میرال ساکت کھڑی تھی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہین تھا کہ کوئی کبھی اس پر یوں کیچڑ اچھالے گا۔ اس کے اور ہمدان کے رشتے کو یوں سوالیہ نشان بنا دیا جائے گا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کے بہترین دوست کی وجہ سے اس کی زات پر کیچڑ اچھالا جائے گا۔ اس کا ہمدان کے ساتھ گھومنا پھرنا اس کے لیے ایک معمولی بات تھی لیکن لوگ کبھی اس بات کو ایسا رنگ بھی دے جائیں گے یہ اس نے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔
وہ اپنی سسکیاں دبانے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھ کر اندر کمرے میں بھاگ گئی جبکہ پیچھے سب اپنا سر پکڑ کر بیٹھے تھے۔ خاص طور پر ہمدان تو بے انتہا شرمندہ تھا۔ بے قصور ہو کر بھی اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے سب قصور ہی اسی کا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرال ابھی تک کمرے سے نہیں نکلی بھابھی میں کیا کروں۔زرینہ بیگم نے روتے ہوئے تائی جان سے کہا تو انہوں نے ہمدان کو آواز دی۔
ہمدان تم جاؤ اور میرال کو باہر لے کر آؤ۔ ہم میں سے کسی کی بات نہیں سن رہی وہ۔
تائی جان کی بات پر ہمدان سر ہلاتا میرال کے کمرے میں چلا گیا۔
اس نے آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے ہی میرال بستر پر اوندھے منہ لیٹی تھی۔ کھٹکے کی آواز پر سر اٹھایا تو سامنے کھڑے ہمدان کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں سرخی بڑھی۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی؟ میرا تماشہ لگوا کر تو بہت خوش ہوگے تم۔وہ غصے سے بولی
کیا بول رہی ہو میرال؟ اس میں میرا کیا قصور؟
اس نے حیرت سے سوال کیا
قصور ہے تمہارا بلکہ سارا قصور ہی تمہارا ہے۔میں نے منع کیا تھا کہ مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ لیکن تم زبردستی لے گئے مجھے۔ دیکھ لیا نتیجہ اب؟ اب بھی تم کہتے ہو تمہارا کوئی قصور نہیں؟وہ بمشکل اپنے آنسو روکے اونچی آواز میں بول رہی تھی۔
ایسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا تم سمجھ رہی ہو میرال۔ میں نے کبھی بھی ایسا نہیں چاہا تھا۔
وہ دکھ سے اسے وضاحت دینے لگا
ایسا ہی ہے ہمدان۔ تم یہی چاہتے تھے۔ دوستی کی آڑ میں تم نے میری زندگی برباد کی۔وہ غصے سے بولتی آپے سے باہر ہورہی تھی جبکہ ہمدان خاموشی سے بغیر کوئی وضاحت دیے کمرے سے چلا گیا۔ میرال کے الفاظ اس نے کس طرح سے برداشت کیے تھے یہ وہی جانتا تھا۔ جس قدر بے یقینی اور نفرت اپنے لیے وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر آیا تھا یہ وہی جانتا تھا کہ اس نے کیسے اپنے آپ پر ضبط کیا تھا۔ جن آنکھوں میں وہ ہمیشہ اپنے لیے پسندیدگی دیکھتا آیا تھا آج نفرت کا تاثر اس سے برداشت نہیں ہورہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حادثے کو ایک ماہ گزر چکا تھا۔ میرال نے خود کو کمرے تک محدود کرلیا تھا۔ گھر میں اب پہلے جیسی رونق نا رہی تھی۔ میرال سارا سارا دن کمرے میں بند رہتی جبکہ ہمدان نے بھی اپنے ہونٹوں پر قفل لگا لیا تھا۔ وہ جو پہلے ہی خود کو اس سارے واقعے کا قصور وار سمجھتا تھا میرال کے الفاظ نے اسے مزید ندامت میں مبتلا کر دیا تھا۔ وہ خاموشی سے اسکی اجڑی اجڑی سی حالت دیکھتا اور اندر ہی اندر اپنے آپ کو قصوروار سمجھتا رہتا۔
وہ ابھی ابھی آفس سے گھر داخل ہوا تھا۔ چینج کرکے لاؤنج میں آیا تو سب بڑے کسی سیریس ٹاپک پر گفتگو کر رہے تھے۔ وہ وہیں جاکر خاموشی سے بیٹھ گیا لیکن جب اس نے یہ سنا کہ میرال کے لیے ایک اور رشتہ آیا ہے اور گھر والے اس پر ہر لحاظ سے مطمئن تھے یہاں پر اس کا سارا اطمینان غارت ہوگیا۔ وہ خود اپنی حالت نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ وہ میرال کے رشتے والی بات سے اتنا بے سکون کیوں ہورہا تھا؟
وہ وہاں سے خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آگیا کہ راستے میں بے اختیار ہی اس کی نظر میرال کی طرف اٹھی جو کہ لان میں بیٹھی گھاس کو تک رہی تھی۔ سر جھٹک کر وہ کمرے میں چلا آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کا تیسرہ پہر تھا لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ کروٹیں بدل بدل کر وہ تھک ہار کر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ وہ جتنا اس بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا اتنا ہی سوچیں اسے جکڑ رہی تھیں۔ وہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اگر میرال کا رشتہ کہیں اور ہو بھی رہا ہے تو اسے اس سے کیا مسئلہ ہے۔؟ وہ آخر کیوں اتنا بے چین ہورہا ہے؟
شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ میرال اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھی۔ پہلی بار کی طرح اس بار وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ کسی غلط ہاتھوں میں جائے۔ اب کی بار وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی جان سے عزیز دوست کی پھر سے ناقدری کی جائے۔
اب وہ اسے رسوا ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔
ہاں، اب وہ اسے کسی اور کا بالکل نہیں ہونے دے گا اب وہ صرف اس کی بنے گی اور تا عمر اس کے ساتھ ہی رہے گی۔ اب وہ جلد از جلد اسے اپنا بنا لے گا۔ اب وہ اسے کھونے کا رسک بالکل نہیں لینا چاہتا تھا۔
کچھ فیصلہ کرکے وہ مطمئن ہوگیا اور نیند کی وادی میں گم ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ہوتے ہی وہ زیشان صاحب کے کمرے میں چلا آیا۔
چاچو مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔
وہ سر جھکا کر بولا
ہاں بولو۔وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے
آپ پلیز اس رشتے سے انکار کردیں۔ وہ جھجک کر بولا
کس رشتے سے؟انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا
وہی رشتہ جو آج کل میرال کے لیے زیر غور ہے۔
وہ ہنوز سر جھکائے بولا
کیوں انکار کردوں؟ انکار کی کوئی معقول وجہ؟
اب کہ وہ اسے جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے
میں میرال سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے کہا
اور تم ایسا کیوں کرنا چاہتے ہو؟وہ ہمدان کے انداز سے ہی سمجھ گئے تھے کہ وہ کیا بات کرنا چاہتا ہے اس لیے بغیر چونکے بولے
میں نہیں جانتا چاچو لیکن میں بس اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اب کہ وہ منت کرتے ہوئے بولا
اگر تو تم ہمدردی کے زیر اثر ایسا فیصلہ کررہے ہو تو میری طرف سے صاف نہ ہے۔ لیکن اگر کوئی اور جزبہ ہے تمہارے دل میں تو مجھے بتا سکتے ہو تم۔
وہ اسے لر سوچ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے
میں نہیں جانتا چاچو کہ یہ کیا ہے لیکن میں نہیں چاہتا کہ وہ پھر سے کسی غلط ہاتھوں میں جائے۔ میں اس کی وجہ سے بہت انسکیور فیل کرتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ پہلے کی طرح اس بار بھی اس کی ناقدری کی جائے۔ میں بس اسے ہر کسی سے محفوظ رکھنا چاہتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ کسی کی بھی بری نظر اس پر پڑے یا کوئی بھی اس کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کرے۔
نظریں نیچی کیے وہ ان کے سامنے اپنے دل کا حال کھول رہا تھا۔
اگر ایسی بات ہے تو تم سے بہتر میری بیٹی کے لیے اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ وہ اسکا شانہ تھپکتے ہوئے بولے تو اس نے بے یقین نظروں سے انہیں دیکھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی خواہش اتنی جلدی پوری ہوجائے گی ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا رب اتنا مہربان ہے کہ دل میں خیال ڈالتے ہی میرال کو اس کا بنا دے گا۔
وہ خوش تھا۔ بہت خوش تھا۔ اب اسے میرال کو بھی اپنی خوشیوں میں شریک کرنا تھا۔ اپنی زندگی میں شریک کرنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔