آخری عشرہ شروع ہوچکا تھا اور میرال کی الجھن دن بہ دن مزید بڑھتی جارہی تھی۔ ہمدان نے اس دن کے بعد سے خود کو اسی چپ لگا لی تھی کہ زبان سے ایک لفظ نہ نکالتا تھا بس اسے خاموشی کی مار مارتا۔
وہ لاشعوری طور پر اس کی طرف سے کچھ سننے کی منتظر تھی لیکن وہ خاموش تھا۔
وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ ہمدان کی آواز پر چونکی ۔
شاپنگ پر چلو گی؟وہ اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولا۔
میرال نے نوٹ کیا کہ اب وہ پہلے کی طرح استحقاق سے نہیں کہہ رہا تھا بلکہ اس کے لہجے میں آس تھی۔
نہیں۔وہ انکار کرتی اس کے پاس سے نکل کر گزر گئی جبکہ وہ خاموشی سے اسے تکتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج شاید پہلی بار شاپنگ پر میرال کے بغیر آیا تھا اور اس کا کسی چیز میں بالکل دل نہیں لگ رہا تھا لیکن اسے میرال کے لیے کچھ لینا تھا۔ وہ اچھے سے جانتا تھا کہ اس نے اپنے لیے کوئی شاپنگ نہیں کی ہوگی اس لیے وہ اسے ساتھ لانا چاہتا تھا لیکن چونکہ اس نے انکار کردیا تھا اسی وجہ سے اب وہ اکیلا اس کے لیے چیزیں پسند کررہا تھا۔
کافی دیر پھرنے کے بعد اس نے ایک سوٹ پسند کیا۔ رائل بلو انگرکھے کی صرف بازوؤں پر پرلز کا کام ہوا تھا جبکہ باقی سب سادہ تھا۔ نہایت نفیس کام کے ساتھ وہ جوڑا بے حد خوبصورت لگ رہا تھا۔
سوٹ لینے کے بعد ہمدان نے اس کے ساتھ ہم رنگ چوڑیاں اور جھمکے بھی لیے تھے۔
وہ یہ سب پیک کروا کر گھر چلا آیا اور گھر میں آتے ہی اس نے اپنا رخ میرال کے کمرے کی طرف کیا۔ اس کے ناک کرنے پر میرال نے دروازہ کھولا۔ اسے دیکھ کر ایک لمحے کو تو ہمدان کی سانسیں تھم گئیں۔ سفید رنگ کا دوپٹہ چہرے کے گرد نماز کے سٹائل میں لیے وہ بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔
اس کے یوں اس طرح سے دیکھنے پر میرال کا دل زور سے دھڑکا۔
کیا کام ہے؟ یہاں کیوں آئے ہو؟اس کی آواز پر وہ بری طرح چونکا
وہ۔ وہ میں یہ دینے آیا تھا۔ وہ گڑبڑا کر بولا اور ساتھ ہی شاپنگ بیگز اس کی طرف بڑھا دیے۔
مجھے نہیں۔۔پہلے میرال نے حیرت سے شاپرز کو دیکھا پھر انکار کرنے ہی لگی تھی کہ ہمدان بول پڑا۔
میرال دیکھو پلیز انکار مت کرنا میں بہت دل سے یہ چیزیں لے کر آیا ہوں۔ میں زبردستی نہیں کہوں گا کہ تم یہ پہنو لیکن مجھے اچھا لگے گا۔
وہ آس سے بولا لیکن وہ خاموش رہی۔
میرال پلیز اب اس رشتے کی حقیقت کو تسلیم کرلو۔
اسے خاموش دیکھ کر وہ دوبارہ بولا
میرے اس رشتے کی حقیقت کو تسلیم کر لینے سے کیا ہوگا؟ کیا تم مجھے قبول کر پا رہے ہو ہمدان ؟ کیا تم مجھے ایک کزن، ایک دوست سے بڑھ کر کسی رشتے میں قبول کر پاؤ گے؟
اتنے دنوں میں پہلی بار اس نے اپنی خاموشی توڑی تھی۔
سچ بتاؤں تو پہلے تو میں نے کبھی تمہارے بارے میں اس انداز میں نہیں سوچا تھا۔ لیکن جب سے یہ رشتہ بنا ہے میں خود کو تمہیں سوچنے سے روک نہیں پاتا میرال۔ میں شروع دن سے ہی اس رشتے کو قبول کر چکا ہوں۔ تم نہیں جانتی میرال تم مجھے اتنی عزیز کو میں تمہیں ہر رشتے میں قبول کر سکتا ہوں۔
میں نے اس بارے میں بہت سوچا میرال بہت کوشش کی لیکن میں ناکام رہا ہوں۔ میں خود کو تم سے محبت کرنے سے روک نہیں پا رہا اور اب روکنا بھی نہیں چاہتا۔
وہ نظریں جھکائے اس سے اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا جس سے بلاجھجک بچپن سے لے کر آج تک اپنی ہر بات بلا جھجک کہتا ایا تھا۔
لیکن میرے لیے یہ سب بہت مشکل ہے۔ میرے دل میں تمہارے لیے ایسا کوئی جذبہ نہیں ہے۔
وہ صاف گوئی سے بولی
پہلے میرے دل میں بھی نہیں تھا لیکن نکاح جیسے پاکیزہ رشتے میں بندھنے کے بعد خودبخود پیدا ہوگیا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ تمہارے دل میں بھی ضرور پیدا ہوجائے گا۔ وہ یقین سے بولا لیکن میرال خاموش رہی
میرال تم مجھ پر یقین کرو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ تم بس اس رشتے کو دل سے نبھانے کی کوشش کرو۔
وہ یہ کر جانے لگا پھر کچھ سوچ کر پلٹا۔
اور ہاں یہ جوڑا میں تمہارے لیے لایا تھا۔ جس دن تمہیں لگے کہ تم نے دل سے مجھے اور ہمارے مابین رشتے کو قبول کر لیا ہے اس روز یہ ضرور پہننا۔۔
وہ مسکرا کر کہتا کمرے سے باہر چلا گیا جبکہ میرال وہیں اپنے بے ترتیب دھڑکتے دل کے ساتھ بیٹھ گئی۔
وہ جتنا ہمدان سے یا اس کے خیالوں سے بھاگنے کی کوشش کررہی تھی اس کی سوچیں اتنا ہی ہمہ وقت اسے گھیرے رکھتی تھیں۔ وہ جب جب اسے مخاطب کرتا میرال کا دل عجب سے انداز میں دھڑکنے لگتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف ہمدان بے جد خوش تھا۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیونکہ اس نے آج یہ بات شدت سے نوٹ کہ تھی کہ اب ہمدان سے بات کرتے ہوئے میرال کے انداز میں پہلے جیسی بے رخی نہیں تھی۔ اب ان آنکھوں میں پہلے جیسا سرد تاثر نہیں تھا جو ہمدان کو تکلیف دیتا تھا۔
اب اسے پورا یقین تھا کہ وہ اپنی مجبت کو پا لے گا۔ اسے پورا یقین تھا کہ اس کا رب اس کی شریک حیات کی دل میں بھی اس کے لیے محبت ڈال دے گا۔ اس نے پاک مجبت کی تھی اس کی نیت بھی صاف تھی پھر کیسے نا اس کی مجبت امر ہوتی؟ جب اللہ نے ان دونوں کو اس تعلق میں باندھا تھا تو پھر کیسے نا ان کے دل ملتے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخری عشرہ بھی پر لگا کر اڑ گیا اور عید کا دن آ پہنچا۔ سب مرد نماز پڑھ کے آ چکے تھے جبکہ خواتین ناشتے کا انتظام کر رہیں تھیں۔ ہمدان بےصبری سے میرال سے ملنے کا انتظار کررہا تھا۔ اسے آج پورا یقین تھا کہ وہ اسی کے دلائے ہوئے سوٹ میں ملبوس ہوگی لیکن اس کے اس سارے یقین پر اس وقت پانی پھر گیا جب اس نے میرال کو کچن سے نکلتے دیکھا۔ بلاشبہ وہ پستہ رنگ کے سوٹ میں بے حد خوبصورت لگ رہی تھی لیکن ہمدان کے دل میں بہت کچھ ٹوٹا تھا۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا کہ اس کا مان ٹوٹا ہو۔ وہ اپنے خیالوں میں گم ٹٹکی باندھے اسے دیکھ رہا تھا کہ اسی کی آواز پر چونکا۔
عید مبارک۔ وہ ہلکی آواز میں بولی
خیر مبارک۔ وہ مختصر جواب دے کر چلا گیا جبکہ میرال اس کے چہرے سے بتا سکتی تھی کہ ہمدان کو کس چیز کا دکھ ہوا ہے۔ پہلے اس کے دل میں ایا کہ ہمدان کو وضاحت دے لیکن پھر کچھ سوچ کر خاموش ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ عید کا دن تھا جس کے باعث سارا دن مہمانوں میں مصروف گزرا تھا اور اب رات ہونے پر سب مل بیٹھ کر باتوں میں مصروف تھے۔ سب ہنس بول رہے تھے صرف ایک ہمدان ہی سر جھکائے خاموش بیٹھا تھا۔ میرال کی بے اختیار ہی نظر اس کی طرف اٹھی تو پرانی عیدیں یاد آئیں جب وہ اس سے عیدی کے لیے دو دو گھنٹیں بحث کیا کرتا تھا۔ ہر چند رات پر وہ دونوں وعدہ کرتے تھے کہ عید پر لڑائی نہیں کریں گے لیکن اس وعدے کو نبھاتا کوئی نہیں تھا۔ اس گھر میں ہر صبح اس کی لڑائی سے ہی ہوتی تھی لیکن اب جیسے سب بدل گیا تھا۔
ہمدان میرال کی نظریں اپنے اوپر محسوس کرسکتا تھا لیکن وہ اس وقت اتنا دل برداشتہ تھا کہ نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا بھی نہیں اور خاموشی سے اٹھ کر لان میں چلا گیا اور لکڑی کے بنے جھولے پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر یونہی چاند کو گھورتا رہا جب اسے اپنے ساتھ کسی اور وجود کے بیٹھنے کا احساس ہوا۔ اس نے نظریں پھیر کر اپنے بائیں جانب دیکھا تو میرال بیٹھی تھی۔ وہ نہ صرف اس کے ساتھ آکر بیٹھی تھی بلکہ اسی کے دلائے ہوئے سوٹ میں سیدھا اس کے دل میں اتر رہی تھی۔ وہ کبھی ہمدان کو اتنی حسین نہیں لگی تھی جتنا آج اس کی پسند کے کپڑوں میں لگ رہی تھی۔
وہ کافی دیر یونہی خاموشی سے گردن موڑے اسے دیکھتا رہا۔ اس کی نظروں سے گھبرا کر میرال آنکھیں نیچی کیے دھیمے لہجے میں بولی
مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی ہمدان۔
ہاں بولو؟وہ پوری طرح سے اس کی طرف متوجہ ہوا
مطلب مجھے تمہیں کچھ بتانا تھا۔
اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس طرح بات شروع کرے۔
ہاں بتاؤ میں سن رہا ہوں۔
وہ مسکراہٹ دبا کر بولا
میں تم سے معافی مانگنا چاہتی ہوں ہمدان۔ مجھے احساس ہوگیا ہے کہ جو کچھ بھی ہوا اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں تھا۔ وہ شرمندہ سی بولی
اچھا اور؟
اس نے بھنویں اچکا کر پوچھا
اور یہ کہ میں بلاوجہ ہی اس وقت تمہیں الزام دیتی رہی اصل میں میں اس وقت اتنی ہرٹ تھی کہ مجھے محسوس ہی نہیں ہوا کہ میں نے اپنے ساتھ ساتھ تمہیں بھی کتنا دکھ پہنچایا۔
وہ ہنوز سر جھکائے شرمندہ دکھائی دے رہی تھی۔
اچھا اور؟ہمدان کا پھر وہی انداز تھا۔
اور اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنے اور تمہارے مابین رشتے کو ایک موقع دینا چاہتی ہوں۔
اب کہ وہ بمشکل اپنے آنسو روکتے ہوئے بولی
اور کچھ؟
ہمدان نے مسکراہٹ دبا کر پوچھا ۔ اس کی طبیعت پر چھایا سارا بوجھل پن اب ہوا ہوچکا تھا۔
اور یہ کہ میں تمہیں بتا نہیں سکتی میں نے یہ عرصہ کس طرح سے تم سے دور رہ کر گزارہ ہے۔ میں تمہیں بتا ہی نہیں سکتی کہ میرا ایک ایک لمحہ تم سے بات کیے بنا ایک صدی کی طرح گزرتا ہے۔ میں تمہیں نہیں بتا سکتی کہ اس تھوڑے عرصے میں مجھے لگا کہ میں تمہیں کھو دو گی۔ مجھے لگا تھا کہ میں نے اپنے بہترین دوست کو کھو دیا ہے۔ دانی تمہیں اس بات کا زرا احساس نہیں ہے کہ تم میرے لیے کیا ہو۔ میں ایک لمحہ بھی تم سے دور نہیں رہ سکتی۔
اچانک سے ہی اس کے آنسو نکل آئے اور وہ بے اختیار ہی ہمدان کے گلے سے لگی اس سے سارے شکوے کرنے لگی۔
ہاں ہاں مجھے احساس ہے ان سب باتوں کا اور کچھ؟
اس کے اس اظہار پر ہمدان کو لگا جیسے اس کی زندگی مکمل ہوگئی ہو۔ وہ اتنا خوش تھا کہ الفاظ اس کی خوشی کو بیان نہیں کرسکتے تھے۔
ہمدان میں بہت شرمندہ ہوں۔ پلیز مجھے معاف کردو۔
اب کہ وہ ہچکیوں کے درمیان بولی تو ہمدان پریشان ہوگیا۔
میرال میّ تمہیں ہر گز شرمندہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ تمہیں میرا احساس ہے میرے لیے یہی کافی ہے۔
وہ اسے اپنے کندھے سے لگائے پیار سے بول رہا تھا۔
تم اس رشتے کو نبھانے کے حق میں ہو میرے لیے یہ سب سے خوشی کی بات ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میرے ساتھ رہ کر اپنے لیے میری محبت کی شدت دیکھ کر تم خودبخود میری محبت میں مبتلا ہوجاؤ گی۔
چلو اب چپ کرو۔ خبردار جو ایک آنسو بھی نکلا تمہاری آنکھ سے میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میں تمہارے معاملے میں کوئی بے احتیاطی برداشت نہیں کروں گا۔
وہ اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا ۔ اس کے لہجے میں چھپی محبت کو میرال بہت اچھے سے محسوس کرسکتی تھی۔
اب اسے سمجھ آئی تھی کہ اس کا جوڑ عیمر کے ساتھ کیوں نہیں بنا تھا۔ وہ اتنی غیر اہم تھی ہی نہیں کہ کسی بے قدرے انسان کے ہاتھ لگتی۔ وہ تو محبتوں کو قابل تھی۔ محبتیں سمیٹنے کے لیے ہی بنی تھی اس لیے اس کے اللہ نے اسے ہمدان کے نام کیا تھا جو دل و جان سے اسے محبت کرنے کو تیار تھا۔
کچھ دیر آرام سے بیٹھنے کے بعد پھر کسی بعد پر ان میں لڑائی شروع ہوچکی تھی جبکہ اس گھر کی رونق پھر سے واپس آ گئی تھی۔ باہر افق پر موجود آسمان بھی ان کے ملن پر مسکرا رہا تھا۔
تو بلآخر ان کی محبت امر ہو ہی گئی تھی💖
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔