#سُنبل_کا_آفاق
آخری قسط (حصہ اول)رات کو جب وہ چھت پر کھڑی تھی تو آفاق کا میسج آیا...
"رمضان المبارک کا چاند مبارک ہو..."
جس کے جواب میں اس نے بھی خیر مبارک کا جواب لکھ کر سینڈ کردیا...آفاق کا پھر کوئی میسج نہیں آیا وُہ انتظار کرتی رہ گئی..
موبائل بجا تو اس نے لاک کھول کر دیکھا تو پھر سے ایک انجان نمبر تھا مگر اِس بار میسج نہیں تھا انتہائی فحاش تصاویراور ویڈیوز تھیں۔۔۔۔۔۔ اور پھر نیچے ایک میسج بھی آگیا تھا جو اُن چیزوں سے بھی زیادہ واہیات تھا....
سُنبل کو وُہ سب دیکھ کر شدید غصّہ آیا وُہ اب تک اِس بات کو نظرانداز کر رہی تھی مگر اب بات حد سے بڑھ گئی تھی....."آپی نیچے آجائیں امی آپ کے خون کی پیاسی ہوئی ہوئیں ہیں..."
حرا نے آکر ایک خطرناک اطلاع دی..."ہائے کیوں اب میں نے کیا کیا.."
غصّہ فوراً دھواں ہوا...."وُہ ایک کہاوت ہے نا خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے تو اِسی طرح امی کے ہلکے رنگ کے کپڑوں نے رنگ پکڑ لیا ہے جنہیں آپ نے رنگین کپڑوں کےساتھ ہی بھگو دیا تھا...."
حرا نے چھت پر رکھے ہوئے تخت پر بیٹھتے ہوئے کہا..."امی تو مُجھے مار ہی ڈالیں گی..."
سُنبل کو آگے کا سوچ سوچ کر ہی ہول آنے لگے تھے..."منحوس لڑکی کمبخت کہیں کی کہاں مری ہوئی ہے..."
نیچے سے سلمٰی بیگم کی چنگھاڑتی ہوئی آواز گونجی...."اے میری چھوٹی پیاری سے بہن جا کر امی کو بول دے میں گھر پر نہیں ہوں میں بشریٰ کے گھر ہوں... جا نا میری گُڑیا.."
سُنبل نے اُسے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا..."ہائے اللّٰہ توبہ توبہ باجی میں جھوٹ بولوں وُہ بھی امی سے نا بھئی نا..."
حرا نے اپنے دونوں کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا...."اے تو اِس وقت تو کون سا سچ بول رہی ہے..."
وُہ مصنوئی لاڈ بالائے طاق رکھ کر لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی....
"کیا مطلب.."
حرا نے نا سمجھی والے انداز میں اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا...."یہی کہ تُو جھوٹ نہیں بولتی..."
"ہائے امّاں..."
پیچھے سے کسی نے بڑی زور سے ہاتھ مارا تھا وُہ بُلبُلا اُٹھی...
"ہاں تیری ماں..."
وُہ اپنی پیٹھ سہلاتے ہوئے پیچھے مڑی تو سلمیٰ بیگم کو اپنے عین پیچھے شعلے برساتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے پایا..."امی وُہ غلطی سے بھگو دیے تھے...."
اُس نے جلدی سے وضاحت دی..."نا بی بی غلطی سے نہیں تُجھے اُس موئے جھنجھنے سے فرصت ملے تب کوئی کام ڈھنگ کا کرے گی نا پورا دن منہ دیئے بیٹھی رہے گی کمبخت میں تو پھر یہی حال ہونا ہے..."
سلمیٰ بیگم کی معمول کی پھٹکار شروع ہوچکی تھی..."اچھا نا امی غلطی ہوگئی نا اب نہیں ہوگی..."
سُنبل نے اُن کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا جس سے وہ تھوڑا موم ہوگئی پھر بڑے پیار سے اُسے دونوں ہاتھوں سے تھام کر اپنے سامنے کیا اور بولی....
"میری بچی یہ بچپنا یہ شوخی شرارتیں صرف میکے کی حد تک ہی رہے تو اچھا ہے سُسرال میں لڑکی کا کھلنڈر پن لا باؤلی پن اُس کے لئے صرف اور صرف مشکلات پیدا کرتا ہے وہاں سلیقہ دیکھا جاتا ہے تمیز دیکھی جاتی ہے کیونکہ وہ حقیقی زندگی ہے کسی ڈرامے کا کوئی سین نہیں یا کسی کہانی کا کوئی حصہ وُہ ایک حقیقت ہے اور زندگی کبھی بھی آسان نہیں مشکلیں پریشانیاں تو رنگوں کی طرح ہوتی ہے ہماری زندگی میں اِن سے لڑنا ان کے سامنے ڈٹ جانا ہی زندگی ہے..."
اُنہوں نے حرا اور سُنبل دونوں کو سینے سے لگا لیا...
"میں تُجھے اتنا بُرا بھلا بولتی ہوں صرف اِس لیے کیونکہ میں نہیں چاہتی تُجھے میرے علاوہ کوئی کُچھ کہے میں اپنی بیٹیوں پر کسی کو سوال اُٹھانے کا موقع نہیں دینا چاہتی...."
اُنہوں نے سُنبل کے ماتھے پر آئے بالوں کو ہٹاتے ہوئے کہا....
حرا اور سُنبل نے مزید زور سے اُنہیں بھینچ لیا....⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"گروپ میں بڑی کمال کی پوسٹ لگی ہے سب فضہ کو رگڑ رہے ہیں آجا ہم بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھولیں..."
بشریٰ نے گروپ چیٹ میں کہا جہاں چاروں کی چاروں ایک اہم ترین فریضہ نبھاتے ہوئے آن لائن تھی...."میں تو سُنا بھی آئی کب کا..."
سعدیہ کا فوراً جواب آیا..."نا میں تو فضہ کے ساتھ ہوں"
نعیمہ نے لکھا...."میں چلتی ہوں بہنو!!!! شمسہ اقبال نے "آؤ ہم تُم دونوں ساتھ چلیں" کی قسط دے دی ہے..."
سُنبل نے جواب دیا...ابھی اُس نے پڑھنا شروع ہی کیا تھا کہ آفاق کی کال آگئی...
وُہ روز رات کو اُسے کال کرتا تھا...."السلامُ علیکم.."
پہل آفاق نے کی..."وعلیکم سلام.."
انداز کُچھ روکھا روکھا سا تھا...."کیسی ہو..."
"ٹھیک ہوں..."
بیزاری اب بھی تھی..."کیا کر رہی تھی ..."
آفاق شاید بڑی فرصت سے بات کر رہا تھا..."میں ناچ رہی تھی..."
اُس نے تپ کر کہا...
"اچھا...ویسے اتنی جلی جلی کیوں ہو آج تُم..."
آفاق اُس کی بیزاری کو انجوائے کرتے ہوئے بولا..."اوہ کہی تُم پھر اپنا کوئی فالتو سا ناول تو نہیں پڑھ رہی تھی اور میں ٹپک پڑا ..."
اُس نے تیر تو اندھیرے میں چلایا تھا مگر نشانہ بِا لکُل ٹھیک تھا...."خبردار جو میرے ناولوں کو فالتو کہا پرچون والے...."
"ہاہاہاہا..."
اُس نے محظوظ ہوتے ہوئے قہقہ لگایا...."میں نے تمہارا منہ توڑ دینا ہے آفاق منہ بند کرو اپنا ویسے ہی اتنا بُرا ہنستے ہو دیو کی طرح...."
سُنبل کا مارے غصّے کے بُرا حال تھا...."تُم جو مُجھے پرچون والا کہتی رہتی ہو اُس کا کیا..."
اُس نے محض بات کو بڑھانے کے لیے موضوع کو طول دی...
"ہاں تو تُم ہو ہی پرچون والے...."
"میری پرچون کی دکان نہیں یوٹیلٹی اسٹور ہے..."
آفاق نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا...
"تمہاری دکان میں آتا نمک دال چاول پتی یہ سب مِلتا ہے نا.."
"ہاں.."
آفاق اب کی بار تھوڑا سنجیدہ ہوا....
"ہاں تو یہ سب تو کونے والے پنجابی کی دُکان پر بھی ملتا ہےاور ہم اُس کی دُکان کو پرچون کی دُکان ہی کہتے ہیں... سرکے کو ونیگر کہنے سے تُم امریکن نہیں ہوجاؤ گے یہ یوٹیلٹی اسٹور سُپر مارکیٹ میرے لیے سب پرچون اور کریانے کی دکانیں ہے جنہیں لیپا پوتی کرکے اُن کے میک اپ کا خرچہ لوگوں سے لیا جارہا... "
سُنبل نے اپنی دانست میں ایک سمجھداری والا جواب دیا...."اچھا چھوڑو اِس بات کو بتاؤ اپنے کسی ناول کا ..."
آفاق نے نا چاہتے ہوئے بھی باتوں کا رخ اپنے سب سے نا پسندیدہ موضوع کی طرف موڑا...."کیا سناؤں یہ حذیفہ کمبخت بڑی دیر لگاتا پوسٹ کرنے میں مُجھے کائنات اور زین کو پڑھنا ہوتا مگر نہیں اٹیٹيوڈ آجاتا ہے ویسے بڑا پیار آتا ہے اُس پر ماشالله سے اتنی سی عُمر...."
"کیا آتا ہے..."
آفاق پیار لفظ پر بوکھلا گیا...."اُو ہیرو ٹھنڈا ہوجا جیلس مت ہو بچہ ہے وُہ تمہاری طرح اپنی دادی کا ۲۴ سالہ مٹھو نہیں..."
سنبل نے تاک کر اُس کی دکھتی رگ پر وار کیا...."یہ تُم مُجھے مٹھو نا بلایا کرو..."
وُہ چڑ کر بولا....
"اچھا نہیں بلاؤں گی..."
اُس نے تابعداری سے کہا...."مٹھو چوری کھائے گا...."
کُچھ ہی لمحوں بعد سُنبل نے دوبارہ کہا اور فون کٹ کردیا...
"سُنبل..."
آفاق بے بسی سے محض کہہ کر رہ گیا....⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐