"اوئے موٹی ایک کپ چائے تو بنا دو۔"گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے آرام سے صوفے پر براجمان میرال کو دیکھ کر حکم جاری کیا۔
"ملازمہ نہیں ہوں تمہاری اٹھ کر خود بنا لو۔"جواب عین اس کی توقع کے مطابق آیا تھا۔
"پتا نہیں وہ دن کب آئے گا میرال جب تم مجھ سے تمیز سے بات کروگی۔"حمدان ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولا
"تم کونسا وزیراعظم لگے ہو جو میں تم سے تمیز سے بات کروں؟"وہ حسب عادت فوراََ بھڑک گئی تھی۔
"شرم کرو تین سال بڑا ہوں تم سے۔ کم سے کم بھائی ہی بول لیا کرو۔"وہ اسے شرم دلاتے بولا
"اللہ معاف کرے۔ تمہیں پتا نہیں میں کزن کے روپ میں کیسے برداشت کررہی ہوں کجا کہ تمہیں بھائی بنا لوں؟ توبہ توبہ۔ ابھی اتنے برے دن نہیں آئے میرے۔"وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی
"یار بنا دو نا پلیز۔ "اب کہ وہ دھیما پڑتا ہوا بولا
"میں بالکل نہیں بنا کر دے رہی۔"وہ ڈھٹائی سے بولی
"ٹھیک ہے پھر میں تمہاری یہ ساری بدتمیزیاں تمہارے حسین سے منگیتر کو بھیج دیتا ہوں۔"وہ آنکھوں میں شرارت لیے بولا
"خبردار حمدان۔ تم نے اگر عمیر کو کچھ بھی بھیجا تو میں تمہارا حشر بگاڑ دوں گی۔"وہ غصے سے بولی
"تو پھر چائے بنا کر لاؤ۔ "وہ سکون سے بولا
" تم کتنے منہوس ہو۔ تمہیں تو جہنم میں بھی جگا نہیں ملے گی۔"وہ کڑھتے ہوئے کچن میں چلی آئی
"میں ہر جگہ تمہارے ساتھ جانا بھی نہیں چاہتا۔ "
حمدان نے پیچھے سے ہانک لگائی۔۔
"بے غیرت۔ "وہ منہ میں بڑبڑائی
"چینی زیادہ ڈالنا۔"حمدان کی ایک بار پھر سے آواز آئی
"زہر ہی نا ڈال دوں بھیچ میں؟ "وہ غصے سے اس کے آگے چائے پٹختی کمرے میں چلی گئی۔
اور یہ تو ان دونوں کا روز کا معمول تھا کہ ہر بات پر جھگڑا کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اس گھر میں ایسا کوئی دن نا آتا تھا جس دن ان دونوں کے درمیان کوئی لڑائی نہ ہوئی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیضان صاحب اور زیشان صاحب دو ہی بھائی تھے جن کی آگے سے ایک ایک ہی اولاد تھی۔ فیضان صاحب کا ایک بیٹا تھا " ہمدان " جو کہ ایک بائیس سالا خوش شکل نوجوان تھا۔ ہمدان کے بی بی اے کا لاسٹ سمیسٹر چل رہا تھا۔
جبکہ زیشان صاحب کی ایک بیٹی " میرال " تھی جو حال ہی میں انٹر کے امتحانات سے فارغ ہوئی تھی اور اب اپنی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ میرال اپنے بابا کے دوست کے بیٹے عمیر سے منسوب تھی۔
فیضان صاحب اور ان کی بیگم کا تو بے تحاشہ دل تھا کہ وہ میرال کو اپنی بہو بنائیں لیکن زیشان صاحب نے اس بات سے بے خبر پہلے ہی میرال کی منگنی اپنے ایک دوست کے بیٹے سے کردی اور اب دو ماہ بعد ان کی شادی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تائی امی اس کو سمجھا لیں آپ اب اپنے کام کرنے کی عادت خود ڈال لے یہ۔ میں تو دو مہینے بعد چلی جاؤں گی یہاں سے پھر کیا کرے گا؟"
میرال غصے سے تائی امی کی گود میں سر رکھتے ہوئے بولی
"سارے کام تم سے اسی لیے کروا رہا ہوں کہ پھر تو چلی جاؤ گی تم کہاں ہاتھ آنے والی ہو دوبارہ"
وہ اسے منہ چڑھا کر بولا
"بس کیا کرو ہمدان کیوں ہر وقت بچوں کی طرح لڑتے رہتے ہو؟"تائی جان اسے جھڑکتے ہوئے بولیں
"امی آپ ہمیشہ مجھ پر ہی غصہ کرتی ہیں کبھی اس بھینس کو بھی ڈانٹ لیا کریں۔"وہ کھی کھی کرتی میرال کو دیکھ کر غصے سے بولا
"اس کو بھی ڈانٹتی ہوں لیکن تم اس سے زیادہ ڈانٹ کے مستحق ہو۔"وہ اسے بے عزت کرتے ہوۓ بولیں
"امی"وہ صدمے سے بولا
"بس بھی کرو دانی اب اور کتنی بے عزتی کرواؤگے ؟"میرال بمشکل اپنی ہنسی دباتے ہوئے بولی
"تم اپنا منہ بند رکھو۔"وہ غصے سے کہتا باہر چلا گیا۔
"کیوں ہر وقت لڑتی رہتی ہو اس کے ساتھ بچا بیچارہ ہمیشہ تمہاری وجہ سے ڈانٹ کھاتا ہے۔"چچی جان میرال کے پاس بیٹھتے ہوئے بولیں
"توبہ کریں امی ایک تو بچہ اور اوپر سے بیچارہ بھی؟ اللہ معاف کرے۔"وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔اس کی اس حرکت پر وہ دونوں ہنس پڑی جبکہ میرال باہر لان میں آگئی جہاں ہمدان اپنی مخصوص سیڑھی پر بیٹھا ناراض لگ رہا تھا۔
"ناراض ہو؟"میرال نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے سوال کیا
"تم کیوں آئی ہو یہاں؟"وہ ناراضگی سے بولا
"میں یہاں اس لیے آئی ہوں کہ مجھے پتا ہے تم مجھ سے ناراض ہو اور اب تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں سوری کروں لیکن تم یہ بھی جانتے ہو کہ میں کبھی بھی تم سے سوری نہیں کروں گی لیکن مجھے پھر بھی پتا ہے کہ تم زیادہ دیر مجھ سے ناراض بھی نہیں رہ سکتے اس لیے اب ڈرامے بازی بند کرو اور منہ سیدھا کرو اپنا۔"وہ آرام سے ساری کہانی سناتے ہوئے بولی تو ہمدان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔
"تم ہمیشہ ایسے ہی کرتی ہو بچپن میں تمہارے حصے کی مار کھاتا آیا ہوں اور اب جب سے بڑا ہوا ہوں تو ڈانٹ بھی کھانی پڑتی ہے۔"وہ مسکراتے ہوئے بولا
"ہاں تو میں بھی تو بچپن سے ہی تمہارے سارے کرتوت اپنے سر لیتی آئی ہوں نا۔ چیزیں تم توڑا کرتے تھے آگے مجھے ہونا پڑتا تھا کہ میں نے توڑی ہے۔"وہ بھی پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے مسکرا کر بولی
"اور یاد ہے تم مجھے سکول میں کوئی دوست بھی نہیں بنانے دیتی تھی کیونکہ تمہیں لگتا تھا پھر میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ "ہمدان کی بات پر وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑی ۔
"یار کتنے اچھے دن تھے نا وہ بھی۔ کتنا مزا آتا تھا۔"وہ کھوئی کھوئی سی بولی
"میں تمہیں بہت یاد کروں گا موٹی۔"ہمدان ایک دم ہی سنجیدگی سے بولا تو میرال نے چونک کر اسے دیکھا
"سٹھیا تو نہیں گئے کہیں؟ شادی کرکے جارہی ہوں مرنے نہیں جارہی جو ایسی باتیں کررہے ہو۔"وہ حیرانی سے بولی
"ہاں ویسے میں واقعی سٹھیا گیا ہوَ۔ مجھے تو خوش ہونا چاہیے کہ تم سے جان چھوٹ رہی ہے۔ اب ہر وقت یہ تو سننے کو نہیں ملے گا نا دانی یہ لے آؤ دانی وہاں لے جاؤ دانی یہ کھلا دو۔"وہ فوراََ ہی اپنی پرانی جون میں واپس آیا اور اس کی نکل اتارتے ہوئے بولا
"بہت ہی گھٹیا آدمی ہو تم۔ اپنی ساری باتیں بھول گئے جو ہر دس منٹ بعد منہ اٹھا کر چلے آتے تھے مالو یہ بنا دو وہ بنا دو۔ یہ شرٹ استری کردو وہ چیز ڈھونڈ دو۔" وہ بھی اسے جتاتے ہوئے بولی
اور اس کے بعد اگلا آدھا گھنٹہ مزید ان کی بحث جاری رہی۔
یہ تو ان کا روز کا معمول تھا۔ وہ ہر تھوڑی دیر بعد لڑتے تھے پھر ایک دوسرے سے ناراض ہوجاتے اور پھر سے مناتے مناتے ہی لڑنے لگ جاتے۔ بچپن سے لے کر آج تک ان کا یہی معمول رہا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے سب کچھ تھے۔ ایک دوسرے کے ہوتے ہوئے انہیں کبھی کسی اور دوست کی ضرورت ہی نا پڑی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔