#بھیگی_پلکیں_روٹھے_خواب
قسط نمبر ۴
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا"وُہ کہتے ہیں ناں عائشہ اللہ وہاں سے نوازتا ہے جہاں سے اُمید بھی نہ ہو.."
ثروت باجی نے اُس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے کہا..
"ہاں باجی مُجھے تو لگتا تھا کہ یہ چاندنی کی ہے اِس لیے اِس پورے عرصے میں کبھی بیچنے کا خیال نہیں آیا اللہ تعالیٰ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے بس صحیح وقت کا انتظار کرتا ہے اور اِس سے صحیح وقت کیا ہوسکتا تھا کہ میرے بچے دو دن سے بھوکے تھے..."
اُس کی آنکھوں میں پھر سے نمی اُترنے لگی..
"مُجھے ہی خیال نہیں رہا میری بہن کہ اپنے گھر کی چابی تُجھے دے جاتی مُجھے لگا تیرا بھائی آیا تھا تو راشن ڈلوا گیا ہوگا۔۔۔"
اُنہوں نے تاسف سے کہا...
"باجی کیا مذاق کرتی ہو میرے بھائی یہاں کیسے پچھلے آٹھ مہینے سے ایک کال تک نہیں آئی تو ملنے آنا تو دور کی بات ہے.."
اُس نے طنزیہ ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
"ارے نہیں احمد ہی کہہ رہا تھا کہ اُس نے عائشہ باجی کے بڑے بھائی کو دیکھا تھا کسی آدمی کو ساتھ سندھی ہوٹل پر..."
ثروت باجی نے ذہن پر زور ڈال کر بتایا۔۔۔
"آئے ہوں گے بیوی کے پیچھے دُم ہلاتے ہلاتے سُسرال جو ہے یہاں اُن کا بیوی نے ہی منع کیا ہوگا مت جانا اپنی بھیک منگی بہن کے گھر..."
عائشہ یوں ظاہر کر رہی تھی جیسے اُسے کوئی فرق ہے نہیں پڑتا...
"سچ میں خون سفید ہوچکا ہے ایک ہی شہر میں اتنے قریب ہوتے ہوئے بھی بہن کا حال تو معلوم کرنے کی توفیق نہیں لعنت ہے ایسے بھائیوں پر بھابیوں پر بھی..."
اُنہوں نے دُکھ سے کہا...
"جو کہنا ہے میرے بھائیوں کو کہیں باجی بھابیوں کا اور میرا تو کوئی خونی رشتہ نہیں وُہ کیوں فکر کریں گی قصور تو اُن زن مریدوں کا ہے اور میری اپنی سگی بہن کا بھی جو پردیس جاکر ایسی بھولی کہ نہ امی بابا کے جنازے پر آئی نہ مُجھ سے رابطہ رکھا میری پسند کی شادی پر سب لوگوں نے مُجھ سے سارے رشتے ناطے توڑ لیے مگر اپیا کی گھر سے بھاگ کر کی جانے والی شادی کو سب نے کُچھ دنوں بعد یہ کہہ کر قبول کرلیا "کہ شادی کی ہے کوئی گناہ تو نہیں..." تب بھائیوں کی غیرت بھی افتخار بھائی کی جانب سے ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کی آفر ہونے سے سوگئی..."
وُہ سخت مایوس تھی اپنے سگے رشتوں سے ماں باپ کے علاوہ کسی نے بھی تو اُسے محبت یا مان تو دور پوچھا تک نہیں تھا...
"چھوڑ عائشہ کیوں اپنا خون جلاتی ہے.."
"نہیں باجی میں نے کوئی بھاگ کر شادی نہیں کی تھی بس اپنے ابو کی پسند کو پسند کیا تھا اور میرے بھائی بہن چاہتے تھے میں انکار کردوں یہاں تک کہ امی بھی یہی چاہتی تھیں صرف اِس لیے کہ احسن ایک "مکینک" تھے افتخار بھائی کی طرح اُن کا دوبئی میں کوئی بزنس نہیں تھا میرے بھائیوں کی طرح وہ بڑی بڑی کمپنیوں میں جاب نہیں کرتے تھے وُہ اُن کے ہم پلہ نہیں تھے مگر احسن سب سے بہت اچھے تھے بہت محبت کرنے والے، عزت کرنے والے مُجھے اپنے فیصلے پر کبھی بھی پچھتاوا نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا ہے کہ اُنہوں نے مُجھے احسن جیسے مرد کی بیوی بنایا وُہ ایک باعثِ فخر جیون ساتھی تھے..."
عائشہ اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے پُر سکون انداز میں کہا...
"چھوڑ ان باتوں کو اب سوچا ہے آگے کیا کرنا ہے؟؟"
"ہاں بچوں کو دوبارہ اسکول میں داخل کرواؤں گی اور کوئی جاب ڈھونڈوں گی بس اب بہت ہوگیا بھاڑ میں گئی اِن کی جھوٹی غیرت ارے اگر یہ لوگ اتنے غیرت والے ہیں تو بٹھا کر کھلائیں اپنی بیوہ بہن کو گھر میں نہیں مہینے مہینے اِن لوگوں نے پوچھنا تک نہیں کہ زندہ ہو یا مرگئی مگر جہاں نوکری کی بات کی باسی کڑھی میں اُبال آجاتا ہے..."
وُہ تنفر سے بولی...
"آجکل ڈگریاں لے کر لوگ بے روزگار گھوم رہے ہیں تُم نے تو میٹرک بھی مکمل نہیں کیا کون نوکری دے گا.."
"اللہ بہت بڑا ہے باجی کیا کم پڑھے لکھے لوگوں کو بھوکا مارتا ہے اللہ نہیں یہ سب اللہ کے کام ہے وہی بہتر جانتا ہے میں اپنی کوشش کروں گی کل سے اُس رقم کے سہارے تین چار مہینے گزر جائیں گے بعد میں کیا ہوگا پھر یہی فاقے..."
عائشہ نے پُر اعتماد لہجے میں کہا...
"اللہ کامیاب کرے گا..."
ثروت باجی نے مسکرا کر کہا...________________________________________
"امی یہ گھر گروی رکھنا ہوگا کاروبار نقصان میں جارہا ہے اور ہمارے پاس مزید کوئی سرمایہ باقی نہیں آپ بات کیوں نہیں سمجھ رہی ہیں اگر ایسا ہی چلتا رہا تو کُچھ ہی دنوں میں ہمارا دیوالیہ نکل جائے گا سڑک پر آجائیں گے ہم..."
دونوں بیٹے منیرہ کو پھر سے سمجھا رہے تھے مگر وہ بضد تھیں کہ گھر کو گروی نہیں رکھنے دیں گی..
"امی بیچنے کو تو نہیں بول رہے گروی رکھ رہے ہیں بس جیسے ہو کاروبار چل پڑے گا ہم کاغذات چھڑا لیں گے..."
جنید نے رسان سے سمجھایا...
"اور اگر کاروبار نہیں چلا تو سر سے چھت بھی جائے گی پھر تو جیسے بڑا محلوں میں ہوں گے.."
وُہ اڑی رہیں۔۔۔
"جنید ایک طرح سے اگر دیکھا جائے تو امی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں کیا گارنٹی ہے کہ اگر گھر گروی رکھنے کے بعد بھی کاروبار نہ چلا تو کہاں سے قرض اتاریں گے ہم بے گھر الگ ہوں گے..."
منجھلی بہو نے ساس کی حمایت کی...
"اچھے کی اُمید رکھیں گے تو اچھا ہو ہوگا امی ہوسکتا ہے کاروبار پہلے سے بھی اچھا چلنے لگ جائے.."
بڑی بہو کا تو فرض تھا منجھلی کی بات کو رد کرنا...
"صحیح کہہ رہی ہے زبیدہ.."
بڑے بیٹے جبار نے بیوی کی ہاں میں ہاں ملائی...
"تو ہم لوگ کیا کریں کہاں سے پیسے لائیں دو پلاٹ تھے وُہ پہلے بیچ کر لگا دیے اب بس یہ ایک گھر ہے دفتر کا کرایہ الگ ہے چلے نہ چلے کرایہ مہینے کے مہینے دینا پڑتا ہے کیسے پورا ہوگا سب..."
جنید سر پکڑ کر بیٹھ گیا...
"ایک کام ہوسکتا ہے..؟"
منجھلی بہو راشدہ کے ذہن میں فوراً خرافات آئی...
"کیا"
جنید اور جبار ایک ساتھ بولے..
"احسن کا مکان جو ہے اُسے بیچ دیں ویسے بھی اب وُہ تو ہے نہیں صرف تین لوگ تو ہیں اور اتنے بڑے گھر میں رہ کر وُہ لوگ کیا کریں گے عائشہ کو نکال کر اُس کے بھائیوں کے پاس بھیجو۔۔۔"
راشدہ نے تنفر سے کہا...
"ایسا ممکن نہیں ہے ابا جی وُہ گھر احسن کے نام کرکے گئے ہیں وہ جائداد میں سے اُس کا حصہ ہے ہم کیسے اُس کی بیوہ اور یتیم بچوں کو گھر سے نکال سکتے ہیں..."
جبار کو راشدہ کی بات سمجھ نہ آئی..
"ایک منٹ ایک منٹ بھائی صاحب راشدہ ٹھیک کہہ رہی ہے ابا جی نے وُہ گھر زبانی طور پر احسن کے نام کیا تھا کوئی کاغذی کروائی نہیں کی تھی وُہ گھر قانونی طور پر احسن کے نام نہیں ہے.."
جنید کی آنکھوں میں مکاری تھی..
"ٹھیک کہہ رہی ہے دفع کرو اُس منحوس لڑکی کو میرے جوان بیٹے کو پہلے اپنی زلفوں کے جال پھنسایا اور پھر کھا گئی اُس کی وجہ سے میں نے اپنی بہن کو کھویا ہے نہ وُہ آتی نہ احسن راشدہ سے شادی سے انکار کرتا نا ہی میری بہن اِس دُنیا سے جاتی..."
منیرہ نے سنگدلی سے کہا جبکہ جنید کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات اُبھرے تھے...
"پر امی عائشہ کہاں جائے گی بچوں کو لے کر اور اُس گھر اور احسن کی بیوہ اور بچوں کا ہے..."
زبیدہ نے خُدا ترسی دکھائی...
"بھاڑ میں جائے وہ اور اُس کو بچے جنید جلد از جلد اُس منحوس عورت سے گھر خالی کرواؤ اور بیچ اُسے.."
منیرہ نے بے رحمی سے کہا..
"ٹھیک ہے میں ایک دو دن میں اُس گھر کی جعلی کاغذات تیار کرواتا ہوں جو امی کے نام پر ہوں گے تاکہ وہ کوئی تماشہ نہ کرسکے اور نہ اُس کو اتنی اوقات ہے کہ کوٹ کچہریوں کے دھکے کھائے گی..."
جنید نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا...
"ٹھیک ہے جیسا آپ لوگوں کو ٹھیک لگے.."
جبار نے بھی ہاتھ جھاڑے...
"تیری وجہ سے میری ماں اِس دُنیا سے گئی اور مُجھے اِس طلاق یافتہ دو بچوں کے باپ سے شادی کرنی پڑی عائشہ اب میرا وقت ہے تُجھ سے بدلہ لینے کا..."
راشدہ نے اپنے تئیں عائشہ سے زبردست انتقام لیا تھا اُس کے دِل میں عائشہ اور اُسکے بچوں کے لیے بہت بغض و کینہ تھا...(جاری ہے)