#سُنبل_کا_آفاق
پہلی قسطاک لڑکی کلی جیسی...
چاندی کے ورق جیسی ، سونے کی ڈلی جیسی....
اک لڑکی چنبیلی سی...
معشوق وہ رنگوں کی ، خوشبو کی سہیلی سی...
اک لڑکی گلابوں سی...
و ہ برف کے موسم میں ، ہنزہ کی شرابوں سی...
وہ نام نزاکت کا....
الھڑ سی جوانی پر ، جوبن تھا قیامت کا....
موسم کی ادا جیسی....
وہ سندھ کے ساحل پر چیتر کی ہوا جیسی....
سورج کی کرن جیسی....
ریشم سے ملائم وہ ، مخمل کے بدن جیسی...
وہ دوست کتابوں کی....
تھی دن کے اجالے میں ، وہ رات ثوابوں کی...
کیا جانیے ہستی میں...
اب چاندنی رہتی ہے ، کس چاند کی بستی میں
٭٭٭
"اُٹھ جا کمبخت نکمی لڑکی رات رات بھر موبائیل میں سر دیئے پڑی رہے گی اور پھر صبح لمبی ہوکر لیٹی رہے گی..ٹوٹ کیوں نہیں جاتا تیرا موبائیل...ارے کالج تیرا باوا جائے گا.."
سلمی بیگم نے اُس کے سر پر کھڑے ہوکر چیختے ہوئے کہا...
امّاں آج ہمت نہیں ہورہی میں آج نہیں جارہی"
سُنبل نے منہ پر تکیہ رکھ کر دوسری طرف کروٹ لے لی....
"یہ تیرے روز روز کے بہانے نہیں سنوں گی میں سیدھی شرافت سے اُٹھ جا ورنہ پانی پھینک دوں گی منہ پر..."
سلمی بیگم نے دھمکی دیتے ہوئے کہا..."اُفو امّاں کبھی تو کہہ دیا کریں کہ ہاں بیٹا چلو سوجاؤ..."
سنبل نے جھنجلا کر اُٹھتے ہوئے کہا..." ۶ دن میں سے ۴ دن تو یہی بہانے بناتی ہے ایسا کر دو دن بھی جاکر کالج والوں پر احسان نہیں کر وُہ بھی خوش تیرے باپ کی تنخواہ بھی بچ جائے گی کُچھ..."
شرم دلانے کی ناکام کوشش کی گئی..."آپ تو میری جان کی دُشمن بنی ہوئی ہیں امی توبہ.."
بالوں کو جوڑے کی شکل دیتی وُہ اُٹھ کھڑی ہوئی..."اے کدھر چلی.."
سلمی بیگم نے پیچھے سے ٹوکا..."نہانے جا رہی ہوں اور کہاں جاؤں گی..."
"پانی نہیں آرہا نلوں میں جا صحن میں لگے نل کے نیچے لگا دے بالٹی وہاں پتلی دھار آرہی ہے پانی کی..."
وُہ چادر ٹھیک کرتی ہوئی بولیں..."گھر نہیں عذاب ہے یہ..."
وُہ بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھی اور باتھرُوم سے بالٹی لےکر نل کے نیچے لگا دی پانی کی دھار بہت ہی ہلکی آرہی تھی....
"کیا مصیبت ہے..."
اُسے کوفت ہونے لگی..."امی میرا موبائل کہاں ہے.."
سُنبل نے اندر آکر پوچھا...
"رکھا ہوگا یہیں کہیں ڈرپ پر لگا کر .."
وُہ موبائل کے ذِکر پر سخت بھناتے ہوئے بولیں....