#بھیگی_پلکیں_روٹھے_خواب
قسط نمبر ۱
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا"مما بھوک لگ رہی ہے..."
زنیرہ نے ٹھنڈے یخ فرش پر گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی عائشہ کی قمیض کا کونہ کھینچتے ہوئے کہا تو اُس نے بمشکل اپنی گردن اُٹھا کر سامنے دیکھا مگر منظر وہی تھا کُچھ بھی نہ بدلا تھا اپنے بچوں کی طرف دیکھنے کے بجائے اُس نے دوبارہ سر جُھکا لیا...
"مما بھوک لگی رہی ہے.."
زنیرہ نے اب اُس کے ہاتھوں کو زبرستی ہٹاتے ہوئے اپنی ماں کا چہرہ دیکھنا چاہا...
"زونی جاکر پانی پی کر سوجاؤ پلیز معاذ تُم بھی جاؤ مُجھے تنگ نہ کرو میں ویسے ہی بہت پریشان ہوں.."
عائشہ نے بغیر گردن اُٹھائے کہا..
"مما بھوک لگ رہی ہے..."
زنیرہ نے اپنی بات کی گردان جاری رکھی اُسکی یہ عادت بلکل اپنے باپ پر گئی تھی وُہ بھی ایسا ہی تھا ایک بات کا پیچھا پکڑ لے تو کر کے ہی دم لیتا تھا جبکہ زنیرہ کی بہ نسبت معاذ کافی سمجھدار تھا حالانکہ صرف دو سال کا ہی فرق تھا دونوں میں...
"زونی چلو.."
معاذ نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کرتے ہوئے کہا...
"نہیں مما مُجھے بھوک لگ رہی ہے..."
اُس نے عائشہ کی قمیض زور سے پکڑے کہا...
عائشہ کا پورا وجود کانپ رہا تھا نجانے سردی کے باعث تھا یا وُہ رو رہی تھی...
"زونی آج پانی پی کر سوجاؤ کل صبح ہی میں آپ کو چینی والا پراٹھا بناکر دوں گی میری جان..."
بالآخر اُس نے گردن اُٹھا کر چار سالہ زنیرہ کے بالوں کو چہرے سے ہٹاتے ہوئے محبت سے کہا...
"نہیں مما بھوک لگ رہی ہے آپ نے کل بھی کہا تھا کہ آج پانی پی کر سوجاؤ صبح چینی والا پراٹھا بنادوں گی مگر صبح صرف سوکھے پاپے دیے وُہ بھی صرف ایک۔۔"
زنیرہ نے اُس کی گود میں بیٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا...
"بیٹا بھائی بھی تو کل سے بھوکا ہے ناں.."
"مگر مُجھے بھوک لگ رہی ہے.."
وُہ ضدی انداز میں بولی...
"یاللہ صبر یاللہ صبر."
اُس نے بے اختیار گردن موڑ کر کہا تاکہ وُہ دونوں اُسکے آنسو نہ دیکھ لیں...
"معاذ بہن کو لے جاؤ.."
اُس نے تقریباً دھکا دیتے ہوئے اُسے اپنی گود سے باہر دھکیلا تھا اور منہ موڑ کر بیٹھ گئی....
تھوڑی دیر رونے کے بعد بالآخر زنیرہ سوگئی اور معاذ بھی...
رات کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے مگر یوں لگتا تھا جیسے آدھی رات ہوگئی ہو ویسے بھی جس گھر میں دو مہینے سے بجلی نہ ہو وہاں کیا رات کیا آدھی رات صد شکر سردیوں کے دن تھے ورنہ گرمی میں بُرا حال ہوجاتا ...
"اے میرے مالک میں نے ہمیشہ سے یہی سنا ہے تو بھوکا اُٹھاتا ہے مگر بھوکا سلاتا نہیں ہے پھر میرے بچوں پر یہ ظلم کیوں مُجھے سے نہیں برداشت ہوتی اُن کی صرف ایک روٹی کے لیے تڑپ میں نے اپنے لیے تو تجھ سے کُچھ نہیں مانگا کبھی سوائے احسن کی زندگی کے جو تُو نے نہ دی بُلا لیا اُنہیں اپنے پاس...
تُجھے تیرے نبی کا واسطہ ہے میرے خدا میرے پاک پروردگار کوئی معجزہ دکھا میرے بچوں کی بھوک مٹ جائے تو میرے دل کا حال جانتا ہے جب میرا دِل اپنے جگر پاروں کو یوں بھوک سے بلک بلک کر روتے ہوئے سوتے دیکھ کر کٹ گیا ہے تُو تو ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا ہے تُجھ سے بڑھ کر كون چاه سکتا ہے تُو بھیج کسی عمر فاروق کو جو مدینے کے سنسان گلیوں میں بھیس بدل کر گشت کیا کرتا تھا جو چولہے پر چڑھے خالی پانی کے برتن کو دیکھ کر اور کھانا بننے کے دھوکے میں بہلتے بچوں کو دیکھ کر خود بھی تڑپ گیا تھا آج کے دور میں بھی کوئی حضرت عمر فاروق جیسا اپنا کوئی بندہ بھیج جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کے ڈر سے بلک بلک کر روئے معافیاں مانگے میرے بچے بھوک سے بلک بلک کر سوگئے ہیں کوئی بھیج اپنا بندہ جو اُس دور کی طرح بیت المال سے اپنی پیٹھ پر راشن کی بوریاں اُٹھا کر خود مستحق کے گھر تک دے آئے کوئی معجزہ دکھا تُجھے تیرے رسول کا واسطہ تُجھے تیرے عمر کا واسطہ کوئی معجزہ دکھا دے میرے بچے بھوک سے بلک بلک کر سوگئے ہیں..."
دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھائے وُہ بری طرح روتے ہوئے کہہ رہی تھی مگر یہ وُہ دور نہ تھا جہاں عمر فاروق جیسے حکمران تھے یہاں تو فرعون حکمران تھے...
اُس نے شکوہ کناں نظروں سے آسمان کو دیکھا اور کھڑے ہونے کی کوشش کی مگر بری طرح لڑکھڑا گئی دو دن سے کُچھ نہ کھانے کا باعث اُسکے جسم میں بہت کمزوری آگئی تھی...
"احسن کیوں چلے گئے آپ.."
وُہ یوں بولی جیسے احسن سامنے کھڑا ہو...
"میں تو یہیں ہوں ناں عاشی..."
محبت بھری پُکار اُسکے چاروں اطراف پھیل گئی اُس نے بے اختیار اپنے اِرد گِرد دیکھا یوں لگا پورا صحن روشن ہوا اُٹھا ہو سامنے کمرے کے کھلے دروازے سے اُسکے سوئے ہوئے بچوں پر احسن جُھکا ہوا تھا جو بہت محبت سے دونوں کے گالوں کو چوم رہا تھا اور پھر سیدھا کھڑا ہوکر مسکراتے ہوئے اُسے دیکھنے لگا...
"احسن..."
اُسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا اگلے ہی لمحے آنکھ بند کرکے جیسے ہی دوبارہ کھولی تو وہی اندھیرا تھا وہی ویرانی تھی وہی سکوت کا عالم ،جھینگروں کی آواز اور لمحہ لمحہ مرتی زندگی چاند کی روشنی جو ہلکی ہلکی کمرے میں جارہی تھی بھوک سے بلک بلک کر سوئے دو معصوموں کے پتلے کمبل کے نیچے سردی سے کروٹیں بدلتے وجود پر بھی روشنی گرا رہی تھی۔۔۔
عائشہ نے اپنی بھیگی پلکوں پر ٹھہرے روٹھے خوابوں کی نمی کو بڑی ہی بے دردی سے صاف کیا اور اُٹھ کر کچن میں آگئی...
"شاید کُچھ تو مِل ہی جائے..."
اُس نے خود سے کہا اور پرسوں سے دس بار کھنگالی پلاسٹک کی بھرنیاں ایک ایک کرکے کھولنے لگی مگر ہر بھرنی اُسے کوری منہ چڑاتی ہوئی ہی ملی...
"یا اللہ میں کیا کروں..؟"
بالآخر وُہ منہ پر ہاتھ رکھ روتے ہوئے سیمنٹ کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھتی چلی گئی تاکہ اُسکے رونے کی آواز سُن کر بچے نہ اُٹھ جائیں...
"محلے میں سے کسی ….."
یہ خیال آتے ہی وُہ بجلی کی سی تیزی سے اُٹھی اور دبے پاؤں کمرے سے اپنی چادر لے آئی اور دروازہ باہر سے بند کرکے سیدھا سامنے عمیر قصائی کے گھر گئی...
"کون ہے؟.." اندر سے بڑی ہی بیزار آواز سنائی دی...
"شمائلہ باجی میں عائشہ..."
"ہاں بول..."
دروازہ کھولنے تک کی زحمت نہ کی گئی تھی...
"باجی ایک پیالی میں کوئی بھی سالن دے دیں اور صرف دو روٹی زونی اور معاذ کل دوپہر کے بھوکے ہیں ابھی بھی بھوکوں سوگئے ہیں۔۔۔"
وُہ بڑی انا پرست اور خودار تھی اگر احسن اُسے اِس حال میں دیکھ لیتا تو پہلے تو خوب ہی ہنستا پھر معاملے کی نزاکت جان کر اُسے اپنے سینے سے لگا لیتا اور کہتا..
"مُجھے کہتی میں کس لیے ہوں میری جان.."
"نہیں بھئی عائشہ تمہیں تو پتا ہے ویسے بھی آجکل تمہارے بھائی کا کام ذرا مندا ہے اب کہاں رزق اور پیسے کی فروانی رہی ہمارے گھر پہلے کی طرح جب حالات تھے تو تمہارے گھر بنا کہے ہی راشن ڈلوا دیا تھا اب تو ہم خود گن کر روٹیاں بناتے ہیں تاکہ ضائع نہ ہو.."
یہ جواب بھی بند دروازے کے پیچھے سے ہی دیا گیا تھا...
"تُم کیا مخدوش حالات سنانے کھڑی ہوگئی ہو اُس کا تو روز کا ہی ہوگیا ہے اب..."
عمیر نے بکرے کے پائے کے سالن میں تین روٹیاں چورنے کے لیے نکالی اور باقی پانچ روٹیاں واپس کپڑے میں لپیٹ کر رکھتے ہوئے گھر کی واحد دوسری اِنسان اپنی بیوی کو آواز دی...
"آئی جی.."
وُہ بھی قصداً ذرا زور سے کہتے ہوئے واپسی ہو لی...
عائشہ کو شدید سبکی نے آگھیرا مگر وُہ اب دوسرے دروازے کی طرف بڑھ گئی کیونکہ وہ صرف احسن کی نک چڑی عائشہ نہیں تھی وُہ ماں تھی...
وُہ اب سہیل دودھ والے کے گھر کے باہر موجود تھی جس کا پورا گھر برقی قمقموں سے سجا دھجا ہوا تھا حالانکہ ان کے گھر شادی ہوئے تین دن سے زیادہ ہوچکے تھے۔۔۔
"یہاں سے تو مِل ہی جائے گا کُچھ زاہد اور احسن تو کتنے اچھے دوست تھے وُہ ضرور میری مدد کرے گا..."
اُس نے خود سے کہا نظر بلا ارادہ اوپری منزل کی طرف اُٹھی تھی جہاں سے فوراً ہی کسی کو کھڑکی سے سر اندر کرتے دیکھا تھا اس نے ایک بار پھر بیل دی مگر اب لاؤڈ اسپیکر پر گانے چلنے لگے تھے...
اُس نے دو سے تین بار مزید بیل دی مگر دروازہ نہیں کھلا اُسکے دِل کے اندر بہت کُچھ ٹوٹ سا گیا تھا آنکھوں کے سامنے وُہ وقت آ ٹھہرا جب ایک لپ اسٹک کا شیڈ کے لیے وُہ اپنی محلے دار اور دوست فریحہ کے پاس گئی تھی اور واپسی پر احسن نے اُسکی جو خاطر مدارت کی تھی...
"کیا ہوگیا ہے احسن میری دوست ہے وُہ اور دوستوں میں تو چلتا ہے ناں یہ سب..."
اُس نے ایک ناز سے اپنے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے کہا تو احسن کے ماتھے پر مزید بل پڑگئے...
"جب تمہیں کل سے پتا تھا آج شادی میں جانا ہے تو ساری چیزیں پہلے سے دیکھ لیتیں اور خود جاکر لے آتی یا مُجھے بتا دیتی میں لے آتا کسی کے گھر دروازہ کھٹکھٹا کر یوں مانگنے کیوں گئیں اب اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا وُہ تمہاری دوست کا گھر ہے یا تمہارے ابو کا تُم کسی سے کُچھ مانگنے گئی ہی کیوں تُمہیں پتا ہے ناں مُجھے اِن سب سے کتنی چڑ ہے.. اگر کوئی چیز نہیں ہے تو کُچھ اور استعمال کرلو پیسے دیے ہوئے ہیں لے آؤ..."
وُہ بری طرح چڑ گیا تھا...
"آپ بلاوجہ ناراض ہورہے ہیں ورنہ آپ سے بڑی خودار میں ہوں یہ آپ بھی جانتے ہیں مگر وُہ میری دوست.."
"بھاڑ میں گئی تمہاری دوست یار..."
احسن نے خشمگیں نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے بولا...
"ارے ارے یہ قمیض کیوں اُتار رہے ہیں.."
اُس نے قمیض کے بٹن کھولتے احسن سے کہا..
"کیونکہ ہم کہیں نہیں جارہے میرا موڈ نہیں میں باہر سے جاکر تمہارے لیے اور بچوں کے لیے کُچھ اچھا سے لے آتا ہوں ہم گھر پر ہی ٹھیک ہیں اور جاؤ یہ واپس دے آؤ جلدی سے میں تب تک بچوں کے پاس ہی ہوں.."
اُس نے معاذ کو گود میں اُٹھائے ہوئے کہا..
"کیوں نہیں جانا آپکے بہترین دوست کی شادی ہے.."
اُس نے حیرانگی سے پوچھا...
"بس تُمہیں یوں دیکھ کر ناں دِل بے ایمانی پر اُتر آیا کہیں جانے کا دِل ہی نہیں کر رہا..."
وُہ یکدم ہی پٹری سے اُترا تھا...
"اچھا جی..."
عائشہ نے اپنی چوڑیوں پر اُنگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
"تُم پہلے جاکر یہ واپس کرکے آؤ سب سے پہلے.."
احسن نے لپ اسٹک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا..
"کل دے آؤں گی ویسے بھی فریحہ خود کسی دعوت میں جارہی تھی تُو اُن کے گھر میں ابھی کوئی نہیں ہوگا...."
اُس نے سوئے ہوئی زنیرہ کے دائیں طرف گاؤ تکیہ ٹھیک کرتے ہوئے جواب دیا...
"اچھا سنو تو..."
احسن تیزی سے اُس کی طرف آیا...
"بولیں آپ کو ہی سُن رہی ہوں.."
عائشہ نے مسکرا کر کہا ہاتھ اُسکی شرٹ کے بٹن پر رینگ رہے تھے...
"کُچھ لایا ہوں تمہارے لیے.."
احسن نے نرم لہجے میں کہتے ہوئے اُسکے بالوں کو پیچھے کیا تھا...
"کیا.."
عائشہ نے احسن کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا...
"آنکھیں بند کرو..."
"مارنے کا ارادہ ہے کیا.."
اُس نے احسن کو چھیڑا...
"فضول بات نہیں..."
وہ یکدم ہی بگڑ جاتا تھا..
"کام کی بات کرتے ہیں پھر.."
عائشہ نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا احسن اُسکی اِس ادا پر دِل سے مسکرا دیا..
احسن نے نرمی سے اُسکی پشت پر بکھرے بالوں کو نرمی سے آگے کیا اور جیب سے ایک چھوٹی سی ڈبیا نکالی جس میں بہت نازک اور خوبصورت سا لاکٹ تھا جس میں احسن کے نام کا پینڈینٹ تھا..
"اب کھول لو آنکھیں...
احسن اُسے اپنے ساتھ لے کر آئینے کے سامنے آکر ٹھہر گیا اور اُسکے کندھے پر اپنی تھوڑی رکھتے ہوئے کہا دونوں ہاتھ اُس کے گرد لپٹے ہوئے تھے...
عائشہ نے پلکوں کی جھالر اٹھائی تو بے ساختہ ہی نظریں اپنے گلے میں جگمگاتے ہوئے پینڈینٹ کی طرف گئی اس نے اس احسن کی طرف دیکھا تو وُہ آنکھیں بند کیے اُسکے بالوں سے اُٹھتی دلفریب خوشبو اپنے اندر اُتار رہا تھا..
"ماشاءاللہ بہت بہت خوبصورت ہے احسن بہت زیادہ..."
اُس نے پینڈینٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوری سچائی سے کہا...
"واقعی..."
احسن نے اُس کا رُخ اپنے چہرے کی طرف کرتے ہوئے کہا...
"بہت بہت خوبصورت ہے آئی لو یو سو مچ..."
وُہ اکثر ہی اُس سے بلا جھجھک اظہارِ محبت کردیا کرتی تھی جبکہ احسن اپنا پیار اپنے رویوں سے ظاہر کرتا تھا وُہ اظہار کرنے میں بہت برا تھا...
"اب خیر اتنا بھی پیارا نہیں ہے سادہ سی تو چین ہے چاندنی کی ہے سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے اور پینڈینٹ تو بلکل ہی کسی عام دھات کا ہے.."
وُہ ایسے ہی کرتا تھا اپنی تعریفیں سننا اُسے خاص پسند نہ تھا ہاں عائشہ کی تعریفیں وُہ بے تحاشہ کرسکتا تھا..
"پر دیا تو آپ نے ہے ناں اور میں نے آپ سے کب سونے چاندی ہیرے جواہرات کی فرمائش کی ہے اور آپ سے کہہ کس نے دیا یہ سب چیزیں حقیقی خوشیوں کی دلیل ہے..."
اور یونہی ہر بار وُہ اسے لاجواب کردیتی تھی...
"مگر تُم ان سب چیزوں کی حقدار ہو...."
"مگر میں صرف آپ کو اور ہمارے بچوں کو اپنا حق مانتی ہوں جو صرف میرا ہے... اور احسن جتنا ہے ناں ہمارے پاس بہت ہے اللہ کا بہت بہت احسان ہے ہم پر ہر ضرورت پوری ہوجاتی ہے اپنی خود کی چھت ہے ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے جو ضروری ہے وُہ سب ہے اوروں کے پاس یہ بھی نہیں ہے اِس لئے فضول کوئی بات نہیں..."
اُس نے احسن کو مزید کُچھ بولنے سے باز رکھا...
"ہاں اللہ کا شکر ہے..."
وہ بھی شُکر بجا لایا۔۔۔
میں چینج کرنے جارہی ہوں آپ بھی جائیں کہے کے مطابق اچھا سا لے کر آئیں باہر سے جاکر بلکہ ایک کام کریں میرے اور اپنے لیے
تو تكہ اور گلاب جامن لے آئیں معاذ کے لیے چکن سینڈوچ اور زنیرہ کو تو میں سیریلک کھلا دوں گی..."
اُس نے دوپٹہ پنوں سے آزاد کرتے ہوئے کہا...
"واہ دونوں ماں بیٹے چٹخارے لیں اور میری بیٹی سیریلک کیسی ماں ہو تُم..."
احسن نے اُسے چھیڑا..
"نہیں نہیں جی لے آئیں اپنی بیٹی کے لیے زنگر شنگر کھا لے گی ڈیڑھ سال کی بچی یہ سب..."
عائشہ نے بھی اُسی انداز میں جواب دیا...
"جی نہیں میری بیٹی سینڈوچ کھا سکتی ہے جیسے تمہارا بیٹا..."
اُس نے عائشہ کے سر پر ہلکی سی چپت مارتے ہوئے کہا...
"یہ بھی ٹھیک ہے اب جلدی جائیں مُجھے بھوک لگنے لگ گئی ہے تکّے کا سوچ کر بھی..."
اُس نے چٹخارے لے کر کہا...
"چٹوری..."
احسن نے ہنسنتے ہوئے کہا....
پیر پتھر پر پڑنے سے اُس کا پورا وجود لڑکھڑا گیا لمحے کے ہزارویں حصے میں اُس نے ماضی سے حال کا سفر طے کیا اگر بروقت گھر کا دروازہ نہ تھاما ہوتا تو منہ کے بل زمین پر گرجاتی۔۔۔۔(جاری ہے)