"نیا سفر"(حصہ ۱)
اسجد نے بڑے بھائیوں کی طرح آگے بڑھ کے فائقہ آپی کے سر پہ ہاتھ رکھ کے تحمل سے پوچھا "کیا ہوا ہے فائقہ آپی رو کیوں رہی ہیں" اسجد کے نرمی برتنے پہ فائقی آپی کے رونے میں اوربھی شدت آگئی تھی جس پہ اسامہ اور موحب کو لگا ان کا دماغ چل گیا ہے "اسجد کیسے ہوگا...اتنی جلدی یہ سب.." فائقہ آپی کی باتیں ان چاروں کے سروں سے گزر رہی تھیں موحبنے انزلہ سے پوچھا "تم لوگ کیوں ایسے بیٹھی ہو جیسے لُٹیا ڈوب گئی ہو" موحبنے محلے والی آنٹیوں کی طرح دونوں ہاتھ کمر پہ جما کے تیکھے لہجے میں پوچھا "تم چپ کرو ہر وقت اپنی بکواس کرتے رہتے ہو" انزلہ بھی طیش میں آگئی تھی ایک تو اتنا بڑا مسئلہ اوپر سے یہ ففنہ آگ لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا تھا "تم دونوں چپ کرو! پہلے یہ مسئلہ حل ہوجائے پھر چاہت بال نوچنا ایک دوسرے کے بیٹھ کے" اسامہ نے تھوڑی سمجھداری کی بات کرنا چاہی جس میں وہ کامیاب بھی ہوا "کشل شام کو وہ لوگ آرہے ہیں اور..اور پارلر والی اتنی جلدی تیار کیسے کرے گی" فائقہ آپی کی بات سن کے وہ چاروں ازحد حیرانہوئے کہ آنکھیں پھٹ پڑیں اور زبان گنگ.."کیا مطلب؟" اسجد نے حیران نگاہوں کو فائقہ آپی کے آنسوؤں سے دھلے چہرے پہ جمائے پوچھا "بھئی مطلب یہ کہ شام میں رشتے والے آجائیں گے اور ابھی تو ہم لوگ پارلر بھی نہیں گئے اور ابھی تو یونیورسٹی بھی جانا ہے پھر یونیورسٹی سے آنے کے بعد تو بہت دیر ہوجائے گی" زرمینہ بولتے ہوئے روہانسی سی ہوگئی تھی "آپ اس وجہ سے رو رہی تھیں فائقہ آپی؟" کشل کو شدید حیرت ہورہی تھی اس لیئے دل کی تسلی کے لیئے پوچھ ہی لیا "اور نہیں تو کیا..رشتے والے آرہے ہیں کوئی مزاق تھوڑی ہے" فائقہ آپی کی بات سن کے ان چاروں کا دل کیا اپنا سر پیٹ لیں لیکن ہائے رے یہ تکلیف اگر سر پیٹتے تو تکلیف انہیں ہی ہوتی لحاظہ چاروں نے اپنا ارادہ ترک کردیا اور مسئلہءکشمیر کو حل کے لیئے ترکیب سوچنے لگے "فائقہ آپی ویسے ایک بات تو بتائیں.." موحب نے ایک ہاتھ کمر پہ جمائے اور دوسرا تھوڑی تلے رکھ کے سوچتے ہوئے بولا "پوچھو" سوں سوں کرتی فائقہ نے کھلے دل کا مظاہرہ کیا "آج تو رشتے والے آرہے ہیں...پھر آپ کو پارلر کیوں جانا ہے.تیار تو آپ گھر میں بھی ہو سکتی ہیں" موحب کی بات سے وہ تینوں بھی اتفاق رکھتے تھے لحاظہ گردنوں کو اثبات میں ہلایا "کیا مطلب ہے تمہارا؟ اکلوتی شادی ہے میری..آخر میرے بھی کچھ ارمان ہیں.." بولتے بولتے طھر ان کی بادامی شکل آنکھوں اور کھڑی ناکنے گرم نمکین پانی بہانا شروع کردیا "سب کی اکلوتی ہی ہوتی ہے اپیاء" اسامہ نے سمجھداری کی بات کی تھی جس پہ سب کو اتفاق بھی تھا لیکن گھر کی پہلی لڑکی کی شادی تھی تو ارمان تو تھےہی سب کے "اچھا اچھا آپ روئیں مت ہم کچھ سوچتے ہیں"موحب نے فائقہ آپی کی رونی صورت دیکھ کے کہا " ابھی ایسا کرتے ہیں آپی کے ہم لوگ یونیورسٹی اور کالج چلے جاتے ہیں لیکن میرا وعدہ ہے میں آپ کے ارمان ضرور پورے کرواؤنگی" کشل نے تھوڑی عقلمندی کی بات کی تھی اور فائقہ آپی کو یقین بھی تھا کہ کشل نے کہہ دیا مطلب اب ان کا کام ہو ہی جائے گا لحاظہ انہوں نے اثبات میں گردن ہلا کے اسے تسلی دی "اب تم لوگ بھی شکلیں درست کرلو ویسے ایک بات مجھے نہیں سمجھ آئی" پہلے موحب نے ان لڑکیوں کو خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا پھر اچانک تھوڑی تلے ہاتھ کی مٹھی بنا کے کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگا "رشتے والے تو فائقہ آپی کو دیکھنے آرہے ہیں نہ تو تم لوگ کیوں رو رہی تھیں؟" موحب نے نظریں تیکھی کرتے ہوئے پوچھا "بھئی اب ہم بھی تو ان کی بہنیں ہیں نہ" تہذیب نے فوراً جواب دیا "تو کیا ہوا کشل بھی تو بہن ہے اسے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوا"اسجد نے بھی فوراً کہا " اب ہم کیا کریں کہ اس کے اندر بڈھی روح گھسی ہوئی ہے ورنہ آج کل کی لڑکیاں تو سوتے میں بھی میک اپ کرتی ہیں" تعدیل نے جیسے عقلمندی کی بات کی تھی جس پہ زرمینہ اور انزلہ نے زوروشور سے گردنیں اثبات میں ہلائیں جس پہ کشل صرف مسکرا کے رہ گئی "اچھا اب چلو دیر ہورہی ہے " اسامہ کو بال آخر خیال آہی گیا جسے اس نے زبان دے ہی دی تو سب اٹھ گئے اور ایک ایک کرکے کمرے سے نکلتے چلے گئے..
************************************
لڑکیوں کی گاڑی جیسے ہی یونیورسٹی کے سامنے رکی سب ایک ایک کرکے باہرنکلیں اور اپنے اپنے ڈپارٹمنٹس کی طرف روانہ ہو گئیں..(کشل اور زارا کا ڈپارٹمنٹ ایک ہی تھا اور وہ دونوں ماس کمیونیکیشن پڑھ رہی تھیں اوردونوں کا آخری سال چل رہا تھا تو وہیں زرمینہ اور تعدیل کا بھی ایک ہی ڈپارٹمنٹ تھا اور وہ دونوں اکونومکس کی طالب علم تھیں اور دونوں کا تیسرا سال تھا جبکہ تہذیب اور انزلہ ابھی کالج کے سیکنڈ ائیر میں تھیں)"کشل.." چلتے چلتے زارا نے کچھ سوچتے ہوئے کشل کو پکارا "ہاں" کشل نے چونک کے جواب دیا "یار میں سوچ رہی تھی..." ابھی زارا اپنی بات مکمل بھی نہیں کر پائی تھی کہ اچانک دونوں کی کمر پہ زورداد مکّا پڑا دونوں نےبلبلا کے پیچھے دیکھا تو سامنے ابلاج کھڑی دونوں کو گھور رہی تھی "کیا مسئلہ ہے بھئی جب دیکھو ہاتھوں کا استعمال کرتی رہتی ہو کبھی اپنی زبان سے بھی کام لے لیا کرو" کشل کو تو غصہ ہی آگیا تھا "زبان سےبھی نہ لیا کرو تو بہتر ہے..ابھی بولنا شروع ہوگی تو چھٹی کے وقت تک تمہاری زبان کو بریک نہیں لگتے" زارا کو بھی اپنی بات ادھوری رہ جانے کا غصہ تھا آخرنکالنا تو تھا ہی نہ "اوہ میڈمز! زیادہ بدتمیزی کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ہاں یہ اپنی چونچیں نہ بند ہی رکھو تو بہتر ہے" آخر وہ بھی تو کشل اور زارا کی دوست تھی پیچھے کیسے رہتی "مسئلہ کیا ہے چپ چاپ چلو کلاس میں" کشل نے اب کے خفگی سے کہا تو دونوں منہ بنا کے رہ گئیں لیکن دونوں اپنے نام کی ایک تھیں ٹس سے مس نہ ہوئیں "یہ حکم مجھ پہ مت چلانا آئندہ! ابلاج نام ہے میرا کسی کی نہیں سنتی تو تمہاری کیا خاک سنوں گی" ابلاج نے ایک ادا سے کہا "ہاں بلکل اپنے نام کی طرح " جنگلی" ہی ہو اور یہ جو کسی سے نہیں ڈرتی والی بات کی ہے نہ تو یہ مت ہی کہو تو بہتر ہے ہنہ..ابھی جب کلاس میں لیٹ پہنچیں گی اور سر پوچھیں گے نہ تب کیسے بولتی بند ہوگی شاید اندازہ نہیں ہے.." کشل کو تو آگ ہی لگ گئی تھی خیر اچھی خاصی سنابھی دی تھی "آپ ذرا اپنے علم میں اضافہ کیجیئے کہ ابھی کوئی کلاس نہیں ہے اور میں اسی لیئے آئی تھی بتانے کہ کینٹین چلو بھوک لگی ہے" ابلاج بھی پھر کیوں پیچھے رہتی کشل کے 'علم میں اضافہ' کروا کہ آگے چلتی بنی "رکو آرہے ہیں ہم بھی" کشل نے پیچھے سے آواز لگائی اور سر جھٹکتی زارا کے ساتھ ابلاج کے پیچھے چلنے لگی..
کینٹین پہنچ کے وہ لوگ اپنی مخصوص ٹیبل پہ آکے بیٹھ گئے "ہاں بھئی اب بتاؤ کیسی ہو دونوں" ابلاج نے بیٹھتے ساتھ ہی خوشگوار انداز میں پوچھا اور ابھی کچھ دیر پہلے والی لڑائی کی رمق تک نہ تھی اس کے لہجے میں "اللہ کا شکر..تم کیسی ہو" زارا نے بھی خوشدلی سے جواب دیا "میں بہت پیاری" ابلاج نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے ایک ادا سے کہا "اور بھئی تم کیوں اداس بلبل بنی بیٹھی ہو؟ کیا سوچا جا رہا ہے" ابلاج نے کشل کو دیکھتے ہوئے شرارت سے کہا "ہر وقت بس بکواس ہی کرتی رہنا..یار سوچ رہی تھی کہ..." ابھی کشل اپنی بات کر ہی رہی تھی کہ ابلاج نے جملہ اچک لیا "کہ شادی کرلو؟" اس نے شرارت سے کہا تو زارا ہنس پڑی اور کشل اس کوگھورنے لگی جو آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے مسکرا کے اسے دیکھ رہی تھی "جی نہیں ابھی اتنی جلدی میرا خودکشی کا کوئی موڈ نہیں ہے" کشل نے منہ بناکے کہا اور دوسری طرف دیکھنے لگی "یو مین (you mean) شادی کرنا خودکشی کرنے کے برابر ہے؟" ابلاج نےدلچسپی سے کشل کو دیکھتے ہوئے ایک ہاتھ تھوڑی تلے رکھ کے مزے سے سوال کیا"ہاں نہیں تو کیا..اور شاید تمہیں خودکشی کرنے کی اتنی ہی جلدی ہے" اب کی بار کشل کی آنکھوں میں بھی شرارت کی چمک تھی "ہاں تبھی تو منگنی کر رہی ہے" زارا نے بھی باتوں میں حصہ لیا "ہاہاہا..یار اب کیا کروں بس اس ظالم سماج سے تنگ آگئی ہوں" ابلاج نے معصومیت سے اداکاری کرتے ہوئے کہا جس پہ تینوں ہنس پڑیں "میں تو سوچ رہی ہوں بیچارے کیف بھائی کا کیا ہوگا..ہائے ایک چڑیل ان کے گلے کا پھندا بن جائے گی" کشل نےبھی معصومیت کے رکارڈ توڑتے ہوئے کہا "دوست تم میری ہو یا اپنے کیف بھائی کی جو ان کی سائیڈ لے رہی ہو" ابلاج نے مصنوعی خفگی سے کہا "اچھا اچھا اب آرڈر کرلو کچھ کب سے بیٹھے ہوئے ہو" زارا نے ہنستے ہوئے انکا دیہان آرڈر کی جانب کرایا "ہاں" ابلاج مسکراتے ہوئے اٹھی اور آرڈر دینے چلی گئی وہ دونوں ریلیکس بیٹھی ہوئی تھیں جب کشل نے زارا کو مخاطب کیا "زارا تم مجھ سے کچھ کہنے والی تھی نہ" زارا کو اچانک یاد آیا "ہاں کشل میں کہہ رہی تھی کہ.." زارا نے ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ ابلاج آگئی "کیا باتیں ہورہی ہیں..ہمیں بھی تو بتاؤ" وہ ہاتھوں میں جوس اور سینڈوچ لیئے آکے اپنی جگہ پہ بیٹھ گئی اور زارا کو ایک بار پھر شدید غصہ آیا اپنی بات ادھوری رہ جانے پہ "کچھ نہیں بس ایسے ہی" کشل نے زارا کا چہرہ دیکھا اور مسکراتے ہوئے ابلاج کو جواب دیا "اچھا جلدی کرو کلاس کا ٹائم ہونے والا ہے بس" کشل نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا تو دونوں جلدی جلدی لنچ کرکے کھڑی ہوگئیں "چلیں؟" کشل نے دونوں سے پوچھا دونوں اثبات میں سرہلاتی آگے بڑھ گئیں اور کشل زارا کی پشت کو دیکھ کے رہ گئی اور سر جھٹک کے وہ بھی ان کے ساتھ کلاس کی طرف چل دی..
************************************
"ششش! کیا ہے" کشل نے جھنجھلا کے ابلاج کو دیکھا جو مسکین سی شکل بنا کے اسے دیکھ رہی تھی..وہ لوگ لیکچر نوٹ کر رہے تھے جب بار بار ابلاج کشل کو پین چبھا رہی تھی جس سے کشل جھنجھلا گئی تھی "یار...دل نہیں چاہ رہا" انتہاء تھی معصومیت کی "سر!" کشل نے اچانک کھڑے ہوکے سر کو پکارا "یس؟" سر حبیب نے کشل کو دیکھتے ہوئے پوچھا "سر..اگر کوئی انہماک سے لیکچر نوٹ کررہا ہو اور کوئی اسے بار بار تنگ کرے اور پوچھنے پہ کہے 'دل نہیں چاہ رہا' تو کیا کرنا چاہیئے سر؟" آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے اس نے جس معصومیت سے کہا تھا ابلاج کا تو خون جل کے راکھ ہوگیا تھا سر حبیب نے پہلے تحمل سے اس کی بات سنی پھر بولے "جس کا دل نہیں چاہ رہا وہ کلاس سے جا سکتا ہے..اور مس کشل! ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیئے انٹرپٹ (interrupt) نہیں کرتے! ناؤ سٹ ڈاؤن اینڈ نوٹ دی لیکچر(now sit down and note the lecture)" اور دوبارہ پڑھانے میں مصروف ہوگئے اور ابلاج کا تو بس نہیں چل رہا تھا کشل کو کچا چبا جائے "تم دونوں کو سکون نہیں ہے نہ" زارا کو دونوں پہ غصہ آرہا تھا "چپ کرو تم..اور تم! کون سے جنم کے بدلے لے رہی ہو مجھ سے" ابلاج کو بھی غصہ آیا ہوا تھا بھلا اپنی بےعزتی کہاں برداشت تھی اسے "اس جنم کے ہی" کشل نے بھی سکون سے جواب دیا اور یہ ہی سکون ابلاج کے غصے کو ہوا دے گیا "زارا! تم انوائٹڈ ہو لیکن اگر کسی اور کو لائی نہ تو ٹانگیں توڑ دونگی" ابلاج نے کشل کو دیکھتے ہوئے زارا کو مخاطب کرکے ایک ایک لفظ چبا کے کہا جس پہ کشل کو اپنی ہنسی روکنا بہت مشکل ہوگیا تھا "اچھا ٹھیک ہے اب چپ ہو کے لیکچر نوٹ کرو" زارا نے ڈپٹتے ہوئے کہا اور ابلاج کی گھوری کو خاطر میں لائے بغیر لیکچر نوٹ کرنے میں مصروف ہوگئی تو ابلاج بھی سر جھٹکتی سر کو دیہان سے سننے لگی..
************************************
"ہائےے.. کونسے کپڑے پہنوں" فائقہ آدھی الماری میں گھسی دھائیاں دے رہی تھی جبکہ کپڑوں کا ڈھیر اس کے بیڈ پہ پڑا فائقہ کی حالت پہ انگشتِ بدنداں تھا تو وہیں دروازے سے اندر آتی زرمینہ خود حیران ہوگئی کہ شاید اس کی بہن کادماغ چل گیا ہے جو کپڑوں کو اپنی جگہ اور کپڑوں کی جگہ خود گھسی پڑی تھی "آپییی..نکلو باہر" زرمینہ نے فائقہ کو بازو سے پکڑ کے باہر نکالا "آگیئں تم لوگ چلو اچھا ہے آؤ بتاؤ کیا پہنوں" فائقہ اس وقت باؤلی سی لگ رہی تھی "کچھ بھی پہن لیں سب اچھا لگتا ہے آپ پہ" زرمینہ کچھ بولتی اس سے پہلے ہی کشل اور زارا آگئیں اور کشل کی بات پہ فائقہ بلش کرنے لگی تو وہیں زرمینہ غصے سے مٹھیاں بھینچ کے رہ گئی "آپی وہ پنک والا پہن لیں آپ پہ بہت اچھا لگتا ہے" زرمینہ نے مسکراتے ہوئے کپڑوں کے ڈھیر میں سے ڈھونڈتے ہوئے کہا "ہاں سہی ہے" فائقہ بھی خوش ہو گئی تھی اور وہ دونوں بھی مسکرا دیں "اچھا کشل تم نے کہا تھا سب ہوجائے گا..کیسے؟" فائقہ نے کشل کو دیکھتے ہوئے کہا "آؤ زری ہم لوگ مل کے انہیں چھیلیں" کشل نے شرارت سے آنکھ دبا کے زرمینہ کو کہا "چلو" زرمینہ نے بھی شرارت سے ہاں میں ہاں ملائی دونوں نے فائقہ کو پکڑا اور بیڈ پہ بیٹھا دیا اور پھر اپنے مشن پہ لگ گئیں زارا کا ہنس ہنس کے برا حال تھا تو فائقہ کا رو رو کے..
************************************
"تائی امّی اس میں یہ بھی ڈالنا ہے نہ" انزلہ نے تائی اماں سے پوچھا جنہوں نے مصروف سے انداز میں گردن اثبات میں ہلا دی (انزلہ،تہذیب اور تعديل کچن میں کام کروا رہی تھیں) موحب نے کچن میں انزلہ کو کھڑے دیکھا تو وہیں چلا آیا "اوہو آج تو کھانے کا بیڑہ غرق ہونے والا ہے واہ" موحب نے آتے ساتھ ہی اپنی کالی زبان سے بولنا شروع کردیا تھا سب لڑکیوں کے منہ بن گئے تھو اور خواتین مسکرا دی تھیں "دفع ہو جاؤ ادھر سے" تہذیب نے چھری دکھاتے ہوئے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا "ہنہہ مجھے کونسا شوق ہے یہاں رہنے کا جا ہی رہا ہوں بس ان خواتین حضرات کو وارن کرنے آگیا تھا" موحب نے ایسے کہا جیسے بہت بڑا احسان کر رہا ہو اور یہ جا وہ جا اور لڑکیاں سر جھٹک کے دوبارہ کام میں مصروف ہوگئیں تھیں..
************************************
تھوڑی دیر بعد ہی تہذیب ان کے پاس آگئی تھی اطلاع دینے کے لیئے کے تھوڑی دیر میں وہ لوگ پہنچنے والے ہیں اور فائقہ کا حشر دیکھ کے وہ بھی ہنس ہنس کے دوہری ہوئی جا رہی تھی جس پہ فائقہ نے جن نظروں سے اسے دیکھا اس نے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی اور کشل نے فائقہ کو کپڑے چینج کرنے کے لیئے بھیج دیا اور خود زرمینہ اور وہ سوفے پہ بیٹھ کے لمبی لمبی سانسیں لینے لگیں اتنے میں فائقہ کپڑے بدل کے آگئی تو زارا نے پکڑ کے اسے ڈریسنگ ٹیبل کے آگے بیٹھایا اور جلدی جلدی اس کا میک اپ کرنے لگی پھر زرمینہ اور زارا نے مل کے اس کا ہئراسٹائل بنایا اتنے میں انزلہ، تہذیب اور تعدیل بھی آگئیں تھیں اور سب نے فائقہ کو دیکھ کے بےاختیار دعائیں دی تھیں "چلو بھئی میں نے اپنا وعدہ پورا کیا" کشل جو اس کو فائنل ٹچ دے رہی تھی پیچھے ہوتے ہوئے بولی اور فائقہ کص دیکھ کے دل میں ماشاءاللہ کہہ کے پیچھے ہٹ گئی "اور ہم سب کا کیا" تہذیب نے جلدی سے سوال کیا "کیا مطلب؟ تم لوگ تھوڑی سامنے جاؤ گے" کشل نےناسمجھی سے دیکھتے ہوئے کہا "ہم کیوں سامنے نہیں جائیں گے" تہذیب نے ایک اورسوال کیا "یار جب کسی لڑکی کو دیکھنے آتے ہیں نہ تو دوسری لڑکیاں سامنے نہیں جاتیں" کشل نے رسان سے اسے سمجھایا جس پہ اس نے سمجھتے ہوئے گردن ہلا دی "آؤ جلدی آگئے ہیں وہ لوگ" اسجد دروازے سے ہی بول کے چلا گیا تو فائقہ کے ہاتھ پیر پھول گئے "مجھے ہی جانا ضروری ہے کیا" اس نے مسکین سی شکل بناتے ہوئے ایسے کہا جس پہ سب ہنس دیں "چلیں فائقہ آپی کچھ نہیں ہوتا بی کانفیڈینٹ یار (be confident)" وہ لوگ فائقہ کو لے کے نیچے آئیں تو کشل کی امی نے وہیں سے فائقہ کو تھام لیا اور ان لوگوں کو واپس جانے کا کہہ کے وہ فائقہ کو اپنے ساتھ لے کے ڈرائنگ روم میں آگئیں جہاں سب مہمان پہلے سے بیٹھے تھے. فائقہ نے جاتے ساتھ ہی سب کو سلام کیا اور سمینہ بیگم (حسن کی امی) کے پاس جا کے بیٹھ گئی ان لوگوں نے فائقہ سے پڑھائی کی بابت پوچھا اور اِدھر اُدھر کی بات کرکے سب بڑے اپنی باتوں میں مصروف ہوگئے..
************************************
"یاررر کیا ہورہا ہوگا نیچے" کشل کا چس نہیں چل رہا تھا کہ اڑھ کے پہنچ جائے نیچے "میرا بھی دل چاہ رہا ہے جانے کا" زرمینہ نے بھی کشل کو دیکھتے ہوئے کہا جس پہ کشل کی آنکھوں میں چمک ابھری "اچھا طھر ایسا کرتے ہیں.." ابھی کشل کچھ بولتی اس سے پہلے زارا بول پڑی "چپ کرکے بیٹھی رہو سمجھی..کوئی فضول حرکت کرنے کی کوشش مت کرنا" اس نے کتاب میں سے منہ نکالا اور اطنء بات کہہ کے دوبارہ سے کتاب میں غائب ہوگئی "تم رو ہو ہی پاگل تمہاری سنتا کون ہے ادھر" کشل نے عجیب سی شکل بنا کے کہا پھر جلدی سے زرمینہ کی طرف گھومی "میں لان کی سائیڈ سے جا کےدیکھتی ہوں اور یہ لو (پاس پڑا موبائل اٹھا کے اسے دیا) اپنے پاس رکھو میں کال کرونگی تو سب دیکھ لینا" کشپ نے ایک انکھ دبا کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کے کہا "ہاں ٹھیک ہے جاؤ" زرمینہ بھی کشل کیبات سے خوش ہوگئی تھی تو جوش سے ہاں میں ہا ملائی. کشل بھاگتی ہوئی سیڑھیوں سے گئی اورلان کی طرفجا ہی رہی تھی کہ ڈھز ڈھز ڈھزز... کشل صاحبہ کسی سے اس بری طرح ٹکرائیں کے مخالف کے بھی بازو میں ٹیسیں اٹھنے لگیں "لگی تو نہیں" مخالف نے پتا نہیں کس دیہان میں پوچھا لیکن جب اسے دیکھا تو چونک گیا "تمہارے پاس یہ دو آنکھیں ہیں تو ان کا استعمال بھی کیا کرو" ایک ایک لفظ پہ زور دے کے کہا گیا "ارے ہٹو..کیا آنکھیں صرف میرے ہی پاس ہیں..تمہارے پاس بھی تو ہیں تم بھی ذرا استعمال کرلیا کرو" وہ بھی کشل تھی آخر "آج تمہارے بھائی سے بات کرتا ہوں میں" ایک ایک لفظ ایسے چبا کے ادا کیا گیا اور غصہ...افف الامان. کشل سر جھٹک کے بولی "پورا دن آفس میں ساتھ ہوتے ہو پھر بھی نہیں کرتےبات...خیر تو ہے لڑائی تو نہیں ہوئی" اس نے کھوجنے والے انداز میں دونوں ہاتھ کمر پہ جما کے کہا "تم سے بات کرنا ہی فضول ہے" وہ جیسے جھنجھلا گیا تھا "تو میں نے کہا ہے کہ مجھ سے بات کرو ہنہہ" وہ ایک نگاہ غلط ڈالتی ہوئی اس کے پاس سے نکلنے لگی جب اس نے اسے روکا "کدھر جا رہی ہو" اس نے پوچھا "کیریاں توڑنے..چاہیئیں؟" اس نے مڑ کے ایسے کہا جیسے احسان کر رہی ہو ابتسام اسے ایک نظر دیکھ کے آگے بڑھ گیا وہ بھی سر جھٹکتی لان کی طرف بڑھ گئی..
************************************
"بیٹا یہ لو نہ یہ ہماری فائقہ نےبنایا ہے" دادو نے وہی روایتی جملہ دوہرایا اور کبابوں کا ڈش حسن کے آگے کردیا جو سر جھکائے بیٹھا تھا "جی" اس نے مسکراتے ہوئے کباب لیا اور پہلا ہی بائٹ لیا تھا کہ اس کا چہرہ لال ہوگیا "کیا ہوا بیٹا اچھانہیں لگا کیا" دادڈ نے اس کا لال چہرہ دیکھا تو یکدم پریشان ی سے سوال کرلیا "جی نہیں..بہت اچھے ہیں" حسن نے مسکرا کے دادو کو تسلی دی جس پہ فائقہ بلش کرنے لگی حسن نے ایک نظر اسے دیکھا اور کباب کی طرف متوجہ ہوگیا اور دلجمی سے کھانے لگا دادو بھی خوش ہو گیئں اور دوبارہ سمینہ بیگم سے باتوں میں مصروف ہو گیئں..
************************************
"افف کیا ہے ٹھیک سے تو دکھاؤ" تعدیل نے یہ جملہ دسویں بار بولا تھا شاید کیونکہ کشل ڈرائنگ روم کی کھڑکی (جو لان کی طرف کھلتی تھی) کے پاس کھڑی بڑی مشکل سے اندر کا منظر دیکھ رہی تھی اور ان لوگوں کو بھی دکھا رہی تھی (ویڈیو کال کے ذریعے) "افف ایک تو تم لوگ بھی نہ" کشل نے جھنجھلا کے ہاتھ تھوڑا اور آگے بڑھا دیا اور خود بھی تھوڑی آگے ہوکے دیکھنے لگی اتنے میں زرمینہ کی چیخ سنائی دی کشل نے فوراً کیمرے میں دیکھا جہاں لڑکیاں دم سادھے بیٹھی تھیں "کیا ہوا چیخی کیوں" کشل نے جیسے ہی پوچھا زرمینہ نے آگے بڑھ کے فوراً کال کاٹ دی جس پہ کشل حیران رہ گئی لیکن جیسے ہی پیچھے پلٹی تو کسی سے ٹکراتے ٹکراتے بچی "یہ کرنے آرہی تھی ادھر" ابتسام نے غصے سے جبڑے بھینچتے ہوئے سوال کیا "و..وہ...وہ" ابتسام نے اس کی بات کاٹتے ہوئے ایک ایک لفظ چبا کے پوچھا "کیا وہ وہ؟ سمجھایا بھی تھا اس سائڈ پہ اس ٹائم پہ نہیں آیا کرو لیکن کہاں سمجھ آتی ہے تمہیں میری کوئی بات" اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا تو کشل کا شرمندگی سے "ابتسام سب کا ہی بہت دل تھا حسن بھائی کو دیکھنے کا تو میں نے سوچا..." ابھی وہ اپنی بات مکمل کرتی کہ ابتسام بول پڑا "تو تم نے سوچا کیوں نہ یہ نیک کام تم ہی سرانجام دے دو" کشل نے اس کی بات پہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تو ابتسام کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے "تم لوگ ہم سے بول دیتیں ہمارے پاس پکچرز ہیں دکھا دیتے" اب کے اس نے تحمل سے لیکن بھنچے ہوئے لہجے میں کہا "پھر وہ مزہ تھوڑی آتا" اس نے اپنے مخصوص انداز میں ہاتھ نچا کے اور ایک آنکھ دبا کے کہا جس پہ ابتسام نے اس کو بازو سے پکڑا اور کھینچتا ہوا گھر میں لایا "اب اس سائڈ پہ مت جانا سمجھی اور جاؤ روم میں" اس نے انگلی اٹھا کے اسے وارن کیا اور کمرے میں جانے کا آرڈر دیا جس پہ کشل اثبات میں گردن ہلاتی آگے بڑھنے لگی پھر اچانک پلٹ کے ایک ادا سے بولی "پکچرز میرے موبائل میں پہنچ جانی چاہیئیں ابھی!" تو ابتسام تاؤ کھا کر رہ گیا اور وہ یہ جا وہ جا..
************************************
دھڑام کی آواز کے ساتھ دروازہ کھول کے کشل اندر آئی اور آتے ہی ساتھ سب پہ شروع ہوگئی "یہ کیا حرکت تھی" اس کا بس نہیں چل رہا تھا سب کو جوتے مارے "منع کیا تھا نہ کہ مت جاؤ لیکن نہیں بھئی محترمہ کو تیس مار خان بننے کا بہت شوق ہے.." زارا کو بھی اس پہ غصہ تھا کیونکہ اس نے اس کی بات جو نہیں مانی تھی پھر ڈانٹ بھی کھا کے آگئی تھی "تم چیخی کیوں تھی؟ چیخنے کے بجائے اگر اپنا یہ آٹے میں مارا ہوا منہ کھول کے کچھ الفاظ نکالنے کی زحمت کرلیتی تو زیادہ بہتر ہوتا" کشل کی توپوں کا رخ اب زرمینہ کی طرف ہو چکا تھا "خود پھنسی ہو تو مجھے الزام مت دو ہنہہ" زرمینہ نے ناک سے مکھی اڑانے والے انداز میں جیسے بات ہی ختم کردی کشل بس مٹھیاں بھینچ کے رہ گئی اتنے میں اس کے موبائل کی بیپ نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا اور موبائل سکرین دیکھ کے ایک مسکراہٹ نے اس کے لبوں پہ پہرا دیا تو وہیں جھیل سی گہری آنکھوں میں شرارت نے رقص کیا "آہم..تم لوگوں نے حسن بھائی کو دیکھا کیا" اس نے موبائل میں دیکھتے ہوئے مصروف سے انداز میں سوال کیا "ارے کہاں آپی..بس دیکھنے ہی والے تھے کہ ابتسام بھائی آگئے" انزلہ کے لہجے میں مایوسی تھی جس پہ کشل نے زیادہ تنگ کرنا سہی نہیں سمجھا اور مسکراتے ہوئے بولی "آجاؤ دیکھ لو" سب کو لگا کشل مزاق کر رہی ہے "تمہارے پاس کہاں سے آئی تصویر" زارا نے گھور کے کشل کو دیکھا کشل نے بنا کچھ کہے فخریہ انداز میں نادیدہ کالر جھاڑے اور ایک ادا سے اسے پاس آنے کا اشارہ کیا جس پہ زارا نے کھینچ کے کشن اسے دے مارا "دیکھنا ہے تو دیکھ لو ورنہ بعد میں نہیں دکھاؤں گی" کشل نے اب کے ٹون بدلی تو سب کو احساس ہوا کے وہ مزاق نہیں کر رہی اور جیسے ہی لڑکیوں نے تصویر دیکھی سب نے بےساختہ ماشاءاللہ کہا "اللہ کرے لڑکے والے ہاں کر کے جائیں" تعدیل نے تصویر کو دیکھتے ہوئے دل سے دعا دی جس پہ سب نے دل سے آمین کہا..
************************************
ڈرائنگ روم میں اب رحمان صاحب کی فیملی جانے کے لیئے کھڑی تھی مرد حضرات آپس میں مل رہے تھے اور خواتین آپس میں جب حسن دادو سے ملنے آیا "چلتے ہیں دادو" اس نے مسکرا کے دادو کے آگے سر جھکا دیا دادو نے اس کے سر پہ شفقت سے ہاتھ پھیرا "جیتا رہے میرا بچہ" ان کو تو حسن بےحد پسند آیا تھا دادو کے برابر میں کھڑی فائقہ مسکرا کے یہ سب دیکھ رہی تھی جب اچانک حسن کی نظر اس پہ پڑی تو وہ نظریں جھکا گئی "دادو..کباب بہت مزے کے تھے" اس نے فائقہ کو دیکھتے ہوئے دادو سے کہا جس پہ دادو نہال ہو گئیں اور اس کا ماتھا چوما اور دادو کے برابر کھڑی فائقہ ہلکا سا مسکرائی پھر کچھ ہی دیر میں وہ سب لوگ روانہ ہوگئے تو سب بڑے بھی اپنے اپنے کمروں کی طرف چل دیئے اور ینگ پارٹی ڈرائنگ روم میں آگئی اور سب کچھ اس انداز میں صوفوں پہ بیٹھے کہ صوفے بھی دہائیاں دینے لگے لیکن ان کے کانوں تک بیچاروں کی دہائیاں نہ جا سکیں اور وہیں ان کی آہوں کا دم نکل گیا! موحب نے بیٹھتے ساتھ ہی کباب کے ڈش میں سے کباب اٹھایا اور ایسے ہی کھانے لگا جب اچانک اس کی چیخ پہ سب اس کی طرف متوجہ ہوئے "کیا ہوا" فائقہ آپی نے موحب سے فکرمندی سے سوال کیا "یہ کباب کس نے بنائے ہیں" اس نے بہت مشکل سے سوال کیا "بنائے تو میں نے تھے مگر کچھ مصالحے رہ گئے تھے وہ نہیں پتا کس نے ڈالے" فائقہ آپی نے لاتعلقی کا اظہار کیا "میںنے ڈالے تھے" انزلہ نے بھی سادگی سے جواب دے دیا "دیکھا..دیکھا میں نے کہا تھا نہ کہ آج کھانے کا بیڑہ غرق ہونے والا ہے" اس نے سب لڑکیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا "مسئلہ کیا ہے یہ بتا" اسجد نے اس کے شانے پہ دھموکہ جڑا اور سوال داغا "یہ..یہ کباب کہلانے کے لائق نہیں ہیں..پتا نہیں کیا چیز بنائی ہے" اس نے کبابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جس پہ سب نے نا سمجھی سے اسے دیکھا "اندھی چڑیل کم سے کم دیکھ کے تو مصالحے ڈالتی" موحب نے اپنا سر ہی پیٹ لیا "کیوں کیا ہوا" انزلہ نے ہونقوں کی طرح دیکھتے ہوئے سوال کیا "کبابوں میں چینی کون ڈالتا ہے؟" اس نے جیسے اکتا کے سوال کیا "کیا مطلب" فائقہ آپی نے حول کے سوال کیا "مطلب یہ کہ ان کبابوں میں چینی بھی ڈلی ہوئی ہے" موحبنے فائقہ کے علم میں جیسے اضافہ کیا "لیکن میںنے تائی جان سے پوچھا تو انہوں نے بولا ہاں ڈال دو" انزلہ نے روہانسے انداز میں کہا "یہ ہے نتیجہ کام نہ کرنے کا" موحب کو تو مقع مل گیا تھاجانے کیسے دیتا اور فائقہ کو حسن کا سرخ ہوتا چہرہ یاد آیا اور اس کے وہ الفاظ 'کباب بہت اچھے تھے دادو' اور فائقہ کا دل کیا پاس بیٹھی انزلہ کا سر پھاڑ دے لیکن خیر چھوڑو بہن سمجھ کے اس نے جانے دیا اور آگے کا سب اللہ کے سپرد کر کے پرسکون ہوگئی اور ان سب کے ساتھ ہنسی مزاق میں مصروف ہو گئی...
اپنے نئے سفر کی شروعات سے بیگانہ..
کون جانے آگے کیا ہونا ہے..
کون جانے..
************************************
So here is the 3rd epi of ALMARASIM (TAQDEER)❤ koi b mistake ho kch b..kch sahi nh lagy tw plzz mjhy btaiye..mera insta account @zohakhan.___ k name sy hy...mjhsy wahan contact kr sakty hyn..#NOTE
M kaafi arsa isy post nh kar saki q k mery kch issues thy... M ny pehly k 2 parts b unpublish krdiye thy q k m ik sath publish karna chahti thi.. So kaafi arsy baad likh rhi hn tw koi b ghalti hui ho ya kch b tw mjhy zroor btaiye ga❤
Jazakillah khair❤
![](https://img.wattpad.com/cover/165184970-288-k136292.jpg)
VOCÊ ESTÁ LENDO
المراسیم (تقدیر)
Ficção Geralیہ کہانی ہے بھروسے کی یہ کہانی ہے مان کی یہ کہانی ہے اعتماد کی یہ کہانی ہے کچھ اپنوں کے ٹھکرانے کی یہ کہانی ہے ساتھ نبھانے کی یہ کہانی ہے تقدیر کی...