#بھیگی_پلکیں_روٹھے_خواب
قسط نمبر ۲
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا"کیا تھی کیا رہ گئی ہوں میں احسن دیکھ رہے ہیں ناں آپ کی عائشہ کیا ہوکر رہ گئی ہے کیوں کیوں چلے گئے احسن..."
اُس نے گھر کا دروازہ مقفل کرتے ہوئے خود سے کہا اور دروازے کے ساتھ ہی بیٹھتی چلی گئی...
"عاشی تُم یوں تو نہ تھی تُم تو میری شیرنی تھی حالات سے اتنی جلدی ہار گئی تو ہمارے بچوں کو کون سنبھالے گا..."
دِل جو احسن کے نام پر دھڑک رہا تھا اُس سے آواز آئی...
"آپ کے جانے کے بعد بہت کُچھ بدل گیا ہے احسن بلکہ "سب کُچھ" ہی تو بدل گیا ہے کُچھ بھی پہلے جیسا نہیں..."
اُس نے جواب دیا...
"کُچھ بھی تو نہیں بدلا میں یہیں ہوں تمہارے پاس تمہارے دِل میں تمہاری یادوں میں کیا میرے معاذ اور زنیرہ تُمہیں ہم دونوں کے ساتھ بتائے گئے بہت ہی حسین لمحوں کی یاد نہیں دلاتے کیا میری محبت اتنی کمزور اور ناپائیدار تھی کہ میرے جاتے ہی تُم ٹوٹ کر بکھر گئی ہو محبت تو مضبوط بناتی ہے ناں... پھر تُم کیسے کمزور ہوگئی اگر میں گیا بھی ہوں تو اپنی دو نشانیاں چھوڑ کر گیا ہوں میں تُمہیں اپنے "عشق" کو چھوڑ کر گیا ہوں اِس لیے نہیں کہ ساری زندگی تُم میرے مرنے کا ماتم کرو بلکہ اِس لیے کہ تُم خود کو سنبھالو بغیر کسی سہارے کے اور ہمارے بچوں کی بہترین تربیت کرسکو میں نے کُچھ زیادہ اُمیدیں تو نہیں رکھی ہوئیں بس تُم خوش رہو کیا یہ خواہش میری بے جا ہے..؟"
وُہ جا کر بھی گیا نہیں تھا دِل دُنیا میں بسنے والے لوگ کہاں نقل مکانی کرتے ہیں اور ستم یہ کہ "عشق گلی" کے مکین تو ایک چوکھٹ پکڑ کر عمریں گزار دیتے ہیں وُہ بھی اُنہی ڈھیٹ اور خود سر لوگوں میں سے تھا وقتاً فوقتاً اپنے قدموں کے مندمل ہوتے نشانات پر قدم دھرتا اُنہیں پھر سے نیا کردیتا....
"جن حسین لمحات کا واسطہ دے رہے ہیں وہیں تو جینے نہیں دیتے مُجھے میں کیسے بھلاؤں آپکا لمس آپکی قربت کو میں روز تڑپتی ہوں احسن آپکی قربت کے لیے میں روز مرتی ہوں آپکو سننے کے لیے قرب کے بعد جدائی موت ہے بڑی ظالم "موت" کیونکہ اِس میں سانسیں نہیں جاتیں اِس میں صرف آپکی روح مرجاتی ہے اور مردہ روح زندہ جسم بہت کڑی سزا ہے..."
وُہ چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر بے آواز رودی...
__________________________________________وُہ رات کو نجانے کب سوئی تھی آنکھ ظہر کی نماز پر ہی کھلی مندی مندی آنکھوں سے لیٹے لیٹے ہی دیکھا تو دونوں بچے فلور کشن پر بیٹھے اُس کے اُٹھنے کا ہی انتظار کر رہے تھے اُس نے غیر محسوس انداز میں آنکھیں دوبارہ بند کرلیں..
"پھر "بھوک" کل تو ایک ایک پاپے کھلا دیے تھے آج کیا کروں گی.."
اُس نے سُن ہوتے دماغ کے ساتھ سوچا...
"لیٹی ہی رہتی ہوں اُٹھوں گی نہیں تو یہ اُٹھائیں گے بھی نہیں۔۔"
اُس نے دِل پر پتھر رکھ کر سوچا...
"بھیا بھوک لگ رہی ہے بہت پیٹ میں بھی بہت درد ہورہاہے.."
زونیرہ رودینے کے قریب تھی نجانے دونوں کب سے جاگ کر اُس کے اُٹھنے کا انتظار کر رہے تھے....
"ابھی تھوڑی دیر میں اُٹھ جائیں گی مما..."
معاذ نے اُسے بہلانا چاہا..
"پاپا تھے تو خود بنادیتے تھے مما سو بھی رہی ہوتی تھی تو..."
زونیرہ نے نروٹھے پن سے کہا...
"مما.."
معاذ نے اُس کے کندھے کو ہلکا سا ہلایا مگر وُہ بے سدھ لیٹی رہی گلے میں پڑی چاندی کی چین ذرا سی ہلی تھی..
"یہ چین ہاں اسے بیچ کر ساتھ آٹھ سو روپے تو مل ہی جائیں گے.."
بجلی کی سی تیزی میں ذہن میں خیال آیا وُہ فوراً اُٹھ بیٹھی...
"مما.." زونیرہ بھی کشن سے اُٹھ گئی تھی...
"میری جان مما بس آدھے گھنٹہ میں کھانے کا سامان لے کر آئی آپ دونوں نے کسی کے لئے بھی دروازہ نہیں کھولنا معاذ بیٹا دروازہ اندر سے اچھے سے بند کرلینا اور دیکھو میری جان بہن کا اور اپنا بھی خیال رکھنا.."
چادر اچھی طرح اپنے گرد لپیٹتے ہوئے اُس نے دونوں کو تلقین کی...
"مما ہم بھی چلیں آپ کے ساتھ..؟"
معاذ فوراً بولا...
"نہیں بیٹا بہت سرد ہوا چل رہی ہے سردی لگ جائے گی آپ دونوں کمبل اوڑھ کر لیٹ جاؤ میں بس آدھے گھنٹے میں آئی..."
عائشہ نے دونوں کی پیشانی پر پیار کیا اور دو پٹی کی چپل پیروں میں اڑستے ہوئے چل دی۔۔
__________________________________________