قسط نمبر 3

3K 161 79
                                    


صبح کا وقت تھا اور سورج اپنے پورے آب و تاب سے برس رہا تھا۔
(بقول حمزہ کے ... اس سے جل رہا تھا)

"ارے واہ اماں آج تو صبح ہی صبح کچن میں خوب رونک لگی ہوئی یے"
حمزہ کی تو ویسے ہی کھانے کو دیکھ کر نیت خراب ہو جاتی تھی اب بھی صبح صبح صائمہ بیگم اور عائشہ بیگم کو کھانے کی تیاری کرتے دیکھ کر  اپنے ندیدے پن سے باز نیہں آیا۔

"ہاں بیٹا آج تمہاری بانو دادی آرہی ہیں ... اور تم جاو ڈائیننگ روم میں ناشتہ کرو"

"ارے واہ بانی ڈارلنگ آرہی ہے"
حمزہ نے چہک کے نعرہ لگایا لیکن یہ بھول گیا کہ سامنے ہی عمار بیٹھا آخبار پڑھ رہا ہے۔
"میرا مطلب ہے میری پیاری بانو دادی آ رہی ہیں"
عمار کی گھوری ہی حمزہ کو لائین پہ لاتی تھی .. سو اب بھی ایسا ہی ہوا عمار کی گھوری کی بدولت  اس نے اپنا بیان ہی بدل لیا۔

☆☆☆☆☆...☆☆☆☆☆

"رکو حمزہ میرا ناشتہ ابھی رہتا ہے میں آج بھی تمہارے ساتھ ہی جاوں گی"
وہ جو آج جلدی جلدی ناشتہ کر کے جا رہا تھا کہ پہلے ہی دن فرح کو لیٹ نہیں کرانا چاہتا تھا لیکن انشال کی بات پر وہیں جیسے پتھر کا مجسمہ بن گیا۔ ابھی کل ہی تو اماں نے اسے حمزہ کے ساتھ جانے سے منع کیا تھا۔
ج

بکہ انشال نے 'آج بھی' پر زیادہ زور دیا تھا۔

اس وقت ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ کرنے کو سب ہی موجود تھے
"تم نے تو آج شاید ماریہ کے ساتھ نہیں جانا تھا"
صائمہ بیگم نے انشال کو بظاہر تو عام لہجے میں کہا لیکن انشال ان کا مطلب خوب سمجھ گئی۔

"ارے نہیں تو تائی جان ... چلو حمزہ ورنہ لیٹ ہو جائیں گے"
اب مرتے کیا نہ کرتے کی مقدس حمزہ کو بھی جانا ہی پڑا۔

حمزہ گاڑی چلانے کے ساتھ ساتھ انشال کو برا بھلا بولنے کا کام بھی سر انجام دے رہا تھا لیکن دل میں...
اور انشال حمزہ کی حالت سے خوب محفوظ ہو رہی تھی آخر یہ سارا کھیل اس نے حمزہ کی یہی حالت دیکھنے کو ہی تو کھیلا تھا۔
رات کو جب انشال صائمہ بیگم کے کمرے سے نکلی تو اس نے حمزہ کی فون پہ ہونے والی ساری گفتگو سن لی تھی اور اس نے اسی وقت یہ فیصلہ کیا تھا کی اس فلڑٹی کا ایک فلڑٹ تو ناکام بنانا ہی چاہیے۔

"نشا تم ایک کام کرو یہاں سے پیدل چلی جاو .. مجھے ایک کام ہے"
"ہاں ہاں کیوں نہیں ... ہم ویسے بھی گھر سے تھوڑا ہی دور آئے ہیں تو میں گھر جا کر عمار بھائی کو بول دوں گی کہ وہ مجھے چھوڑ آئیں تمہیں کوئی کام ہے"
انشال بھی کسی سے کم تھوڑی تھی۔۔۔
"ہاہاہاہا ... میں تو مزاق کر رہا تھا ... چڑیل کہیں کی"
حمزہ نے گڑبڑاتے ہوئے کہا لیکن چاہ کر بھی آخری جملہ با آواز بلند نہ کہہ سکا۔۔۔

تھوڑی دیر تو حمزہ اس بلا کے بارے میں سوچتا رہا پھر آخر کچھ دیر بعد بول ہی پڑا۔
"تم پیچھے بیٹھو آج فرح بھی ہمارے ساتھ جائے گی اس کی گاڑی خراب ہے"
فرح دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں تھی لیکن حمزہ کی پر کشش پرسنیلٹی کی وجہ سے ہمیشہ حمزہ کے آس پاس ہی پائی جاتی لیکن حمزہ بھی اپنے نام کا ایک ہی تھا صرف آسائنمٹ بنانے کے لیئے اسے گھاس ڈالتا۔۔۔ اسے کیا وہ ہر لڑکی سے دوستی مطلب کے لیے ہی کرتا تھا۔۔۔ شاید اس لیے کیونکہ وہ حقیقت سے وقف تھا اور شاید تین سال پہلے بنے اس بھولے بسرے رشتے کو تسلیم بھی کر چکا تھا۔۔۔

تم سے محبت تک (Completed) Donde viven las historias. Descúbrelo ahora