تقلید اور تلفیق (9)

23 0 0
                                    

تقلید اور تلفیق:  چند اصولی گزارشات (9)
-------------
ضرورت یا فلڈ گیٹ ؟
-------------
تجزیہ کیجیے تو اصول یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب مجبوری کی بنا پر آپ ایک مذہب چھوڑ رہے ہیں تو اس مجبوری کو بقدر مجبوری ہی برداشت کرنے کےلیے یہ قید رکھی گئی ہے تاکہ ایک موضوع پر دوسرے مذہب کا پورا پیکیج لیں اور مسئلہ تو حل ہو لیکن دین کا مذاق بھی نہ بنے۔ اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ جب آپ نے ایک دفعہ بندش ڈھیلی کردی تو پھر پوری گرہ کھولنے سے کیسے روک سکتے ہیں؟ ذرا اس مثال پر غور کریں کہ ایک شخص نے کسی خاتون سے اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا لیکن پھر بعد میں اس نے مختلف مجلسوں میں تین طلاقیں دیں اور اب وہ کسی مالکی، شافعی یا حنبلی فقیہ سے فتوی لینا چاہتا ہے کہ وہ کسی طرح ان تین طلاقوں کو لغو قرار دے کیونکہ نکاح ہی سرے سے منعقد نہیں ہوا تھا ، تو یہاں تو مسئلہ ایک موضوع کا نہیں رہا (جیسے پچھلی مثالوں میں صرف وضو یا صرف نکاح کا مسئلہ تھا) بلکہ دو موضوعات ہوئے: نکاح اور طلاق۔ پھر اگر آپ کہیں کہ نہیں طلاق اور نکاح کا باہم ایسا تعلق ہے کہ ان کو ایک ہی موضوع ماننا چاہیے تو بھائی پھر اثبات النسب ، نفقہ، حقوقِ زوجیت ، وراثت ، حرمتِ مصاہرت اور دیگر متعلقہ مسائل بھی اسی طرح باہم منسلک ہیں۔ انھیں کیسے ایک دوسرے سے  الگ کیا جاسکے گا؟ شریعت تو ساری ایک ہی پیکیج ہے! (اس بیکیج والے موقف کے متعلق ایک بات نوٹ کرلیں جو آگے کام آئے گا کہ تلفیق کی کھلی چھٹی دینے والوں کے برعکس اس موقف کے قائلین نے کم از کم اصولوں کے درمیان ہم آہنگی کے بارے میں سوچا تو ہے۔ سعدی صاحب، "ہم آہنگی" کا لفظ نوٹ کرلیں۔)
ان سب مسائل کا تعلق مسئلے کے اس پہلو سے تھا کہ مستفتی/ مبتلی بہ بے چارہ کیا کرے؟ گفتگو کے اس حصے کے اختتام پر ایک اور نکتہ ملاحظہ کیجیے۔ جن اہلِ علم نے اس طرح فتوی بمذھب الغیر اور پھر اس سے آگے بڑھ کر تلفیق کی اجازت دی ہے، ان میں ایک بڑا نام علامہ ابن نجیم (م 970ھ) کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی ابن نجیم دوسری طرف اس کے قائل ہیں کہ تقلید امام کی ہوتی ہے ، نہ کہ مذہب کی۔ (اسے اصطلاحاً تقلیدِ شخصی کہا جاتا ہے۔) اس سے آگے بڑھ کر وہ یہ قرار دیتے ہیں کہ جو شخص حنفی مذہب چھوڑ کر شافعی مذہب اختیار کرے تو اسے کچھ نہیں کہا جائے گا لیکن اگر وہ واپس حنفی مذہب اختیار کرے گا تو اسے تعزیری سزا دی جائے گی کیونکہ اس نے کمتر مذہب کو اختیار کیا (لاختیارہ المذھب الادون)! کوئی پوچھے کہ جب الگ الگ مسائل میں مذہب چھوڑنے کی اجازت دیتے ہیں تو پورے مذہب کا چھوڑ دینا کیوں قابلِ تعزیر ہوا؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ مذہب کا ایک ایک مسئلہ الگ الگ چھوڑ دینے اور پورا مذہب چھوڑ دینے میں اصولی لحاظ سے فرق کیا ہے؟
ان سوالات کو جوں کا توں چھوڑ کر ہم اس مسئلے کے اس پہلو کی طرف آجاتے ہیں کہ مفتی کیسے دوسرے مذہب پر فتوی دے سکتا ہے؟ پہلا سوال تو اہلیت کے متعلق ہے ۔ کیا یہ مفتی جو خود اپنے مذہب کا مقلد ہے، دوسرے مذہب کے اصولوں پر عبور رکھتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر وہ دوسرے مذہب کے اصولوں پر فتوی کیسے دے سکتا ہے؟ کیا اس کےلیے وہ دوسرے مذہب کی کتب سے فتوی نقل کرے گا، یا دوسرے مذہب کے علما سے فتوی لے گا اور خود مستفتی ہوجائے گا؟
پہلی صورت کے ناقابلِ اعتماد ہونے پر دلیل کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر قانونی کتاب میں مذکور عبارت چاہے بظاہر مطلق ہو اس پر ایسی قیود ہوتی ہیں جو صرف متعلقہ فن کا ماہر ہی جان سکتا ہے۔
دوسری صورت میں سوال یہ ہے کہ کیا یہ مفتی اپنے مستفتی کے وکیل کی حیثیت سے پوچھے گا یا اپنے لیے پوچھے گا؟پہلی صورت غیرمتعلق ہےکیونکہ اس کا اس مفتی کے فتوی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ دوسری صورت میں چونکہ یہ مفتی اس دوسرے مذہب کے مفتی سے فتوی لے کر اسے اپنے فتوی کا حصہ بنائے گا ، یا اپنے فتوی کے لیے اسے بنیاد بنائے گا، تو اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خود یہ مفتی اپنے لیے اس فتوی پر عمل جائز سمجھتا ہے؟ اگر ہاں، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ  اس مفتی نے خود اپنے اصول تبدیل کرلیے ہیں(یعنی مذہب تبدیل کرلیا ہے)؛ اور اگر نہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس راے کو وہ خود باطل (یا کم از کم ضعیف یا مرجوح ) سمجھتا ہے اسی پر دوسرے کو عمل کےلیے کہتا ہے۔
اگر اس آخری بات کے جواب میں وہ یہ کہے کہ وہ دوسرے مذہب کی راے کو بھی صحیح سمجھتا ہے ، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے نزدیک حق ایک نہیں بلکہ متعدد ہیں اور یوں اس نے خود اپنے مذہب کے ایک بنیادی اصول  کی تغلیط کی !

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Jul 18, 2018 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

تقلید اور تلفیق (چند  اصولی گزارشات)Where stories live. Discover now