المراسیم (تقدیر) قسط ۵

187 7 7
                                    

"رشتے کچھ انجانے"
کمرے میں سناٹے کا راج تھا اتنا کہ گھڑی کی سوئیوں کی آواز باآسانی کمرے میں گونج رہی تھی باہر سے چرند پرند کی حمد و ثنا کی آوازیں اس خاموشی میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں جب اچانک ایک بہت خوبصورت آواز گونجی وہ کسی لڑکی کی آواز تھی. بہت خوبصورت بہت سکون والی آواز وہ لڑکی قراءت کر رہی تھی اس آواز میں اتنا سکون تھا کہ دل کرتا بس سنے ہی جاؤ اس آواز میں ایک عجب سا سرور تھا. وہ لڑکی بہت محبت و احترام کے ساتھ ایک ایک لفظ ادا کر رہی تھی.
"یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں"
"بےشک اللہ تعالی بےشک!" وہ ساتھ ساتھ ترجمہ بھی پڑھ رہی تھی اور اپنے رب سے محو گفتگو تھی
"پھر تفصیل کی گئیں حکمت والے خبردار کی طرف سے کہ بندگی نہ کرو مگر اللہ کی بےشک میں تمہارے لیئے اس کی طرف سے ڈر اور خوشی سنانے والا ہوں"
"ہاہ! بےشک میرے رب بےشک" وہ ذرا سا مسکرائی اور آگے پڑھنے لگی
"اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو اس کی طرف توبہ کرو تمہیں بہت اچھا برتنا دے گا"
اس نے اچانک توبہ کی "اللہ تعالی معاف کردیں.." ایک آنسو اس کی آنکھ سے ٹوٹ کے گرا "میں کوشش تو کرتی ہوں کہ مجھ سے.. میرے عمل سے میری زبان سے یا میری کسی چیز سے بھی کسی کو تکلیف نہ پہنچے لیکن اللہ تعلالی کیا پتا جانے انجانے میں مجھ سے کسی کا دل دکھ جاتا ہو یا کسی کی دل آزاری ہوجاتی ہو یا کسی کو نقصان پہنچ جاتا ہو اللہ تعالی آپ تو سب جانتے ہیں نہ آپ تو میری نیت جانتے ہیں نہ اللہ تعالی..آپکو تو پتا ہے نہ میں جان کے نہیں کرتی کچھ لیکن مجھ سے ہوجاتا ہے.. سب سے زبان چالتی ہوں, بدتمیزی بھی کرتی ہوں, لیکن اللہ تعالی میں کسی کا نقصان نہیں چاہتی.. میں کسی کا برا نہیں چاہتی.. لیکن اللہ تعالی اگر مجھ سے کسی کا دل دکھ جاتا ہے تو مجھے سکون نہیں ملتا آپ جانتے ہیں نہ یہ بات.. اللہ تعالی معاف کردیں..معاف کردیں..معاف کردیں..." اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں وہ رو رہی تھی بہت رو رہی تھی..اپنے رب کے آگے رو رہی تھی.. جو اپنا دل اپنے رب کے آگے کھول دیتے ہیں تو پھر انہیں دوسروں سے کچھ کہنے ضرورت نہیں رہتی.. اسے بھی نہیں تھی.. وہ اپنا دل اپنے رب کے آگے ہی کھولا کرتی تھی.. اپنے رب سے باتیں کرکے اپنے دل کا حال بتا کے اسے سکون ملتا تھا جیسے آج کل ہمیں لوگوں کے آگے اپنے دل کا حال بتا کے ملتا ہے لیکن یہ غلط ہے.. اگر ہم اپنے اللہ کے آگے اپنے رب کے آگے اپنے دل کا حال بتا دیں گے تو ہمیں دوسروں سے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی! بے شک وہ ذات ہر چیز سے واقف ہے لیکن ہمیں دوسروں کے آگے اپنی تکلیفوں کا اپنی محرومیوں کا رونا نہیں پیٹنا چاہیئے..لوگ تو کچھ کر ہی نہیں سکتے لیکن اگر ہم وہی باتیں اللہ سے کریں گے تو ہماری تکلیفوں میں بھی کمی آئے گی اور ہماری محرومیاں بھی کم ہوتی جائیں گی اور دلی سکون بھی ملے گا..
"ایک ٹھہرائے وعدہ تک اور ہر فضیلت والے کو اس کا فضل پہنچائے گا اور اگر منہ پھیرو تو میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا خوف کرتا ہوں تمہیں اللہ ہی کی طرف پھرنا ہے. اور وہ ہر شے پر قادر ہے"
"اللہ تعالی نے جب وعدہ کردیا تو لوگ کیوں نہیں سمجھتے؟ کیوں منہ پھیرتے ہیں؟ اور پھر اللہ تعالی نے تو منہ پھیرنے والے کے لیئے بڑے دن کے عذاب کا خوف کیا ہے! لوگ یہ بات جان کے بھی انجان بنتے ہیں لیکن ایسا کیوں؟ جب وہ جانتے ہیں کہ ہمیں اللہ کے پاس واپس جانا ہے..یہ دنیا فانی ہے تو لوگ کیوں اس بات کو نظرانداز کرتے ہیں..کیوں نہیں سمجھتے کہ ہمیں ایک نہ ایک دن اللہ تعالی کے پاس واپس جانا ہے..ہاہ! بےشک اللہ تعالی بےشک! بےشک آپ ہر شے پہ قادر ہیں" وہ ذرا سا مسکرائی. اداس مسکراہٹ
"سنو وہ اپنے سینے دوہرے کرتے ہیں کہ اللہ سے پردہ کریں. سنو جس وقت وہ اپنے کپڑوں سے سارا بدن ڈھانپ لیتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کا چھپا اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے بےشک وہ دلوں کی بات جاننے والا ہے"
یہ آیطت پڑھ کر اسکو اپنے جسم میں ایک سرد لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی تھی...
آہ!!
اس نے سرد آہ بھرتے ہوئے اپنے اللہ سے دوبارہ بات شروع کی۔۔۔
"اللہ...سچ میں یہ انسان کتنا نادان ہے وہ دنیا کی رنگینیوں میں محو ہو کر کیسے اپنا اصل فراموش کر دیتا ہے دنیا جو ہے ہی فانی اسکی فنا میں کس بقا کا متلاشی ہوتا ہے۔۔۔
آپ تو دلوں کے راز جانتے ہیں آپ تو وہ بھی جانتے ہیں جو ہم خود بھی اپنے بارے میں نہیں جانتے...انسان کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے یہ تو سوچتا ہے کہ دنیا کیا کہے گی کوئی اس پر ہنسے گا تو نہیں...پر یہ بھول جاتا ہے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ لوگ کیا کہیں گے لیکن اس سے پڑتا ہے کہ ہمارا وہ عمل اللہ کو کیسا لگے گااب دیکھیں اِس والی آیت میں بھی تو ہمارے لئے کتنی بڑی نشانی ہے آپ نے خود ہی فرما دیا ہے کہ جب انسان اپنے ظاہر کو نکھار کر دوسروں کو اچھا بن کر دِکھا رہا ہوتا ہے تب بھی آپ ہوتے ہیں جو اس کے باطن کی آلودگی سے مکمل آشنائی رکھتے ہیں تو پھر ہم آپ سے یہ منافقت کر رہے ہوتے ہیں یا خود کو اندھیرے میں خود ہی دھکیل رہے ہوتے ہیں...اور بےشک اللہ یہ ہم ہی ہیں جو اپنی جانوں پہ ظلم کرتے ہیں..."اسکی آنکھوں سے آشک لڑیوں کی صورت متواتر بہہ رہے تھے اور وہ ان رازوں کو کھنگالنے میں لگی تھی جو اسکے ربّ نے خاص اس کیلئے نازل فرمائے ہیں..
"اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو."
وہ مسکرائی.. کھل کے مسکرائی
"آپ تو اتنے رحیم ہیں اللہ تعالی کہ جو لوگ آپ سے منہ موڑتے ہیں آپ کے بتائے ہوئے راستے پہ نہیں چلتے..برے کام کرتے ہیں..آپ نے جس چیز کےلیئے منع فرمایا ہے وہی عمل دوہراتے ہیں آپ سے منافقت کرتے ہیں آپ سے دور ہوتے جاتے ہیں آپ تو تب بھی ان کی فکر نہیں چھوڑتے! آپ تو تب بھی انہیں رزق عطا کرتے ہیں ان سے ان کی آسائشیں نہیں لیتے..ان کی غلطیوں پہ پردہ رکھتے ہیں..ان کے گناہوں کو سب کے سامنے عیاں نہیں ہونے دیتے.. انہیں رسوا نہیں ہونے دیتے..انہیں در در کی ٹھوکریں نہیں کھانے دیتے..جان و مال کی حفاظت کرتے ہیں.. آپ سے بڑھ کر مہربان اور کون ہوگا میرے رب! آپ سے بڑھ کے محبت کرنے والا اور کون ہوگا اللہ!"
اسے اب اپنے دل میں سکون اترتا محسوس ہورہا تھا وہ خوش تھی اب اور اچانک اس کے دل سے سدا آئی("اور بےشک دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے") وہ کھل کے مسکرائی اور قرآن پاک کو احتیاط سے بند کرکے اس کے غلاف میں رکھا اور بےحد محبت سے چوم کے اس کی جگہ پہ رکھ کہ دوپٹہ اتارتے ہوئے مسکرا کے اپنے بستر پہ آکر لیٹ گئی..
************************************
"او میرے یار..
تو میرا پیار (توبہ)
سدا رہے تو سلامت..(اچھا ہے نہ)
تیری میری..
یہ دوستی..
یونہی رہے تا قیامت..(ہائے تاقیامت جھیلنا پڑے گا)
تیرے میرے..
بچوں کی پھر..
کروا دیں گے ہم شادی..(اف اف)" ابھی وہ 'سریلی' آواز میں آگے گاتی ہی کہ اچانک کشل بھی شروع ہوگئی
"لے جائیں گے..
لے جائیں گے..
بھوت تمہیں اٹھا کے لے جائیں گے..
رہ جائیں گے..
رہ جائیں گے..
گھر والے خوشی مناتے رہ جائیں گے.." کشل نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کی چھوٹی سی کوشش کی
"یہ دنیا یہ چوبارہ..
یہاں آؤں گی میں دوبارہ..
اب تم تو گئی کشل بی بی..
کہ تیرا یہاں کوئی نہیں..
کہ تیرا یہاں کوئی نہیں" ابلاج نے دانت پہ دانت جما کے کھا جانے والی نظروں سے گھورتے ہوئے گانا گایا
"چپ چپ بیٹھے ہو
ضرورکوئی بات ہے..
کیسی ملاقات ہے جی
کیسی ملاقات ہے.." زارا نے کرسی پہ بیٹھتے ہوئے شرارت سے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے گانا گایا
"یہ جو گندے گندے فطور ہیں..
سب زارا کے ذہن کا قصور ہے
مجھے کیوں ادھر بلا لیا
میرے ذہن کو اتنا تھکا دیا.." ابلاج نے طنز کے تیر چلانے کے بعد جھٹ سے کام کی بات کردی
"کچھ پل تو ٹہھر جاؤ نہ..
یا اٹھ کے دفع ہو جاؤ نہ..
یوں کرتے نہیں پاگل پنا..
رک جاؤ بتاتے ہیں نہ.." کشل نے ایک ایک لفظ چبا چبا کے اس طرح ادا کیا کے ابلاج کے تھکے ہوئے ذہن میں بڑی تیزی سے گھنٹیاں بجیں جس پہ اس سے صبر نہ ہوا اور بولی
"بولتی ہو تم یا میں تمہارا سر پھاڑوں" اس نے بےصبری سے کہا
"میرا سر پھاڑو گی؟ ابھی بتاتی ہوں تمہیں..کل والی حرکت بھولی نہیں ہوں میں تمہاری" کشل نے شعلہ بار نگاہوں سے گھورتے ہوئے کہا
"ک..کون..کونسی حرکت ہاں" ابلاج نے تھوک نگلا
"ابھی بتاؤں دوبارہ" کشل نے زور سے میز پہ ہاتھ مارتے ہوئے آگے کو جھک کے دانت پہ دانت جما کے کہا
"ہاں بتاؤ بتاؤ" ابلاج بھی میدان میں کود پڑی تھی اور زارا دونوں کو دیکھ کے ہنسی روکنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کر رہی تھی
"کل جو تم نے میرے ساتھ کیا وہ تم بھول گئی کیا" اسنے ایک بھنو چڑھا کے پوچھا "میں نے کچھ کرا ہی نہیں تو مجھے یاد کیا ہونا ہے" ابلاج بھی پھر اس کی ہی دوست تھی "اچھا؟" اس نے جیسے آخری بار پوچھا تھا
"ہاں!" اس نے بھی گردن کڑا کے کہا
"اب بات بھی کر کے دکھاؤ تم!" کشل نے اپنا بیگ اٹھایا اور کینٹین سے باہر نکلتی چلی گئی
"تم نے غلط تو کیا تھا ابلاج کل" زارا نے دور جاتی کشل کو دیکھتے ہوئے ابلاج سے کہا
"یار مجھے پتا ہے زارا لیکن میرا ارادہ غلط نہیں تھا" ابلاج نے سنجیدگی اور لاچارگی کی ملی جلی کیفیت میں جواب دیا
"پتا ہے لیکن کیا تمہیں کشل کا نہیں پتا" زارا نے مسکرا کے ابلاج کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
"بس یہی غلطی ہوگئی" ابلاج نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا. مایوس مسکراہٹ..
***************************************
پچھلے دن
"ابلاج سیدھی بیٹھو یار دلہن ہو تم" زارا نے اب کی بار ذرا سختی سے اسے ٹوکا تھا "زارا پلیز نہ تمہیں تو پتا ہے میں اتنی دیر ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتی اور نہ اتنی دیر خاموش رہ سکتی ہوں" ابلاج نے بےچارگی سے کہا "تو عادت ڈالو" کشل نے رسان سے اسے سمجھانا چاہا "کشل تم پانی لا دو پلیز" ابلاج نے اچانک سامنے دیکھتے ہوئے کشل سے کہا "اچھا لاتی ہوں" کشل اس کے لیئے پانی لانے کے لیئے اٹھ کھڑی ہوئی وہ جیسے ہی پانی کی طرف پہنچی وہاں ایک وجیہہ و خوبرو نوجوان سفید کرتے پاجامے اس پہ ایش گرے کلر کی واسکٹ پہنے کھڑا دنیا جہاں کی دلکشی سموئے مسکرا رہا تھا کشل نظرانداز کرتی آگے بڑھ کے پانی لینے لگی جب اس نے اسے مخاطب کیا "سلام....نا چیز کو حارب کہتے ہیں" اس نے ایک ہاتھ سینے پہ رکھ کے دوسرا ہاتھ کمر کے پیچھے کر کے ذرا سا سر جھکا کے کہا البتہ نظریں تب بھی کشل پہ ہی ٹکی تھیں
"وعلیکم!" کشل نے سلام کا جواب دیا اور پانی لے کے آگے بڑھنے لگی "غالباً آپ ابلاج کی دوست ہیں" وہ بھی کشل کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا اس سے بات کرنے کی کوشش کرنے لگا "جی!" کشل نے ابلاج کا خیال کرکے جواب دیا
"آپ کو پتا ہے" حارب نے مسکرا کے اس کی طرف دیکھ کے پوچھا "کیا؟" کشل نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا "آپ بہت خوبصورت ہیں" اسنے جزبوں سے لبریز آواز میں کہا "جی؟" کشل ایک لمحے کو کچھ نہیں سمجھ پائی تھی "جی! آپ بہت خوبصورت ہیں.آپ کی آنکھیں... دل کرتا ہے آپ کی ان گہری سیاہ آنکھوں میں ڈوب جاؤ.. آپکی زلفیں.. دل کرتا ہے تاعمر آپکی زلفوں میں الجھ جاؤ.. آپکے ہونٹ.. دل کرتا ہے.." ابھی وہ آگے اپنا جملہ مکمل کرتا ہی کہ اچانک ایک زوردار تھپڑ نے اس کی زبان بند کروائی "اور میرا دل کرتا ہے آپکو اتنا ماروں اتنا ماروں کہ آپکی سات نسلیں یاد رکھیں" کشل نے غصے سے سرخ ہوتے ہوئے کہا جس پہ وہ اس کا سرخ چہرہ دیکھ کے مسکرا دیا "آپ کا لمس.. دل کرتا ہے اس لمس کو تاعمر اپنے اندر سما لوں.. آپ کا غصے سے سرخ ہوتا چہرہ..دل کرتا ہے شب و روز بس اسے ہی تکتا جاؤں آپ کی مخروطی انگلیاں.." وہ پھر سے جذبوں سے لبریز لہجے میں کہے جارہا تھا جب ایک اور تھپڑ اس کے چہرے پہ اپنی نشانی چھوڑ گیا "کس قدر ڈھیٹ انسان ہو! بےشرم!" کشل نے شدید غصے سے کہا اور سر جھٹکتے سٹیج کی طرف بڑھ گئی اور وہ مسکراتا ہوا اس کی پشت پہ پھیلے اس کے گھنگریالے بالوں کو دیکھتا رہا
"کیا ہوا کشل" ابلاج نے پانی کا گلاس اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے پوچھا "وہ کون ہے تمہارا" اس نے مسکراتے ہوئے نظروں سے حارب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا "وہ تو میرے تایا کے بیٹے ہیں حارب بھائی" ابلاج نے کافی جوش سے بتایا
"بےحد ڈھیٹ، بےشرم اور ایک نمبر کا لفنٹر ہے" کشل نے اس قدر غصے سے کہا کہ وہ دونوں ہی چونک گئیں "کیا ہوا کشل" زارا نے آہستہ سے پوچھا
"کچھ نہیں" کشل سر جھٹک کے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی اچانک اس کی سماعت سے آواز ٹکرائی "حارب بھائی آپ نے ہماری کشل کو کچھ کہا ہے کیا" ابلاج نے کسی لگی لپٹی کے بغیر پوچھا اور حارب 'ہماری کشل' پہ مسکرا دیا "ہاں کہا تو ہے" حارب نے مسکراتے ہوئے کہا "تو حارب بھائی آپ سوری کرلیں پلیز کیونکہ کشل کو بلکل اچھا نہیں لگا" ابلاج نے دوٹوک بات کی "جی بہنا میں سوری کرلیتا ہوں" حارب نے مسکرا کے ابلاج کو کہا اور پاس بیٹھی کشل سب کچھ سن کے بھی ان سنا کر رہی تھی اس کی طرف آیا "کشل" حارب نے کشل کے پاس آکے اسے پکارا لیکن جواب ندارد "کشل" اس نے دوبارہ پکارا ابھی بھی کوئی جواب نہیں موصول ہوا "کشل سنیں" اب کی بار حارب نے ذرا زور سے کہا لیکن اب بھی نو لفٹ کا بورڈ چسپاں تھا "سن کیوں نہیں رہیں" اسنے کشل کے سامنے بیٹھتے ہوئے پوچھا جس پہ وہ تاؤ کھا کے رہ گئی "چلے جائیے یہاں سے ورنہ منہ توڑ دوں گی" کشل نے ایک ایک لفظ چبا کے بےحد سنجیدگی سے کہا جس پہ وہ مسکرا دیا "بہت ڈھیٹ ہیں آپ! ایک نمبر کے بےشرم! دو تھپڑ کھانے کے بعد بھی آگئے..واہ!" کشل نے غصے میں طنز کرتے ہوئے کہا لیکن اب بھی اس کی مسکراہٹ پھیکی نہیں پڑی تھی "کیا چاہیئے آپکو؟ سکون سے بیٹھنے کیوں نہیں دے رہے ہیں!" کشل نے ابکی بار ذرا سخت اور اونچی آواز میں کہا "صرف ایک معافی" حارب کی مسکراہٹ اب بھی مانند نہیں پڑی تھی. کشل نے گہرا سانس لیا اور بولی "معاف کردینا آسان نہیں ہے..اور جو باتیں آپ نے کی ہیں اس کے بعد تو بلکل نہیں لیکن میں کوشش کرونگی اب آپ جایئے!" کشل نے دوٹوک انداز میں بات مکمل کی اور اسے جانے کا کہا "شکریہ..لیکن آپکو ایک بات بتانا چاہوں گا کہ یہ باتیں صرف مزاق تھیں اور کچھ نہیں. مجھے ڈیئر دیا تھا جو مجھے نا چاہتے ہوئے بھی کرنا پڑا اور مجھے افسوس ہے کہ میری باتوں سے آپکا دل دکھا جس کے لیئے میں معذرت خواہ ہوں لیکن یہ سب میں نے مجبوری میں کیا. امید کرتا ہوں آپ سمجھ جائیں گی" اس ساری بات کے درمیان بھی اس کی مسکراہٹ مانند نہیں پڑی تھی اور کشل منہ کھولے اسے دیکھے جا رہی تھی "اور ہاں.. ان تھپڑوں کے لیئے آپ سوری مت کیجیئے گا کیونکہ اگر کوئی بھی لڑکی ہوتی تو وہ یہی کرتی اور مجھے بلکل برا نہیں لگا تھا.. اور مجھے یہ ڈیئر دینے والی کوئی اور نہیں بلکہ آپکی اپنی دوست ابلاج تھی اب میں چلتا ہوں شکریہ" وہ مسکرا کے کشل کے سر پہ بم پھوڑ کے چلا گیا تھا اور وہ وہیں بیٹھی حیرتوں کے سمندر میں ڈبکیاں کھا رہی تھی..
***************************************
"کشل بات تو سنو" ابلاج کشل کے پیچھے پیچھے بھاگتی ہوئی اسے پکار رہی تھی جبکہ وہ ناک کی سیدھ میں چلتی تیز تیز قدم اٹھاتی جا رہی تھی "کشل سنو تو پلیز" ابلاج بار بار اسے پکار رہی تھی لیکن وہ نظر انداز کرتی چلے جا رہی تھی جب اچانک ایک زوردار چیخ اس کی سماعت سے ٹکرائی وہ بےاختیار پیچھے پلٹی تو دیکھا ابلاج زمین پہ گری اپنے پیر کو سہلا رہی تھی "اٹھو!" کشل نے اس کے سر پہ پہنچ کے کہا "نہیں اٹھا جا رہا" اس نے سر اٹھا کے اسے دیکھا اس کی آنکھیں پانی سے بھری تھیں. "اٹھو" اب کی بار کشل نے ذرا دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے اپنا ہاتھ بھی آگے بڑھا دیا تھا جس پہ ابلاج کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کے گرا. وہ اس کا ہاتھ تھام کے کھڑے ہوتے ہی لڑکھڑائی وہ گرنے ہی والی تھی کہ کشل نے اسے تھام کے سیدھا کھڑا کیا "زیادہ تو نہیں لگی؟" کشل کے لہجے میں فکرمندی تھی ابلاج نے بنا کچھ کہے سر اثبات میں ہلا دیا "کہاں؟" کشل پریشان ہو گئی تھی "اِدھر" ابلاج نے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جس پہ کشل نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا "آئندہ ایسا مت کرنا ابلاج تمہیں پتا ہے نہ مجھے یہ سب نہیں پسند.. میں..میں ڈر گئی تھی ابلاج بہت زیادہ ڈر گئی تھی.. مجھے..مجھے خ..خو...خوف آرہا تھا اس انسان سے
مجھے خوف آرہا تھا خود سے.. مجھے خوف آرہا تھا تقدیر سے.. ابلاج تمہیں تو سب پتاہے پھر بھی تم نے ایسا کیوں کیا؟" آنسو لڑیوں کی صورت اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے "ایم سوری کشل..میں اب ایسا نہیں کروں گی لیکن کشل میں نے وہ تمہارے لیئے کیا تھا.. تمہاری بھلائی کے لیئے تم میری دوست ہو بلکہ دوست سے بھی بڑھ کے. میں تمہیں اپنی بہن مانتی ہوں کشل اس لیئے وہ سب کیا کیونکہ مجھے پتا ہے جو تم چاہتی ہو ویسا کبھی نہیں ہوسکتا" ابلاج کے آنسو بھی روانگی سے بہہ رہے تھے لیکن وہ اسے سمجھانا چاہتی تھی. اسے راہ دکھانا چاہتی تھی. اس کا ہاتھ تھام کے منزل تک پہنچانا چاہتی تھی.
"کیوں نہیں ہو سکتا ایسا ابلاج" کشل نے اس سے الگ ہوتے ہوئے بہت دلگرفتگی سے پوچھا "تم جانتی ہو یہ بات!" ابلاج نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا
"ہاں شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو" وہ اپنا نچلا ہونٹ کچلتے ہوئے بولی "کشل دیکھو میں تمہارا بھلا چاہتی ہوں. میں چاہتی ہوں...." ابھی ابلاج اسے سمجھا ہی رہی تھی کہ اس کا موبائل بجنے لگا اس نے موبائل بیگ سے نکالا اور ایک نظر کشل کو دیکھ کے کال اٹھا لی "سلام بھائی" اس نے فون کان سے لگاتے ہی سلام کیا دوسری طرف سے ناجانے کیا کہا گیا کہ وہ چونک گئی "ابھی؟" اس نے چونکتے ہوئے پوچھا اور دوسری طرف کی بات سن کے فون کاٹ دیا "کیا ہوا کس کا فون تھا" کشل نے ویسے ہی پوچھ لیا "تم لوگ ادھر ہو! میں کب سے ڈھونڈھ رہی ہوں دونوں کو" زارا قریب آتے ہوئے بولی "اوہو چوہے بلی کی دوستی کب ہوئی" اس نے شوخ ہوتے ہوئے پوچھا "پھرکوئی کام ہوگا جبھی ڈھونڈھ رہی ہو ہمیں" ابلاج بھی سنبھل چکی تھی لحاظہ اپنے اصل روپ میں آگئی "کوئی نہیں ہنہہ" اس نے ابلاج کو دیکھ کے منہ چڑایا اور کشل کی طرف رخ کر کے بولی "بھائی باہر کھڑے ہیں چلو جلدی" کشل نے چونک کے ابلاج کی طرف دیکھا وہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی کشل بمشکل مسکرائی اور ابلاج سے مخاطب ہوئی "چلو ہم چلتے ہیں پھر.." وہ کہہ ہی رہی تھی جب ابلاج بھی بول پڑی "مجھے بھی لینے آگئے ہیں چلو" "آہم آہم سیّاں جی لینے آئے ہیں مادم کو" زارا نے شرارت سے اس کے کندھے سے کندھا مس کرتے ہوئے کہا "تم نا بس" ابلاج سر جھٹک کے کشل کا ہاتھ پکڑ کے آگے بڑھ گئی تو زارا بھی دونوں کے پیچھے لپکی.
جب وہ تینوں باہر آئیں تو دیکھا ابتسام کسی سے کھڑا بات کر رہا تھا جس کی پشت ان کی طرف تھی "یہ کون ہے" زارا نے بےتابی سے سوال کیا "ہمیں کیا پتا ہم بھی تمہارے ساتھ ہی آئے ہیں باہر" کشل نے ہاتھ کا چھجا بنا کے سر پہ رکھتے ہوئے کہا "آؤ دیکھتے ہیں" زارا تجسس کے مارے آگے بڑھ گئی اور وہ دونوں وہیں کھڑی انہیں دیکھتی رہیں "سلام بھائی" زارا نے ابتسام کے پاس پہنچتے ہی سلام کیا اور جیسے ہی اس شخص کو دیکھا جو ابتسام سے بات کر رہا تھا اس کی مسکراہٹ فوراً غائب ہوئی "وعلیکم ان سے ملو یہ ہمارے بزنس پارٹنر ہیں مسٹر حارب سفیان خان اپنی بہن کو لینے آئے ہیں ان کی بہن بھی ادھر ہی پڑھتی ہے" زارا بمشکل مسکرائی اور اس شخص کو بھی سلام کیا جس کے لبوں سے مسکراہٹ جدا ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی
"کیا ہوا اس کے منہ پہ بارہ کیوں بج رہی ہیں" ابلاج نے اچک اچک کے اس شخص کا چہرہ دیکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کشل سے پوچھا "تم سیدھی کھڑی رہو ورنہ پٹو گی" کشل نے اسے سیدھا کھڑا کرتے ہوئے گھرکا
"کشل کدھر ہے آئی نہیں ابھی تک" ابتسام نے زارا سے پوچھتے ہوئے پیچھے دیکھا تو دو لڑکیاں آپس میں عجیب حرکتیں کرتی ہوئی نظر آئیں "کشللل!" ابتسام نے کشل کو پکارا تو وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ہوئیں اور وہ مسکراتا ہوا شخص بھی فوراً پلٹا جس کو دیکھ کے ایک لڑکی کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی تو وہیں دوسری کی ناک پہ غصہ "یہ یہاں کیا کر رہا ہے میں اس کا گلا دبا دوں گی" کشل نے چباچبا کے کچھ اس طرح کہا کہ اس کے لب ہلتے ہوئے محسوس نہ ہوئے "چپ کرو اور چلو" ابلاج نے مسکراتے ہوئے اسے گھرکا اور اس کا ہاتھ تھام کے آگے چلنے لگی "بہت دیر لگا دی ابلاج میں کب سے انتظار کر رہا ہوں.. ان سے ملو یہ ہمارے بزنز پارٹنر ہیں ابتسام احمد خان" حارب نے مسکراتے ہوئے ابتسام کو ابلاج سے ملوایا "جانتی ہوں یہ کون ہیں" ابلاج نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا لیکن جس کو سنانے کے لیئے کہا تھا اس نے سن لیا تھا "جی یہ تینوں کافی پرانی دوستیں ہیں" ابتسام نے مسکراتے ہوئے تینوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "چلیں حارب اب ہم چلتے ہیں" ابتسام نے کہا پھر وہ دونوں مصافحہ کے بعد بغلگیر ہوئے اور اپنی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے "ہنہہ چھچھورا لفنگہ" کشل نے بڑبڑاتے ہوئے اتنی آواز سے کہا کہ پاس سے گزرتے ہوئے حارب نے آرام سے سنا اور مسکرا کے "شکریہ حسن کی ملکہ" کہتا ہوا آگے بڑھ گیا اور کشل تاؤ کھا کے رہ گئی..
*****************************************
وہ لوگ جب گھر پہنچے تو ساری ینگ پارٹی لاؤنج میں بیٹھی محو گفتگو تھی وہ تینوں بھی ان کی طرف آگئے "آہا آگئے یہ بھی" موحب نے نعرہ لگاتے ہوئے کہا "آگئیں آپی" انزلہ نے جوش میں ابتسام کے پیچھے کھڑی کشل سے پوچھا "نہیں روح کھڑی ہے جاؤ جاؤ تمہیں ہی لینے آئی ہے" موحب نے انزلہ کو چھیڑتے ہوئے کہا "تم نہ اپنی یہ کالی زبان بند رکھا کرو"
اب کون جانے موحب کی بات کتنی سچ ہونے والی تھی..
کون جانے کیا ہونے والا تھا..
کون جانے ابھی کتنی مشکلات آنے والی تھیں..
کون جانے..
مگر کون جانے..
"اوفو ایک تو تم لوگ نہ ہر وقت لڑتے رہتے ہو" کشل نے صوفہ پہ بیٹھتے ہوئے کہا "آپ بھی تو لڑتی ہیں ابتسام بھائی سے" اسامہ نے ترکی بہ ترکی کہا جس پہ کشل اور ابتسام کی نظروں کا زبردست ٹکراؤ ہوا 'افف جنگلی بلّہ' کشل نے دل میں کہا اور ایک کشن اٹھا کے اسامہ کے سر پہ مارا "چپ!" اسامہ اپنے آپ کو بچانے کے لیئے جیسے ہی پیچھے ہوا دھڑام سے زمین بوس ہو گیا "ارے ارے.. دیکھو بھئی جلدی دیکھو زمین کو تو کچھ نہیں ہوا" اسجد نے اسامہ کے موٹاپے پہ چوٹ کی "مجھے لگتا ہے ایک کریک تو آگیا ہوگا ارے ہٹو" تہذیب نے اسجد سے کہا اور اسامہ کو دھکیلنے لگی "ایک نہیں دس آئے ہوں گے کروا لینا ٹھیک جب تمہاری کریمیں (creams)خریدنے کے بعد پیسے بچ جائیں تو" اسامہ نے کھڑے ہوتے ہوئے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے جس پہ تہذیب منہ بنا کے پیچھے ہوکے بیٹھ گئی "ایک تو تم لوگ بھی نہ..چپ کرو" تعدیل جو اپنے ڈرامے میں مگن تھی زچ آکے بولی "تم دیکھتی رہو تمہیں کس نے کچھ کہا ہے" زرمینہ جو کب سے اپنے موبائل میں لگی تھی اچانک بولی "اچھا میں چینج کر کے آتی ہوں" کشل مسکرا کے کہتے ہوئے کھڑی ہوگئی تو زارا بھی کھڑی ہوگئی "اوکے تھوڑا جلدی آنا یار بھوک لگ رہی ہے" تعدیل نے ڈرامہ دیکھتے ہوئے ہی پیچھے سے ہانک لگائی تو دونوں مسکرا کے اپنے اپنے کمروں کی طرف چل دیں..
جب وہ دونوں نیچے آئیں تو سب کھانے پہ ان کا انتظار کر رہے تھے وہ دونوں اپنی اپنی نشستوں پہ آکے براجمان ہو گئیں.
سب ہلکی پھلکی بات چیت کرتے ہوئے کھانا کھا رہے تھے جب دادو نے بولا "لڑکیوں تیاریاں کرو" دادو نے مسکرا کے لڑکیوں کو دیکھتے ہوئے کہا "یہ کوئی کام ٹھیک نہیں کرسکتیں دادو. تو آپ کہیں لڑکیوں! تیاریوں کو بگاڑنے کی تیاریاں کرو" موحب نے محلے والی عورتوں کی طرح ہاتھ نچا نچا کے کہا جس پہ ساری لڑکیوں سمیت دادو نے بھی اسے گھورا "لڑکوں! تم سب بھی تیاریاں کرو" دادا جان نے اپنی زوجہ کی توپ نظروں سے موحب کو رہائی دلوا دی تھی "کس چیز کی دادا جان؟" ابتسام نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دادا جان سے پوچھا "برخوردار آپ کے چاچو لوگ آرہے ہیں" دادا جان کی بات پہ ایک لمحے کو ڈائننگ ہال میں بلکل سناٹا چھا گیا بلکل! لیکن پھر اچانک سب بڑوں کو اپنے کان بند کرنے پڑے کیونکہ نوجوان پارٹی زور و شور سے چیخ و پکار کر رہے تھے "دادا جان کیا سچ میں رضوان چچا اور ان کی فیملی آرہی ہے" کشل نے بےحد جوش کے عالم میں پوچھا اس کی آنکھوں سے خوشی پھوٹی پڑ رہی تھی.
"ہاں کچھ دنوں میں آرہے ہیں پھر فائقہ کی شادی کی ڈیٹ بھی فکس کر دیں گے" دادا جان نے تفصیلی جواب دیا ینگ پارٹی نے ایک زوردار نعرہ لگایا اور سب جلدی جلدی کھانا کھا کے اوپر کی طرف بھاگے..
*****************************************
"مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا رضوان چچا کی فیملی آرہی ہے" زرمینہ نے دونوں ہتھیلیاں آپس میں ملا کے تھوڑی تلے رکھ کے ڈرامائی انداز میں کہا "مجھے تو بہت خوشی ہورہی ہے" زارا نے بھی گفتگو میں حصہ لیا "ظاہر ہے اتنے عرصے بعد آرہے ہیں" کشل نے کپڑوں کو الماری میں رکھتے ہوئے کہا "مطلب طفیل بھی آئے گا" زرمینہ نے اب بھی اسی انداز میں کہا "طفیل بھائی" تعدیل نے ٹکڑا لگایا جس پہ زرمینہ نے عجیب سی شکل بنائی اور دوبارہ اسی انداز میں بیٹھ گئی "پہلے پیپرز سے فارغ تو ہوجاؤ پھر کسی کے بارے میں سوچنا" کشل نے چادر درست کرتے ہوئے کہا جس پہ زرمینہ کا حلق تک کڑوا ہوگیا "یہ اگزیمز بنائے کس نے ہیں" انزلہ نے کتاب کو دور اچھالتے ہوئے کہا "کسی نے کیا خوب کہا ہے:
یہ پڑھائی نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیئے..
ہری مرچ کی قلفی ہے اور چوس کے کھانی ہے" اندر داخل ہوتے موحب نے ایک ادا سے شعر پڑھا "اور یقیناً وہ آپ ہی ہوں گے جس نے یہ فالتو شعر پڑھا ہے" انزلہ نے آنکھیں چڑاتے ہوئے کہا جس پہ موحب نے ایک ادا سے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھ کے ذرا جھک کے کہا "بلکل!" اور سیدھا کھڑا ہوگیا "کہا تو خوب ہے ویسے" زارا نے بھی تائید کی جس پہ موحب نے ایک آئبرو اچکا کے انزلہ کو دیکھا اور انزلہ نے آنکھیں چڑاتے ہوئے سر جھٹک دیا..
********************************************
رات اپنے پر پھیلائے شمس ولا پر پوری طرح اتر چکی تھی اندر کا منظر کچھ یوں تھا کہ سب ڈائننگ ہال میں کھانے کی میزپہ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے جب دادا جان نے گلا کھنکھارا اور بولے "تو بچوں آپ سب کا انتظار ختم ہوا چاہتا ہے" دادا جان نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا "کس بات کا انتظار دادا جان" فائز نے ناسمجھی سے پوچھا اور باقی سب بھی پڑھائی میں اتنے محو ہو چکے تھے کہ کسی کا بھی دماغ فوری سمجھ نہ سکا "کل آرہے ہیں وہ سب" دادا جان نے مسکراتے ہوئے اطلاع دی جس پہ سب کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے "واؤ دیٹس گریٹ! کل آخری پیپر ہے چلو اچھا ہے سکون ہو گا" موحب نے میز پہ ہاتھ مارتے ہوئے جوش سے کہا "کس وقت آئیں گے وہ سب دادا جان" کشل نے مسکراتے ہوئے سوال داغا "شام میں" دادا جان نے بھی مسکرا کے جواب دیا جس پہ سب پھولے نہیں سما رہے تھے..
****************************************
"افف شکر پیپر ختم جان چھوٹی" سب نے لاؤنج میں ایک ساتھ داخل ہوتے ہوئے کہا "مجھے تو شام کا انتظار ہے" زرمینہ نے بےتابی سے کہا "ہمیں بھی" سب نے ہم آواز ہو کے کہا جس پہ سب ہی ہنس پڑے.
"افف یار کتنی دیر ہوگئی یہ لوگ آئے نہیں اب تک" کشل نےبےچینی سے ٹہلتے ہوئے کہا.
وہاں
سفید پینٹ اور گرے ٹی شرٹ پہ نیلے رنگ کی جیکٹ پہنے آنکھوں پہ چشمہ لگائے ہاتھ میں موبائل تھامے ایک وجیہہ و خوبرو نوجوان چلا آرہا تھا جس کے ساتھ ایک سمارٹ سی لڑکی جینز کے ساتھ لمبی سیاہ قمیض پہنے ہوئے تھی جو بیچ سے کھلی تھی جہاں سے اس کا جسم دکھ رہا تھا ہاتھ میں موبائل تھامے ہیل کے ساتھ چلی آرہی تھی..
اِدھر
"تمہارے ٹہلنے سے کیا جلدی آجئیں گے؟ نہیں نہ! تو پھر سکون سے بیٹھ جاؤ" ابتسام نے ناگواری سے کشل کو دیکھتے ہوئے کہا "تمہارے پیروں سے چل رہی ہوں؟ نہیں نہ! تو چپ کر کے بیٹھے رہو" اس نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا "اب تم دونوں مت شروع ہوجانا پلیز" فائقہ نے دونوں کے آگے ہاتھ جوڑ لیئے تھے...
وہاں
"اوہ ڈیڈ کدھر رہ گئے آپ کے گھر والے" عفیفہ نے رضوان صاحب سے پوچھا "وہ رہے" رضوان صاحب نے مسکرا کے دور کھڑے اپنے بھائی احمد اور ابراہیم کو دیکھا اور اپنی فیملی کو لیئے اس سمت چل پڑے..
کچھ ہی دیر میں شمس ولا کے باہر گاڑیوں کے رکنے کی آوازیں آئیں تو سب صوفے کی جان بخشتے ہوئے زمین کو سزا دینے لگے. باہر سے آوازیں آنے لگیں تو سب ہی جوش سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے جیسے ہی لڑکیوں نے دروازے کی سمت دیکھا ان کی نظریں زمین میں گڑھ گئیں کیونکہ دادو کے ساتھ عفیفہ چلی آرہی تھی جس کا جسم پوری طرح سے دکھ رہا تھا کشل نے ہمت کی اور آگے بڑھ کے عفیفہ کے پاس پہنچی اور اسے گلے لگایا "کیسی ہو عفیفہ" کشل نے بہت محبت سے اس سے پوچھا "تم کونسی والی ہو" عفیفہ نے چوئنگم چباتے ہوئے نہایت ہی بدتمیزی سے پوچھا "میں کشل" کشل نے اب بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا "اوہ تو تم ہو کشل" عفیفہ کے چہرے پہ فوری طور پہ کچھ ایسے تاثرات آئے کہ کشل الجھ سی گئی "ہاں میں ہوں کشل!" کشل نے بھی بھرپور اعتماد کے ساتھ جواب دیا جس پہ عفیفہ نے ایک نظر اس نازک سی لڑکی کو اوپر سے نیچے تک دیکھا آسمانی اور سفید رنگ کے کپڑوں پہ ہم رنگ دوپٹہ لیئے بالوں کی چوٹی بنائے وہ پراعتماد سی لڑکی کچھ الگ لگی تھی اسے اتنے میں ساری لڑکیاں آئیں اور باری باری اس سے ملیں. کشل رضوان چچا سے ملنے کی خاطر جیسے ہی آگے بڑھی کسی سے ٹکرائی لیکن یہ کون تھا؟ اس کی سمجھ میں نہ آیا جب اس نے نظریں اٹھائیں تو سامنے بےحد دلکش لڑکا کھڑا مسکرا کے اسے ہی دیکھ رہا تھا "ایم سوری وہ غلطی سے.." کشل نے جلدی سے وضاحت دینی چاہی جب اس نے اسے روک دیا اور بولا "کشل..رائٹ؟" اس نے مسکرا کے کشل کو دیکھا تو کشل نے بھی پراعتماد انداز میں جواب دیا "جی!" اس نے مسکرا کے اپنا ہاتھ مصافحے کے لیئے آگے بڑھایا جسے کشل نے نظرانداز کردیا تو وہ بولا "میں طفیل" اس نے ایک ادا سے کہا "جی جانتی ہوں" اور یہ کہہ کے کشل رضوان صاحب اور ان کی زوجہ کی طرف بڑھ گئی اور وہ اس سر پھری لڑکی کی پشت کو مسکرا کے دیکھتا رہ گیا..
"ہاں تو ادھر ہم دونوں رہیں گے" کشل نے عفیفہ کو اپنا کمرہ دکھاتے ہوئے خوشی سے کہا "واٹ؟ ہم دونوں سے کیا مطلب ہے تمہارا؟ مجھے 'اپنا' روم چاہیئے سمجھی! تو تم جا سکتی ہو" عفیفہ نے نہایت بدتمیزی سے کہا جس پہ کشل نے کچھ نہیں کہا اور بستر درست کرنے لگی "تمہیں سنائی نہیں دیتا کیا؟ لیو دس روم رائٹ ناؤ!" (Leave this room right now!) عفیفہ نے ہینڈ بیگ اچھالتے ہوئے بےحد بدتمیزی سے کہا جس پہ کشل نے سنجیدگی سے کہا "یہ میرا کمرہ ہے عفیفہ! میں ادھر سے کہیں نکیں جا رہی. یہاں ہر کمرے میں دو لڑکیاں رہتی ہیں اور فی الحال کوئی کمرہ ایسا نہیں جہاں تم جا سکو. اس لیئے اگر رہنا ہے تو رہ سکتی ہو نو پرابلم!" کشل نے آخر میں مسکرا کے کہا اور اس کا بیگ اٹھا کے بستر پہ رکھا "ہنہہ میرا بیگ کدھر ہے مجھے چینج کرنا ہے" اس نے کشل کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے نخوت سے پوچھا "یہ رہا" دروازے میں کب سے کھڑے ابتسام نے سنجیدہ آواز میں کہا "لاؤ میں اس کے کپڑے الماری میں رکھ دوں" کشل نے سٹپٹاتے ہوئے آگے بڑھ کے اس کا بیگ لینا چاہا جب عفیفہ بولی "تم رہنے دو اس میں بہت قیمتی چیزیں ہیں اور تم...ہنہہ" عفیفہ نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس سے کہا جس پہ کشل مارے شرمندگی کے وہیں رک گئی اور نظریں جھکا کے کھڑی رہی "پھر یہ پکڑیئے مس عفیفہ!" ابتسام نے آگے بڑھ کے اس کا بیگ اس کے قدموں میں رکھا اور کہنے لگا "کیونکہ اگر کشل نہیں اٹھا سکتی تو میں بھی نہیں اٹھا سکتا. ہم سب ایک ہیں مس عفیفہ! اگر آپ کشل کو یہ قیمتی چیزیں نہیں اٹھانے دے سکتیں تو ہم میں سے کوئی بھی پھر اس قابل نہیں کہ ان قیمتی چیزوں کا بوجھ اٹھائیں. اور آپ کو کوئی حق نہیں آپ کسی کی بھی بےعزتی اس طرح کریں. آج ہم کچھ نہیں کہہ رہے لیکن اگر دوبارہ ایسا ہوا تو آپ بھول جایئے کہ آپکو کوئی کچھ نہیں کہے گا. جیسے کہ میں نے ابھی کہا 'ہم سب ایک ہیں!' تو ٹیکنیکلی آپ نے ہم سب کی بےعزتی کی ہے اور آپ نے اچھا نہیں کیا" ابتسام نے بےحد سنجیدگی سے کہا اور خاموش کھڑی کشل کا ہاتھ تھام کے باہر لے گیا اور کمرے میں کھڑی عفیفہ اس کے ایک ایک لفظ کے سحر میں کھو سی گئی تھی..
*******************************************
وہ دونوں چھت پہ کھڑے خاموشی سے ستاروں سے بھرے سیاہ آسمان کو دیکھ رہے تھے جب اس خاموشی کو ابتسام کی آواز نے توڑا "تم نے اسے کچھ کہا کیوں نہیں تھا؟" اس نے کشل کی طرف رخ کرکے پوچھا "میرے کچھ کہہ دینے سے صرف بات بڑھتی اس لیئے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا" کشل نے سنجیدگی سے کہا جس پہ ابتسام بولا "لیکن کبھی ہمیں جواب دینا چاہیئے اپنی سیلف رسپیکٹ کے لیئے. اگر ہم ابھی چپ رہیں گے تو ہمیشہ خاموشی ہی اخطیار کرنی پڑے گی." ابتسام نے بےحد سنجیدگی سے کہا جس پہ کشل نے ایک نظر اسے دیکھا اور بولی "تھینک یو" وہ مسکرا کے اسے ہی دیکھ رہی تھی "کس لیئے؟" اس نے ناسمجھی سے پوچھا "میرے لیئے تم نے اتنا کچھ بولا اس لیئے" وہ اب بھی مسکرا رہی تھی "ایک منٹ!" ابتسام اچانک سیدھا کھڑا ہوا اور گھور کے اسے دیکھا "میں نے تمہارے لیئے نہیں اپنے لیئے بولا تھا" ابتسام کی بات پہ وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی "اپنے لیئے؟" وہ منہ میں بڑبڑائی "ہاں کیونکہ تم اور میں ایک ہی تو ہیں" ابتسام نے مسکرا کے اسے دیکھتے ہوئے کہا جس پہ کشل کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا "ک..کیا مطلب" اس نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا "ایک تو تم بہت ہی بیوقوف ہو.. ہم سب ایک ہی تو ہیں یار" ابتسام نے اسے سمجھایا "اوہ..ہا..ہاں" اس نے گڑبڑاتے ہوئے جلدی سے کہا "چلو نیچے چلتے ہیں" ابتسام نے ایک نظر آسمان کو دیکھا اور اس سے مخاطب ہوا "ہاں چلو" اور دونوں نیچے کی طرف بڑھ گئے..
اب کون بتائے ان کے الفاظ کیسا روپ دھارن کرنے والے تھے..
کون بتائے ابتسام کے الفاظ کونسی مشکل لانے والے تھے..
کون بتائے انہیں کہ ابھی تو مشکلوں کا سفر طے کرنا باقی تھا..
کون بتائے..
لیکن کون بتائے...
*******************************************
Assalam u alaikum❤
Hope you all are fine❤
So here is the 5th episode of ALMARASIM (TAQDEER)❤

NOTE
Sorry for late episode because m bht busy thi.. Blky abhi b hun.. Ramzan hyn tw mjhy time nh mil rha k m likh sakoon lkn m ny koshish ki hy k achi sy achi dy sakoon.. So agr koi b mistake ho ya kch kami reh gai ho tw i'm sorry plz ignore krdijye ga❤ or duaon mai yaad rakhiye ga plz❤ mjhsy ap insta py contact kr skty hyn mery account ka naam (zohakhan.__) hy❤
Jazakillah❤

المراسیم (تقدیر) Where stories live. Discover now