﷽
قسط 17
وہ ایک بار پورا فلیٹ کی صفائی کر چکی تھی مگر خود کو مصروف رکھنے کے لے اسنے دوبارہ فلیٹ کی صفائی شروع کر دئی تھی، وہ صاف برتنوں کو دوبارہ دھونے میں مصروف تھی، اگر کوئی اسئے اس طرح بار بار صفائی کرتا دیکھ لیتا چاہئے وہ موحد ہی کیوں نا ہو اسکی ذہینی توازن پر شک کرنے لگتا، اور وہ یہ سب یادوں اور سوچوں سے بچنے کے لے کر رہی تھی ورنہ وہ سوچوں اور یادں میں خود کو کھو کر واقعی ذہینی توازن کھو دئے گئی، اپنا کام ختم کر کے اسنے ایک نظر کچن کو دیکھا سب اپنی جگہ پر رکھا تھا، وہاں اب کیسی مزید صفائی کی ضرورت نظرنہیں آئی، سرد اور گہرئی سانس لیتے ہوئے وہ کچن سے باہر نکلی، فلیٹ کے خاموش ماحول اسکا وجود بھی اس خاموشئی کا حصہ معلوم ہورہا تھا، فیلٹ کے سفید ماربل فرش پر قدم رکھتی اسکا رخ خود بخود موحد کے کمرے کی جانب بڑھئے، وہموحد کی غیر موجودگئی میں کمرے داخل ہوتی تھی کام کے غرض سے بس ، اور آج جانئے کیوں داخل ہوئی، اور بیڈ کے سائڈ ٹبل پر رکھئ تصویر کو دیکھنے لگئی، وہ حماد اور موحد کی تصویر تھی، وہ تصویر کو اٹھاتی کچھ فاصلے پر فرش پر بیٹھ گئی اور بیڈ سے پیت ٹیک لگالی
"میرا بھائی بے گناہ تھا، اس پر الزام بھی غلط لگایا گیا اور موت بھی بلامقصد اسکی مقدر میں لکھی گئی، اس خاندان کے اب ہر ایک شخص کے مقدر مین رسوائی میں نے نا لکھئی تو میرا نام بدل دینا تم"دو روز پہلے اسنے موحد کو کیسی سے فون پر بات کرتے سنا تھا، اس وقت اسئے موحد کے وجود سے خوف آیا، اسکے لب و لہجے کی وجہ سے وہ بس کئی چہپ جانا چاہتی تھی،وہ محبت کے کئی روپ دیکھ چکی تھی ، اور وفا کی بھی، ایسی ہی ایک تصویر دس سال پہلے اسنے دیکھی تھی، موحد اور حماد کی تصویر کو دیکھتے وہ ماضی کی آواز اس کمرے کے ماحول میں گنجی
"میرے بچے روتے نہیں ، مین ہونا تمارے پاس"عثمان چوہدری نے روتی مہرانساء کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، وہ جو دورئےیتیم ہونے پر غم کی جلتی بھٹی میں جل رہی تھی عثمان چوہدری کے لفظ اس کے سماعت میں برسات کا کام کر گئے جو اسئے پر سکون کرنے کے لے کا فی تھا ، اور وہ جمعلے جو آگ کی صورت میں اسکے تما م لفظوں کو جلا گئے عجیب وقت تھا جو ایک ایک کر کے اس سے سب کچھ چھین رہا تھا، اور چھین جانے والے سے وہ شکوہ بھی نہیں کر سکتی تھی، وہ جانتی تھی، کہ شکوہ کرنے والا اور سنئے والا دونوں کا ملنا بہت دور کی بات تھی، مگر ملنا اختیار میں ہوتا بھی تو وہ کیا سوال کرتی؟ یہ کہ انھیں ترس نہیں آیا یا یہ کہ دل بے حسی کے کس مقام پر کھڑا تھا کہ خون کا رنگ بھی پہیکا ہوگیا؟کئی بار سوچنے کا باوجود بھی وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیسے وہ سامنہ کرتی بھرم تو ٹوٹ چکا ہی تھا ااور اس کی کرچیوں پر اسئے چلنا تھا تب تک جب تک وہ آخری سانس نا لیئے،آنکھوں سے کئی آنسوں بہہ کر بھی درد کی شدت ختم نہیں ہوئی آنسوں بھی خشک ہو چکئے تھے، مگر درد کی شدت ابھی بھی باقی تھی،اس تکلیف کے زرَ اثر اسئے وقت کا اندازہ نہ ہوا، مگر ان سب میں اسنے ایک بار ضرور محسوس کی تھی موحد کا رویہ اس سے کافی بدل چکا تھا، وہ اس سے ضرورت کے مطابق بات بھی کرتا تھا،ہاں مصروفیت اسکی بڑھ چکی تھی اس میں کوئی فرق نہیں پڑھا تھا ،مگر اسکے کھانے پینے کا ضرور پوچھتا تھا اسئے یہاں تک بھی کہا تھا کہ اگر وہ چاہئے تو گھر کی کوئی بھی اشیاء استعمال کر سکتی ہے ، مگر اسئے اگر کیسی چیز کی اجازت نہیں تھی تو وہ بڑی حویلی میں کیسی سے رابطہ رکھنے کی، وہ جانتی تھی وہ شخص اس پر ترس کھا رہا ہے، اب واقعی کوئی اس پر ترس کھا رہا ہے،تنہائی ، بے وفائی اور ترس بس ان تین لفظوں کی کہانی تھی اسکی زندگی۔۔،
"اس وقت پرانے غموں اور دکھ نے زندگئی میں جگہ لے لئی ہے کہ حل میں ملئے زخم کی تکلیف ہی محسوس نہیں ہو رہی ہے"خود پر گزرنے والے حالات پر وہ ہنس پڑئی نم آنکھوں کے ساتھ دل لرزانے والی مردہ ہنسی،،پھر اس خاموش کمرے میں اس کی رونے کی آواز گنجنے لگئی، دل کھول کررونے کے بعد اسنے اپنا سربیڈ کے میٹرس سے ٹیکا لیا اور، ٹکٹکی باند کر موحد اور حماد کی تصویر کی کو دیکھنے لگئی، حماد کے ہنستے چہرے کو دیکھتے ہوئے اسئے انداز ہی نہیں ہو کے کب وہ نیند میں جا چکی ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سعد کو گھر شفٹ کر دیا گیا تھا، اور ایک کمرہ اسکے لے رکھا گیا ، ایک میل نرس کا بھی انتظام کیا تھا، مقدس چوہدری کا اب زیادہ طر وقت سعد کے کمرے میں ہی گزرتا تھا،اور اذلان گھر میں بہت کم دیکھتا تھا، اگر دیکھتا بھی تھا تو زیادہ وقت اپنے کمرے میں گزارتا تھا، یا سعد کا چیکپ کر تا، اور اذلان نے اپنے آپکو ہاسپٹل کے کام میں مصروف کر لیا تھا، وہ گھر میں کم ہی وقت گزارتا تھا، وہ گھر والوں کے ساتھ وقت بھی کم گزارتا تھا عجیب دستور العمل بن چکا تھا اسکا مگر اس نے اپنے ہر دن کے جدول کو اس طرح ترتیب دیا تھا کہ اس کا سامنہ عثمان چوہدری سے کم سے کم تر ہو،اور خود عثمان چوہدری بھی اس سے کترا رہئے تھے، مگر رہی بات ماہ نور کی وہ کافی حد تک خود کو اذلان کے اس سب کا زمے دار سمجھ رہی تھی ، اپنی ماں سے وہ اس بات کا ذکر نہیں کر سکتی تھی کیونکے وہ خود سعد کی وجہ سے پریشان تھی، مگر یہ سوچ کر بھی دل اسکا گھبراتا تھا کے کب تک یہ زندگی اس روش پر چلئے گئی؟،اور اذلان اسکی سوچ بس ایک جگہ تہم گئی تھی، اس سے آگئے وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا ورنہ اسکی سوچ بگاوتی ہو جاتی،اور بعد میں مہرالنساء اور ماہ نور والی بات ؟ کیا وہ بھی سچ تھا جو جر گہ کو لے کر اس شخص نے کہا کیا وہ بھی ؟ کئی سوال تھے جن کے جواب سے خوفزدہ ہوکر خاموش ہو گیا تھا بس ایسی ہی زندگئی گزار رہی تھی،اور ایسا ہی دن تھا جب اذلان سعد کے کمرے میں گیا اسکا چیکپ کرنے ، مقدس چوہدری اپنے کمرے میں تھی آرام کر رہی تھی اس لے سعد کے کمرے میں اس واقت صرف وہ ہی تھا، سعد کی طرف وہ مکمل طور اپنی توجہ رکھا ہوا تھا جب دروازے کے کھولنے کی آواز سنئے پر اسنے ایک نظر دروازے کی جانب دیکھا، پھر دوبارہ سعد کی طرف متوجہ ہو گیا، اندر داخل ہو تے عثمان چوہدری کو اس ردعمل کی توقع نہیں تو وہ تو سمجھے تھے کہ انھیں دیکھ کر کمرے سے چلے جاتا، مگر وہ نہیں گیا بلکے وہی کام میں مصروف رہا، وہ انھیں اس طرح نظر انداز کر چکا تھا جیسے وہ کمرے میں موجود نہیں ہے
"اذلان؟"کمرے میں موجود خاموشی کو انھوں نے توڑا، رشتوں میں جمعی برف کیسی کو تو توڑنے میں پہل کرنی تھی"اذلان بیٹے"انھوں نے دوبارہ اسئے مخاطب کیا
"آپ مجھے صرف میرے نام سے مخاطب کرئے تایا جان، بیٹے جیسے لفظ کا استعمال آپ ماہ نور اور سعد تک ہی محدود رکھئے" اذلان کا لہجے میں فرق وہ صاف محسوس کر سکتے تھے
"میں جانتا ہو میری صورت سے بھی نفرت ہو چکی ہوگی تمیں۔۔ اور ہونی بھی چاہئے مگر۔۔۔ بس تم میری بات سکون سے سن لو"اذلان سعد کے چیکپ سے فرصت ملنے کے بعد عثمان چوہدری کی جانب متوجہ ہو گیا
"تا یا جان!آپ نے ہمیشہ سے دوسروں کی خوشیوں کے لے اپنی خوشیاں قربان کی میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا اس وقت کا اور آپ کا اور میری بہن کا، ۔۔۔ ان چند دن میں اگر غور بھی کرتا ہو نا تو میرے حواس میرے ،میرے قابو میں نہیں رہتے اور اب تو میری سوچ ساتھ چھوڑ رہی ہے تایا جان آپ ہی بتاہئے کہ کیا سوال کرؤں میں آپ سے۔۔۔۔ مہرالنساء کی صورت ماں سے بہت مشہابت رکھتی تھی، میری ماں کی جیتی جگتی تصویر تھی وہ، اوربابا کے بعد آپ میرے لے انکا دوسرا روپ ۔۔۔ اب نا میرے پاس میری ماں ہے نا باپ۔۔"اذلان کی آواز بھر سی گئی تو وہ کچھ دیر روکا۔۔" کچھ! میرے پاس کچھ بھی نہیں نا میری ماں کی زندہ تصویر اور نا۔۔ "وہ آفسردگی میں کہتا ان کے لے کئی ان کہئے سوالوں کے ڈھیر لگاگیا
"پہلی بات یہ کہ میں اس بات کا عتراف کرتا ہو کہ میں بہت بڑا منافق ہو، اپنے بچوں کے سامنے ایک ایسے شخص کا روپ رکھا جو اپنی خوائشوں کو قربان کرتا ہے، مگر حقیقت برعکس ہے۔۔۔، میں ڈرتا تھا اپنے بچوں کے آنکھوں اپنے لے نا پسندگئی دیکھنے سے ، یا پھر کئی نا کئی میں چاہتا تھا کہ میرے بچے میری اچھی تصور رکھئے یا میری طرح ژخصیت کے مالک نا بنئے یا پھر میں ڈرتا تھا کہ کئی میں اپنے اولاد کے ساتھ ویساں ہی رشتہ نا رکھوں جو میرے والد اور میرے درمیان تھا ، حقیقت تو یہ تھی کہ ہر بار میں نے وجدان سے قربانی مانگئی تھی اور وہ دیتا بھی تھا۔۔۔ مگر پھر بھی میں یہ کہتا تھا کہ میں ہی کوئی سر خم کرؤں کوئی مجھ جیسا نا شکرا شخص نہیں ہو گا، جو سب کچھ ملنے کے بعد بھی انا کے ہاتھوں یہ سمجھتا کہ اسکے ساتھ ہی ناانصافی ہو رہی ہے۔۔۔ اور آخری وجدان کے ساتھ کی گئی لڑائی میں بھی میں نے کہئے دیا کہ میں ہی قربانی کیوں دو؟۔۔۔ اب سوچتا ہو تو اپنی ڈھٹائی پر حیران ہوتا ہو کہ کس طرح میں یہ اس شخص سے یہ لفظ بول گیا جس نے ہمیشہ میرے لے قربانی ہی دئی تھی"کمرے میں رکھئے صوفے کی جانب گئے اور وہی بیٹھ کر اپنی بات دوبارہ شروع کی"وجدان کے وہ تاثر ابھی بھی یاد ہے مجھے۔۔ اور پھر بعد میں اسنے مجھ سے کچھ کہنا چاہا مگر میں اپنی پرانی انا میں ڈوبا اسئے نظرانداز کر گیا کاش سن لیتا میں ۔۔۔ کاش وجدان تو پھر قربانی دینے کو تیار ہو گیا تھا کہ وہ زمین کا حصہ مجھے دینے کو تیار ہےمگر میں خود ۔۔۔"آگئے کی بات بہت دردناک تھی جو کہنے سے وہ روک گئے" سعد کو لگتا تھا اسکا باپ فرشتہ ہے کبھی غلط کام نہیں کر سکتا۔۔۔ اور اسکے نیک صفت باپ کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔۔، اور دیکھوں میرے جھوٹے ایمیج کی وجہ سے کیا کچھ ہو گیا۔۔۔، اس اچھا میں اپنے بچوں کو بتا دیتا کہ انکا باپ قربانی دینے والا نہیں بلکے قربانی کا گوشت کھانے والا دریندہ ہے۔۔۔، یہ میری سزا ہے مجھے کاٹنی ہے ،مگر میری بچی بے قصور ہے اسئے کوئی سزا مت دینا۔۔۔ جو سزا مجھے سنانی ہے سنا دو"اذلان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔۔۔ اذلان خاموشی سے عثمان چوہدری کو دیکھتا رہا اور خاموشی سے دروازے کی جانب بڑھ گیا
"بے قصور میری بہن بھی ہے تایا جان۔۔۔، اور اگر مجھے ماہ نور سے اپنی بہن کا بدلا لینے کا خیال آیا نا تو اسکے لے بس یہ بات کافی ہے کہ اسئے آپ کی اور بابا جان کی حقیقت بتا دو"اپنی بات مکمل کرتا وہ کمرے سے نکل گیا بغیر عثمان چوہدری کو دیکھئے اور انکی با ت سنئے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وقت کی چکئی میں پستے شخص کی مثال سزا یافتہ شخص جیسی ہے جس کے ہاتھ پاؤں باند کر اسئےسنسار کرنے کی سزا ملی ہو، اور وہ بس خاموشی اور برداشت کے ساتھ لوگوں کے ہاتھ سے مارئے گئے پھتروں کی زرب کو خاموشی سے برداشت کرتا ہے، اسئے رونے کی چیکنے کی اجازت ہوتی ہے مگر اس کے آگئے کچھ نہیں کرسکتا، اور وقت کی طرف سے مارے گئے پتھر پر تو "اف "بھی نہیں کہئے سکتا کیونکہ پتھر تو اس نے خود ہی جمعی کئے تھے، یہ ہی مثال عثمان چوہدری کی بن چکی تھی اور یہ سنسار ہونے کی سزا سنانے والا موحد دوار چوہدری تھا، مگر سزا تو کئی بے گناہوں کو ملی تھی مہر النساء بھی ایک مثال تھی مگر پھر بھی کچھ سوال تھے جو اسکی سمجھ سے باہر تھے، حمید علی کی مدد کس نے کی تھی اور سفیر احمد کا اکسیڈینٹ۔۔، اس شخص کی حالت کیسی ہے۔۔، سب کچھ اتنا الجھ گیا تھا کہ کوئی بھی سرہ ہاتھ نہیں آ پارہا تھا،کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ سب سوچوں سے پیچا چھوڑا کراپنے کام میں مصروف ہونے کی کوشش کرنے لگا، سامنے رکھئ تھی، وہ یہ کیس کا فی عرصے لگا کر اس موقع پر لے کر آیا تھا ، ایک نام جو ہر طرح سے سامنے آرہا تھا وہ شہباز عالم کا تھا، اسئے واقعی حیرانی ہوئی تھی دنیا کے سامنے اچھے شخص بنئے والا یہ شخص ظلم اور بربرید کی اس حد تک پہچا ہوا تھا،
"سبطین عثمان چوہدری کے قتل میں بھی کئی نا کئی تم شامل ہو"بے ارادہ ہی سہی سبطین چوہدری کا نام اپنے سامنے رکھئے کورئے کاغذ پر سبطین کا پورا نام لکھا،"اتفاق بھی ہو سکتا ہے"جانے کیوں اسنے سبطین کی بات کو کیس کے ساتھ جوڑنا شروع کیا پر اسکی سوچ کا دائرہ موبائل پر اٹھنے والی رینگ ٹون نے توڑئی، اسنے فون پر نئے آنے والے نمبر کو دیکھا، اجنبی نمبر سے آنے والے کال کو ریسیو کی دوسری طرف سے جواب ملا
"اسلام و علیکم! ڈئی ایس پی موحد داور چوہدری سے بات ہو سکتی ہے"زنانہ لہجے میں پوچھا گیا
"جی بات کر رہا ہو"اسنے جواب دیا ،
"آپ سے اسید شاہ بات کرنا چاہتے ہیں"شاید وہ سیکڑیری تھی
"کون؟"اسنے بے ارادہ ہی سوال کیا، پھر اسکے ذہین کو شاک لگا"اسید شاہ پالیٹیشن ، اسید شاہ"اسنے سوال کیا
"جی وہی"پر اعتماد اندازہ میں کہا گیا
"جی کر او دیئں"وہ کمر سیدھی کرتا بیٹھا
"آپ کو آنا ہوگا سر، انکے آفس وہ آپ سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں"دوسری طرف سے وہی اعتماد سے کہا
"کس حوالے سے بات کرنا چاہتے ہیں"اس سوال کیا مگر کئی نا کئی وہ بھی جانتا تھا کہ کیا اور کس حوالے سے اید شاہ اس سے ملنا چاہتا ہے
"وہ تو آپکو سر اسید سے ہی علم ہوگا۔۔، تو کیا آپ کے پاس ابھی وقت ہے؟"دوسری جانب سے سوال کیا گیا
"دیکھئے۔۔، آپ مجھے ملاقات کا مقصد نہیں بتا سکتی تب تک میں یہ کیسے طے کرو "ہاتھ میں پکڑیں پین کو انگلیو سے گھوماتا اسنے کہا
"مقصد اہم ہے آپ بس اتنا سمجھ لیں"دوسری طرف سے جواب دیا
"چلیں ٹھیک ہے"کچھ دیر سوچنے کے بعد اسنے ہامی بھری
"او کے! کل دوپہر ایک بجے آجایئں آپ ۔۔، "دوسری طرف سے وقت بتانے کے بعد جگہ بھی بتائی جو کوئی آفس کا پتہ تھا
"اوکے"اسنے کہا اور پین ابھی اسکے ہاتھ میں تھا جس کی مد سے اسنے پتہ سبطین کے نام کے اوپر تھوڑے فاصلے پے لکھا
"اور آپ وقت کی پاپندی رکھئے گا اور ایک بات آپ عام لباس میں آئے گا۔۔۔، مسڑ اسید شاہ کی خا ص ہدایت ہے" یہ کہنے کے بعد فون کاٹ دیا گیا، اسید شاہ ایک معاروف پا لیٹیشن تھا جو اس پارٹی کا اہم ممبر تھا جس کا حصہ شہباز عالم بنا تھا ۔۔، کئی نا کئی وہ بھی یہ جانتا تھا کہ اسید شاہ کا اسئے بولانے کا مقصد شہباز عالم سے تھا۔۔، بس اب یہ کل ہی اس پتہ چلنا تھا کہ یہ ملا قات اسکے فیور میں تھی یا شہباز عالم کے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ نیند کی پر سکون دنیا سے باہر آرہی تھی نا مانوس کمرے کو نیند سے بھری نظروں سے دیکھا غنودگئی میں اسئے یاد نہیں آیا کہ وہ کل موحد کے کمرے میں ہی سو گئی تھی، کچھ پل لگئے اسکی نیند اڑنے میں جب اسنے موحد کو کو دیکھا جو نماز پڑھنے میں مصروف تھا، شاید نماز پڑھ رہا تھا کیون کے کمرے کی کھڑی سے آسمان ابھی بھی سیاہ تھا، وہ ایک جھٹکے سے سیدھی ہوکر بیٹھی، اسئے موحد کو دیکھ کر کچھ اور بھی یاد آیا اسنے اپنے ہاتھوں کو چونک کر دیکھا ، اسکے ہاتھ میں تصویر تھی کہاں گئی ہو، ایک نظر اسنے سائٹ ٹیبل کی طرف دیکھا وہاں تصویر الٹھا کر رکھ دئی گئی تھی، شاید نماز کی وجہ سے، اسنے ایک سرد سانس ہوا کے سپرد کر تی دوبارہ موحد کی جانب دیکھا، جہاں وہ نماز میں مصروف تھا، اسکے چہرے پر سکون پہلی بار اسنے دیکھا تھا ورنہ تو وہ کبھی بھی اتنا پرسکون نہیں رہتا تھا اور اب۔۔، موحد کو نماز پڑھتے دیکھ اسئے دنیا کا حسین منظر لگا، چند پل کے لے ہی وہ سب بھولے بس ٹکٹکی باندھے اس شخص کو دیکھ رہی تھی جو انھیں بے سکون کرنے والا تھا۔۔، موحد اپنی نماز سے فارغ ہو کر بغیر دعا مانگئے اٹھا، اسئے کچھ عجیب بات لگئی
"دعا کیوں نہیں مانگی آپ نے؟"بے اختیار ہی اسکے لبوں سے اسکی سوچ لفظوں کی صورت اختیار کر گئے، موحد جس نے چونک کر اسکی طرف دیکھا وہی اسکی بھی حیرانی نےاسکے ذہین پر ڈہڑا ڈال دیا"وہ میں۔۔"اسنے کچھ کہنا ہی چاہا تھا کہ موحد اٹھ کر اسکے جانب آیا، اور بلکل اسکے سامنے بیٹھا اب دونوں روبرو تھے، کچھ دیر بعد اسئے دیکھنے کے بعد موحد نے بیڈ سے اس ہی انداز میں ٹیک لگالی جس انداز میں وہ بیٹھی تھی، دونوں کے درمیان کچھ فاصلہ تھا، خاموش بیٹھے موحد کو دیکھ کر اسئے کچھ گھبراہٹ ہونے لگئی موحد اسئے نہیں دیکھ رہا تھا ، بلکے اسکی نظریں سامنے دروازے پر تھی ، جانے کیا سوچ رہا تھا کہ اس کے چہرے پر درد کی لکیریں واضحے ہونے لگئی، وو سمجھنے سے کاسر تھی وہ کیا کرئے، تب موحد کی آواز کمرے پر سکون ماحول میں گونحی
"سات سال کا تھا میں۔۔۔۔ جب مجھ پر باور کیا گیا کہ میری دعا قبول نہیں ہو گئی"موحد کی آواز میں غم نہیں تھا سکون تھا وہ سکون جو اسکے اندر کی بے سکونی بیان کر رہا تھا
"کیوں؟"اسنے دہمی آواز میں پوچھا
"کیونکہ میرا وجود ایک گناہ کی پیداوار ہو"پھر موحد کے جواب نے مذید اسئے الجھا دیا
"مطلب؟"اسئے پھر اندازہ ہوا وہ کہنا چاہتا ہے ، مگر پھر بھی اس سب کا دعا نا ماگنے سے کیا واسطہ
"میں سات سال کا تھا جب دادا جان کی طبیت ناساز ہوئی، میں ڈر گیا تھا دادا جان ہی تو واحد شخص تھے جو مجھ سے اچھے لہجے میں بات کرتے تھے، ورنہ تو۔۔۔، ایک چھوٹے بچے کو انداز ہو ہی جاتا ہے کہ اسکا وجود کس کس کو ناگوار لگتا ہے، پھر کیا نماز پڑھنی مجھے وہاں حویلی کی ایک پرانی ملازم نے سکھائی جیسے شاید مجھے ہمدردی تھی، میں نے سوچا دعا مانگو،مگر جب میں دعا مانگ ہی رہا تھا تب اماں جان مجھے دیکھ لیا"موحد چپ ہوگیا، کافی دیر خاموش رہنے کے بعد دوبارہ اسنے بات شروع کی"انھوں نے مجھے سے کہا کہ گناہ گارو کی دعا نہیں سنئی جاتی تم تو خود ایک گناہ کا ثمر ہو، کس امید پے دعا مانگ رہئے ہو،ایک گناہ کو پالنے کی ہی ہمیں سزا مل رہئی ہے، تب ہی ہمارا گھر بے سکون ہے تم دعا مانگو گئے تو یہ نا ہو کہ مذید بے سکون ہو جائے ہم"موحد خاموش ہو گیا،وہ جانتی تھی کہ یہ موحد ایک ان چاہی وجود ہے جو اسکے گھر والے کیا اسکئے گھر والے ہی گناہ سمجھتے ہو گئے اور انداز بھی تھا کہ اسکے ساتھ کیا سلوک ہوا ہوگا اس زمانے کی عام سی بات ہے کہ قبول کہاں کرتا ہے کوئی ایک ناجائز اولاد کو چائے اولاد کی غلطی ہو یا نہ ہو اسئے موحد سے ہمدردی ہوئی بے تہاشہ یہ تو ایک قسط کا چھوٹا سا تکڑا تھا جو اسنے بتایا تھا، جانے ایسے کتنی درد و زہر بھی کہانی اس شخص کے دل میں دفن ہوگئی
"عجیب بات ہے کوئی کیسے یہ بات کہئے سکتا ہے"اسکی بات سن کر موحد نے اسکی جانب دیکھا،" کہ وہ ذات گناہ کی سزا دعا قبول ناکر کے دیتا تو کوئی بھی اس دنیا میں رب سے امید نا رکھتا، کیسی کی جہولی نیکیوں سے نہیں بھری ہے اور کوئی انسان ایسا نہیں کہ کبھی کیسی نے گناہ نا کیا ہو، ہاں مقدار میں فرق ضرور ہوتا ہے مگر ہر شخص مکمل نہیں ہوتا اس معملے میں، وہ سنتا بھی ہے اور دیتا بھی ہے"موحد سے نظریں ہٹا کر اسنے اپنے ہاتھوں کو دیکھا"دعا نا مگنا میری نظر بے وقوفی ہے،دعا مانگنے سے ہماری امید دیکھتی ہے اور نا مگنے کا مطلب آپکو امید ہی نہیں ہے،اور نا امیدئی اس ذات کو نہیں پسند"وہ ختم کر چکئی تھی موحد کچھ دیر اسئے دیکھتے رہنے کے بعد پوچھا
"تو گناہ گار اور گناہ کے ثمر کی سزا کیا ہوتی ہے ؟"مہر النساء اسکے سوال پر حیران ہوئی پھر کچھ دیر سامنے بیٹھے موحد کو دیکھا
"وہ تو رب ہی جانتا ہے مگر میری ذاتی طور پر سوچ ہے کہ اس شخص سے اسکا غرور چھین لیتا ہے وہ غرور چاہئے وجود کی صورت ہو یا دولت کی"اپنا جمعلہ مکمل کرتے ہی بہت کچھ اسئے یاد آیا، سبطین کا چہرہ اور اسکی آواز اسکے کانوں میں گنجئی، پھر گزریئے دن کا واقعی اور سچ بھ، بے اختیار ہی اسکی آنکھوں سے آنسو نکلئے اور گالوں سے پسلتے ہوئے اسئے ہاتھوں پر بوند کی صورت گرنے لگئے"میں بھی اس سزا کی ایک مثال ہو"وہ چاہ کر بھی خود پر قابو نہیں کر پا رہی تھی موحد کو دیکھتے ہوئے وہ روتے ہوئے بولی،موحد جو اسکے روتے چہرے کو دیکھ چپ ہی رہا، مگر اگلے پل موحد کا ہاتھ اسکے جانب بڑھا آنسو کو صاف کئے، موحد کی اسکی حرکت پو وہ بھی چونکی، ایک سکینڈ موحد کا آنسو صاف کرتا ہاتھ اسکے گال پر ٹھیرا، اور خاموشی ان دونوں کے درمیان ٹھیر گئی،موحد پھر چومک گیا اور تیزی سے اسکے گال سے ہاتھ ہٹا اسکے پاس سے اٹھا اور کمرے سے نکل گیا، اور وہ وہی اس گال پر ہاتھ رکھئے شک مین تھی کہ موحد آج کا رویہ اور انداز بدلہ ہوا تھا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ما ہ نور اور اذلان کے نکاح کو کافی وقت ہو چکا تھا مگر ان دونوں کی براستہ بات نہیں ہوئی تھی، ماہ نور اس سے بات کرنا چاہتی تھی مگر نا وقت مل رہا تھا نا موقع۔، اس بار ماہ نور نے اذلان کو ہسپٹل ملنے کا سوچا وہ یونیورسٹی سے ملنے گئی، وہ اذلان سے ملنے کے ہسپٹل کے ریسپشن کی جانب گئی، وہاں موجود لڑکے نے اسئے دیکھا
"جی میں آپ کی مدد کر سکتا ہو؟"لڑکے سوال پوچھنے پر اسنے کچھ ٹھر کر جواب دیا
"وہ ڈاکڑ اذلان وجدان سے مل سکتی ہو میں"کچھ گھبراہٹ سے پوچھتی ہوئی اسنے لڑکے کو دیکھا
"جی ضرور ! اپوینٹمن کس نام سے ریزرو ہے؟"لڑکے نے پرفیشنل انداز میں پوچھتے ہوئے کمپیوڑ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا
"وہ تو نہیں ہے،مگر"اسکے جواب پر لڑکے نے کمپیوڑ سے نظر اٹھا کر اسئے دیکھا
"مس آپ اپوینٹمن کے بغیر ڈاکڑ اذلان وجدان سے نہیں مل سکتی"ماہ نور کچھ دیر خاموش وہی کھڑی رہی "اگر آپ چاہئے تو اپوینٹمن لئے سکتی ہیں"لڑکے نے اسئے وہی کھڑئے دیکھ کر بولا
"نہیں وہ۔۔ وہ میں اذلان وجدان۔۔۔ کچھ نہیں شکریہ" پہلی بار تھا جب وہ اکیلے گھر سے نکلی تھی، وہ بھی بغیر کیسی کواطلاع دیئے کر تب ہی اس میں ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ہار ماتی ہوئیریسپشن سے واپس پلٹ گئی
"ماہ نور؟"وہ ریسپشن سے دو قدم ہی چلی تھی جب اسئے اذلان کی آواز سنائی دئی، اسنے بائیں جانب دیکھا جہاں سے آواز آئی تھی، وہاں سے اسکے جانب آرہا تھا"یہاں کیا کر رئی ہو؟"اسکے قریب آکر اذلان نے اس سے پوچھا
"وہ میں آپ سے ملنے آئی تھی"اسنے دہمی آواز میں کہا
"کیوں؟"کچھ الجھے انداز میں پوچھے گئے سوال کا جواط خود بھی نہیں جانتی تھی
"ڈاکڑ اذلان! وہ بیڈ نمبر چھ۔۔۔"ایک میل ڈاکڑ اذلان کے پاس آکر کچھ کہئے ہی رہا تھا جب اسکی نظر اس پر پڑئی"آپ مصروف ہیں، بعد میں آپ سے ڈسکس کر لیتا ہو"اس ڈاکڑ نے بات ختم کی مگر اذلان نے اسئے روک لیا
"نہیں بتاؤ کیا کہئے رہیں تھے"اسنے ڈاکڑ کو وک لیا"ماہ نور تم میرے آفس میں ویٹ کرو، سامنے کولیڈور کے ختم ہوتے لیفٹ پر دوسرا روم ،"اسنے بائیں ہی جانب نظر آتے کولیڈور کی جانب اشارہ کرتے اسئے جانے اشارہ دیا
"آپ کی رشتدار ہیں؟" کولیڈور کی جانب جاتی اسکئے کانوں میں آواز آئی، وہ کچھ پزل سی ہوئی
"کزن ہے"اذلان کے جواب پر اسکے بڑھتے قدم رک گئے، اسئے یہ دو لفظ بہت چبئے، مگر لب سیتی وہ اذلان کے آفس کی جانب بڑھئی،، جو سوال کئی بار اسکےذہین میں گھومتا تھا شاید اسکا جواب اسئے مل چکا تھاآفس میں بیٹھے اسئے دس منٹ گزیر تھے تب دروازہ کھول کر اذلان کمرے میں داخل ہوا
"کچھ کام تھا تمیں جو تم یہاں آئی؟"اذلان اپنی سیٹ پر جا تے ہوئے اس سے پوچھا، ہمت کر کے وہ یہاں آ تو گئی تھی مگر اب اسکے لب سیل چکئے تھے
"میں کچھ پوچھنے آئی تھی"اسنے ہمت کر کے سوال کر ہی لیا
"پو چھو"اذلان بغیر کوئی وقت زایہ کر کے اس سو سوال کیا
"آپ کیا اس نکاح کو ابھی تک قبول نہیں کر پائے؟"ماہ نور اذلان کو دیکھئے بغیر بولی
"ما ہ نور یہ حقیقت یہ کہ تم میری منکوحہ ہو، اور حقیقت قبول کرنے یا نہ کرنے سے نہیں بدلتی ، جتنی جلدی اس حقیقت کو قبول کر لیا جائے اتنا ہی بہتر ہوتا ہے اور کبھی وقت زیادہ لگتا ہے قبول کرنے کے لے"اذلان نے جواب دیا، ماہنور کا دل مذید دکھا
"تو مطلب آپ صرف سمجھوتہ کیا؟"ماہنور نے سوال کیا
"فلحال سمجھوتہ ہے"اذلان نے بے مروتی سے جواب دیا
"میں اس لے نکاح کے لے راضی نہیں تھی شاید میری وجہ سے تب ہی آپ گھر والوں سے قطرانے لگئے، اور آپ مجھ سے بات بھی نہیں کرتے"ماہ نور نے دہمی لہجے میں بولا مگر اذلان تک آواز جا چکی تھی
"تو تم کیا چاہتی تھی؟ کہ مجھے تم سے طوفانی قسم کا عشق ہو جائے،۔۔"اذلان نے ہر لفظ چبہ چبہ کر کہا"ساری دنیا تمارے گرد نہیں گھومتی ، اس لڑکی کا تو خیال کروں جو تمیں بچاتی ہوئی اس قید میں زندہ لاش بن چکی ہو گئی، "اذلان کا لہجہ اسکے لے نیا تھا تب ہی وہ سہم سی گئی مگر وہ اذلان کے اس طرح بگڑنے کا مطلب نہیں جان سکئی
"میں بس چاہتی ہو آپ پہلے جیسے ہوجائے"ماہنو نے اپنے آنسو روکتے ہوئے کہا
"حالات پہلے جیسے نہیں ہیں ما ہ نور، میں کیسے پہلے جیسا ہو سکتا ہو، کچھ وقت دو مجھے پہلے جیسا نہیں پر جینا سیکھ جاؤں گا، اتنے خود غرض تو نہیں ہوسکتے نا ہم "دونوں"ٹھیک ہے"یہ کہتا اپنی جگہ سے اٹھا، ماہ نور کے پاس آیا"چلو میں تمیں گھر چھوڑ آؤ"ماہ نور کے سر پے سرکتے ڈوپٹے کو ٹھیک کرتا اذلان اس سے بولا، ماہ نور کی مذید سوال اسکے اندر ہی مر گئے اذلان نے اسکی پوری سنئے بغیر ہی اسئے "خود غرض" قرار دئے دیا تھا اب وہ مذید کچھ نہیں کہئے سکتی تھی بس اس وقت کا انتظار کر سکتی تھی جب وہ دو نوں حقیقت کو قبول کر لئے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بتائے گئے وقت پر آفس میں موجود تھا وہ اعلیٰ شان کمپنی کی لوبی تھی، وہ خاموشی سے ریسپشن کی جانب آیا، وہاں موجود لڑکی نے مکمل پروفیشنل انداز میں اس سے وجہ پوچھی، اسکے بتانے کے بعد اسئے ایک آفس کی جانب وہاں موجود سکیڑیری نے اسئے ایک آفس میں بھیج دیا، وہ آفس واقعی تعریف کے قابل تھا شاندار کو ایک صورت دئی جاتی تو وہ شاید یہ آفس ہوتا، کمرے کے دروازے بلکل سامنے ایک آفس ٹیبل پر بیٹھا پر کشش شخسیت کا مالک اسکے ہی انتطار میں بیٹھا تھا
"آپ واقعی کے پابندہ ثابت ہوئے"اس شخص نے مسکراتے ہوئے اسکا استقبال میں ایک جمعلہ کہا
"آپ کی خاص ہدایت تھی، "اسنے بھی مسکان کے ساتھ جواب دیا
"وقت کم ہے میرے پاس ، اسلے وقت کی پابندی کی ہدایت دئی گئی تھی ،آیئں بیٹھے، آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے، "ٹیبل کے سامنے رکھی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
"آپ نے مجھے کیوں بلایا؟"اسنے سیدھے نقطے کی بات کی
"مجھے اچھا لگا کہ بغیر کوئی بات کو طول دئے کر آپ نے مقصد کی بات کی"اسید شاہ نے پر اسرا مشکان کے ساتھ اسئے داد دئی
"مجھے اندازہ تو ہے میری موجودگئی کی وجہ کیا ہےمگر اس بات کی پر اس بات کا نہیں کہ مقصد کس کے حق میں ہے"اسنے دوبارہ بات کو طویل دینا مناسب نہیں لگا
"ٹھیک کہا !، مگر ایک بات یاد رکھنا یہ میری اور تماری پہلی اور آخری ملاقات ہے"اسید شاہ نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
"سمجھ گیا"اسنے سر اثبات پر ہلاتے ہوئے جواب دیا
"میں جانتا ہو کہ تم کس کیس پے کام کر رہئے ہو، اور یہ بھی کہ اس کیس میں کون سزا پا سکتا ہے"اسید شاہ نے اسئے دیکھتے ہوئے کہا
"اور آپ چاہتے ہیں کہ اسئے سزا نہ ملئے؟ اور اس کہ بدلے کیا دینا چاہتے ہیں آپ،۔۔ رشوت یا موت کی دھمکی؟"اسنے بغیر کیسی تاصر کے ساتھ جواب دیا
"دونوں میں سے کچھ بھی نہیں۔۔، بس اس شخص کے گلئے میں پہندھے کی گرفت مذید تنگ کرنا چاہتا ہو"اسید شاہ کے کی بات اسئے جھٹکا دینے میں کامیاب ہوئی"کیا ہوا؟"اسکی خاموشی پر پوچھا گیا
"سوچ رہا ہو کہ آپ سے وجہ ابھی پوچھو یا آپ کہ ثبوت دینے کے بعد؟"اسکے سوال پر اسید شاہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اپنی ٹیبل کے نیچے سے ایک فائیل اور یو ایس بی ٹیبل پر رکھ کر اسکے سامنے کیا
"اس میں اتنے ثبوت کافی ہیں کہ شہباز عالم کو پہانسی نہیں تو کم از کم جیل ہو سکتی۔۔، اور رہی بات وجہ کی تو یہ سمجھ لو یہ شخص پاڑٹی کے کچھ لوگوں کے لے کانٹا ہے جو انکے اور وازرت کے راستے پر موجود ہے، اگر اس پر جرم ثابت ہو گیا تو وزارت تو دور کی بات سیاست بھیدور ہو جائے گئی"اسید شاہ نے اپنی بات ختم کی مگر وہ خاموش ہی رہا"آسان لفظوں میں اسئے اپنے پر غرور ہے، اپنے ایمیج پے اپنی "سورس" پر تو بس وہی رویہ کیسی کو پسند نہیں ہے ، وہ کہرتے ہیں کہ غرور کیسی کو راس نہیں آتا بس یہ ہی سمھ لو"اسید شاہ نے مزید اپنی بات میں اضافہ کیا
"ثبوت جمع کرنا تو ہمارا کام ہوتا ، پو چھ سکتا ہو یہ سب آپ نے کس طرح جمع کیئے؟"فائیل کو کھول کر دیکھتے ہوئے کہا
"میں نے کہا بھی ہے کہ کئی لوگوں کی راہ کا کانٹا ہے تو اب اگر کئی لوگ شامل ہیں تو ریسورس بھی کئی ہوگئی"اسید شاہ نے کہتے ہوئے مسکرائے
"اوکے! شکریہ "وہ کہتا اپنی جگہ سے کھڑا ہوا"میں آپ کے وقت کا شکر گزار ہو، "وہ واپس جانے لگا اید شاہ نے غور سے اسکی پشت کو دیکھتا رہا وہ اسید شاہ کی نظریں محسوس کر سکتا تھا، مگر اسنے کچھ کہا نہیں وہ بلڈینگ سے نکل کر اپنی گاڑی کی جانب جا رہا تھا تب اسئے ایک جانی پہچانی آواز نے اپنی جانب متوجہ کیا، کلثوم سیدہ تھی
"مسٹر موحد،۔۔ مجھے لگا شاید کوئی اور ہے۔۔۔ "کلثوم سیدہ نے مسکراتے ہوئے کہا
"ایڈویکیٹ کلثوم، کیسی ہیں آپ"اسنے بھی اخلاقی انداز میں پو چھا
"آپ مجھے صرف کلثوم بولا سکتے ہیں میں ٹھیک ہو اور آپ؟"کلثوم نے ہلکی سی ہنسی کے ساتھ کہا
"میں بھی ٹھیک ہو، آپ یہاں کیسی کام سے آئی ہیں؟"اسنے کہتے ہوئے اپنی کلائی پر گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے کہا
"جی کیسی کام کے وجہ سے یہاں آئی تھی واپس جاررہی تھی تو گاڑی خراب ہوگئی ڈرئیوار گاڑی کے پاس چھوڑ کر، اب ٹیکسی ڈھونڈنے جارہی ہو"کلثوم سیدہ نےکہا
"کہاں جا ریہ ہیں میں ڈروپ کر دوں گا؟" اسنے بغیر کوئی تاصر کے کلثوم سیدہ کو مدد کی پیشکش کی
"نہیں آپ کو ذہمت ہو گئی میں چلی جاؤں گئی"کلثوم سیدہ نے اپنے آنکھوں پر لگئے سن گلاسس کو ٹھیک کر تے ہوئے کہا
"کوئی ذہمت نہیں ہوگئی، میں آپ کو ڈاپ کردو گا"اسنے بھی یہ آخری کوشش کی ، پھر اسکے بعد ہو اسکی مدد قبول کرتی یا نہیں اسئے کو فرق پڑتا
"چلیں ٹھیک ہے "کلثو سیدہ مسکراتے ہوئے کہئے کر اسکی مدد لینے کو راضی ہوگئی، خاموشی سے وہ اپنی ڈریئوینگ سیٹ پر آ گیا، کلثوم سیدہ نے اسئے اپنی منزل بتائی، کچھ دیر سفر خاموشی کے نظر ہوا مگر پھر کلثوم نے خاموشی میں درار ڈالی"مجھے حماد کا سن کر بے انتہا افسوس ہوا" یہ بات سن کر اسکا ذیہن اسکا ماؤف ہوا"بلاشبہ وہ ایک نیک شخص تھا"کلثوم سسید نے پھر اپنی بات کہئی
"جانتا ہو،وہ زندگئی پر حق رکھتا تھا"موحد نے اسکے ذہین میں ابلتے جزبات کو قابو کر کے کہنے لگا
"حماد نے حمید علی کے لے جتنی کوشش کی ہے شاید کوئی اپنا بھی کرتا ہو"کلثوم سید کی بات سن کر اسنے کوئی جواب نہیں دیا
"حمید علی ، یہ نام ہی تھا جس سے سب شروع ہوا"اسٹیرینگ پر گرفت مضبوط کرتا اسنے کہا، کلثوم سیدہ نے اسئے دیکھا پھر کچھ دیر سوچنے لگئی
"صرف حمید علی ہی نہیں ، ایک اور نام ہے جس نے اسکی مدد کی تھی"تیسرا شخص وہ تو کب کا اسکے ذہین سے نکل چکا تھا
"کیا؟ آپ کو یسے پتہ ؟ کیا حمید علی نے اسکا نام بتایا؟"اگر حماد اور سعد والا قصہ نہ ہو تا تو اس شخص کو ڈھونڈ نکالتا مگر زندگئی کے پیتڑے نے اسئے سب سے فراموش کر چکا تھا
" حمید نے جب جرم قبول کیا تب پہلی ملاقات میں اسنے مجھے دیا تھا تب ذکر کیا تھا نام نہیں لیا مگر پھر سرئے سے مکرہ گیا وہ تیسرے آدمی سے ، ایسے جیسے وہ خوفزادہ ہو، پتہ نہیں کون ہے مگر جو بھی ہے اسنے ایک نہیں دو نہیں چار زندگیوں برباد کیا ہے، مگر کیس کا اب کچھ نہیں ہو سکتا کیس کو اس ہی وقت بند ہو گیا جب وہ گروپ نے اور حمید علی نے قبول کیا اور تیسرا آدمی کا ڈکر کب اور کیسے غائب ہوا ، علم میں ہی نہیں آیا میرے"کلثوم سیدہ نے تفصیل سے اسکو بتا یا
"چار زندگیاں،"اسنے زیرِلب کہا، اسنے کیس سے صرف حماد کے نام کو ہٹایا تھا اور پھر حمید علی کے کیس کو بھول چکا تھا، اسئے علم تھا تیسرے شخص کا مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ تہاے والے سرئے سے اس آدمی کو ہٹا دیئے گئے" مس کلثوم!ایک فیور کی ریکیوسٹ ہے"کلثوم سیدہ نے سر الثبات میں ہلایا" آپ مجھے حمید علی کے اس ملاقات مین جو کہا تھا اگر اسکا کوئی ریٹن متیریل ہے آپکے پاستو اسکی ایک کاپی میل کر سکتی ہیں؟، اور۔۔۔ نہیں بس اتنا ہی فیور کر دئے" اسنے کلثوم سیدہ کہا جس پر وہ کچھ دیر سوچنے کے بعد راضی ہو گئی اور اسنے مذید مدد مانگنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا، کچھ دیر مذید باتوں میں سفر گزرا اور کلثوم سیدہ کو اسکی منزل پر چھوڑ کر وہ اپنی راہ میں گامزن ہو گیا، یہ تیسرا شخص کون تھا؟، یہ اسئے اب جانا تھا اور اسئے یہ کرنے کے لے حمید علی سے ملنے جانے کا ارادہ کیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭جاری ہے٭٭٭
![](https://img.wattpad.com/cover/160824086-288-k36758.jpg)
VOCÊ ESTÁ LENDO
wafa k maqrooz thy hum
RomanceIF YOU HAVE ANY CONFUSION & QUESTIONS REGARDING THIS STORY, CHARACTER PLEASE LEAVE THE COMMENT I'LL ANSWER THEM PLEASE PLEASE PLEASE PLEASE 🙏🙏 VOTE Aik larka jis k duniyah main ane SE koi Khush na tha khud iss ke waldain BHI Nahi AGR koi uss se m...