فلاں معاملے میں امام اوزاعی کے مذہب پر فتوی دیا وغیرہ، وہ اسی نوعیت کی ہیں۔ اس امر کی وضاحت کےلیے ایک اہم فقہی مسئلے پر غور کریں جہاں بات مفتی کے بجاے قاضی کی ہورہی ہے ۔
مفتی کی طرح قاضی کے متعلق بھی مفروضہ یہ ہے کہ وہ مجتہد ہوتا ہے اور اس وجہ سے اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ فیصلہ اپنے اجتہاد کے مطابق کرے۔ یہ جو فقہی قاعدہ ہے کہ قضاء القاضی یرفع الخلاف ، جسے امام سرخسی نے زیادہ منضبط الفاظ میں یوں ذکر کیا ہے: قضاء القاضی فی المجتھدات نافذ؛ وہ اصلاً اسی بنیاد پر قائم ہے کہ قاضی خود مجتہد ہے ؛ اس لیے اس پر کسی دوسرے مجتہد کی اتباع لازم نہیں ہے بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے اجتہاد پر فیصلہ کرے اور پھر قانونی طور پر مجاز ہونے کی وجہ سے اپنے زیر ولایت علاقے میں سب پر اس کا فیصلہ نافذ ہوجاتا ہے، خواہ اس علاقے کے بعض لوگ اس کے مسلک سے تعلق رکھتے ہوں اور بعض لوگ کسی اور مسلک سے ہوں ۔ (واضح رہے کہ قاضی عبادات کے متعلق فیصلہ نہیں دیتا بلکہ معاملات میں ہی دیتا ہے ۔ یہ بات اہم ہے اور موجودہ بحث میں اس کی اہمیت ہم آگے واضح کریں گے، ان شاء اللہ۔)
تاہم اگر قاضی خود مجتہد نہ ہو تو وہ کیا کرےگا ؟ اس سوال کا جواب وہی ہے جو مفتی کے بارے میں دیا گیا کہ وہ مجتہد نہ ہو تو اس پر لازم ہے کہ مجتہد کے فتوی پر عمل کرے۔ بہ الفاظِ دیگر، اس پر اپنے مذہب کی اتباع لازم ہے ۔ امام کاسانی (م 587 ھ ) فرماتے ہیں:
فاما اذا لم یکن من اھل الاجتھاد ، فان عرف اقاویل اصحابنا و حفظھا علی الاختلاف و الاتفاق، عمل بقول من یعتقد قولہ حقاً علی التقلید ۔ و ان لم یحفظ اقاویلھم ، عمل بفتوی اھل الفقہ فی بلدہ من اصحابنا۔
اس سے آگے وہ مسئلہ آجاتا ہے جو ہمارے دور کے مفتیوں کے لیے "فتوی بمذھب الغیر" کے معاملے میں براہ راست اہمیت رکھتا ہے۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایسے قاضی نے ، جو خود مجتہد نہیں ہے، اپنے مذہب کے بجاے کسی اور کے مذہب پر فیصلہ دیا تو اس فیصلے کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟ امام کاسانی نے یہاں دو امکانات ذکر کیے ہیں۔
پہلی صورت یہ ہے کہ اس "بے چارے قاضی "کو (سعدی صاحب جانتے ہیں کہ ہم نے یہاں قاضی کو بے چارہ کیوں کہا ہے ؟) معلوم ہو کہ وہ اپنے مذہب کے بجاے کسی اور کے مذہب پر فیصلہ دے رہا ہے ۔ اس صورت میں اس کا فیصلہ نافذ نہیں ہوگا کیونکہ اس کے اپنے اعتقاد کے مطابق وہ دوسرا مذہب حق نہیں تھا تو گویا اس نے جانتے بوجھتے غلط فیصلہ دیا ۔ امام کاسانی اصول واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ایسا ہے جیسے قاضی مجتہد ہو لیکن اپنے اجتہاد پر فیصلے کے بجاے اس مجتہد کے اجتہاد پر فیصلہ دے جو اس کے اجتہاد کے مطابق غلط ہو :
و لو قضی بمذھب خصمہ ، و ھو یعلم ذلک، لا ینفذ قضاؤہ لانہ قضی بما ھو باطل عندہ فی اعتقادہ ، فلا ینفذ ؛ کما لو کان مجتھداً فترک رای نفسہ و قضی برای مجتھد یری رایہ باطلاً ، فانہ لا ینفذ قضاؤہ لانہ قضی بما ھو باطل فی اجتھادہ ؛ کذا ھذا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ وہ فیصلہ کرنے میں چُوک جائے اور اپنے مذہب کے بجاے کسی اور کے مذہب پر فیصلہ دے۔ اس صورت میں امام ابوحنیفہ کا موقف یہ ہے کہ اس کا فیصلہ نافذ ہوگا جبکہ صاحبین کا موقف یہ ہے کہ نافذ نہیں ہوگا۔ صاحبین کی دلیل یہ ہے کہ قاضی نے اپنا فریضہ ادا کرنے میں کوتاہی کی ہے جبکہ امام ابوحنیفہ قاضی کو مقدمات کی کثرت کی وجہ سے معذور ("بے چارہ"؟) گردانتے ہیں ۔ البتہ اس پر اتفاق ہے کہ وہ اپنا یہ فیصلہ باطل (annul) کرسکتا ہے کیونکہ جب اسے معلوم ہوا کہ اس کا فیصلہ اس کے اعتقاد کے مطابق غلط تھا تو وہ اسے کالعدم کرسکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ اس صورت میں جب اس نے انجانے میں دوسرے مذہب پر فیصلہ دیا ہو۔ اگر اس نے یہ جانتے بوجھتے کیا ہو تو اس کا فیصلہ بالاتفاق نافذ نہیں ہوگا، جیسا کہ اوپر پہلی صورت میں واضح کیا گیا ، کیونکہ وہ مقلد ہے۔
البتہ اگر یہ قاضی خود مجتہد ہو اور اس نے دوسرے مذہب پر فیصلہ دیا (جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ فلاں مسئلے میں فلاں امام نے فلاں امام کے مذہب پر فیصلہ دیا) ، تو اس صورت میں یہ نہیں مانا جاسکتا کہ اس نے انجانے میں ایسا کیا بلکہ یہ فرض کیا جائے گا کہ وہ خود اپنے اجتہاد سے اسی نتیجے پر پہنچا جس پر دوسرا مجتہد پہنچا تھا ۔ اس لیے کسی کو یہ نظر آتا ہو کہ اس نے کسی دوسرے مجتہد کے مذہب پر فیصلہ دیا تو یہ غلط ہے  ۔ وہ خود اپنے اجتہاد پر فیصلہ دے رہا ہے اور دو مجتہدین کا کسی فیصلے پر اتفاق کوئی حیران کن امر نہیں ہے۔ اس لیے ایسا فیصلہ بالاتفاق نافذ ہوگا۔ امام کاسانی فرماتے ہیں:
فاما اذا کان من اھل الاجتھاد، ینبغی ان یصح قضاؤہ فی الحکم بالاجماع ، و لا یکون لقاض آخر ان یبطلہ لانہ لا یصدق علی النسیان ، بل یحمل علی انہ اجتھد فادی اجتھادہ الی مذھب خصمہ ، فقضی بہ، فیکون قضاؤہ باجتھادہ ، فیصح۔
ہمارے دور کے مفتیانِ کرام نوٹ کرلیں کہ یہ اس قاضی کے بارے میں جو خود مجتہد ہے اور اپنے اجتہاد سے اس نتیجے پر پہنچے جس پر کوئی اور مجتہد پہنچا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ حکم مقلد قاضی کے متعلق نہیں ہوسکتا تو پھر یہ حکم مقلد مفتی کےلیے کیسے ہوسکتا ہے؟
(جاری)

تقلید اور تلفیق (چند  اصولی گزارشات)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora