المراسیم (تقدیر) قسط ۲

274 24 35
                                    

ایک زوردار آواز کے ساتھ دروازہ کھلا اور کشل تن فن کرتی ہوئ اندر داخل ہوئ "یہ کیا حرکت تھی؟" کشل غصے سے سرخ ہو رہی تھی "کیا" زارا نے کندھے اچکا کے سکون سے کہا "تممم! بہت بدتمیز ہو تم" کشل کی آنکھوں میں ہلکا ہلکا پانی جمع ہونے لگا تھا "کوئ نئ بات" زارا نے اتنے ہی سکون سے کہا "ہاں تمہارا بھائ تمہیں بلا رہا ہے" کشل نے غصے سے پیر پٹختے ہوئے کہا اور بستر پر ڈھیر ہوگئ "ہاں سمجھانے کے لئیے ہی بلا رہے ہوں گے کہ اگر مارنے کے لئیے بھاگی تھی تو مارا کیوں نہیں" زارا کا سکون عروج پہ تھا اور کشل کو رہ رہ کے اس پہ غصہ آرہا تھا "کوئ نہیں..نہیں بلارہا وہ تمہیں" کشل نے تپ کے کہا "ہاں پتا ہے مجھے" زارا نے اتنے سکون سے کہا کہ کشل کو اور غصہ آگیا اور پاس پڑا تکیہ دے مارا..لیکن نہیں سامنے تو زارا نہیں تھی کشل کے تو طوطے اڑ گئے ابتسام کو دیکھ کے کیونکہ تکیہ اسے جو پڑا تھا "یہ کیا بدتمیزی ہے" ابتسام دھاڑا اور کشل کا دل زور سے اچھل کے حلق تک آگیا "بدتمیزی نہیں تکیہ ہے" کشل کی زبان پھسلی "تو یہ تکیہ خود اڑ کہ آیا ہے کیا ادھر؟" چبا چبا کے تو ایسے بولتا ہے جیسے منہ میں فرائڈ چکن ہو "کچھ پوچھا ہے میں نے" ابتسام کی آواز کشل کی سماعتوں سے ٹکرائ تو وہ اپنی سوچوں کو جھٹکتی کھڑی ہوئ اور ہاتھ دکھاتے ہوئے بولی "نہیں اپنے ان حسین ہاتھوں سے پھینکا ہے" کشل نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے کہا "اتنی بڑی گھوڑی ہوگئ ہو پھر بھی تمیز نہیں آئ" "اورتم جو اتنے بڑے ہوگئے ہو کبھی تمیز سے بات کی ہے مجھ سے…خوبصورت لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز ہی نہیں ہنہ" " کس نے کہا مجھے خوبصورت لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں؟" ابتسام نے تیوری چڑھا کے پوچھا "اگر ہوتی تو مجھ سے تمیز سے بات کرتے" کشل نے بھی اپنا مخصوص انداز اپنایا "کیا مطلب؟ اگر مجھے خوبصورت لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز ہوتی تو میں تم سے کیوں تمیز سے بات کرتا؟" ابتسام نے نہ سمجھی سے کشل کو دیکھا "ارے بھئئ اب میں بھی تو خوبصورت ہوں نہ تو مجھ سے بھی تمیز سے بات کرتے" کشل نے سمجھانے والے انداز میں کہا "تممم! نہیں! تم سے کس نے کہا؟" ابتسام نے حیرانی سے پوچھا "کیا مطلب؟ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟" کشل نے غصے سے پوچھا "یہی کہ تمہیں غلط فہمی ہے..بلکہ نہیں خوش فہمی" ابتسام نے سکون سے ہاتھ باندھتے ہوئے کہا "کس بات کی؟" کشل نے ایک آئبرو اچکا کے تیکھے انداز میں پوچھا "یہی کے تم خوبصورت ہو" کیا سکون تھا اور ابتسام کا یہ سکون کشل کو آگ لگا گیا بھلا کسی لڑکی کے منہ پہ اس کی بےعزتی ہو وہ برداشت کرسکتی ہے...نہیں نہ تو بس کشل بھی نہیں کرپائ اور ایک اور تکیہ اٹھا کے اسے دے مارا " یہ کیا بدتمیزی ہے" ابتسام دھاڑا اس کو تو خیال بھی نہیں آیا تھا کہ کشل پھر سے ایسا کرسکتی ہے "کیا؟" کشل نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے پوچھا زارا جو کب سے پیچھے ہونق سی کھڑی تھی اچانک ہوش میں آئ اور کشل کی معصومیت پہ قربان ہوگئ کہ اسکا دل کیا کے جوتوں کے ہار سے کشل کی معصومیت کو ایوارڈ دے اور اتنے پیار سے اس کی طرف دیکھا کہ آنکھوں میں شعلے جل اٹھے "تمہیں کبھی تمیز نہیں آسکتی" ابتسام نے بڑے افسوس سے کہا  تو کشل نے بھی دوبدو کہا "جیسے تمہیں" اور آنکھیں پٹپٹائیں "بھائ خیریت آپ اس وقت ادھر...؟" زارا نے بھائ کے منہ کے زاویے بگڑتے دیکھے تو جلدی سے بول پڑی مبادہ دونوں میں جنگ ہی نہ چھڑ جائے "ہاں...فائل بھول گیا تھا کمرے میں دیکھی تو ملی نہیں تو تمہیں بلانے آگیا اور اس چڑیل کے درشن ہوگئے" ابتسام نے زارا کو بتاتے ہوئے آخر میں ایسے دانت کچکچائے جیسے کشل کی گردن کچل دی ہو "اچھا میں ڈھونڈھ دیتی ہوں آپ چلیں" "ذرا جلدی پلیز" ابتسام کہتا ہوا باہر نکل گیا اور زارا کشل کی طرف جارحانہ انداز میں بڑھی "وہیں رک جاؤ! ایک اور قدم بھی آگے بڑھایا تو بہت برا ہوگا" کشل نے وارننگ دی "کیا کرلوگی؟" ایک ایک لفظ چبا کے ادا کیا "آجاؤ جو کرنا ہے کرلو...تمہارے ہی 'بھیّا' کو دیر ہوگی" کندھے اچکاتے ہوئے اس نے بےنیازی سے کہا "تمہیں تو میں دیکھ لوں گی" زارا پیر پٹختی کمرے سے نکل گئ پیچھے سے کشل کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائ "دیکھ لینا دیکھ لینا بس نظر نہ لگانا...لیکن خیر تمہاری تو نظر ہی گندی ہے کیا کرسکتے ہیں"
************************************
شام کے نیلگوں سائے اب ڈھل رہے تھے اور ہلکی ہلکی روشنی بھی اندھیرے میں تبدیل ہورہی تھی..چرند پرند اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے تو وہیں روڈیں ٹریفک سے بھری تھیں سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہورہے تھے تو وہیں آذان کی سدا آئ کچھ لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہونے کو دوڑے تو کچھ لوگ کان لپیٹ کے اپنے کام نپٹانے لگے...آذان کی آواز آئ تو وہ کتابیں بند کرتی اٹھ کھڑی ہوئ اور واش روم چلی گئ کچھ ہی دیر میں وہ باہر آئ تو چہرے اور کہنیوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اس نے جائےنماز بچھائ اور دوپٹا سلیقے سے اوڑھ کے نماز ادا کرنے لگی نماز پڑھ کے دعا مانگی اور چہرے پہ ہاتھ پھیر کے درود شریف پڑھتی کھڑی ہو کے جائےنماز تہہ کرنے لگی جائےنماز سائیڈ پہ رکھ کے وہ  بالکونی میں آکے کھڑی ہوگئ معمول کی طرح..ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اس کے وجود کو چھوتی گزر رہی تھی آسمان پہ چھائ ہلکی ہلکی روشنی اور اِدھر اُدھر اڑتے چرند پرند اس کی طبیعت کو خوشگوار بنا گئے وہ کچھ دیر اور کھڑی رہی پھر پلٹ کے کمرے میں آگئ کمرے میں آ کے اس نے قرآن شریف بہت احتیاط سے اٹھا کے چوما پھر بستر پہ آ کے بیٹھ گئ بسم الله پڑھ کے قرآن کھولا پھر تلاوت کی بہت خوبصورت آواز کمرے میں گونجنے لگی تعوذ تسمیہ کے بعد اس نے سورة الفاتحه کی تلاوت شروع کی

المراسیم (تقدیر) Where stories live. Discover now