وہ اکیلی بیٹھی خود سے ہی باتیں کئے جا رہی تھی وہ خود سے ہی کہے جا رہی تھی کہ سنا تھا عید آئے تو خوشیاں آتی ہیں مگر آج عید تو آئی تھی مگر مجھے تو کہی خوشیاں نظر نہیں آئے میرے حصے تو آج بھی وہی دکھ وہی آنسو ہی آءے ہیں کیا میرے حصے میں ایک پل کی بھی خوشیاں نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟
کیا میں اس قابل بھی نہیں کہ مجھے بھی ایک پل کی ہی سہی ایک ہی سہی مگر خوشی میسر تو آئے آخر میرے ایسے کون سے گناہ ہیں جن کی معافی اب تک نہیں ملی۔۔۔۔
وہ کون سی خطا ہے۔۔؟ جس نے میری ساری زندگی کو مجھ پر تنگ کر دیا ہے ۔۔۔
وہ یہی سوچ سوچ کر آج بھی روۓ جا رہی تھی آج جہاں کچھ لوگ خوشیاں سمیٹنے میں مصروف ہیں تو کچھ بانٹنے میں وہاں وہ آج بھی اپنے دکھوں پر روۓ جا رہی تھی ۔۔۔۔😖😭😭