قسط نمبر ۳

175 17 8
                                    

#بھیگی_پلکیں_روٹھے_خواب
قسط نمبر ۳
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"چاچا دعائیں چاہیے وُہ انمول ہوتی ہیں میرے پیچھے کوئی نہیں ہے جو میرے لیے دعائیں مانگیں آپ میرے بڑے ہیں بس اپنا ہاتھ رکھ دیں.."
عائشہ نے اپنی نم آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا...
"یہاں خیریت سے آئی ہو بیٹا.."
اُنہوں نے شفقت سے پوچھا...
"جی یہ چین بیچنے آئی تھی چاچا چاندنی کی ہے سوچا تھا آٹھ نو سو مِل جائیں گے تو کُچھ دن تو گھر چل جائے گا..."
اُس نے چھوٹے بٹوے میں سے چین نکال کر اُنہیں دکھائی...
"یہ تو سونے کی ہے..."
اُنہوں نے چین کو دیکھتے ہوئے کہا...
"نہیں چاچا سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے اِس پر..."
عائشہ نے اُن کی تصحیح کی...
"بیٹا عطار کی دکان پر بیٹھ کر اگر خوشبو نہ پہچان سکوں تو کیسا عطاری..."
اُنہوں نے ہولے سے مسکراتے ہوئے کہا..
"مطلب۔۔"
عائشہ نے نہ سمجھ آنے والے اندازے میں کہا..
"مطلب یہ کہ میرے والد صاحب کی سنہار کی دُکان تھی پندرہ سال میں نے بھی وہاں گزارے ہیں یہ تو والدین کے انتقال کے بعد سے بڑے بھائیوں کا خون سفید ہوا تو نکال باہر کیا اور قابض ہوگئے گھر اور دوکان دونوں پر والد کوئی کاغذی کام تو کر کے گئے نہیں تھے اُنہیں کیا پتا تھا کہ اُن کے بعد یہ ہوگا... خیر وُہ سب باتیں چھوڑو مگر سنو یہ چین پورے ایک تولے کی ہے سونے کی وُہ بھی..."
اُنہوں نے عائشہ کے سر پر بم پھوڑا تھا جیسے وہ گومگو سی کیفیت میں کبھی اُنہیں دیکھتی تو کبھی چین کو...
"مگر احسن نے تو کہا تھا کہ یہ چاندنی کی ہے سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے صرف..."
عائشہ نے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا...
"چلو تمہاری تسلی کے لیے سامنے دکان میں دکھا دیتے ہیں۔۔"
اُنہوں نے کسی کو ٹھیلے کا دھیان رکھنے کے لیے کہا اور عائشہ کے ساتھ سامنے دوکان کو طرف چل دئیے...
"اسلام علیکم مُجھے یہ چین بیچنی ہے..."
چاچا نے چین کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے کہا...
دوکاندار نے چین اُٹھا کر وزن کیا اور مزید جانچنے لگا..
عائشہ تذبذب کے عالم میں تھی...
"ہے تو اصلی سونا..."
دوکاندار نے چین واپس کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے کہا...
"ستر ہزار ملیں گے..."
عائشہ کو پہلا جھٹکا چین کے واقعی اصلی ہونے کا لگا تھا دوسرا جھٹکا قیمت سن کر...
"کیا بات کرتے ہو میاں بلکل اصلی سونا ہے ذرا بھی کھوٹ نہیں اور تولے کی قیمت تو پتا ہے ناں کتنی ہے آجکل ستاسی ہزار ہے.."
چاچا نے چین اُٹھانے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا...
"او بادشاہو تم سنہار ہو یا میں جب کہہ رہا ہوں کھوٹ والی ہے تو مان لو..."
دوکاندار نے ہولے سے ہنستے ہوئے کہا..
"مان لیتا مگر بیٹا تُم نو دولتیے ہو میرے سامنے دوکان کھولی ہے میرے والد جدی پشتی سنہار تھے مُجھ سے بہتر نہیں بتا سکتے تم سونے کے بارے میں..."
وہ بھرپور اعتماد سے بولے...
"اسّی ہزار سے ایک روپیہ زیادہ نہیں..."
دوکاندار نے فوراً قیمت بڑھائی...
چاچا کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ آئی تھی..
عائشہ صم بکم اُن دونوں کو بحث کرتے دیکھ رہی تھی...
"ستاسی ہزار اصل قیمت ہے اس کی نہ ایک روپیہ کم نہ ایک روپیہ بھی زیادہ لینی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ دکانیں اور بھی ہیں..."
چاچا کا انداز بے لچک تھا...
دوکاندار نے ایک نظر سامنے کیش کاؤنٹر پر بیٹھے لحیم آدمی کو دیکھا اُس نے آنکھ سے کوئی اشارہ کیا تھا...
"ٹھیک ہے میں آپکو پیسے دیتا ہوں...."
کہہ کر وُہ دوکان کے اندرونی حصے میں چلا گیا...
وہ اس پورے عرصے میں بلکل خاموش رہی...
"یہ لیجئے آپکے پیسے..."
دوکاندار نے پیسے گنوا کر ایک لفافے میں ڈال کر اُن کی طرف بڑھا دیے...
"یہ لو بیٹا.."
اُنہوں نے وُہ لفافہ عائشہ کی طرف بڑھا دیا اور وُہ دونوں دوکان سے باہر واپس اُن کے ٹھیلے کی طرف  آگئے...
"اللہ بہت مہربان ہے بیٹا وُہ وہاں سے دیتا ہے جہاں سے آپ نے سوچا بھی نہیں ہوتا.."
"واقعی میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا.."
عائشہ نے اُنکی بات کی تائید کی...
"کہاں میں اپنے بچوں کی روٹی کے لیے تڑپ رہی تھی اور اب دیکھیں میرے خدا نے کیسا بندوبست کیا ہے..."
وُہ رودینے کے قریب تھی...
"سنبھالو خود کو گھر جاؤ میرے بچے دو دن سے بھوکے ہیں بیٹا بلکہ میں چلتا ہوں ساتھ سامان لے کر چلو شاباش.."
انہوں نے کہتے کے ساتھ ہی اپنی دوکان بند کرنی شروع کردی...
دس منٹ میں وُہ ٹھیلہ کپڑے سے ڈھک کر رسی باندھ کر اندر مارکیٹ میں باقی ٹھیلوں کے پاس چھوڑ آئے...

بھیگی پلکیں روٹھے خوابTempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang