عاریہ کے گھر میں ہر جگہ پریشانی کا ساماں تھا کل رات تک جہاں خوشیوں نے محفل لگائی ہوئی تھی آج وہاں پر غم کے بسیرے تھے۔ کچھ گھنٹوں میں ہی شہیر شاہ بہت بوڑھے لگنے لگ گئے تھے۔ آپنی بیٹی کو وہ ہر جگہ تلاش کر چکے تھے لیکن اسکا کہیں اتا پتا نہیں چل رہا تھے۔ وہ تھک ہار کر حویلی پونچھے ہی تھے کے انکو کسی انجان نمبر سے واٹس آیپ مسجز موصول ہوئے جو کے عاریہ کی کچھ ایسی تصاویر تھی جن کو دیکھ کے کہیں سے بھی یہ نہیں لگ رہا تھا کے عاریہ کے ساتھ زبردستی ہوئی ہے۔ وہ تصاویر تو الگ ہی کہانی بیان کر رہیں تھی اور انکو سوائپ کرتے کرتے شہیر شاہ کو اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔پہلے وہ حیران ہوئے تھے پھر پریشان اور پھر غیض وغضب نے لے لی تھی۔وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کے عاریہ ایسے کر سکتی ہے۔پھر انکے دماغ میں علمیر شاہ کی کہی ہوئی باتیں گونج رہی تھی۔
ماموں عاریہ اس رشتے سے خوش نہیں ہے شاید وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے۔ آپ اس سے بات کریں اگر وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے تو اس رشتے کو ختم کردیں۔مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
علمیر کا لہجا ایسا تھا کے شہیر شاہ کو عاریہ سے بات کرنا ضروری لگا تھا۔
ٹھیک ہے بیٹا آپ جاؤ۔ہم عاریہ سے بات کرتے ہیں۔ شہیر شاہ اپنی بیٹی سے اتنی محبت کرتے تھے کے انہوں نے عاریہ کی خوشی کو ہی اہمیت دینی تھی۔ بازل اس وقت شہیر شاہ کے ساتھ ہی تھا اور تبھی اسنے یہ پلین سوچا
تھا۔ عاریہ کا کڈنیپ پھر زبردستی نکاح۔•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
نکاح سے پہلے:
عاریہ کو ہوش میں آۓ ہوۓ ابھی ۱۰ منٹ ہی ہوۓ تھے کے بازل خان دوبارہ حاضر ہوا اب کے اسکے ساتھ ملازمہ بھی تھیں جن کے ہاتھوں میں چار تھال تھے۔ ایک میں نہایت قیمتی گرے کلر کا 36 کلیوں والا فراک تھا جس کے اوپر پنک کلر کے دھاگے اور موتیوں کا کام تھا ساتھ ہی گرے کلر کا چوڑیدار پاجامہ تھا اور پنک کلر کا نفیس و بھاری دوپٹہ تھا۔ ایک تھال میں بے تحاشہ زیور تھے جو اپنی مالیت کو خود بیان کر رہے تھے۔ ایک تھال میں کوسمیٹکس تھے جو دنیا کے مہنگے ترین برینڈس کے تھے۔ اور وہ آخری تھال جس میں عاریہ کے باپ، بہن اور ماں کی تصویریں تھی کچھ پر لال رنگ لگا تھا اور کچھ بلکل صاف تھی جن کو دیکھ کے عاریہ بلکل ایسے ہو گئی تھی جیسے کاٹوتو بدن میں لہو نہیں ابھی عاریہ ان تصویروں کو دیکھ ہی رہی تھی کے بازل کی آواز اسکی سماتوں سے ٹکرائی۔
تمہارے پاس صرف ایک گھنٹہ ہے تیار ہونے کیلئے اگر تم ایک گھنٹہ میں تیار ہو گئی تو اسکا مطلب تم راضی ہو اور اگر تم تیار نہیں ہوئی تو مجھے زبردستی بھی اپنی بات منوانی آتی ہے لیکن اسکے بعد تمہارے ماں،باپ،بہن زندہ بچے گے یا نہیں اسکی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔
"Now Babe Choice Is Yours. I'll Meet You In a Hour
Till Than Bubye "
یہ کہتے ساتھ ہی وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکل گیا بغیر عاریہ کی سنے۔ عاریہ کی ٹانگیں اسکا وزن اٹھا نے سے انکاری تھی وہ وہیں بیڈ کے پاس زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔ اور بے اختیاری آنسوآنکھوں کی حدیں توڑ کر باہر نکل آۓ تھے۔کافی دیر آنسو بہانے کے بعد جب نظر گھڑی پر پڑی تو صرف آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ عاریہ جلدی سے جوڑا آٹھا کے باتھروم کی طرف لپکی دس منٹ میں باتھ لے کے باہر نکلی۔ابھی وہ ششیشے کے سامنے کھڑی ہی تھی کے ایک پیاری سی لڑکی اندر داخل ہوئی جینز شرٹ میں ملبوس بالوں کا خوبصورت ہیئرسٹائل بنائے چہرے پر مہارت سے کئیے میک اپ میں وہ لڑکی پروفیشنل لگ رہی تھی۔ عاریہ اس کو دیکھ رہی تھی کے دروازہ کھولا اور بازل اندر آیا اور بیوٹیشن سے مخاطب ہوا۔
Miss Pari You Have Only 15 Minutes.Your Time Starts Now
وہ اپنی بات مکمل کر کے باہر نکل گیا تھا بغیر پری کا جواب سنے۔ پری نے عاریہ کو بہت مہارت سے تیار کر رہی تھی۔ ہلکے میک اپ کے ساتھ خوبصورت جیولری پہنا کراب وہ اسکے بالوں کو کرل کر رہی تھی وہ بغیر دوپٹہ کے بھی اپسرا لگ رہی تھی لیکن نفاست سے سیٹ کیئے ہوۓ دوپٹہ نے اسکے حسن میں چار چاند لگا دیئے تھے۔ جب وہ پوری طرح تیار ہو گئی تو بیوٹیشن اسکا جائزہ لیتے ہوئے گویا ہوئی۔
"Ma'am you're looking so pretty"
وہ پرجوش انداز میں عاریہ کو بتا رہی تھی جسکے حسن کو اسکی آنکھوں میں بستے قرب و حزن نے اور حسین اور دلکش بنا دیا تھا۔ عاریہ اسکی ہر بات کے جواب میں چپ رہی تھی۔ ٹائم پورا ہو چکا تھا اور بازل اندر آیا اور عاریہ کو مہبوت سا دیکھنے لگا اور پری سے سنجیدہ لہجے میں گویا ہوا۔
"Ok Miss Pari Thankyou For Your Services.You May Go Now ."
پری بھی جلدی جلدی وہاں سے چلی گئی یہ شخص پری کا خاصا سرد لگا تھا اور اب بازل عاریہ کے پاس آیا۔ عاریہ کو غور سے دیکھتے ہوئے اسکے گال پر ہاتھ رکھا اور عاریہ سے گویا ہوا۔
تم نے اچھا فیصلہ لیا ہے لیکن ایک بات یاد رکھنا نیچے جا کر کوئی بھی ہوشیاری کی تو تمہارے سمیت تمہارے خاندان کو کہیں کا نہیں چھوڑو گا۔ یہ کہتے ساتھ ہی اسنے عاریہ کا گال تھپتھپایا جیسے اسکا جواب کا منتظر ہو۔عاریہ نے اثبات میں سرہلایا اور وہ پیچھے مڑا اور تھال میں سے ایک لال رنگ کا خوبصورت نیٹ کا دوپٹہ تھا۔ بازل نے اسے گھونگھٹ کے سٹائل میں عاریہ کے سر پر ڈالا اور عاریہ پر ایک نظر ڈالتا اُسے ساتھ لیتا آگے بڑھ گیا۔ نیچے لاؤنج میں صرف چار مرد اور ایک نکاخواہ تھا۔ دو بازل کے گواہ تھے اور دو عاریہ کی طرف سے گواہ تھے۔ بازل نے آنکھ سے اشارہ کرتے ہوئے نکاح خواہ کو نکاح پڑھانے کا کہا۔ نکاح خواہ نے نکاح شروع کیا اور پہلے عاریہ سے گویا ہوئے۔
عاریہ شاہ ولد شہیر شاہ آپکو محمد بازل خان ولد محمد عدیل خان کے نکاح میں سکہ رائج الوقت پچاس لاکھ روپے دیا جاتا ہے اپنے قبول کیا؟ نکاح خواہ نے اپنی بات مکمل کر کے عاریہ کی طرف دیکھا جو چپ بیٹھی ہوئی خالی نظروں سے نکاح خواہ کو دیکھ رہی تھی اور بازل نے اپنی پسٹل نکال کر عاریہ کی پسلیوں پر رکھی اور سرگوشی کے انداز میں عاریہ سے گویا ہوا۔
نکاح خواہ کو جواب دو ورنہ تمہارے بعد تمہارے ماں باپ اور بہن کی باری ہوگی۔ یہ کہتے ساتھ ہی وہ عاریہ سے تھوڑا دور ہوا لیکن بازل کی پسٹل عاریہ با آسانی دیکھ سکتی تھی۔ نکاح خواہ نے دوبارہ عاریہ سے پوچھا۔
عاریہ شاہ ولد شہیر شاہ آپکو محمد بازل خان ولد محمد عدیل خان کے نکاح میں سکہ رائج الوقت پچاس لاکھ روپے دیا جاتا ہے اپنے قبول کیا؟ نکاح خواہ منتظر نظروں سے عاریہ کو دیکھ رہا تھا۔
جی قبول کیا۔ ماں باپ بہن کی مسکرتی تصویر آنکھوں کے سامنے آئی۔ دوبارہ وہی سوال دوہرایا گیا۔
جی قبول کیا۔ اب کی بار ماں باپ اور بہن کے خون میں لت پت چہرے نظر آئے آنکھوں سے ایک آنسو نکلا۔ دوبارہ سوال دہرایا گیا۔
جی قبول کیا۔ اب کی بار آنکھوں میں بازل کا چہرہ آیا۔اسکا چہرہ جس سے عاریہ نے پہلی نظر میں محبت کی تھی لیکن اسکی آنکھوں میں تو کچھ اور تھا کچھ بہت بھیانک جس سے عاریہ کا وجود جل رہا تھا عاریہ سے دستخط کروانے کے بعد نکاح خواہ نے بازل سے وہی سوال کیا تھا۔
محمد بازل خان ولد محمد عدیل خان عاریہ شاہ ولد شہیر شاہ تمام قانونی اور شرعی حقوق کے ساتھ حق مہر پچاس لاکھ روپے میں اپکے نکاح میں دیا جاتا ہے آپکو قبول ہے؟ نکاح خواہ نے منتظر نظروں سے بازل کی طرف دیکھا۔
قبول ہے۔
قبول ہے۔
قبول ہے۔
یہ کہتے ساتھ ہی دعا کروائی گئی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا اور علی اسکی طرف لپکا اور اسکے گلے لگ گیا۔ بازل نے اسے کندھوں سے تھام کر اسکی آنکھوں میں آتی نمی صاف کرتے ہوئے بولا۔
علی بس اب ایک بھی آنسو نہیں اب رونے کی باری شہیر شاہ کی ہے اب خون کے آنسو وہ روئے گا۔ یہ کہتے ساتھ ہی وہ عاریہ کی طرف بڑھا جو اپنی ہی سوچوں میں گم تھی۔ اسکے قریب پونچتے ہی اسکو بازو سے دبوچا اور کھینچتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگا اور اپنے کمرے میں پونچھتے ہی بے دردی سے عاریہ کے منہ پر ایک ذوردارتھپڑ مارا ۔
چٹاخ کی آواز پورے کمرے میں گونج گئی۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
شہیر شاہ غیض وغضب سے اپنی بیگم کو بلا رہے تھے۔ فاطمہ بیگم کے اندر آتے ہی انہوں نے فاطمہ بیگم کو ایک زوردار تھپڑ مارا اور ساتھ ہی اپنا موبائل انکی آنکھوں کے سامنے کر دیا اور غصہ سے چیختے ہوئے بولے۔
یہ دیکھوں اپنی بیٹی کے کرتوت۔ یہ پرورش کی ہے تم نے اسکی۔ ہماری عزت کا جنازہ نکال رہی ہے کسی(گالی،گالی،گالی) کے ساتھ۔۔ کاش اسکے پیدا ہوتے ساتھ ہی زندہ درگور کر دیا ہوتا تو آج یہ دن تو نا دیکھنا پڑتا کیا منہ دیکھاؤں گا میں آپا کو اور کیا جواب دو گا میں سب کو اور ایمان کے سسرال والے انہیں کیا بتاؤں گا کے کہاں ہے وہ منہوس کس کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ یہ کہتے ساتھ ہی وہ بیڈ پر بیٹھ گئے اور سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا۔ فاطمہ بیگم اپنے گال پر ہاتھ رکھے انہیں بے یقینی سے دیکھ رہی تھی کے وہ دوبارہ چیخے۔
دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے ورنہ جان لے لو گا تمہاری جاؤ۔ وہ چیخ رہے تھے۔ ضبط کھو رہے تھے اور فاطمہ بیگم آنسو بہاتی وہاں سے نکل گئی اور اپنے خیالوں میں عاریہ سے مخاطب ہوئی۔
کیوں عاریہ کیوں کیا تم نے ایسا تمہارہ باپ جس نے مجھ سے کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی آج اس نے تمہاری وجے سے مجھ پر ہاتھ اٹھا دیا۔ وہ آنسو صاف کرتی ہوئی ایمان کے کمرے کی طرف چلی گئی اور کمرہ میں داخل ہوتے ہوئے ٹھٹک گئی ایمان ویسی ہی بیٹھی ہوئی آنسو بہا رہی تھی۔ فاطمہ بیگم ایمان سے دیکھتے ہوئے گویا ہوئی ۔
ایمان بیٹا آپ ایسے ہی بیٹھی ہوئی ہو؟ بیٹا جاؤ شاور لے کے آؤ۔ وہ پیار سے اسکا گال تھپتھپا کے اٹھنے ہی لگی تھی کے ایمان نے انکا ہاتھ پکڑا اور بولی۔
ماما وہ عاریہ وہ ٹھیک نہیں ہے میں نے خواب میں دیکھا ہے وہ بہت رو ہی تھی۔ ماما آپ بابا سے کہیں اسے ڈھونڈیں پلیز ماما پلیز۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی اور فاطمہ بیگم اپنی بیٹی کو دیکھ رہیں تھیں جو اپنی بہن کی فکر میں یہ تک بھول گئی تھی کے آج اسکا اتنا بڑا دن ہے۔ فاطمہ بیگم ایمان سے گویا ہوئی۔
ایمان میری جان دیکھو ادھر میری بات غور سے سنو۔ عاریہ اپنی مرضی کے ساتھ گئی ہے۔اسے ہماری، تمہاری کسی کی کوئی فکر نہیں ہے۔وہ ہم سب کو چھوڑ کر اسکے ساتھ چلی گئی ہے۔ میں نہیں جانتی وہ کون ہے لیکن عاریہ کی جو تصاویر میں نے دیکھی ہیں وہ یہی بیان کر رہی ہیں کے عاریہ اسکے ساتھ خوش ہے۔ وہ نرمی سے ایمان کو سمجھا رہی تھی لیکن ایمان تو ماننے کو تیار ہی نہیں تھی کے اسکی بہن ایسے کر سکتی ہے۔
نہیں ماما عاریہ کو ٹریپ کیا گیا ہو گا آپ جانتی ہیں وہ ایسی نہیں ہے آپ جانتی ہیں وہ کتنی با حیا ہے وہ درسنگ جیسی مرضی کر لے لیکن اسنے کبھی کسی نامحرم سے بات تک نہیں کی اور آپ کہہ رہی ہیں کے وہ بھاگ گئی؟ وہ نفی میں سر ہلاتی کہہ رہی تھے کے فاطمہ بیگم درشتی سے گویا ہوئی۔
بس ایمان بہت ہوگیا اب میں عاریہ کے بارے میں اس وقت کوئی بھی بار نہیں کرنا چاہتی۔ اٹھو اور جا کے شاور لو پھر تمہیں سلون بھی لے کے جانا ہے۔ فاطمہ بیگم بات مکمل کرتے ہی باہر نکل گئی لیکن ایمان کی بات نے انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کیونکہ عاریہ ویسی ہی تھی جیسا ایمان کہہ رہی تھی۔ ایمان بے دلی سے اٹھتی باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
عاریہ تھپڑ لگنے سے بیڈ پر گری تھی ابھی وہ سیدھی ہوئی ہی تھی کے اسکی نظر بازل پر پڑی جو اپنی شرٹ کے بٹن کھول رہا تھا عاریہ اسکی اس حرکت کا مفہوم سمجھ کر پیچھےہو رہی تھی کے بازل نے ایک جھٹکے سے اپنی شرٹ اتار کر پھنکی اور عاریہ کی طرف بڑھنے لگا۔ عاریہ کی آنکھوں سے آنسو رواء ہو گئے اور وہ نمشکل بولی۔
اب تو مجھے جانے دو میں نے بات مان تو لی تمہاری آنسوں زاروقطار گر رہے تھے۔
ہا ہا ہا ہا تمہیں جانے دو پگل نظر آتا ہو تمہیں ؟ اسکے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑتے ہوئے بولا۔
اب تو تم قید میں آئی ہو تمہیں کیسے جانے دو؟ اب تمہارے باپ کو پتا چلے گا عزت جانے کی تکلیف ساری زندگی اپنی بیٹی کی پاکیزگی ثابت کرتا رہے گا اور کوئی یقین نہیں کرے گا ہا ہا ہا ہا۔ اسکے بالوں کو چھوڑتا کلائیوں کو اپنے ہاتھوں میں قید کرتا اس پر جھکا۔
دو گھنٹے بعد
علی کہاں مر گئے ہو؟ اپنی شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے دھاڑا ۔
ہاں ہاں ۔ علی دوڑتے ہوئے آیا۔
اسکو (MNA) شہیر شاہ کے گھر چھوڑ آؤ اسکی بڑی بیٹی کی شادی ہے۔ وہ حقارت سے کہتا ایک نظر عاریہ پر ڈال کر اپنی مغرورانہ چال چلتے وہاں سے چلا گیا ۔اسکی چال بتا رہی تھی کے کتنا سر شار ہو گیا ہے وہ عاریہ کی روح کو زخمی کر کے۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
Asalam o alikum ♥️
Ksy hain ap sb 💕 Umeed Hai k apko novel psnd aarha ho ga apni qeemti raye ka izhar zroor kryn shukria ♥️
BẠN ĐANG ĐỌC
حصولِ عشق اور انتقام کا جنون (Completed)
Tiểu Thuyết Chungیہ کہانی ہے عاریہ شاہ اور بازل خان کی۔ دو الگ رستوں پر چلنے والوں کی۔ انتقام کی آگ میں جلتے بازل اور اپنے باپ پر قربان ہوئی عاریہ کی اب دیکھنا یہ ہے کے انتقام جیتتا ہے یہ معصومیت ۔ اس ناول کی تمام کردار فرضی ہیں اور انکا کسی شخص سے کوئی تعلق نہیں...