تقلید اور تلفیق (8)

12 0 0
                                    

تقلید اور تلفیق:  چند اصولی گزارشات (8)
-------------
ساتواں سوال: اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے!
-------------
جی ہاں۔ یہ وہ سوال ہے جو اصل میں ہمارے مفتیانِ کرام کو تنگ کیے ہوئے ہے۔ اسی لیے وہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم اپنے مذہب پر فتوی دیں تو بے چارے مستفتی کا مسئلہ حل نہیں ہوتا؛ ایسے میں "عند الضرورۃ" دوسرے مذہب پر فتوی دینے میں کیا حرج ہے؟
حرج تو تفصیل سے واضح کردیا ۔ "دوسرے" مذہب پر فتوی اصولاً غلط ہے ؛ مجتہد کےلیے بھی اور عامی کےلیے بھی۔ مجتہد کےلیے اس لیے کہ وہ کیسے اپنے اجتہاد کو چھوڑ کر وہ راے اختیار کرسکتا ہے جو اس کے اجتہاد کی رو سے غلط ہے؟ اور عامی کےلیے اس لیے کہ وہ تو مجتہد ہے ہی نہیں کہ مجتہدین کی آرا میں ترجیح کرسکے اور اسی لیے تو اس پر مذہب کی اتباع لازم ہے۔
لوگ مطمئن نہیں ہوتے۔ پھر پوچھتے ہیں: نہیں، اگر اسے دوسرے کا مذہب راجح معلوم ہو تو؟
بھائی، پہلے اپنا مفروضہ تو درست کرلیں۔ اسے دوسرے کا مذہب راجح کیسے معلوم ہوسکتا ہے جبکہ وہ راجح اور مرجوح کا فیصلہ ہی نہیں کرسکتا؟ اگر کرسکتا ہے تو وہ عامی ہی نہیں ہوا ، تو پھر یہ سوال ہی اس کے متعلق نہیں رہا۔
دوسرے، اگر اسے کسی طرح اپنے مذہب کے بجاے کسی اور کا مذہب راجح معلوم ہو ہی گیا تو اس کےلیے یہ راستہ کھلا ہے کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ کر وہ دوسرا مذہب اختیار کرلے۔ اس سے تو اسے کسی نے نہیں روکا۔ یہ "حل" ہمارے مفتیانِ کرام اور ان کے مستفتیانِ عظام اس لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ باقی امور میں اپنا مذہب چھوڑنا نہیں چاہتے لیکن صرف  جہاں پھنس گئے ہوں وہاں دوسرے مذہب کی راے پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ (ہماری معاشرت میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کا مسئلہ ایک عامۃ الورود مثال ہے۔) اس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ اس شخص کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اسے کل تک جس عالم پر اعتماد تھا ، اب اس سے زیادہ قابلِ اعتماد عالم اسے کوئی اور معلوم ہوا ہے؛ بلکہ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذاتی خواہش پوری کرنے کی غرض سے اس عالم کی بات چھوڑ کر دوسرے عالم کی بات لے رہا ہے۔ اسی کو تکنیکی الفاظ میں اتباع ہوی ، تشہی اور تتبع الرخص کہا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود ہمارے مفتیانِ کرام کو بھی احساس ہے کہ اگر اس بات کی کھلی چھٹی دے دی گئی تو لٹ ہی مچ جائے گی۔ چنانچہ وہ اس اجازت کو کئی طریقوں سے مقید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک قید تو "ضرورت" کی لگائی جاتی ہے کہ جب تک دوسرے مذہب پر فتوی دیے بغیر چارہ نہ ہو (پھر "بے چارے مفتی" کی ترکیب یاد کیجیے) ، تب تک ایسا نہ کیا جائے۔ اس پر ایک تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ضرورت کا معیار کیا ہے اور اس کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟
مثال کے طور پر حنفی مذہب کے مقلد ایک شخص نے وضو کیا لیکن اس کی انگلی تھوڑی زخمی ہوئی جس سے خون نکلا تو حنفی مذہب کی رو سے بھی اس کا وضو ٹوٹ گیا۔ چنانچہ اس مسئلے میں اس نے شافعی مذہب کی راے لے لی۔ اس کے بعد اس نےاپنی بیوی کو چھوا تو شافعی مذہب کی رو سے اس کا وضو ٹوٹ گیا لیکن حنفی مذہب کی رو سے اس کا وضو برقرار ہے۔ پھر اب یہ بے چارہ سخت سردی میں کیا کرے جبکہ گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے گیزر میں گرم پانی بھی نہ آرہا ہو ؟ چنانچہ اس نے اس مسئلے میں واپس حنفی مذہب کی راے لے لی۔ اب حقیقت یہ ہے کہ اس کا وضو حنفی اور شافعی دونوں مذاہب کی رو سے ٹوٹ گیا ہے لیکن اس بے چارے مستفتی کو کون سمجھائے جو سردی سے کانپ رہا ہے؟
ایسے مقام پر پہلے تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ "ضرورت" کی حالت نہیں ہے ۔ کیا اس لیے کہ یہ ایک انفرادی شخص کا ایک معمولی سا مسئلہ ہے؟ ( کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ کیا ضرورت صرف بڑے بینکاروں کو درپیش مسائل ہی کو کہا جاتا ہے؟)پھر آپ کےلیے یہ انفرادی معمولی سا مسئلہ ہو لیکن اس شخص (مبتلی بہ )سے بھی تو پوچھیے کہ وہ اسے کیا سمجھ رہا ہے؟
دوسرے یہ کہا جاتا ہے کہ مختلف مذاہب میں آنیاں جانیاں تو جائز ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ایسا نتیجہ مرتب نہ ہو جو سب کے نزدیک ناجائز ہو کیونکہ اجماع کی مخالفت ناجائز ہے۔ اس کی ایک مثال یہ دی جاتی ہے کہ اگر لڑکے لڑکی نے نکاح کرتے وقت ولی کی اجازت ضروری نہیں سمجھی کہ امام ابوحنیفہ کی راے میں اس کے بغیر بھی نکاح ہوجاتا ہے اور پھر عقدِ نکاح کے وقت دو گواہوں کی موجودگی اس لیے ضروری نہیں سمجھی کہ امام مالک کے نزدیک اس کے بغیر بھی نکاح ہوجاتا ہے تو درحقیقت یہ نکاح سب کے نزدیک ناجائز ہے کیونکہ ایسا نکاح جس میں ولی کی اجازت بھی نہ ہو اور گواہ بھی نہ ہوں، سب کے نزدیک ناجائز ہے۔
اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب "عند الضرورت" ایک مسئلے میں آپ نے ایک کی راے چھوڑ دوسرے کی اختیار کرلی ، تو "عند الضرورت" دوسرے مسئلے میں دوسرے کی راے کیوں نہیں چھوڑ سکتے؟ اس قباحت کی بنا پر بعض نے یہ قید لگائی کہ جب کسی مسئلے میں آپ نے ایک مذہب چھوڑ کر دوسرے مذہب کی راے لے لی ہے تو پھر اس پورے مسئلے میں اس دوسرے مذہب پر عمل کرنا ہوگا۔ (مولانا تھانوی نے یہ موقف اختیار کیا ہے۔) سوال یہ ہے کہ اس قید کا جواز کیا ہے؟ یہ قید کس اصول پر رکھی جاتی ہے؟
(جاری)

تقلید اور تلفیق (چند  اصولی گزارشات)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora