"نیا سفر" (حصہ ۲)
سورج اپنی آب و تاب سمیت بادلوں کے بیچ کسی مغرور بادشاہ کی طرح براجمان اپنی کرنوں سے پورے آسمان کو روشن کیئے دے رہا تھا وہیں کچھ کرنیں شرارت کرتی ہوئی اس کی کھڑکی کے آگے ڈلے جالی دار پردے کی اوٹ سے جھانکتی ہوئی چھن چھن کر جاتی اس کے مومی چہرے اور گھنے سیاہ بالوں کو روشن کیئے دے رہی تھیں..کرنوں نے دیکھا اس کی گھنی پلکوں میں جنبش ہوئی وہ کھلکھلائیں پھر دیکھا اس کے گلاب کی پنکھڑی سے لبوں میں جنبش ہوئی وہ خوشی سے جھوم جھوم گئیں پھر دیکھا اس کی مخروطی انگلیوں نے اپنی زلفوں کو چھوا وہ انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کی دعا کرنے لگیں پھر ایک نے دوسری سے کہا وہ دیکھو اور جب انہوں نے دیکھا تو انتظار کی گھڑیاں اپنے اختتام کو پہنچیں اور وہ اٹھ کے بیٹھ گئی اور کرنیں مسکراتی ہوئی اس کے کمرے میں جابجا پھیلتی چلی گئیں اور وہ لڑکی مسکرا کے دیکھتی رہ گئی..
************************************
"السلام علیکم ٹو آل (Assalam u alaikum to all)" وہ ہشاش بشاش سی ڈائننگ ٹیبل پر آئی جہاں سب پہلے سے براجمان تھے اور اونچی آواز میں سب کو ایک ساتھ سلام کیا "وعلیکم السام اٹھ گئی میری گڑیا" دادا جان نے مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا جس پہ اس نے بچوں کی طرح گردن ہلاتے ہوئے اثبات میں جواب دیا پھر سب نے خوشگوار موڈ میں ناشتہ کیا اور معمول کی طرح اپنے اپنے کاموں پہ چل دیئے..
************************************
"آاااااہ" کشل اتنی زور سے چیخی کے سر جو لیکچر دے رہے تھے فورا پیچھے مڑ کے پوچھا "کیا ہوا مس کشل آر یو آل رائٹ (are you alright)" "یس سر" اس نے کہتے ہی منہ نیچے جھکا لیا "آر یو شیور؟" انہوں نے ایک بار پھر پوچھا "یس سر" جھکے منہ کے ساتھ اس نے اتنا ہی کہا اور سر پھر سے لیکچر دینے میں بزی ہوگئے تو اس نے کھا جانے والی نظریں ابلاج کے اوپر گاڑھ دیں "اب اگر بات نہیں سنو گی تو ایسا ہی ہوگانہ" ابلاج نے کندھے اچکاتے ہوئے بےنیازی سے کہا جس پہ کشل کا بس نہیں چلا کے اس کی زبان کھینچ لے "یہ کونسا طریقہ ہے بلانے کا" ایک ایک لفظ چباچبا کے ادا کیا "یار بات ہی نہیں سن رہی تھی تم میں کیا کروں" ابلاج نے جیسے ہتھیار ڈال دیئے تھے "کلاس کے بعد بات کرتے ہیں!" کشل نے بس اتنا کہا اور دوبارہ لیکچر نوٹ کرنے لگی اور ابلاج جو کچھ بولنے کے لیئے منہ کھول رہی تھی چپ ہوگئی اور لیکچر نوٹ کرنے میں مصروف ہوگئی..
************************************
"ہاں بھئی اب بولو" کشل نے کرسی پہ بیٹھتے ہوئے کہا وہ لوگ ابھی ابھی کینٹین آئی تھیں "ہنہہ میں نہیں بول رہی" ابلاج نے منہ پھلا کے بچوں کی طرح ناراضگی کا اظہار کیا "چلو ٹھیک ہے" کشل نے بھی کندھے اچکا کے بےنیازی کا اظہار کیا "بدتمیززز" ابلاج پیر پٹخ کے رہ گئی اور زارا جو کب سے خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی مسکرا کے دونوں کو دیکھا پھر ابلاج کی طرف رخ کرکے پوچھنے لگی "کیا بات ہے بولو بھی" اس نے بھی نرمی نا برتی تو ابلاج کا دل کیا سر پھاڑ دے "ہائے کیا قسمت ہے میری..کیسی دوستیں ہیں اللہ اللہ" ابلاج نے ڈرامائی انداز میں دہائی دی "بہت پیاری" کشل نے ایک ہاتھ تھوڑی تلے رکھ کے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے ٹکڑا لگایا جس پہ ابلاج اسے صرف گھور کے رہ گئی "سنو" اس نے گھورتے ہوئے ہی کہا
"سناؤ" کشل نے بھی اپنے مخصوص انداز میں کہا
"کل آجانا" اس نے نروٹھے پن سے کہا
"کدھر" وہ ہی بےنیاز انداز
"منگنی پہ" وہ ہی گھورتی ہوئی چھوٹی چھوٹی آنکھیں
"کس کی" وہ ہی اطمینان
"میری!" وہ ہی غصیلہ لہجہ
"اچھا؟" وہ ہی معصومیت
"ہاں!" وہ ہی پھاڑ کھانے والا لہجہ
"زارا" اس نے اچانک زارا کو مخاطب کیا
"ہوں" اس نے بھی مزے سے جواب دیا
"کچھ لوگوں نے مجھے آنے سے منع نہیں کردیا تھا؟" وہ ہی بےنیازی
"ہوں..کرا تو تھا" زارا نے بھی مزے سے جواب دیا
"لیکن اب انوائیٹ کررہے ہیں" وہ ہی معصومیت
"ہوں..کر تو رہے ہیں" زارا کو بھی مزہ آرہا تھا
"کیا جانا چاہیئے؟" وہ ہی معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے
"ہوں..جانا تو چاہیئے" اس نے ویسے ہی جواب دیا
"پہلے سوچ نہ لیا جائے" وہ ہی ازلی بےنیازی
"ہوں..سوچنا تو چاہیئے" اس نے بھی ویسے ہی جواب دیا
"کیا ہوں ہوں کرے جا رہی ہو تم چپ کرکے بیٹھو!" ابلاج کا صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوگیا تھا تو زارا پہ ہی غصہ نکالنا چاہا "ارے ارے" زارا بس اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ کشل اور زارا کی ہنسی چھوٹ گئی اور ابلاج دونوں کو گھورتی رہ گئی...
************************************
"آئے ہائے بیڑہ غرق ہو اس چڑیل کا" دادو نے سر پہ ہاتھ مارت ہوئے کسی کو چڑیل کہہ ڈالا "کیا ہوا" دادا جان نے کتاب پر سے نظریں اٹھاتے ہوئے پوچھا "ہائے کیا بتاؤں" دادو کو تو صدمہ سا لگا ہوا تھا "جو ہوا ہے بیگم وہ ہی بتائیں" دادا جان نے اب کی بار کتاب بند کرتے ہوئے دادو سے دریافت کرنا چاہا لیکن ہائے رے قسمت! جس کو بتانا نہیں تھا وہ ہی پوچھ بیٹھا! "ارے نہیں کچھ نہیں" دادو نے اب کی بار سنبھلتے ہوئے کہا "دادا جااانننن" کشل اچانک ان کے کمرے میں داخل ہوئے اور دادا جان کے گلے میں باہیں ڈال دیں "ارے ہٹو میرے شوہر سے دور" دادو نے کچھ خفگی سے کہا "ارے کیوں بھئی میرے دادابھی تو ہیں" کشل نے بھی منہ پھلاتے ہوئے کہا "ارے بیٹا ہٹ جائو ابھی موسم خراب ہے" دادا جان نے کشل کے کان میں سرگوشی کی "کیا ہوا موسم کو" کشل نے بھی آہستہ سے پوچھا "پتا نہیں اچانک بجلی کڑکی تھی" داداجان نے کندھے اچکاتے ہوئے لاعلمی کا اظہار کیا "ہوں.. تو یہ بات ہے" کشل نے سر ہلاتے ہوئے کہا "کیا کھسر پھسر کر رہے ہو دونوں دادا پوتی" دادو نے خفگی سے پوچھا "ارے کچھ نہیں دادو بس موسم کے حوالے سے باتیں" کشل نے ان کے پاس آتے ہوئے کہا "کیا کر رہی ہیں دادو" اس نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے پیار سے پوچھا پھر جب اس کی نظر ان کے ہاتھ پہ پڑی تو وہ بس دادو کو دیکھ کے رہ گئی "دادو یہ.." کشل کو سمجھ نہ آیا کیسے پوچھے "ہاں.. چڑیل نے دھوکا دے دیا" دادو کو بےحد غصہ آرہا تھا "ارے کیا ہورہا ہے بھئی" دادا جان نے بھی بات جاننی چاہی "کچھ نہیں دادا جان" کشل نے انہیں تسلی دی جس پہ وہ کندھے اچکا کے دوبارا کتاب کی مطالعے میں مصروف ہوگئے (دادو کی دادا جان کی طرف پیٹ تھی لحاظہ وہ دیکھ نہیں سکے تھے دادو کے ہاتھ میں کیا ہے) "چڑیل ٹی وی پہ اشتہار تو ایسےدیتی ہے آکے جیسے بہت کام کی چیز ہے یہ..ہنہہ" دادو کا بس نہیں چل رہا تھا کچھ کر ڈالیں اس اشتہار والی کو "ہوا کیا ہے دادو" کشل نے اب کے بہت پیار سے پوچھا "ارے ہونا کیا ہے.. ٹی وی پہ اشتہار آتا رہتا تھا 223190 کا تو میں نے بھی سوچا ٹرائی کرنے میں حرج ہی کیا ہے لیکن بیڑہ غرق ہو اس 'فائزہ بیوٹی کریم' کا ہاتھ جلا کے رکھ دیا میرا" دادونے اپنےجلے دل کے پھپھولے پھوڑے اور ظاہر ہے کیوں نہ پھوڑتیں وہ فائزہ بیوٹی کریم انہیں سوٹ جو نہیں کری تھی "ارےےے ..دادو تو آپکو ضرورت ہی کیا تھی" کشل نے حیرت سے سوال کیا "میں نے سوچا میں بھی پیاری سی ہوجاؤنگی جیسے وہ اشتہار والی ہوتی ہے" دادو نے اصل بات کشل کے گوش گزار کی "لیکن دادو آپ تو پہلے ہی اتنی پیاری ہیں آپکو کیا ضرورت اس کی" کشل نے پیار سے کہتے ہوئے دادو کے گلے میں باہیں ڈال لیں "میں نے سوچا میں بھی تم لوگوں جیسی پیاری ہوجاؤنگی" دادو نے شرارت سے کہا "ارے آپ تو ابھی بھی ہم سب سے پیاری ہیں اتنی کہ کبھی کبھی میں بھی جیلس ہوجاتی ہوں" کشل نے بھی شرارت سے کہا جس پہ دادو اور کشل دونوں کھلکھلا کے ہنس پڑیں اور دادا جان نے مسکرا کے دل میں سب کی دائمی خوشیوں کی دعا کی..
************************************
رات اپنے پر پھیلائے دھیرے دھیرے اتر رہی تھی. 'شمس ولا' بھی رات کے پروں کے سائے تلے آگیا تھا جہاں سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے اور پوری ینگ پارٹی لاؤنج میں ڈیرہ جمائے بیٹھی تھی. کوئی آپس میں محو گفتگو تھا تو کوئی موبائلوں میں سر دیئے بیٹھا تھا. کوئی ٹی وی پہ ڈرامہ دیکھ رہا تھا تو کوئی آنکھیں موندے اپنے خواب. "کل کونسا ڈریس پہنو گی" زارا نے اچانک موبائل میں سے سر اٹھاتے ہوئے آنکھیں موندے پڑی کشل کو جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا "ہوں..کوئی سا بھی" کشل کی آواز سے اس کی نیند کا اندازہ آرام سے ہورہا تھا "کیا مطلب یار.. سہی سے بتاؤ نہ" زارا نے بےچینی سے پوچھا "ابھی مجھے نہیں پتا زارا کل ہی دیکھوں گی" کشل نے آنکھیں موندے ہی جواب دیا "اچھا میں کونسا پہنوں" زارا نے اشتیاق سے کشل سے پوچھا "کل بتاؤنگی" کشل نے آنکھیں کھولنے کی زحمت اب بھی نہیں کی تھی "اچھا.." زارا کا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیاتھا جسے کسی نے دیکھا یا نہیں لیکن ابتسام نے بہت غور سے دیکھا تھا "زارا تم میرا وہ نیو بلیک والا پہن لو.. تم پہ بہت اچھا لگے گا" کشل نے اچانک اٹھتے ہوئے کہا "نہیں کشل وہ تمہارا نیو ڈریس ہے اور پھر تم نے اتنے دل سے بنوایا اور ایک بھی دفع نہیں پہنا... میں کیسے پہن سکتی ہوں" زارا کو بلکل منظور نہیں تھا کہ وہ کشل کا نیا جوڑا پہنے "کچھ نہیں ہوتا پاگل..بس تم وہ ہی پہنو گی" کشل نے جیسے فیصلہ سنایا تھا "نہیں کشل! میں وہ نہیں پہنوں گی!" زارا نے حکمیہ اندازمیں کہا جس پہ کشل نے اسے دیکھا "اوکے! پھر تم کل میرا دیا ہوا ڈریس ہی پہنوگی!" کشل نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہ کشل ہی کیا جو کسی کی بات مان جائے "کشل..." زارا نے کچھ کہنا چاہا لیکن کشل نے اسے اپنے بڑے بڑے بنٹے دکھا کے چپ کرا دیا "اور تم کیا پہنو گی" زارا نے کشل سے پوچھا "کل کی کل دیکھیں گے" اس نے جیسے ناک سے مکھی اڑائی تھی اور بات ہی ختم کردی تھی جس پہ کسی نے بہت غور سے دونوں کو دیکھا تھا..
************************************
کھانے کی ٹیبل پہ سب خاموشی اور اچھے موڈ میں کھانا کھا رہے تھے جب دادا جان نے گلا کھنکھارا جس پہ سب الرٹ سے ہوگئے "احمد اور ابراہیم تم دونوں کھانے سے فارغ ہوکے میرے کمرے میں آنا اور شمسہ اور شہناز تم دونوں بھی" دادا جان نے حکمیہ انداز میں انہیں بولا جس پہ چاروں نے احترام سے اثبات میں جواب دیا "اوہو.. میٹنگ ہوگی واہ! اور ہمیں تو پوچھا بھی نہیں ہنہہ" دادو نے کچھ خفگی سے شوہر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا "ارے بیگم آپ کا اور میرا کمرہ تو ایک ہی ہے نہ پھر میں آپ کو کیوں بلاؤنگا آپ تو پہلے سے ہی ہونگی" دادا جان نے گڑبڑاتے ہوئے وضاحت دی جس پہ دادو نے دادا جان کو گھوری سے نوازا بولیں کچھ نہیں سب ان دونوں کو دیکھ کے مسکرا دیئے اور دادا بےچارے برا پھنسے تھے اب بعد میں شامت آنی تھی خیر خوشگوار ماحول میں کھانے کا اختتام ہوا..
************************************
"ہوں..تو کیا خیال ہے" کشل نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے کسی تفتیشی افسر کی طرح سوچتے ہوئے جاسوسوں کی طرح کہا تھا "کس چیز کا" زارا نے مگن سے انداز میں پوچھا جس پہ اس نے اسے گھوری سے نوازا اور اسے تو جیسے فرق ہی نہیں پڑتا تھا "زرمینےےے او میری زرمینے" ابھی کشل کا گانا شروع ہی ہوا تھا کہ زرمینہ نے اکتائے ہوئے انداز میں فوراً پوچھا "کیا ہے" جس پہ کشل سر جھٹک کے بولی "یار مجھے لگ رہا ہے جیسےکھچڑی پک رہی ہے" کشل نے آگے ہوتے ہوئے رازدارانہ انداز میں کہا وہ سب ابھی کشل کے کمرے میں جمع تھیں "ہنہہ..ابھی تو بریانی بننے والی ہے آپی" انزلہ نے موبائل میں سے چہرہ اٹھا کے جیسے معلومات میں اضافہ کروایا تھا "ایں..کیا بول رہے ہو دونوں" فائقہ کوکچھ سمجھ میں نہ آیا تو پوچھ ہی لیا "اوہو یار آپکی شادی کی بات کر رہے ہیں" کشل نے جلدی سے کہا اور دوبارہ اپنے چھوٹے پیکٹ کی طرف متوجہ ہوئی "تمہیں کیسے پتا..کچھ سن کے آرہی ہو؟ " کشل نے آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے پوچھا "ارے بولو بھی" کشل نےاکتا کے انزلہ سے کہا جو موبائل میں ایسے منہ دیئےبیٹھی تھی جیسے اس سے ضروری کام کوئی نہیں "ہٹو تم لوگ! میں خود دیکھ کے آتی ہوں" کشل نے اپنی گود میں رکھا تکیہ بیڈ پہ پٹخنے کے سےانداز میں رکھا اور کھڑی ہونے لگی تو زارا بول پڑی "دیکھو کشل مت جاؤ ورنہ میں نہیں بچاؤں گی!" زارانےفوراً ہاتھ اٹھا لیئے تھے "پہلے کونسا بچاتی ہو چڑیل" اور یہ کہتے کہتے کشل کمرے سے نکلتی چلی گئی اور زارا سرجھٹک کے رہ گئی.
وہ تیز تیز سیڑھیاں اتر رہی تھی بلکہ کود رہی تھی کہنا زیادہ مناسب ہوگا وہ جلدے سے گئی اور دادا جان کے کمرے کے دروازے کے سامنے احتیاط سے کھڑی ہوگئی اور سننے کی کوشش کرنے لگی تو اندر سے اسے دادو کی آواز آئی "اتنی جلدی نہیں شمس صاحب کچھ تو وقت درکار ہوتا ہی ہے" اس نے سنا اور اسے لگا جیسے اسکے پیچھے کوئی ہے لیکن وہ پلٹی نہیں اور دوبارہ کان لگا لیئے "ہمم..لیکن اب ہم کیا کر سکتے ہیں.." داداجان کی آواز آئی اور ان کے فوراً بعد ابراہیم صاحب کی "کوئی بات نہیں ابو..فائقہ بھی ہماری بیٹی ہے ہم کر لیں گے سب" اور آگے وہ سنتی ہی کہ اچانک..اسکا بازو کھنچا اوروہ کسی سےبہت برا ٹکرائی "کب ختم ہوگی تمہاری یہ عادت" اس کی سماعتوں سے جب یہ آواز ٹکرائی تو اسنے تھوک نگلا اور گہری سانس لے کے بہت اعتماد سے نظریں اٹھائیں "جب تمہاری یہ" کشل کا اشارہ اس کے بازو کو دبوچنے کی طرف تھا جس پہ ابتسام نے اس کا ہاتھ فوراً جھٹک دیا تھا "باتیں سننے آئی ہو اِدھر؟" اس نے ہموار سے لہجے میں پوچھا "ہاں ظاہر ہے..لڈی تو ڈالنے سے رہی" اس نے بھی عام سے انداز میں جواب دیا جس پہ وہ سر جھٹک کے رہ گیا "اچھا جاؤ کمرے میں ابھی خود ہی پتا چل جائے گا جو بھی ہوگا" اس نے عام سے انداز میں کشل سے کہا "آہمم...آج موڈ کیسے اچھا ہے جناب کا" کشل نے شوخ ہوتے ہوئے کہا "جارہی ہو یا فائز کو بلاؤں" اس نے ہاتھ باندھتے ہوئے سکون سے کہا
"دھمکی دے رہے ہو؟" اس نے بھی اسی کے انداز میں کہا
"جو سمجھو" اس نے ذرا سے کندھے اچکاتے ہوئے بےنیازی سے کہا
"میں تو کچھ سمجھ ہی نہیں رہی" اس نے بھی بےنیازی سے کہا
"جو چاہو"
"سوچ لو!"
"سوچ لیا!"
"بعد میں نہ مت کہنا"
"نہیں کہوں گا"
"پہلے سن تو لو"
"ضرورت نہیں"
"میں اب بھی کہتی ہوں سوچ لو"
"میں اب بھی کہہ رہا ہوں سوچ لیا!"
" آر یو شیور؟"
"شیور!"
"اوکے! تو جاؤ!"
"کہاں"
"تم نے کہا جو چاہو..تو اب میں چاہتی ہوں تم یہاں سے جاؤ اور مجھے ڈسٹرب نہیں کرو" اس نے آنکھیں گھماتے ہوئے بڑے مزے سے کہا اسے پتا تھا ابتسام احمد خان اپنی زبان سے نہیں پھرے گا تبھی وہ سکون سے کھڑی اسے دیکھ کے ایک ادا سے پلٹی اور دراوازے کے قریب ہوئی کے اچانک "تمہیں تو میں بتاتا ہوں" اس نے کشل کابازو اپنی گرفت میں لیا اورالٹا ہی لے کے چلنے لگا "اللہ ہائے میں گر جاؤنگی چھوڑو" وہ ابتسام سے ہاتھ چھڑوانے لگی لیکن اس کی گرفت مضبوط تھی وہ خود تو سامنے دیکھ کےچل رہا تھالیکن کشل کا ہاتھ الٹا پکڑا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ سامنے نہیں بلکہ پیچھے دیکھ پا رہی تھی "چپ کرکے چلو" وہ اسے لیتا ہوا سیڑھیوں تکا آیا اور ایک لمحے کو رکا لیکن پھر دوبارہ ویسےہی اس کا ہاتھ پکڑے چلنا شروع ہوگیا "ابتسام میں گرجاؤنگی پلیز چھوڑو" ابکے کشل نے ذرا سختی اور سنجیدگی سے کہا جس پہ ابتسام رکا اور اس کو سیدھا کرکے دوبارہ اس کا بازو پکڑ کے اوپر لے جانے لگا "میں نے کہا ابتسام ہاتھ چھوڑو میرا!" اس نے اس بار اور بھی سختی سے کہا اور ایک قدم بھی آگےنا بڑھایا "کبھی نہیں!" اس نے بھی سختی سے کہا اور چل دیا
اب کون بتائے انہیں کے ابتسام کے الفاظ پورے ہونگے بھی یا نہیں..
کون بتائے کہ وہ ساتھ چل سکیں گےبھی یا نہیں..
لیکن کون بتائے..
کون بتائے؟
اس نے اوپر لا کے اس کے کمرے کا دروازہ کھولا اور اسےاندر کیا "اب دکھو تم مجھے نیچے" اس نے اتنی سختی سے کہا کے کشل بھی رہ نہ پائی "میں توجاؤں گی تم اپنی آنکھیں بند کر لینا" یہ ہی کشل کے غصے کا انداز بھی تھا "تم...!" ابتسام نے سب کی موجودگی کا خیال کرکے جملہ ادھورا چھوڑا "ہاں مجھےپتا ہے میں کیا ہوں. کون ہوں! سمجھے! آئندہ مجھ پہ اپنا غصہ دکھانے کی ضرورت نہیں اور ہمت بھی مت کرنا اب میرا ہاتھ پکڑنے کی!" کشل نے اتنی سختی اور اتنے غصے سے انگلی اٹھا کے کہا تھا کے سب ہی ششدر رہ گئے تھے اور وہ سر جھٹکتی سٹڈی روم کی طرف بڑھ گئی اور ابتسام ہکا بکا کھڑا رہ گیا..
************************************
"کشل.." وہ دونوں اپنے ڈپارٹمنٹ کی طرف جا رہی تھیں "ہوں" اس نے چلتے چلتے زارا کی طرف دیکھتے جواب دیا "کل تمہیں اچانک کیا ہوگیا تھا کشل؟ تم تو کبھی اس طرح غصہ نہیں کرتیں اور کل تم نے جس طرح بھائی سے بات کی اور تمہارا غصہ.." زارا نے بولتے بولتے جھرجھری لی "سوری زارا لیکن مجھے بلکل اچھا نہیں لگا تھا جب ابتسام نےمیرا بازو پکڑا تھا.. میں نے اس سے کہا بھی لیکن جب اس نےنہیں چھوڑا تو مجھے غصہ آگیا" وہ سادگی سے بتا رہی تھی "لیکن کشل یہ سب تو پہلے بھی چلتا تھا" زارا سمجھنے سے قاصر تھی اور سمجھ تو کشل کوبھی نہیں آرہی تھی "ہوں..زارا لیکن تب کی بات اور تھی..اور مجھے خود نہیں سمجھ آرہا کہ میں کیوں غصہ ہوئی تھی لیکن میں ابتسام سے سوری کرلوں گی" زارا نے غور سے کشل کو دیکھا وہ واقع کچھ پریشان سی لگ رہی تھی زارا نے گہری سانس لی اور بولی "کشل کوئی ضرورت نہیں سوری بولنے کی اور اگر کوئی بات ہے تو تم مجھے بتا سکتی ہو" اس نے مسکرا کے زارا کی طرف دیکھا "ہاں بات تو ہے" اس نے جھٹ سے بول دیا تھا "ہاں بتاؤ کیا بات ہے" زارا کو دلی خوشی ہوئی تھی کہ اس کی بہن جیسی کزن نے اسے اس قابل سمجھا پھر سے..
"یار بات یہ ہے کہ میں شام میں کیا پہنوں" کشل نے سادگی سے اسے مسئلہ بتا دیا تھا "وہ میری ذمہ داری!" زارا نے مسکرا کے کہا تو کشل کو کچھ سکون ہوا اور دونوں مسکرا کے کلاس میں داخل ہوئیں تو سامنے ہی ابلاج اپنی مخصوص جگہ بیٹھی تھی وہ دونوں اسے دیکھ کے حیران ہوئی تھیں "تم یہاں!" دونوں نے ساتھ پوچھا تو ابلاج عجیب عجیب شکلیں بناتے بولی "نہ سلام نہ دعا..سیدھا سوال..ہنہہ" اس نے خفگی کا اظہاد کیا جس پہ دونوں نے ہی اسے نظرانداز کیا اور زارا بولی "آج تو تمہاری منگنی ہے پھر بھی تم یونی آگئی" وہ بیٹھتے ہوئے بولی کشل پہلے ہی اسکی باتیں نظرانداز کرتی بیٹھ چکی تھی "ہاں یار..امی تو منع کر رہی تھیں لیکن میں کیا کرتی اتنے کزنز میں.. تو میں آگئی لیکن جلدی چلی جاؤنگی" اس نے پوری بات میں سے صرف 'اتنے کزنز' پہ زارا کو دیکھا تھا اور زارا نے اسے اور دونوں کی ہنسی چھوٹ گئی "ہاں ہاں بھئی یہ تم دونوں کی ہی ہمت ہے ورنہ مجھ سے نہیں ہوتا" اس نے باقاعدہ ہاتھ اٹھا کے جیسے بال ان کے کورٹ میں ڈالی تھی "ہاں یہ تو ہے" کشل نے مسکراتے ہوئے کہا اور کل والا واقعہ اس کی نظروں کے سامنے گھوم گیا "اچھا یہ بتاؤ پہنو گی کیا" ابلاج نے اشتیاق سے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جس پہ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر کشل بولی "شام میں ہی دیکھ لینا" اور ابلاج اس کی طرف گھومی "مجھے پتا ہے زارا کے تو پھر بھی شاید ڈسائڈ ہوگئے ہوں لیکن تم..! تمہاری عادتوں سے واقف ہوں میں! ہنہہ" اور سیدھی ہوکے بیٹھ گئی "اچھا نا چھوڑو یہ بتاؤ...." ابھی زارا بول ہی رہی تھی کہ سر کلاس میں داخل ہوئے اور وہ اپنی بات پھر ادھوری رہ جانے پہ تاؤ کھا کے رہ گئی..
ابلاج آج جلدی چلی گئی تھی اور اب کوئی کلاس بھی نہیں تھی تو وہ دونوں بھی بور ہونے لگیں "کشل بھائی کو بلا لوں کیا؟" زارا نے کشل کی طرف دیکھتے پوچھا جس کی نظروں کے سامنے کل کا واقعہ پھر سے گھوم گیا تھا "ہوں ہاں دیکھ لو" اسنے کہتے ساتھ ہی نظریں اپنے ہاتھوں پہ جمادیں "کشل بھائی آرہے ہیں" زارا نے اٹھتے ہوئے کہا "وہ آج آفس نہیں گیا کیا" کشل نے چونکتے ہوئے اس سے پوچھا "نہیں یار کچھ طبیعت ٹھیک نہیں تھی..چلو" اس نے موبائل دیکھتے ہی جواب دیا اور اچانک چلنے کا اشارہ کیا "اتنی جلدی کیسے آگیا" کشل کو حیرت ہوئی تھی "وہ پاس ہی کام سے آئے ہوئے تھے تو اس لیئے" زارا نے کشل کو چلتے چلتے ہی جواب دیا.
جب دونوں باہر پوہنچیں تو وہ گاڑی سے ٹیک لگائے ہاتھ باندھے کھڑا نظریں نیچی کیئے کسی سوچ میں غرق تھا شاید ان دونوں نے پاس جاتے ہی اسے سلام کیا تو اس نے زارا کو دیکھتے ہوئے جواب دیا اور پوچھنے لگا "آج کوئی اور کلاس نہیں تھی کیا" اور چلتا ہوا اپنی سیٹ کی طرف آیا اور دروازہ کھول کے بیٹھ گیا زارا بھی فرنٹ سیٹ پہ اپنے بھائی کے ساتھ بیٹھی تھی اور کشل پیچھے کی سیٹ پہ "بھائی بھوک لگ رہی ہے ذرا دو منٹ ادھر روک دیں میں چپس لے لوں" زارا نے معصوم شکل بناتے ہوئے کہا اور پاس ہی ایک چھوٹی سی دکان کی طرف اشارہ کیا تو ابتسام نے بنا کچھ کہے گاڑی وہیں روک دی اور اترنے لگا تو وہ بولی "نہیں بھائی آپکو کیا پتا میں کونسے چپس کھاتی ہوں میں خود ہی لے آتی ہوں" اور یہ کہتے ہی وہ اتر گئی اور ابتسام سامنے دیکھنے لگا اچانک اس نے بیک مرر (شیشے) میں دیکھا تو وہ نظریں اپنے ہاتھوں پہ جمائے بلکل خاموش بیٹھی تھی اس نے نظریں پھیر لیں "سوری" اسنے اتنے اچانک کہا تھا کہ ابتسام چونک گیا "مجھ سے کہہ رہی ہو؟" اس نے بےیقینی سے پوچھا "ہمم..سوری کل میں نے زیادہ ہی بول دیا تھا" اس نے سادگی سے معافی مانگ لی تھی "تم! تم مجھ سے معافی مانگ رہی ہو!" ابتسام کو یقین نہیں آرہا تھا اس نے سادگی سے آنکھیں اٹھائیں اور سادگی سے ہی مسکرا کےبولی "جی آپ سے ہی..کیونکہ میرا ماننا ہے معافی مانگ لینے سے کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوجاتا بلکہ غلط فہمی دور ہوجاتی ہے اور اگر نہ بھی ہو تو بھی کبھی نہ کبھی ہمارے دل سے بدگمانی کی چادر ہٹ ہی جاتی ہے" اس نے سادگی سے اپنے دل کی بات کہی تھی لیکن ابتسام کو وہ کچھ الگ لگی تھی اچانک سے اسے اس کی مسکراہٹ کچھ الگ لگی تھی لیکن وہ سمجھ نہیں پایا تھا "کوئی بات نہیں لیکن آئندہ ذرا خیال کرنا" ابتسام نے بھی ہلکا سا مسکرا کے بات ختم کردی تھی اتنے میں زارا بھی ہاتھ میں چپس سے بھرا شاپر لیئے آرہی تھی "افف..بڑی گرمی ہے" اس نے آتے ہی شاپر پیچھے پھینکا جس پہ کشل مسکرا دی "چلیں؟" ابتسام نے پوچھا "جی چلیں" زارا نے بھی بھائی کو اجازت دی "میرا خیال ہے لنچ کرلیا جائے" ابتسام نے مسکراتے ہوئے کہا "وائےناٹ" زارا نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا اور کشل پھیکا سا مسکرا کے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی..
ابتسام نے ایک مشہور ہوٹل کے سامنے لاکے گاڑی روکی اور وہ دونوں بھی باہر کو نکلیں اور اندر چل پڑیں کشل نے زارا کا ہاتھ پکڑا اور کونے والی ٹیبل پہ آکے بیٹھ گئی وہ لوگ بیٹھی ہی تھیں کہ ابتسام بھی گاڑی پارک کرکے ان کے پاس بیٹھ گیا "ہوں..تو کیا کھاؤ گے" اس نے چابیاں میز پہ رکھتے ہوئے پوچھا تو زارا نے جھٹ سے اپنی پسند بتائی جس پہ کشل نے بھی وہی منگوانے کا کہا ابتسام نے ویٹر کو آرڈر دیا اور پھر ان کی طرف متوجہ ہوا "فائقہ آپی کا رشتہ ہوگیا ہے" اس نے مسکرا کے ان کے سروں پہ بم پھوڑا تھا اور وہ دونوں اتنی زور سے چیخیں کہ ابتسام تاؤ کھا کے رہ گیا "کیا سچ میں" کشل کی آنکھوں تک سے خوشی چھلک رہی تھی "ہوں! اگر کل ڈھنگ سے چھپ کے سن لیتی تو شاید تمہیں بھی پتا چل جاتا" اس نے گہری نظروں سے کشل کو دیکھتے ہوئے کہا جس پہ اسکے چہرے پہ ایک لمحے کو شرمندگی کا سایہ آیا اور جھٹ سے چلا گیا "تو اگر تم مجھے پیچھے سے آکے پکڑتے نہیں نہ تو ہاں سن لیتی میں" وہ بھی آخر کشل تھی پیچھے کیسے رہتی
"اگر میں نہ پکڑتا تو تمہارا بھائی تمہیں پکڑ لیتا" ابتسام نے بڑے مزے سے پیچھے ٹیک لگاتے ہوئے کہا
"کیسے پکڑ لیتے بھائی؟ وہ اپنے کمرے میں تھے!" کشل ذرا چونکی تھی لیکن جواب دینے سے چوکی نہیں تھی
"وہ کچن میں تھا" ابتسام نے مزہ لیتے ہوئے کہا اور کشل کے چہرے پہ ایک سایہ سا گزرا تھا "زارا میں رات میں کیا پہنوں" وہ فوراً زارا کی طرف رخ موڑ کے بیٹھ گئی تھی اور بات بدلنے کی اپنی سی کوشش کی "ہاہاہا..میں نے کہا تھا نہ میری ذمہ داری ہے تو بس تم چھوڑ دو" زارا کو کشل کی اس حرکت پہ بےساختہ ہنسی آئی تھی اور مسکرایا تو ابتسام بھی تھا "ہمم..اوکے" اتنے میں ویٹر کھانا لے آیا تھا اور جب وہ کھانا رکھ کے چلا گیا تو ابتسام بولا "رات کو کہاں جانا ہے" اس نے کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پوچھا "ابلاج کی منگنی ہے بھائی" زارا نے چہکتے ہوئے جواب دیا "ہمم..چھوڑ دونگا" اس نے اسی انداز میں کہا "نہیں ڈرائیور چھوڑ دے گا تم کیوں زحمت کر رہے ہو" کشل نے فوراً کہا "میں تو زارا کو کہہ رہا تھا تمہیں اچانک کیا ہوا" وہ کھانے سے ہاتھ روکے اس سے پوچھ رہا تھا. کشل تھوڑا گڑبڑائی "و..ویسے ہی کہا..زارا بھی تو میرے ساتھ ہی جائے گی نہ" اس نےجلدی سے گڑبڑاتے ہوئے وضاحت دی "اوکے..تمہیں بھی چھوڑ دونگا" اس نے سادگی سے کندھے اچکائے اور دوبارہ کھانے میں مصروف ہوگیا اور کشل تاؤ کھا کے رہ گئی..
************************************
وہ لوگ گھر پہنچے تو اڑھائی 2:30 بج رہے تھے وہ دونوں سیدھی اپنے اپنے کمروں میں چلی گئیں اور تھوڑی دیر بعد ہی کشل زارا کے کمرے میں نمودار ہوئی "کونسے؟" اس نے آتے ساتھ ہی پوچھا
"کیا کونسے؟" زارا اچانک سمجھ نہیں پائی تھی
"لیٹی ہوئی کیا ہو اٹھو اور بتاؤ کپڑے کونسے پہنوں میں" کشل نے چڑتے ہوکہا
"یاااررر.. آؤ تم بھی لیٹ جاؤ تمہارے کپڑے نکال دیئے ہیں میں نے" زارا نے زچ ہوتے ہوئے کہا
"کہاں ہیں پھر" وہ بھی اس کے ساتھ ہی لیٹ گئی تھی
"میرے پاس ہی" اور زارا نے آنکھیں موند لیں یہ کشل کے لیئے اشارہ تھا کہ اب چپ رہو مجھے سونا ہے اور وہ واقع خاموشی سے لیٹی چھت کو گھورتی رہی اور اسے پتا ہی نہیں چلا کب نیند کی دیوی اپنے پنکھ پھیلائے اس پہ مہربان ہوئی..
************************************
"زارا چلو" ابتسام اچانک کمرے کا دروازہ کھول کے اندر داخل ہوا اور وہیں رک گیا. زارا کالے رنگ کے پشواس میں ملبوس جس کے گلے اور بارڈر پہ سنہرے رنگ سے کام ہوا تھا اور ساتھ میں ہم رنگ دوپٹہ جس پہ بھی سنہرے رنگ سے ہلکا ہلکا کام ہوا تھا زیب تن کی ہوئی تھی اور ہلکے سے میک اپ میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی تو وہیں کشل بھی مہرون کرتی جس پہ سنہرے رنگ سے بہت باریک کام ہوا تھا سنہرا پاجامہ اور ہم رنگ دوپٹہ جس پہ مہرون رنگ سے بہت خوبصورت کام ہوا تھا زیب تن کی ہوئی تھی اور اپنے سیاہ گھنےگھنگریالے بالوں کی اونچی پونی ٹیل بنائے میک اپ کے نام پہ کاجل اور نیچرل پنک لپ اسٹک میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی ابتسام کچھ لمحے پلکیں تک نہ جھپک پایا لیکن اچانک بولا "چلو" اور کمرے سے نکل گیا تو اس کے پیچھے وہ دونوں بھی جلدی سےبھاگیں مبادہ وہ انہیں چھوڑ کے ہی نہ چلا جائے. وہ دونوں اونچی ہیل میں بمشکل بھاگتی ہوئی اس کے پیچھے آرہی تھیں کہ اچانک ابتسام رکا اور کشل جو اپنا دوپٹہ سنبھالتی ہوئی آرہی تھی دھڑام سے اس کی پشت سے ٹکرائی "اندھی!" ابتسام کو شدید غصہ چڑھا تھا اس کے ٹکرانے پہ "تم اچانک کیوں رکے ہاں! سارا الزام بس مجھ پہ ہی ڈالنا تم!" کشل بھی تپی بیٹھی تھی اب اپنا دل بھی تو ہلکا کرنا تھا تو ہاتھ نچا نچا کے میدان میں کود پڑی "تمہیں اپنی آنکھوں کے ساتھ ساتھ دماغ کے علاج کی بھی ضرورت ہے" ایک ایک لفظ چبا کے ادا کیا
"میری فکر چھوڑو اپنے دماغ کا علاج کرواؤ" کشل کو بھی شدید غصہ آیا تھا
"خود دماغ سے پیدل ہو اور مجھے دماغ کے علاج کا مشورہ دیتی ہو..واہ!" وہ بھی تپ ہی تو گیا تھا
"اور نہیں تو کیا..اپن.." ابھی کشل بول ہی رہی تھی کہ زارا بول پڑی
"ایک تو آپ لوگ ہر وقت لڑتے ہی رہیئے گا!" زارا نے کچھ سختی اور خفگی سے کہا تھا
"جانا کدھر ہے زارا میں یہی پوچھنے کے لیئے رکا تھا لیکن یہ چڑیلوں کی ملکہ مجھ سے آکے ٹکرا گئی! ہنہہ" اس نے زارا سے پوچھا اور طنز کے تیر بھی چلا دیئے
"مجھے! مجھے کہا..؟" کشل کو جیسے صدمہ لگ گیا تھا
"ہاں تمہیں ہی کہا!" بےنیازی سے کہا گیا
"تم...! تم جنوں کے سردار!" کشل کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا
"میں؟ میں جنوں کا سردار؟" ابتسام کی آنکھیں صدمے سے باہر کو نکل گیئں تھیں
"ہاں تمہیں ہی کہا!" اس نے بھی اسی کا جملہ اسی کو لوٹایا تھا
"بسسس! چلیں بس پہلے ہی کافی دیر ہوگئی ہے" زارا نے جنگ کو سنگین موڑھ پہ جاتے دیکھا تو بیچ کا پُل بن گئی کہ بھئی مجھ پہ سے گزرو تو جنگ آگے بڑھاؤ
"ہنہہ چلو" ابتسام ایک نگاہ غلط اس چڑیلوں کی ملکہ پہ ڈالتا ہوا چل دیا
"ہنہہ" کشل صرف سر جھٹک کے رہ گئی اور آگے بڑھ گئی...
************************************
ان کی گاڑی ایک شاندار سے ہال کے سامنے آکے رکی تو ابتسام بولا "جب آنا ہو تو.." ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ کشل بول پڑی "ہاں ہاں بتا دیں گے" اس نے ہاتھ جھلاتے ہوئے کہا "جب آنا ہو تو خود آجانا!" ابتسام نے ایک ایک لفظ چبا کے ادا کیا "میں تو پہلے ہی تمہارے ساتھ نہیں آنا چاہتی تھی ہنہہ جنوں کا سردار" کشل کو پتا نہیں کیوں اتنا غصہ تھا کہ بات بہ بات لڑ رہی تھی "ہاں تو کیوں آئی چڑیلوں کی ملکہ" ابتسام بھی جوش میں آگیا تھا اچانک پیچھے پلٹتے ہوئے پوچھا "اففف..کیا مسئلہ ہے آپ دونوں کے ساتھ جب دیکھو لڑتے رہتے ہیں!" زارا زچ آچکی تھی ان کی لڑائیوں سے "جاؤ دیر ہورہی ہے"
"چلو دیر ہو رہی ہے" دونوں نے ساتھ کہا اور دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا
نظریں ملیں..
طیش چڑھا..
چہرے سرخ ہوئے
"ہنہہ جنوں کا سردار!"
"ہنہہ چڑیلوں کی ملکہ!" دونوں زیر لب بڑبڑائے اور سر جھٹک کے رہ گئے
اترنے سے پہلے بھی دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور "ہنہہ"
"ہنہہ" کہتے اتر کے اندر چل دی..
وہ لوگ اندر داخل ہوئے تو زارا اور کشل کا تو منہ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا..
************************************
"آپکو پتا ہے" تعدیل نے چمکتی ہوئی آنکھوں سے ڈائجسٹ پڑھتی فائقہ کو جھنجھوڑ ڈالا "یا اللہ..کیا آفت آگئی ہے" اس نے ناگواری سے اپنا ڈائجسٹ اس کے ہاتھ سے چھینا "ارےے..آفت نہیں فتنہ" تہذیب نے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا "ایں..کیا کہہ رہی ہو" فائقہ کو سمجھ میں نہیں آیا تھا "تمیز سے!" زرمینہ نے نخوت سے اسے ٹوکتے ہوئے کہا "آپکو پتا ہے..شادی ہورہی ہے" انزلہ نے جان بوجھ کے بات ادھوری چھوڑی تھی "کس کی؟" فائقہ نے الجھتے ہوئے سوال کیا "باجی بانو کی" تعدیل نے چڑ کے جواب دیا "ہیںںںں! ہائے اللہ..اس کے تو دو بچے بھی ہیں پھر بھی شادی کر رہی ہے" فائقہ نے صدمے کے مارے منہ پہ ہاتھ رکھ لیئے تھے جس پہ سب لڑکیاں سر پیٹ کہ رہ گیئں "اوفوہ آپی..آپ کی شادی ہورہی ہے" زرمینہ نے اچانک اس کے سر پہ بم پھوڑا تھا "ک...کس......کس سے" اس نے اٹکتے ہوئے سوال کیا "حسن بھائی سے اور کس سے" تہذیب نے خوش ہوتے ہوئے اطلاع دی اور فائقہ کی نظروں میں وہ پرکشش سا چہرہ گھوم گیا "اوہو..بلش کر رہی ہیں" زرمینہ نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا جس پہ اس نے سر جھٹک دیا اور بولی "ابھی صرف ہاں ہوئی ہے ابھی کچھ نہیں پتا"
اب کون جانے آگے کیا ہونے والا تھا..
کون جانے مستقبل کیسا ہونے والا تھا..
کون جانے..
آخر کون جانے..
************************************
"اسے آج بھی سکون نہیں ہے!" کشل کو اچانک ابلاج کو اس طرح دیکھ کے شدید غصہ چڑھا تھا اتنے میں ابلاج کی بہن ان دونوں کی طرف آئی اور رسمی علیک سلیک کے بعد وہ ان دونوں کو سٹیج تک لے آئی جیسے ہی ابلاج کی نظر دونوں پہ پڑی "ہائے اللہ..کیا خوبصورتی ہے واللہ" ابلاج ڈرامائی انداز میں دونوں ہاتھ آپس میں ملا کے تھوڑی تلے رکھ کے آدھا منہ کھولتے ہوئے بولی "تمہیں آج بھی سکون نہیں" کشل نے مسکرا کے اسے ٹھوکر ماری تو وہ خفگی سے کیف کی طرف رخ موڑ کے بیٹھ گئی جس پہ کیف مسکرایا اور بولا "میں بھی کب سے یہی کہہ رہا ہوں لیکن مجال ہے جو منگیتر کی بات مان لے" کیف نے کہا تو سنجیدگی سے تھا لیکن آنکھوں میں شرارت واضح دکھ رہی تھی "ایکسکیوزمی.." ابلاج نے آنکھیں پھیلاتے ہوئے کہا
"یس.." کیف نے سنجیدگی سے کہا. بناوٹی سنجیدگی
"منگیتر نہیں ہونے والے منگیتر!" ابلاج نے لفظ 'منگیتر' چبا چبا کے ادا کیا
"افف..تمہیں کب شرم آئے گی ابلاج" زارا نے افسوس سے اپنی سہیلی کو دیکھتے ہوئے کہا
"جب تم لوگوں کو" ابلاج نے انتہائی اطمینان سے کہا
"اب اگر تمہاری آواز نکلی تو یہیں سے نیچے گرا دونگی" کشل نے اسے اپنی بڑی بڑی آنکھیں دکھاتے ہوئے دھمکایا
"ہاتھ تو لگا کے دکھاؤ" ابلاج بھی پھر اس کی ہی دوست تھی
"شرم ہی نہیں آتی بےغیرت کو" ابلاج کی امی نے اچانک پیچھے سے آکے اس کی کمر پہ دھموکا جڑا جس پہ وہ تاؤ کھا کے رہ گئی اور وہ تینوں اپنے دانتوں کی نمائش کرنے لگے
"امی..یار کبھی تو عزت رکھ لیا کریں" ابلاج نے خفگی سے اپنی امی سے کہا
"تم بھی کبھی ماں کی عزت کا خیال کرلیا کرو تو میں بھی سوچ لیا کروں گی" غزالہ بیگم بھی غصے میں تھیں اور تھیں بھی ابلاج کی ہی ماں
"امی.." ابلاج نے ضدی بچے کی طرح پیر زمین پہ پٹختے ہوئے کہا جس پہ ان تینوں کی ہنسی چھوٹ گئی اور وہ بس گھور کہ رہ گئی..
کچھ دیر بعد کیف کی امی نے ابلاج کے ہاتھ میں انگھوٹی پہنائی اور ابلاج کی امی نے کیف کے ہاتھ میں یوں ان کے نئے سفر کا آغاز ہو چلاتھا..
لیکن کون جانے آگے کیا ہونے والا تھا..
کون جانے ان کا سفر کیسا ہونے والا تھا..
کون جانے ان کے سفر کا آغاز ہوا بھی تھا یا نہیں..
مگر کون جانے..
کون جانے..
************************************
وہ اپنے بستر پہ لیٹی چھت کوگھورتی ہوئی اپنی آنے والی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی اس کی سوچیں ہر طرح کی تھیں..کبھی وہ اچھا سوچتی تو کبھی برا مگر وہ پریشان تھی اپنی آنے والی زندگی کو لے کے. اپنے نئے سفر کے آغاز کو لے کے.
نہ جانے یہ سفر کیسا کٹنے والا تھا..
نہ جانے اس سفر کا آغاز کیسا ہونے والا تھا..
نہ جانے اس کے خدشات سہی ثابت ہونے تھے یا نہیں..
مگر کون جانے..
کون جانے..
************************************
Assalam u alaikum❤
Here is the 4th episode of ALMARASIM (TAQDEER)❤
read, vote and comment plzNOTE: m ny jaldi episode deny ka kaha tha but m kaafi busy hogai thi tw sorry inshaAllah ab jaldi hi koshish karun gi❤ or RAMZAN MUBARAK TO ALL❤
VOCÊ ESTÁ LENDO
المراسیم (تقدیر)
Ficção Geralیہ کہانی ہے بھروسے کی یہ کہانی ہے مان کی یہ کہانی ہے اعتماد کی یہ کہانی ہے کچھ اپنوں کے ٹھکرانے کی یہ کہانی ہے ساتھ نبھانے کی یہ کہانی ہے تقدیر کی...