باب 15

46 3 0
                                    


قسط15
بےتہاشہ خوف دل میں لئے وہ فون کو دیکھ رہئے تھے ماہ نور آنکھوں میں آنسوں لئے فون انکی طرف کر رکھا تھا انھوں نے اپنی بیٹی کی آنکھوں میں التجا دیکھی
"میری اتنی ہمت نہیں ہے کہ میں کچھ بتا سکو بابا جان"ماہ نور روتی ہوئی فون انکے ہاتھ میں دیتی واپس چلی گئی، انھوں کا فی ہمت کر کے فون کان سے لگایا دوسری طرف اذلان تھا
"ہیلو! تایا جان؟ "اذلان نے دوسری طرف سے پوچھا
"ہاں بول رہا ہو" انکی آواز انکے ہی گلئے میں اٹک چکی تھی انھوں پوری ہمت سے بس اتنا ہی کہا
"اچھا ہوا آپ سے بات ہو گئی، آپ ہی مجھے ٹھیک بتائے گئے ورنہ نا تائی جان کچھ بتا رہی نا ہی ماہ نور، تایا جان ابھی تک یہ دونوں گاؤں میں کیا کر رہی ہیں شہر کیوں نہیں گئی، تا یا جان؟"اذلان نے کئی سوال کر چکا تھا، "تایا جان آپ مجھے سچ بتائے کیا ہوا ہے؟"اذلان نے اب وہ سوال کیا جس کا جواب انکے لے بھی مشکل تھا"میری بہن ٹھیک تو ہے نا؟"اذلان کو بتانے کی ضررورت نہیں ہوئی وہ سمجھ چکا تھا
"مجھے معاف کر دوں"انکھے لبوں سے بس یہ ہی نکل سکا
"میں واپس آرہا ہو"کا فی دیر خاموشی رہنے کے بعد اذلان نے یہ کہئے کر فون بند کر دیا، اس وقت انکی ہمت نہیں تھی کہ اذلان کے سوالوں کا جواب دیتے، آگئے کیا تھا وہ نہیں جانتے، کتنے بے بس تھے وہ،وہ کمرے سے باہر نکل کر لاونچ میں آئے جہاں ماہ نور اس سامان کو دیکھ رہی تھی جو موحد کچھ دیر قبل چھوڑ کر گیا تھا، انھیں اپنی بیٹی کو یہ کام کرتا دیکھ کر غصہ آیا
"یہاں قیامت آگئی اور تم یہاں اپنا سامان دیکھ رہی ہو؟"انھوں نے بازپرست کی
"میں سوچ رہی تھی کہ ان لوگوں کو کیسے علم ہوا کہ کون سا میرا سامان ہے اور کون سا آپی کا،مگر میرا شک سہی تھا"ماہ نور چونک کر انھیں وضاحت دینے لگئی
"پھر؟"انھوں نے اپنی بیٹی سے اس ہی انداز میں پوچھا
"آپی کا بھی سامان ہے انکے دستاویز کے علاوہ اور ایک انکا بیگ تھا اسکے علاوہ آپی کا بھی تمام سامان وہ لوگ دیئے گئے"ماہ نور کے بتانے پر وہ انھوں نے ماہ نور سے کچھ نہیں کہا ، واپس اپنے کمرے کی جانب جانے لگئے ، وہ کیا کہتے انھیں تو ابھی یہ بھی علم نہیں تھا کہ و اذلان کا سامنہ کرئے گئے، وہ سست روی سے اپنے کمرے کی جانب جا رہئے تھے تب ماہ نور نے انکے قدم اپنے سوال سے روک دیئے
"اذلان کوکیا جواب دیا آپ نے؟"ماہ نور نے کمزور آواز میں پوچھا
"میں نے بس معافی مانگئی دوسری طرف موجود اذلان کو پھر کچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں پڑئی ۔۔۔۔ وہ واپس آ رہا ہے"انھوں نے اپنی بیٹی کو اطلاع دئی
"سوچا ہے کیا جواب دیئے گئے سوالوں کے؟"مانور نے پھر پوچھا
"نہیں"بس ایک لفظ کا جواب دئے کر وہ اسئے چھور کر چلئے گئے وہ اپنی بیٹی کے سوالوں کا سامنہ نہیں کر پا رہئے تھے اذلان کا سوچ کر انھیں مزید پریشانی ہونے لگئی تھی، آخر کیوں زندگئی انھیں بند گلی کے سامنے لے آئی تھی 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
خوائشوں کے مردوجود پر لال کفن ڈال کر خود کو اس تے خانے پر دفنہ چکی تھی وہ با خبر تھی کہ اپنے پیچےکیا قیامت برپہ کر آئی تھی، پر اس پر قیامت گزر چکی ہے یا ابھی گزرئے گئی اس بات کی اسئے خبر نہیں تھی، اسکے برابر میں بیٹھے شخص کے ساتھ ایک گھنٹہ ہو چکا تھا اسئے سفر کرتے ہوئے، مگر سفر میں ایک بار بھی نا اس شخص نے اسئے نا مخاطب کیا تھا نا ہی اسنے ایک بار بھی نہیں دیکھا ہو اس شخص کو مگر اسئے محسوس ہواکہ وہ مسلسل کچھ لکھنے میں مصروف ہے،وہ جانتی تھی یہ شخص چہرے پر جیت کی چمک لئے اپنی فتح کے نشے میں سرشار ہوگا، کچھ وقت مزید گزرا اور اسنے بلا ارادہ ہی اسنے ایک نظر اپنے نام ونہاد شوہر کو دیکھا،مگر موحد کو دیکھ کر وہ ٹھٹک گئی وہاں اس چہرے پر کچھ ایسا نہیں تھا جس کا اسئے غمان تھا وہاں نا فتح کی چمک تھی، نا غرور ، اور نہ ہی وہ جلال جو اسنے ان دو دن میں جب بھی موحد سے ملئی تب تب اسنے اسکے نقش پر پایا، وہاں چہرے پر اگر کچھ تھا تو وہ غم تھا درد تھا تکلیف تھی کچھ عزیز شے کو کھونے کا درد تھا موحد مسلسل کچھ لکھنے میں مصروف تھا اسئےموحدکےچہرے کودیکھ کر احساس ہونےلگا کہ وہ شخص واقع تنہائی کا شکار تھا شاید؟ اسئے تو یہ ہی وہم ہوا،موحد کو دیکھتے ہوئے اسنے سعد کے بارے میں سوچا سعد پر داور چوہدری کے چھوٹے بیٹے کے قتل کا الزام ہے، اور داور چوہدری کا بڑا بیٹا، اسئے راشدہ ماسی کی بات یاد آئی جو انھوں نے اس خاندان کے بارے میں بتائی تھی، مطلب یہ۔۔،بے ساختہ اسکے لبوں سے آہ کی آواز نکلی، موحد نے اپنی ڈائیری سے نظر ہٹا کر اسئے دیکھا، اس پر نظرپڑتے ہی پرانے تمام رنگ موحد کے چہرے پر واپس آ گئے جو وہ تلاش کرنا چاہ رہی تھی
"کیا مسئلہ ہے؟ "بے رخی سے کہتا موحد نے ڈایئرئی بند کرکے اپنے ساتھ رکھئے بیگ میں رکھ دئی، وہ کھسیا کر کھڑکھی سے باہر دیکھنے لگئی، کچھ دیر مذید گزرئی تھی تب اسئے برا بر سے موبائل کی رنگ ٹون سنائی دئی، کافی دیر تک فون پر کال آتی رہی مگر فون ریسیو نہیں کئی جا رہی تھی،موبائل بند ہو گیا، چند منٹ بھی نہیں گزرئے تھے کال دوبارہ آنے لگئی، بے ساختہ ہی ایک نظر موحد کی جانب کی، موحد کے ہاتھ میں ہی موبائل تھا ،اسکے چہرے سے صاف ظاہر تھاکہ وہ ہچکچا رہا تھایاشایددوسری جانب موجودشخصیت سےبات ہی نہیں کرنا چاہ رہاتھا، اسنےگہری سانس لیتےہوئے موبائل کی کال کو ریسیوکرتےدیکھا 
"ہیلو!"اسنے موحد کی آواز میں نے بے زاری محسوس کی"مصروف تھا اس لے فون نہیں اٹھایا"دوسری طرف شاید اسکے کال نہ ریسیو کرنے کی وجہ پو چھی گئی تھی، کچھ دیر موحد دوسری طرف کی بات سنتا رہا پھر جواب دیا"دیکھو دلاور تم جانتے ہو کہ گاؤں میں زیادہ وقت کیوں لگ گیا، واپس آرہا ہو کل سے ڈیوڈی جوائن کرؤں گا "موحد کے چہرے کے نقش پر کوئی غصے کا رنگ نہیں تھا، پر سکون انداز میں دوسری طرف شخص سے بات کر رہا تھا"ہاں ہو گیا فیصلہ"دوسری طرف یقینی طور پر جرگہ کا پوچھا گیا تھا، موحد نے اسکی طرف معنی خیز انداز میں دیکھتے ہوئے کہا ، اس وقت موحد کی آنکھوں میں جھلکتی اپنے لے نفرت وہ صاف محسوس کر سکتی تھی"پر وہ نہیں ہوا جو میں چاہتا تھاپر خیر جو بھی ہے میں ہمیشہ کہتا ہو کہ وقت اور حالات کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہئے "فون پر بات کرتے ہوئے موحد نے اسکا ہاتھ تھام لیا جو اس نے اپنی گود میں رکھا تھا اور پوری قوت سے موحد نے گرفت مظبوط کی وہ جو موحد کی اس حرکت سے پریشان ہوئی تھی بعد میں اپنے ہاتھ میں اٹھتی تکلیف محسوس کی، ڈرائیور کی موجودگئی کومد نظر رکھتے ہوئے خاموشی سے اپنا ہاتھ موحد کی گرفت سے خود کو آزاد کروانا چاہا، دوسری طرف موحد کی گرفت مزید مظبوط ہوتی گئی آخر میں اسکا ضبط جواب دئے گیا،مگر دوسری طرف بے حسی کی انتہا تھی"تمیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے کیا؟، جو اتنے سوال کر رہئے ہو "گہری آہ بھرتے ہوئے"دلاور!میں بہت تھکا ہوا ہو اب سفر شاید سو کر گزاروں، ہمت نہیں ہے کہ کوئی بات کرؤں اب"دوسری طرف موحد کے مزاج کا علم ہوا تب ہی کچھ دیر بات کر کے موحد نے مو بائل کی کال کاٹ کر اسئے سویچ آف کر دیا، اب وہ مکمل طور اسکی جانب متوجہ تھا، جس مظبوطی سے ہاتھ پکڑ رکھا تھا اسئی مظبوطی سے ہاتھ اٹھا کر اسکی آنکھوں کے سامنے لے کر آیا، اسکی آنکھوں میں تکلیف بر داشت کرتے ہوئے آنسوں آگئے تھے 
"اتنی سی تکلیف سے آنسوں؟"اسکے آنکھ سے بہتا آنسوں کو دوسرے ہا تھ سے صاف کر تے بولا"بے فکر رہو کوشش کرؤں گا کہ تکلیفوں کی تمیں عادت ہو جائے"یہ کہتا موحد نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا
"آہ"درد کی وجہ سے اسکے لبوں سے آواز نکلی اسکا ہاتھ کانپ رہا تھا ہاتھ لال بھی ہو رہا تھا، بے ساختہ اسئے رونا آگیا"ناشکرئی کی سزا شاید یہ ہی ہے، سبطین کی نا قدری کی سزا"اسنے دل ہی دل میں سوچا، سفر میں دوبارہ وہی خاموشی آگئی تھی جو ابھی کچھ دیر پہلے تھی، بس فرق یہ تھا کہ موحد اب باہر کی جانب دیکھ رہا تھا اور وہ بس سر جھکائے خاموش آنسو ں بہا رہی تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حماد کے بعد اسنے اپنی جاب پر اتنا توجہ نہیں دہئے پارہا تھا، وہ جانتا تھا کہ اب اسکے دن وشب میں مذید مصروفیت آجائے گئی اسنے اگر پولیس اسٹیشن میں رابطہ رکھا تھا تو وہ حماد کا کیس تھا ورنہ وہ اپنا وہ کیس مکمل فراموش کر چکا تھا جس پر کئی دن بلکے سال بھر سے کی محنت تھی، جس کا ثمر یہ تھا کہ اس کی گرفت اس کیس میں مظبوط ہو چکی تھی کئی بڑئے نا م تھے اس کیس میں جو منظرِعام آنے والے تھے، شہر جانے کے دوسرے دن سے ہی وہ جاؤئن کرنے والا تھاابھی اس وقت اسکے فلیٹ میں اسکی ملازمہ ہی تھی، گاؤں سے شہر کے راستے میں اسنے ایک بار بھی پلٹ کر مہرالنساء کو نہیں دیکھا بس آخری بار اسنے مہر النساء سے براستہ تب بات کی تھی جب دلاور کا فون آیا تھا، ورنہ تمام راستہ خاموش میں سوچوں کے شور کے ساتھ گزرا تھا اور بس دوبارہ وہی خاموشی کافی دیر بعد اسنے ایک نظر برابر میں بیٹھی مہرالنساء کو دیکھا جس کو نیند کے زرِاثر تھی، وہ خاموشی سے اس لڑکی کو نیند سے لڑاتا دیکھ رہا تھا، آخر کار نیند فتح تافتہ ثابت ہوئی اور وہ لڑکی نیند کی وادیوں میں جا چکی تھی،سرد سانس ہوا میں سپرد کرتا اسنے دوبارہ کھڑکھی کی طرف اپنا رخ کر لیا،وہ بھی سیٹ کی بیگ سے اپنا سر لگا کر باہر دیکھنے پر مصروف ہو گیارحیم کو وہ گاؤں چھوڑ کر آیا اتھا، آگئے کیا کرنا ہے اسنے سوچ لیا تھا ، وہ جانتا تھا اب تک اذلان وجدان تک یہ خبر جا چکی ہوگئی وہ جانتا تھا اسئے تب کیا کرنا جب اذلان اس کے پاس آئے گا،عثمان چوہدری نے اپنے ہاتھ سے ہی اپنے راستے تنگ کئے تھے،بس اب زندگئی اسکے لے گٹھن زدہ بنانی تھی، جانے کیا سوچتے ہوئے اسکی بھی آنکھیں نیند سے بھاری محسوس ہونے لگئی،کچھ دیر کی بات تھی وہ بھی گہرئی نیند میں جا چکا تھا،
وہ حویلی کا منظر تھا وہ لاونج میں کھڑا تھا اسکے سامنے حویلی کا داخلی دروازہ تھا اسئے اپنا بچپن یاد آیا بچپن میں جہاں وہ روتا تھا چیکتا تھا اپنی طرف اپنے باپ کی توجہ حاصل کرنے کے لے، وہ اس وقت خاموش کھڑا تھا جب اسئے پیچھے سے اپنی ماں کی آواز سنائی دئی
"موحد!"اسنے پلٹ کر دیکھا وہاں اسکی ماں کھڑی تھی، سفید چادر میں خود کو لپیٹے ہوئے مسکراتے ہوئے اسئے ہی دیکھ رہی تھی
"اماں"اسکے لبوں سے ایک لفظ آزاد ہوا،وہ بے قرار ہوکر اپنی ماں کے جانب بڑھا، تب ہی کوئی چھوٹا بچہ اسکے برابر سے بھاگتا ہوا اسکی ماں کے پاؤں سے لپٹ گیا، وہ بچہ کون تھا ؟ جب بچے کی صورت واضح ہوئی تب اسئے انداز ہوا وہ حماد تھا، وہ حیران ہوا، حماد تو اسکی والدہ کے انتقال کے چار سال بعد اس دنیا میں آیا تھا وہ انھیں کیوں ماں بول رہا اور اسکی ماں حماد کو موحد کیوں؟
"اماں چلئے باہر؟"چھوٹا حماد نے ہسنتے ہوئے کہا
"ہاں چلو"حماد کے سر پر پیار سے بوسہ دیتی اور حماد کو گود میں اٹھاتے ہوئے اسکی ماں نے کہا
"اماں!وہ حماد ہے ماں میں یہاں ہو"اسنے اپنی ماں کی غلط فہمی دور کرنی چاہئی"اماں!"اسنے پوری طاقت سے چیخ کر کہا، مگر ان لوگوں تک جیسے آواز پہچ نہیںجا پا رہی تھی"اماں!"اسنے پھر چیخا، وہ دونوں اسکی موجودگئی سے مکمل فراموش باہر کی جانب جانے لگئے "حماد کو مت لے کر جائے" وہ چیختا رہا جب اسکی ماں اور بھائی اسکے پاس سے گزرئے، اسکی ماں کی گود میں تین سالہ حماد تھا، اسنے اپنی ماں کو روکنے لے انکا کندھا پکرنا چاہا مگر اسکا کندھے سے آرپار ہو گیا اسنے بے یقینی سے اپنے ہاتھ کو دیکھا، اور پھر پلٹ کر اپنی ماں کو دیکھا وہ اپنی ہی دھن میں باہر جارہی تھی وہ انکی جانب بھاگتا مگر وہ ایک قدم بھی نہیں اٹھا پا رہا تھا، اسئے ایسا محسوس ہو نے لگا جیسے زمین نے اسکے پکڑ لئے ہو، وہ بےبسی محسوس کر رہا تھا
"اماں حماد کو مت لے کر جائے"وہ التجا کر رہا تھا جب اسکی زبان ایک پل کے لے رکئی کیوں کے چھوٹا سا حماد اسکی ماں کے کندھے لگا اسئے ہی دیکھ رہا تھا
"حماد!"اسنےپھر پکارا، چھوٹا حماد اسئے دیکھ کر پورے دل کے ساتھ مسکرایا، الودعی انداز میں ہاتھ ہلانے لگا"حما د نہیں واپس آجاؤ حماد!"وہ دیکھتے ہی دیکھتے اسکی نظروں سے دور جا رہا تھا "حماد!"وہ پوری شدت سے چیخاجب اسکی آنکھ کھول گئی ، وہ تیز تیز سانس لے رہا تھا،گاڑی اسکے فلیٹ سے کچھ فاصلے پر تھی اسنے ماتھے کو چھوا جو پسینے میں بھیگئ ہوئی تھی ،اسنے اپنے ارد گرد دیکھا جب اسکو اپنے کندھے پر نظر پڑئی وہاں مہر النساء اسکے کندھے سے لگئی ہوئی تھی، اور کا فی گہرئی نیند میں تھی
"اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟"جھنجھلا کربڑابڑایا،مہرالنساء کو نیند سے جھانےکے لے اسکی جانب ہاتھ بڑھیا، پھر کچھ سوچ کر رک گیا، اسنے پھر مہرلانساء کو سونے دیا ، دس منٹ بعد گاڑی اسکے فلیٹ کی پارکنک میں روکی، گاڑی کے روکنے پر وہ باہر نہیں نکلا وہ خاموشی سے انتظار کرنے لگا، انتظار جلد ہی ختم ہوا مہر النساء نہیں سے جاگئی، وہ غائب دماغی سے اپنے ارد گرد کے ماحو ل کو الجھ ے انداز میں دیکھ رہی تھی ، ایک نظر سب دیکھ کر مہرلانساء نے اسکی جانب دیکھا، پھر ہڑبھڑا کر پیچے ہٹی
"اگر نیند پوری ہو گئی ہو تو چلئے؟"بے رخی سے کہتا باہر نکلا اور مہرالنساء کو دیکھئے بنا لفیٹ کی جانب بڑھا، مہرالنساء اسکے پیچے آرہی تھی وہ اسکی موجودگئی کو محسوس کر سکتا تھا،لفٹ کے سامنے روکا لفٹ آنے پر اندر داخل ہو ا مگر اندر داخل ہوتی مہرالنساء کو روک دیا
"فلور دس اور فلٹ نمبر 21 ، سٹرھیوں سے آؤں"اور لفٹ کا مطلوب فلور کا بٹن پریس کرتے ہوئے اسئے کہا اور پیچے ہٹا، لفٹ بند ہوتے ہوئے وہ مہرالنساء کے چہرےپر موجودہ رنگ دیکھ سکتا تھا، اپنے فلٹ پر پہچا جہاں اسکی ملازمہ موجود تھی"تمیں جو کہا تھا وہ لے کر آئی ہو؟"اسنے ملازمہ کو آنے سے پہلے ایک حکم دیا تھا
"جی ! مگر صاحب آپ ہمیں نکال کیو ں رہئے ہیں کوئی غلطی ہوگئی ہے ؟"ادحیڑ عمر ملازمہ نے کہا جس پر موحد نے کچھ دیر اسئے انتظار کرنے کو کہا اور اپنے کمرے میں چلا گیا، جب واپس آیا اسکے ہاتھ میں کچھ پیسے تھے 
"تم گا ؤں کی حویلی میں کام کرؤں گئی، اپنے بچوں اور شوہر کو بھی لے جانا ،جتنے تم یہاں کے گھرؤں کا کام کر کے کماتی اس سے زیادہ پیسے دوں گا ، تمارے بچوں کو اسکول کا خرچہ بھی میرا بس تم وہاں میری اماں جان کا کام کرؤں گئی باقی کا م کے لے دوسرے ملازم ہے،اور تمارے شوہر کی بھی مزدوری کا بھی اانتظام ہے، بس اماں کی جانب سے غفلت برداشت نہیں کرؤں گا" کچھ پیسے اسکے آگئے بڑھائے"یہ پیسے لو ،میں نے تمارے کپڑیں منگویں لئے ہیں تو نئے کے لے پیسوں کی ضرورت ہوگئی اور گاؤں تک کا کرایہ وہاں جاکر رحیم سے بات کرلینا میں نے اسئے بتادیا ہے، رحیم کو تو جانتی ہو نا؟"ملازمہ نے سر اثبات پر ہلایا
"مگر صاحب جی یہ کپڑیں کیوں ؟"ملازمہ نے الجھ کر پوچھا
"اپنے کام سے کام رکھو، " ملازمہ سے کہتا صوفے جا بیٹھا
"صاحب کوئی نئی ملازمہ رکھ لی ہے آپ نے؟"ملازمہ نے پوچھا، اس بات پر وہ مسکرایا 
"یہ ہی سمجھ لو، اب تم جا سکتی ہو"ملازمہ سر ہلاتی فلیٹ سے باہر نکلی فلیٹ کا دروزہ کھولا تو سامنے ہاپتی ہوئی مہر النساء تھی مہرالنساء کو دیکھا کر وہ کھڑا ہوا، ملازمہ حیرانی سے ہاپتی کاپتی لڑکی کو دیکھ رہی تھی 
"جاؤں اور اس لڑکی کو اندر آنے دو"موحدنے پیچے سے آواز لگائی ملازمہ باہر نکل گئی اور مہرالنساء اندر داخل ہوئی"ویل کم مسسز موحد داور چوہدری"موحد نے مہر النساء سے کہتا ہوا بلکل اسکے سامنے کھڑا ہوا ، وہ مہرالنساء کی آنکھوں میں ڈر دیکھ سکتا تھا،اور مہرالنساء اسکی آنکھوں سے نکلتی بدلے کی چنگاڑی دیکھ سکتی تھی ٰ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اذلان کا ارادہ واپس آنے کا ہی تھا مگر اپنے تایا جان کے اسرار پر اسنے آنے کا ارادہ ترک کر دیا ، مگر شاید قسمت نے پھر اسکا جانا لکھا تھاقسمت شاید انہونی کا ہی نام ہے اسنے سوچ لیا تھا کہ اب پاکستاان میں ہی رہنا ہے، ماہ نور کے نکاح کے بعد اس کا اس ہی ہاسپٹل میں رہنا آزمائش سے کم نہیں تھا اسنے ما ہ نور سے نکاح کی راضہ مندی بتانے کے دوسرے دن ہی ہاسپٹل سے رئزاین کر دیا تھا مگر اسکی جگہ دوسرے ڈاکڑ کے آنے تک اسئے وہی کام کرنا تھا، دوسرے شہر میں ہاسپٹل میں در خواست بھی دئی تھی،مگر اب اسکے گھر سے فون اور مہرالنساء کی غیر موجودگئی نے اسئے خوف میں مبتالہ کردیا تھا اسنے فون بند کر تے ہی واپس آنے کی تیاری کر لی ، اسکی جگہ ڈاکڑ آچکا تھا تو اب اسئے فکر بھی نہیں تھی بس اسئے اپنی بہن کے پاس جانا تھا، اپنےاپارٹمنٹ میں اپنا سامان پیک کر رہا تھا جب اسکے در وازے پر بیل کیسی نے بجائی
"آرہا ہو"اسنے مصروف انداز میں کہا اور سامان کو چھوڑتا دروازے کی جانب بڑھا ، دروازہ کھولا تو سامنے کیٹرین تھی، وہ کچھ دیر کے لے وہ کچھ بول نا پایا
"اندر آنے کا نہیں کہو گئے؟"کیٹرین نے ہی مسکراتے ہوئے کہا
"آہ! سوری ، آؤ اندر" اسنے جگہ دیتے ہوئے اسئے دعوت دئی کیٹرین مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوئی، اندر آتی ہی کتٹرین کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ سکڑ گئی،وہ اسکے اپارٹمینٹ کو ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے ایک جوارئی جوا میں اپنے ہارے ہوئے قیمتی حساسوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے"بیٹھو ، میں تمارے لے کافی لے کر آتا ہو"وہ بس کیٹرین کے سامنے سے ہٹنا چاہتا تھا 
"روکو، میں بناتی ہو" کیٹرین نے اسئے روک دیا، کیٹرین کے کچن میں جانے کے بعد وہ کمرے کی ،جود کھڑکھی کے سامنے کھڑا ہو گیا 
"ٹھیک ہے"اسنے بھی مسکراتے ہوئے کہا ، کچھ دیر کے بعد کیٹرین اسکے سامنے تھی دو کپ لئے اسکے سامنے تھی
"لو جیسے تمیں پسند ہے"اسنے خاموشی سے کپ تھام لیا اور کیٹین کچھ فاصلے پر کھڑی ہو گئی
"میں واپس جارہا ہو،شاید اب وہی رہو"کافی دیر خاموشی کے بعد اسنے کیٹرین کو بتا یا
"جانتی ہو جیمز سے پتہ چلا مجھے،"کا فی کا سپ لیتے ہوئے کیٹرین نے کہا "اذلان! زندگی نے ایک چیز بہت اچھے سے سیکھا دئی ہے ، کہ قسمت ہمیشہ ہمیں حیران کر دیتی ہے، اور کتنے یقین سے کہئے رہئے ہو کہ تم واپس نہیں آؤ گئے ، کیا جلدی نہیں کہئے رہئے تم کہ کبھی واپس نہیں آؤ گئے؟،ہائی اسکول سے ہم ساتھ ہیں اور تب سے میں تمیں پسند کرتی تھی، ایم بی بی ایس سے لے کر کارڈیولوجی کی پڑھائی تمارے ساتھ کی ، تب مجھے لگتا تھا تم میرے قسمت میں نہیں مگر جب تم نے مجھے سے شادی کی خوائش ا ظاہر کی تب سب خواب لگا مجھے پھر اس اپارٹمنٹ کو لے کر میں نے کتنے اور خواب سجائے لئے، ۔۔۔"کچھ دیر مذید خاموشی رہی وہ شاید ہمت جمع کع رہی تھی بات کرنے کے لے، اور وہ بس خاموشی سے اسکے گالوں پر پسلتے آنسوں کو دیکھ رہا تھا"میں یہاں اس لے آئی تھی کہ شاید کبھی موقع نہیں ملتا تمیں بتانے کا ،تم میری طرف سے بے فکر رہو، کوئی ملال اور بغیر کیسی غلط سوچ کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا، میں جانتی ہو تمیں اسلے سمجھا رہی ہو ماضی میں رہتا انسان کبھی حال اور مستقبل میں خؤش نہیں رہتا، اور میں چاہتی ہو تم خوش رہو۔۔۔۔، کافی ختم ہو گئی شاید مجھے اب چلنا چاہئے"کیٹرین نے کافی کا ٹیبل رکھ کر باہر کی جانب جانے لگئی، تب ہی اس اسکا ہاتھ پکڑ کر روک لیا
"تم ہمیشہ میری ہمت بن کر میرے سامنے آئی ہو،ہمیشہ اور آج بھی۔۔۔ میرے ہمت نہیں تھی کہ یہ لفظ بولتا ، "وہ اسکے سامنے گٹھنوں کے بل گر گیا اور کیٹرین کا ہاتھ آنکھوں پے لگا کر کہنے لگا"مجھے معاف کردو" کچھ دیر خاموشی رہی پھر کیٹرین بھی اسکے سامنے بیٹھ گئی
"کس چیز کی معافی اذلان؟، تم نے دھوکہ نہیں دیا بس مجبور ہوگئے تھے بلکے ہو"وہ سر جھکائے بس کیٹرین کی آواز سن رہا تھا"تم جانتے ہو ، تمارے نکاح کے بعد مہرالنساء کی کال میرے پاس آئی تھی،جب میں نے اسئے اپنا نمبر دیا تھا تب مجھے بھی انداز نہیں تھا کہ ہماری پہلی فون کال کا مقصد یہ ہوگا"وہ آنسوں زمیں پر قطروں کی صورت میں گرتے دیکھ رہا تھا،مگر وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا وہ حق ملنے سے پہلے ہی کھو چکا تھا"مجھے لگا وہ مجھے تم سے دور رہنے کی بات کرئے گئی ۔۔۔م ۔مگ مگر اسنے مجھ سے معافی مانگئ ، کہنے لگئی وہ جانتی ہے کہ کیسی بےوفا شخص کے کھونا انسان بھول جاتا ہے مگر با وفا شخص کا کھونا جیتے جی مار دیتا ہے، تب مجھے خود سے زیادہ مہر النساء رحم کے قابل لگئی مجھے ، شاید ہماری قسمت ایک جیسی ہے کہ ہم دونوں نےبا وفا شخص کو کھو دیا"اپنا ہاتھ اذلان سے چھوڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی
"کیٹی!ہو سکے تو ما ہ نور کو معاف کر دینا، وہ بھی مجبور ہے"اسئے دیکھئے بغیر ہی کیٹرین سے کہا، اپنا بیگ اٹھاتی کیٹرین رکئی
"معاف کر دیا! مگر میں جتنی بھی بڑے دل کا مظاہرہ کر لو، پر یہ نام تماری زبان سے سنا میری برداشت سے باہر ہے،اذلان آگئے چل کر شاید مجھے کوئی مل جائے مگر میں چاہتی ہو کہ اگر تم مجھے کئی دیکھو تو نظرانداز کر دینا کیو نکہ میں نہیں چاہتی کہ میں نا شکری بن جاؤں اور تم پھر ماضی کو یاد کرو، اور شاید یہ خود غرزی مگر میں تمیں کیسی نہیں دیکھ سکتی،"اسکی بات سن کر وہ چوک کر سر اٹھا یا، کیڑین اسئے ہی دیکھ رہی تھی "اتنا سا تو میرا بھی حق ہے نا"آنکھوں میں آنسو لئے وہ اپنی بات کہتی دروازے کی جانب بڑئی، دروازہ کھو کر وہ رکئی"میں دعا گو ہو گئی کہ تم ہمیشہ خوش رہو" یہ کہتی دراوزے باہر نکل گئی اور پیچے اسئے چھوڑ گئی
"شاید ہم دونوں بہن بھائی ایک ہی قسمت لے کر آئے ہیں"وہ شکستہ قدموں سے چلتا آیا اور صوفے پر گرنے والے انداز میں بیٹھا اور بس اپنے خیالوں میں کھو گیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 
ایک لمبی اصولوں کی فہررست اسکے نام کر گیا تھا وہ"میری اجازت کے بغیر ہر کام تم پر حرام ہے، چاہئے وہ کھانا ہو ، سونا ہو یا کوئی بھی کام،کھڑکھی کے پردے نہیں کھولے گئے نا دروازہ تم باہر نہیں جا سکتی دروازہ لاک ہو گا، کھانا جتنا بولو اتنا بنئے گا اور ان کپڑوں کے علاوہ کوئی لباس تمارے پے نا دیکھو، " اور ایسے ہی کئی اصولو تھے جس پر اسئے عمل کرنا تھا عمل نا کرنے کی صورت میں وہ کچھ بھی کر سکتا تھا، تین یا پانچ دن ہوئے تھے اسئے اس فلیٹ میں رہئے کر وہ آدمی رات گئے تک واپس آتا تھا اور جانے سے پہلے یہ بتا کر جاتا تھا کہ کتی دیر وہ بیٹھ سکتی ہے کتنی دیر وہ چل یا کھڑی ہو سکتی ہے پورے فلیٹ میں ایک کمر لاونج اور کچن تک ہی اسئے اجازت تھی جانے کی باقی تین کمرے اسکی حدود سے باہر تھے ، کھانا کھانے پر کو ئی بندش نہیں تھی بس اجازت لینی ہوگئی، وہ سمجھ گئی تھی وہ اسئے ایک جیل میں قید ملزم کی طرح برتاؤ کر رہا تھا، اس وقت بھی وہ صبح کا نکلا تھا اور واپس نہیں آیا تھا جانے کب آنا تھا اسئے مگر جب تک وہ نہیں آتا اسئے بھوکا رہنا تھا صبح کا ناشتہ کرنے کی اس کی اجازت نہیں تھی، لباس کی صورت میں وہ ملازمہ کے کپڑے پہنتی تھی، جانے یہ زندگی کب ختم ہوگئی؟ایسے کئی سوال اس زہن میں آںے لگئے تھے، وہ اس وقت کچن میں تھی، پانی پینے آئی تھی جب اسئے فلیٹ کا دروازہ کھولنے کی آواز آئی
"آپا!" مردانہ آواز تھی جیسے سن کر اسکی روح کانپ گئی، وہ جو بھی تھا لاونچ کی طرف ہی آرہا تھا اسکے پاس وقت نہیں ملاکہ دوسرے کمرے میں چلی جائے، لاونچ اور کچن ایک ساتھ ہی بنئے ہوئے تھے، لاونچ میں داخل ہوتا شخص اسئے دیکھ کر چونک گیا"آپ کون ہیں؟"کچھ سیکنڈ کے بعد اس آدمی نے پوچھا، وہ موحد کی عمر کا لگ رہا تھا
"و ہ ۔۔ وہ میں"ایسے سمجھ نہیں آرہ تھا وہ کیا کہئے مگر احتیاتی طور پر کچن پر موجود چھرئی کے اسٹینٹ سے ایک چھری نکال کر اپنے پشت پر چھپا لی تھی ، کچھ الجھ کر ائے دیکھتا رہا، پھر کہا 
"خیر جو بھی ہیں آپ بے فکر رہیں میں بس یہ دینے آیا تھا"اسنےہاتھ میں موجود ایک شاپیگ بیگ اٹھا کر اسکے سامنے کیا اور صوفے پر رکھ کر جانے لگا"آپ دروازہ لاک کر لئے یہ چابی میں یہاں ہی چھوڑ کر چلا جاتا ہو، یہ سامان فریج میں رکھ دیئے گا، اور اب آپ دروازہ مت کھولے گا،"وہ آدمی اس سے جانے کیوں تفصیل بتا رہا تھا
"جی"وہ بس اک با ت ختم کر گئی، وہ آدمی باہر جاتے رکا
"مجھے یہ سوال پوچھنا تو نہیں چاہئے مگر"وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر سوال کیا"کیا آپ سعد عثمان چوہدری کو جانتی ہیں؟"یہ سوال تھا جو اسکی آنکھوں میں آنسوں لئے آیا، اسنے جواب دیئے بغیر سر جھکا دیا" سمجھ گیا میں"یہ کہتا وہ طوفان کی طرح فلیٹ سے باہر نکل گیا ، اور وہ پزل سی ہوکر اس آدمی کو جاتا دیکھ رہی تھی اس شخص کے غصے کی وجہ نہیں سمجھ سکئی اور یہ کہ وہ سعد کو کیسے جانتا ہے اور اب کیا کرنے والا تھا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جب سے وہ واپس آیا تھا اسکی مصروفیات میں اضافہ ہو گیا تھا ایک کیس کو لے کر اس کی محنت تھی اور اس کیس کی وجہ سے کئی لوگ بے ناقعب ہورہئے تھے ان میں سے ایک نام اور آیا تھا جس کو دیکھ کر ایک چہرہ بے رادہ ہی سہی مگر اسکے ذہین میں ابھرا"سبطین عثمان چوہدری" اور اس شخص کے خلاف اسنے اتنے ثبوت جمع کر لئے تھے کہ اب اسکا بچنا ناممکن تھااور دوسری طرف حماد کا کیس تھا جس کا کوئی سرہ اسکے ہاتھ نہیں آرہا تھا ، اس وقت بھی وہ ایس ایچ او سے بات کر چکا تھا،اسکے مطابق کوئی ثبوت ایسا نہیں مل رہا تھا جو سعد کو گنگار ثابت کرئے،
"ہو سکتا ہے کوئی تیسرا شخص ہو جو قاتل ہو؟"اسنے ایس ایچ او کے لفظ دھورائے"کون؟، کس کے پاس وجہ ہے حماد کو قتل کرنے کی، عثمان چوہدری یا سعد نے کیسی اور سے تو قتل؟"کئی سوچیں تھی جو اسکے ذہین میں تھی،مگر ساری سوچ ایک نقطے پر روک گئی تھی، سعد کا کومے میں ہونا، ابھی وہ سوچ رہا تھا جب اسئے اسکی تھانےدار نے کال کی
"سر! دلاور صاحب آئے ہیں، اگر آپ مصروف نہیں ہی تو بھیج دو"اسنے اطلاع دئی، دلاور اسکے فلیٹ سے ہی آرہا تھا دلاور نے اسکو آتے میسج کیا تھا، وہ جان چکا تھا دلاور کیا دیکھ کر جنونی انداز سے اسکے پاس کیوں آرہا ہے 
"بھیج دو"اسنے کہتے ہوئے خود کو اسکے سوالوں کے لے مظبوط کیا، چند منٹ بعد دلاور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا"صبر نہیں ہوا تم سے"اسنے مسکراتے ہوئے دلاور سے کہا
"ہاں نہیں ہوا صبر ، دیکھنا چاہتا تھا کہ فطرت کے بدلنے کے ساتھ تماری صورت میں بھی بدلاؤں آیا ہے یا نہیں"دلاور نے اس پر جملہ کسھا
"تو؟ صورت بدلی میری؟" اسنے بھی اس ہی انداز میں جواب دیا
"نہیں، صورت اب بھی خوبصورت ہے بس فطرت میں خلل آگیا ہے"وہ سمجھ چکا تھا کہ دلاور کا لب و لہجہ اتنا خراب کیوں ہے"مجھے حیرانی ہوئی پہلی بار تم نے مجھ سے کہا کہ ریڈی ٹو کوک فوڈ تمارے فلیٹ پر لئے آو، یہ سب تم نے مجھے اس لڑکی موجودگئی سے آگاہ کرنے کے لے کیا تھا نا؟"وہ خاموشی سے دلاور کی بات سنتا رہا پھر سامنے رکھی کرسی کی طرف اشارہ کیا
"بیٹھو، آرام سے بات کرو، "اس کے بولنے پر بھی دلاور اپنی جگہ سے نہیں ہلا، ایک منٹ انتظار کرنے بات اسنے افسوس سے کندھے اچکائے اور پھر کہنا شروع کیا"نہیں، میں نے تمیں واقعی اس فیور کا اس لے کہا تھا کیوں کہ میرے پاس وقت نہیں تھا کہ کھانا لے آؤ ، مجھے لگا تم میری موجودگئی میں فلیٹ میں آو گئے مگر مجھے امید بھی نہیں تھی تم اتنی جلدی ہی میرے فلیٹ چلئے جاؤں گئے اور اس لڑکی سے ملو گئے، میرا بلکل بھی ارادہ نہیں تھا کہ تمیں کبھی اس لڑکی سے ملواتا"اسنے آرام سے کہا
"مت کرو موحد ، ایسا نا ہو کہ تم پچتاؤ" دلاور اسکے پر سکون چہرے کو حیرانی سے دیکھا جہاں کوئی افسوس نہیں تھا اپنے کئے پر پھر اس سے نرمی سے کہا
"ابھی تو یہ پچتاؤ کیسی اور کا نصیب ہے"ترک بہ ترک جواب آیا
"اس لڑکی کا کیا قصور ہے؟"دلاور نے ایک قدم اسکی جانب بڑھاتے ہوئے پوچھا
"میرے بھائی کا کیا قصور تھا؟"سوال پر سوال سن کر دلاور کچھ دیر خاموشی سے اسکے چہرے کو دیکھتا رہا
"اگر حماد حیات ہوتا تو "دلاور نے رنج بھری آواز میں کہا ، دلاور کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اسنے بات کاٹ دئی
"مسئلہ ہی تو یہاں سے شروع ہوا ہے کہ حماد اب نہیں ہے، "اگر حماد ہوتا""اگر میں چند منٹ پہلے اس تک چلئے جاتا""اگر میں حماد کے رویے کو سمجھ لیتا""اگر میں اپنے سنیر کی مدد سے حماد کا نام پہلے ہی کیس سے الگ کروالیتا"اگر میں سعد کو پہلے بتا دیتا کہ جرم کس نے کیا تھا دس پہلے "اگر اگر اگر میری ہر صبح ہر شب اس ہی لفظ سے شروع ہو کر اس پر ہی ختم ہوتی ہے،مجھے مت سناؤں کہ کیا غلط ہے کیا صیحح"اسنے آگ لہجے میں کہا دلاور صدمے کے زرِ اثر بس اسکو دیکھ رہا تھا جو مکمل طور پر تبدیل ہو چکا تھا، بہت دیر ان دوں کے درمیان خاموشی رہی ، بہت کچھ تھا جو دلاور اس سے کہنا چاہتا تھا مگر لفظ ہی اسکے لبوں پر آنے سے قاصر تھے، اس درد بھری خاموشی کو اسکے آفس میں گنجتے فون کی بیل نے توڑا، اسنے دلاور سے نظر ہٹا کر فو اٹھایا
"سر! کو ئی آپ سے ملنے کے لے باضد ہے، " حولدار نے اطالاع دئی
"کون ہے؟"اسنے بے زاری سے جواب دیا
"سر!ڈاکٹر اذلان وجدان چوہدری"یہ نام سنتے ہی وہ چونکا ، اسئے خبر تھی وہ اس کے پاس ضرور آئے گا مگر اتنی دیر بعد
"بھیج دو"اسنے مسکراتے ہوئے کہا، دلاور جو اسکے چہرے سے درد کی تحریر کی جگہ کیسی اور رنگ کے رقم ہوتا دیکھ چونکا تھا، وہ فون رکھتا دلاور کی جانب متوجہ ہوا"چلو ! اپنے ایکلوتے دوست کو اپنے سالے سے ملواتا ہوں"مسکراتے ہوئے اسنے دروازے کی جانب دیکھا جہاں سے اذلان کمرے میں داخل ہو رہا تھا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭جاری ہے٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

wafa k maqrooz thy humTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang