قسط نمبر 6

2.3K 147 37
                                    


حمزہ سیٹی بجاتا اپنی ہی دھن میں گھر میں داخل ہو رہا تھا کہ سامنے ہی انشال کو دیکھ کر ایک لمحے کو رکھ گیا جو کہ اس وقت ڈارک بلو کلر کی لونگ شرٹ جس پر وائٹ کلر کی ایمبروڈری کے ساتھ جینز کی پینٹ اور وائیٹ کلر کا دوپٹا اپنے چہرے کے گرد لپیٹے ہوئے صوفے پر بیٹھی ناجانے کہاں کھوئی ہوئی تھی وہ بھی اس کے ساتھ ہی صوفے ہر بیٹھ گیا۔۔ بس حمزہ کے بیٹھنے کی دیر تھی انشال ہوا کی سی تیزی سے اٹھی اور باہر لان میں آ کر چہل قدمی شروع کر دی لیکن وہ اس بات سے بے خبر ہر گز نہیں تھی کہ وہ کافی دیر تک حمزہ کی ایکس رے کرتی نگاہوں کی زد میں رہی جس میں اس کے لئے صرف غصہ ہی غصہ تھا۔۔۔ آخر کو تنگ آکر اس نے پلٹ کر دیکھا تو حمزہ پورے انہماک سے بظاہر تو ٹی وی میں مگن تھا لیکن وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ حمزہ کا خرافات سے بھر پور دماغ اس کو گھر والوں سے ڈانٹ پڑھانے کی کوئی ضرور نئی سازش ترتیب دے رہا ہوگا۔

انشال کے جانے کے بعد حمزہ بظاہر تو ٹی وی دیکھ رہا تھا لیکن یہ بات بھی غلط نہیں تھی کہ اس کی نگاہیں اور سوچ کے تار بہٹک بہٹک کر انشال کی طرف ہی جا رہا تھے اور اب وہ یہ سوچ رہا تھا کہ انشال سے اس تھپڑ کا بدلہ کیسے لیا جائے کہ تب ہی انشال آندھی طوفان کی طرح حمزہ کے سر پر پہنچ گئی۔
"کیا مسلئہ ہے ہاں؟" انشال نے حمزہ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا جواباً حمزہ نے بس ایک ہی نگاہ اس پر ڈالی۔

"اپنی ان آوارہ نظروں کو نا تم ان فلڑٹی لڑکیوں پر ہی گاڑھا کرو" انشال کو اپنا یوں نظر انداز کرنا ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔
"انشال پلیز ۔۔۔ میں تمہارے منہ نہیں لگنا چاہتا بہتر ہو گا کہ تم بھی مجھ سے دور رہو" حمزہ نے محسوس کیا کہ انشال کو اپنا نظر انداز ہونا اچھا نہیں لگا تو اس انا کے مارے حمزہ کو اندر ہی اندر بہت سکون ملا۔
"نشا یہ لو چچی جان کا فون ہے" ابھی یہ تلخ کلامی اور بھی چلتی اس سے پہلے ہی عمار نے انشال کو اپنا موبائل پکڑایا اور حمزہ کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا جبکہ انشال اندر چلی گئی۔
"کیا ہوا ہے حمزہ کچھ دنوں سے تو تمہارے مزاج ہی نہیں مل رہے"
"عمار بھائی میں مجھے لگتا ہے اب دادا جان کے فیصلے کو سب کے سامنے لانے کا وقت ہے" حمزہ نے بنا تمہید کہا۔
"کیوں کیا کوئی بات ہوئی ہے؟" عمار نے پہلو بدلا اور بے چینی سے پوچھا۔
"آخر کب تک میں یہ پھندا اپنے گلے میں ڈال کر پھرتا رہوں گا صاف بات تو یہ ہے کہ مجھ سے اور انشال کی یہ بدتمیزی نہیں سہی جاتی" حمزہ تو گاڑی کی چابی اٹھاتا اندرونی دروازہ پار کر گیا لیکن پیچھے عمار کسی گہری سوچ میں ڈوبتا چلا گیا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"مما آپ کب آئیں گی میرا دل آپ کے بغیر بہت بےچین ہو رہا ہے؟" سلام دعا کے بعد انشال نے بے چینی سے پوچھا۔

"بس نشا کل انشا اللّٰہ میں آپ کے پاس ہوں گی میری جان" عائشہ بیگم نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔۔۔
"مما آپ کی آواز تھکی تھکی کیوں لگ رہی ہے آپ ریسٹ کریں نا" انشال نے عائشہ بیگم کا تھکا ہوا لہجہ محسوس کر لیا تھا۔
"بس بیٹا اب تو ایک ہی دفعہ آرام کروں گی"
"مما پھر آپ اپنا بہت بہت خیال رکھنا میں آپ کو بہت مس کر رہی ہوں" انشال نے اداسی سے کہا۔
"بیٹا آپ بھی اپنا بہت بہت خیال رکھنا اور ہمیشہ یاد رکھنا جس حال میں اللّٰہ رکھے وہی حال بہتر ہوتا ہے لہٰزا ہر حال میں اللّٰہ کا شکر ادا کرنا اور بیٹا صائمہ بھابھی کو آگے سے جواب مت دیا کرو مجھے دکھ ہوتا ہے پتا نہیں آئندہ کبھی تمہیں یہ سب باتیں سمجھانے کا زندگی موقع بھی د۔۔۔"
"اللہ نہ کرے مما کیسی باتیں کر رہیں ہیں" عائشہ بیگم کی بات پر انشال کے اندر کچھ ٹوٹا تھا تبھی وہ ان کی بات کاٹ کر بولی۔
"نہیں میرا بچہ یہ حقیقت ہے اور حقیقت کا ڈت کر سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔ اپنا وعدہ ہمیشہ یاد رکھنا۔۔۔ اپنی ماں کی تربیت کی لاج رکھنا۔۔۔ اپنا بہت سارا خیال رکھنا میری جان اللہ حافظ" عائشہ بیگم کی مسکراتی آواز انشال کے کان میں پڑی ساتھ ہی ٹوٹ ٹوٹ کی آواز کے ساتھ دوسری طرف سے رابطہ منقطع کر دیا گیا۔
اور انشال کو ایک دم سے اپنی زندگی خالی خالی سی لگنے لگی لیکن اس نے اپنے دل میں اٹھنے والے خیال کو جھٹھک دیا اور فوراً سے پیشتر اپنے دل کے سکون کے لئے اللہ کو پکارا۔ جب دل کو تھوڑا قرار نصیب ہوا تو نیند نے اسے اپنی میٹھی آغوش میں بھر لیا۔

تم سے محبت تک (Completed) Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon