قسط نمبر ۱۱

236 20 28
                                    

#بھیگی_پلکیں_روٹھے_خواب
قسط نمبر ۱۱
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"جون ۲۰۱۳"

"یار کامی چار نمبر کا پانا تو پکڑا..."
احسن نے گاڑی کے نیچے سے آواز لگائی...
"یار میرا خود وُہ کونے والا منصور لے کر گیا ہوا ہے اب تک واپس نہیں دیا اور آج دُکان بھی بند ہے اُس کی..."
کامران نے سفید دیوار پر پان کی تازہ تازہ پچکاری مارتے ہوئے کہا اور شرٹ کی کھلی لٹک رہی آستین سے منہ پر رہ جانے والی باقی لالی صاف کی...
"ایک تو تُجھے کتنی دفعہ منع کیا ہے اِدھر اُدھر پیک نہ پھینکتا پھرا کر مگر نہیں تُو نے تو سننا نہیں ہے دیکھ دو مہینے پہلے چونا کروایا تھا اب عجیب نقش و نگار بنا دیے ہیں..."
احسن نے گاڑی کے نیچے سے نکلتے ہوئے سخت لہجے میں کہا اُسے گندگی سے سخت چڑ تھی حالانکہ جو کام وُہ کرتا تھا اُس میں دھبے اُس کے کپڑوں اور ہاتھوں پر لگتے تھے مگر وُہ اُس کا کام تھا اُس کی مجبوری تھی.
"ابے ایک تو مُجھے تیری سمجھ نہیں آتی چل اپنی دُکان میں چونا کرواتا سمجھ بھی آتا ہے مگر باہر کی دیواروں پر کون کرواتا ہے بے..."
کامران نے بمبئی چھالیہ کے خالی ریپر کو دانتوں کے بیچ گھستے ہوئے کہا کہ اٹکی ہوئے چھالیہ کے دانیں بھی نکل جائیں...
"ابے کتا بھی نہ اپنی جگہ صاف کرکے بیٹھتا ہے یار پھر یہ تو روزگار کی جگہ ہے اِسے ہی گندہ رکھیں گے تو کیسے چلے گا یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا یہ صرف ہمارا کام ہے اِسے یہی تک رکھنا ہے یہ نہیں اِسی گندی حالت میں گھروں کو چلے جائیں ہاں کام جو بھی ہو شرم کی بات نہیں مگر صفائی کا حکم تو اللہ بھی دیتا اِس زیادہ کیا اہمیت ہوگی کہ صفائی کو نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے..."
اُس نے کامران کی پیٹھ تھپکتے ہوئے برادرانہ انداز میں کہا تو کامران نے بھی دوسرے ہاتھ سے اُس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا..
"تُجھ سے باتوں میں نہ کبھی کوئی جیت سکا ہے نہ جیت سکے گا اور باتیں بھی ایسی کرتا ہے کہ سامنے والا ہار مان کر ہی اُٹھے..."
"یار ہار جیت کی بات نہیں ہے تو میری بس ایک ہی بات کا جواب دے کیا یہی حرکت تو اپنے گھر کی دیواروں پر کرسکتا ہے؟؟"
وُہ دونوں اب دُکان کے باہر رکھی کین کی کرسیوں پر بیٹھ گئے کامران شرمندہ سر جھکائے بیٹھا تھا...
"اچھا چل سب چھوڑ سامنے سے دال چاول کی دو پلیٹ منگوا لے بڑی بھوک لگ رہی ہے قسم سے..."
احسن نے فوراً بات بدلی...
"اوئے مدن لال جا دال چاول کی دو پلیٹ تو پکڑ اور تُجھے کھانا ہو تو اپنے لیے بھی لے لینا جلدی جا..."
کامران نے ایف ایم پر گانے سنتے مدن کی پیٹھ پر دھموکا جڑتے ہوئے کہا جس پر وُہ ٹیڑھے میڑھے منہ بناتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا...
"ویسے یار پچھلے دو تین مہینوں سے کتنا سکون ہے ناں کوئی ہنگامہ نہیں کوئی جلاؤ گھیراؤ جیسے واقعات  نہیں.."
کامران نے کُرسی کی پُشت سے کمر لگاتے ہوئے کہا...
"ہاں تو یہ تو اچھی بات ہے بھائی جان ورنہ آئے دن کے تماشے تھے اِن کے اپنے بندے خود ہی مروا کر پھر پورے شہر کو بند کروا دیتے تھے نہ کرو تو بائک، گاڑیاں ،بسیں سب جلادیتے ہیں غریب آدمی تو پستا ہی جائے بس صرف نام "عوامی سکون پارٹی" ہے باقی جتنا جینا حرام کراچی کے غریبوں کا انہوں نے کیا ہے اتنا تو کسی حکومت نے نہیں کیا ہوگا بس ایک ہے اِن کا بھگوڑا قائد پیگ چڑھا کر کردیتا ہے لندن سے کالز اور یہ پچاس پچاس روپے کی لالچ دے کر بسیں بھروا کر کردیتے ہیں جلسے..."
احسن نے شدید بیزاری سے کہا...
"ابے تُو بڑا تپا ہوا معلوم ہوتا ہے..."
کامران نے ہنستے ہیں کہا..
"تو کیا خوش ہونا چاہیے بہت اچھے کام کرتے ہیں جیسے یہ لوگ..."
"ویسے اگر پارٹی میں شامل ہوجاؤ نہ تو ہیں بڑے فائدے کرنا دھرنا کُچھ ہوتا نہیں علاقے کے یونٹ سیکٹر میں بیٹھے رہو جلسے کی تیاریاں کرواؤ اور میڈیا میں جلسے کا ہجوم دکھانے کے لئے بندوں کو بھر بھر  کر لے جاؤ..."
احسن کے برابر کی دُکان والا مُراد جو کب سے اِن دونوں کی باتیں سُن رہا تھا بیچ  بول پڑا...
"ابے چل تُو تو ایسے ہی بولے گا ناں خود جو پارٹی میں شامل ہے..."
احسن نے طنزیہ کہا...
"ابے نہیں لالے قسم سے زندگی پُر سکون ہوگئی ہے ایک یہاں سے آمدنی دوسری وہاں سے کرنا کیا ہوتا ہے بس جلسے وغیرہ کے انتظامات اور اپنے اپنے علاقے کے سیکٹر میں بیٹھ کر لوگوں کی پریشانیاں سننا بس میں تو چھ بجے یہاں سے جاکر وہیں بیٹھتا ہوں..."
مُراد نے اطمینان سے کہا...
"اور جو یہ تُم لوگ آئے دِن کے کاروبار بند کرواتے ہو اِس سے کس کا بھلا ہوتا ہے غریب آدمی تو روز کنواں کھودتا ہے اپنے لیے مگر تُم لوگوں اِس ہٹ دھرمی کی وجہ سے کئی گھروں میں لوگ بھوکے سوجاتے ہیں تُم لوگ گاڑیاں،بسیں،بائک،رکشے کو جلاتے ہو کیا یہ عوام کا بھلا ہے .."
احسن آج پوری طرح سے جرح کے موڈ میں تھا...
"یار وُہ ہمارے بندے نہیں کرواتے بلکہ مخالف پارٹی والے ہمارے خلاف پروپگنڈا کرتے ہیں ہمیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں.."
مُراد نے ہنوز اطمینان سے کہا...
"اور جو الیکشن میں تُم لوگ دھاندلیاں کرتے ہو اب اِس تو بلکل مت مُکرنا میرا آنکھوں دیکھ حال ہے ایک بندہ دس پندرہ ووٹ ڈال رہا ہے یہاں تک کہ جن کی عُمر تک اٹھارہ سے کم ہے وُہ بھی..."
احسن کو اِس بحث میں دلچسپی محسوس ہورہی تھی...
"ہاں اگر ہم لوگ یہ نہ کریں تو لا کت بٹھا دیں گے کراچی میں بھی سندھی یا پنجابی لوگوں کو مہاجروں کا تو ویسے ہی بُرا حال ہے اور تباہ حال ہونے سے بچا رہے ہیں ورنہ اِس زرداری کی حکومت نے تو ساری گورمنٹ جابز سندھیوں کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کردی ہے اور آگے سے ہے سندھی بھی اپنے ہی لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں سب جگہ کا یہی حال ہے جس زبان کا بندہ بڑی پوسٹ پر لگ جائے وُہ موقع بھی اپنے ہی لوگوں کو دیتا ہے.."
مُراد نے مضبوط لہجے میں اپنی بات رکھی...
"ویسے کُچھ غلط بھی نہیں کہہ رہا مُراد یہی حال تو ہے کراچی کا.."
کامران نے بھی اُس کی تائید کی..
"یہ اور کُچھ نہیں بس اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے والی بات ہوئی..."
احسن اُلجھ گیا تھا وُہ جانتا تھا اگر مزید بحث کی تو وُہ اُسے قائل کرلیں گے جو وُہ ہونا نہیں چاہتا تھا اِس لیے وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا..

بھیگی پلکیں روٹھے خوابWhere stories live. Discover now