قسط نمبر ۸

164 18 5
                                    

#بھیگی_پلکیں_روٹھے_خواب
قسط نمبر ۸
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"تُجھے ضرورت کیا تھی اُس لڑکی کے پیچھے اپنا گھر برباد کرکے آنے کی یا اللہ کیا کروں میں..."
تسلیم بیگم نے باقاعدہ اپنا سر پیٹتے ہوئے اُسے ملامت کی...
"میں اُس گھر میں نہیں رہ سکتی تھی امی وُہ گھر عذاب میں گھر چُکا ہے اور میں اپنے بچوں کو برباد ہوتا نہیں دیکھ سکتی تھی..."
زبیدہ نے مطمئن انداز میں کہا...
"ارے کیا بددُعا کُچھ نہیں ہوتا میں نے تُجھ سے بیوقوف عورت نہیں دیکھی زبیدہ جو کسی اور کے پیچھے اپنا بسا بسایا گھر برباد کرلے میں کیا منہ دکھاؤں گی رشتہ داروں کو ہائے اللہ میری اپنی اولاد نے میرے چہرے پر کالک مل دی بیڑہ غرق ہو تیرا زبیدہ انسانیات کی علم برباد بننے کے چکر میں تُو نے ہمیں ذلت کے کھائی میں منہ کے بل دھکا دے دیا ہے تُجھے اللہ پوچھے زبیدہ تُجھے اللہ پوچھے..."
وُہ سینہ کوبی کرتے ہوئے بولیں...
"امی میں نے کُچھ غلط نہیں کیا میرا دِل مطمئن ہے اور یہی سب میں آپ سے تب پوچھتی جب عائشہ کی جگہ آپ کی اپنی بیٹی ہوتی دوسرے کی اولاد کا۔ دُکھ اگر اپنا اولاد جیسا نہیں لا سکتیں تو کم از کم ایک عورت،ایک ماں یا صرف ایک انسان سمجھ کر ہی سوچیں وُہ دستر خوان پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے جب اُس منحوس عورت نے اُنہیں ہاتھ پکڑ کر ننگے پاؤں اُن کے اپنے گھر سے نکالا تھا وُہ تو اُن بے حسوں کو اپنے دستر خوان پر دعوت دے رہی تھی مگر اُنہوں نے کیا کِیا اُس کے سر سے چھت چھین لی ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اکیلے اِن ڈیڑھ سالوں میں اُس لڑکی نے کیسے گزارا کیا ہے جب کہ اُس کے خود گھر والوں نے اُس سے تمام رشتے ختم کردیے ہوئے ہیں، امی اُس چھوٹی بچی کے پلیٹ سے جو چاول گر کر چاول دستر خوان پر بکھرے ہوئے تھے میں نے دیکھ لیا تھا کہ اُس گھر سے رزق اُٹھ چُکا ہے،جب اُس جوان جہان لڑکی کو رات کے وقت دو بچوں سمیت سخت سردی میں گھر سے نکالا گیا تھا تب مُجھے سمجھ آیا یہ گھر جہنم کی زد میں آچکا ہے عائشہ کی ایک ایک آه و پُکار میرے دِل کو چھلنی کر رہی تھی اُس کے بچوں کا رونا میرے جگر کو کاٹ رہا تھا اِس لیے نہیں کہ مُجھے اُن سے بہت دُھواں دار قسم کی ہمدردی تھی بلکہ میں نے اُن کی جگہ خود کو اور اپنے بچوں کو رکھ کر سوچا امی میری روح تک کانپ گئی تھی اور اِس سب کا بعد میرے وہاں رُکنے کا مطلب تھا کہ اُس ظلم میں میرا بھی اُتنا ہی حصہ ہے جتنا اُن سب کا..."
وُہ بغیر رُکے بولے چلی گئی اور آخر میں خود ہو رونے لگی...
تسلیم بیگم بلکل چُپ تھیں اُن کے پاس کہنے کو اب کُچھ نہیں رہا تھا....

_________________________________________

کُتے کے بھونکنے کی آواز پر اُس نے پلٹ کر دیکھا تو بینچ کے پیچھے ہی تھوڑا سا فاصلے پر ایک کتا کھڑا بھونک رہا تھا عائشہ کے ہاتھ پیر پھولنے لگے تھے یہ وہی جانتی تھی کس طرح وُہ خود اور پر جبر کیے بیٹھی تھی ورنہ وُہ کتوں سے کتنا ڈرتی تھی یہ وہی جانتی تھی اُس کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو اُتر آئے وُہ سب چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتی تھی مگر وُہ اکیلی نہیں تھی اُس کے ساتھ اُس کے بچے تھے...
"کیا ہوا بیٹا آپ اُٹھ کیوں گئے..؟"
عائشہ نے معاذ سے پوچھا...
"مما وُہ.."
اُس کا اشارہ بھی کُتے  کی طرف تھا۔۔۔
"مما آپ کے پاس ہی ہے بچہ آپ کیوں ڈر رہے ہو شاباش آنکھیں بند کرو ڈرنے کی کیا بات ہے میں ہوں ناں..."
اُس نے معاذ کے بکھرے بال سنوارتے ہوئے محبت سے کہا معاذ اُسے زور سے پکڑ کر بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کرلیں..
"میرے مالک اے پاک پروردگار ! میری مدد کر مُجھے کوئی راستہ دکھا تیری بندی بہت بے بس ہے مُجھ پر رحم کر..."
آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اُس نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا...
مسجدوں سے آذان کی آوازیں آنا شروع ہوگئی تھیں۔۔۔۔
"فجر بھی ہوگئی ایک نیا دن نئی مُشکلیں نئے امتحان کہاں جاؤں گی اِنہیں لے کر میرے پاس تو ایک روپیہ بھی نہیں کہ ٹنڈو آدم جا سکوں بھائیوں کے گھر دس باتیں ہی سنائیں گے بھابیاں کم از کم چھت تو ہوگی سر پر مگر کیسے میرے پاس نہ ہی کسی کا نمبر نہ پیسے کاش ثروت باجی یہاں ہوتیں وُہ کبھی مُجھے اِس طرح دربدر کی ٹھوکریں کھانے کو نہیں چھوڑتیں۔۔۔"
وُہ مُسلسل خود کلام تھی..
"ثروت باجی کا گھر۔۔"
عائشہ کو یاد آیا کہ اُن کے گھر کی چابی تو اُس کے پاس ہے...
"میں ابھی وہاں جاسکتی ہوں باقی بعد میں سوچوں گی ہاں یہ ٹھیک ہے..."
اُس نے فوراً فیصلہ کیا..
"زونی ، معاذ اُٹھو ہم لوگ جارہے ہیں شاباش..."
اُس نے دونوں کو گود میں اُٹھایا ...
زونیرہ کو نیند میں فرق نہیں پڑا جبکہ معاذ اُٹھ گیا تھا...
"کہاں جارہے ہیں ہم مما..."
"پہلے اپنے گھر جائیں گے وہاں سے نے فرحت خالہ کے گھر کی چابی لوں گی تو ہم لوگ وہاں جائیں گے۔۔"
عائشہ نے نرمی سے کہا اور تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے گلی میں آگئی نماز پڑھنے کے لیے نکلے دو تین محلے داروں نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا مگر وُہ چُپ چاپ چلتی ہوئی اپنے گھر کے سامنے آگئی معاذ،زونیرہ کو نیچے اُتارا اور دروازے پر دستک دی مگر کوئی جواب نہیں آیا اب کی بار اُس نے دروازہ زور سے پیٹا تھا ....
"کون ہے اِس وقت..."
نیند میں ڈوبی آواز راشدہ کی تھی۔۔۔
"اُس نے جواب دیے بغیر دوبارہ دروازہ بجایا.."
"کیا موت پڑگئی ہے صبح صبح..."
جھلائے ہوئے انداز دروازہ کھولا گیا...
"تُو یہاں پھر کیا کرنا آئی ہے...؟"
راشدہ نے تحقیر آمیز لہجے میں کہا...
"اپنا سامان لینے آئی ہوں..."
عائشہ نے خود کو کُچھ بھی سخت کہنے سے روکا ہوا تھا۔۔۔
"تیرا اب یہاں کُچھ نہیں ہے یہ گھر ہمارا ہے اب سمجھ آئی.."
مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا گیا...
"میرے سامنے سے ہٹ جاؤ  ورنہ تمہارے لیے بلکل بھی اچھا نہیں ہوگا..."
" اگر نہیں ہٹی تو کیا کرلے گی..؟"
"راشدہ میں یہاں کسی سے بھی کسی قسم کی بحث کرنے نہیں آئی ہوں باقی یہ گھر کس کا حق ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے.."
عائشہ نے زبردستی اندر داخل ہونے کی کوشش کی جس دھکا مکی میں معاذ منہ کے بل فرش پر گرا تھا جس سے اُس کی نكسیر  پھوٹ گئی ...
"معاذ میری جان..."
اُس کی ناک سے خون بہنے لگا عائشہ نے اپنی چادر سے اُس کا خون صاف کیا مگر خون رُک نہیں رہا تھا۔۔۔۔
جنيد اور جبار بھی نکل آئے تھے..
"کیا تماشہ لگایا ہوا ہے تُم نے ایک دفعہ بتادیا اور دکھا بھی دیا کہ یہ گھر ہمارا ہے پھر کیوں دوبارہ آگئی ہو اتنی صبح نیند حرام کرنے..."
جنید چیخ کر بولا۔۔۔
عائشہ سب کو نظرانداز کرتی معاذ کو لے کر صحن میں لگے واش بیسن کی طرف بڑھی اور اُس کا منہ دُھلانے لگی....
"کیا عذاب ہے اتنی صبح..."
منیرہ اندرونی کمرے سے چلاتی ہوئی باہر ہوئی حلیہ دیکھ کر واضح تھا وُہ نماز پڑھ رہی تھی....
"اب ٹھیک ہے ...؟"
عائشہ نے محبت سے معاذ سے پوچھا تو اُس نے اثبات میں سر ہلادیا وُہ بچہ ذرا دفعہ بھی رویا نہیں تھا...
"او بھئی اب کیا کرنے آئی ہے یہاں جان چھوڑ کیوں نہیں دیتی.."
منیرہ نے جاہلانہ انداز میں کہا...
"تُو سمجھتی کیا ہے خود کو جاہل گنوار کتی عورت...."
عائشہ انتہائی جارحانہ انداز میں راشدہ کی طرف بڑھی اور اُسے پے در پے تھپڑ مارے چلی گئی...
"اگر مرد کا بچہ ہے ناں تو وہیں کھڑا رہ عورتیں کو لڑائی میں کود کر اپنی ماں کی گندی تربیت کا پتا مت دینا ذلیل اِنسان..."
عائشہ نے اپنی طرف بڑھتے جنید کی طرف غضبناک نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا جنید وہی رُک گیا...
"کوئی گاجر مولی نہیں ہوں جو کاٹ دے گی مُجھے نہ میرے بچے لاوارث ہیں جو جیسا جس کے دِل میں آئے گا ویسا سلوک کرے گا سمجھ آئی اِن کی ماں زندہ ہے اگر میں چپ چاپ اِس گھر سے چلی گئی ہوں تو اِس کا یہ مطلب نہیں میں کمزور ہوں بلکہ میں نے فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے اور وُہ بہترین اِنصاف کرے گا جب تُم سروں پر آسمان رہے گا نہ پیروں تلے زمین اُس دن آکر میں پوچھوں گی تُم سب سے..."
عائشہ نے اُس کے جبڑے کو اپنے ہاتھ کے شکنجے میں دبائے نفرت سے کہا...
"سمجھ نہیں آتی تُجھے چھوڑ اسے..."
منیرہ نے بیچ بچاؤ کرنے کی کوشش کی تو عائشہ نے جھٹکے سے اُسے چھوڑ دیا اور منیرہ کی طرف متوجہ ہوئی جبکہ راشدہ سکتے میں تھی عائشہ سے اِس رویے کی اُمید کم از کم اُسے تو بلکل نہیں تھی ..
" چھوڑ دیا سنبھالیں اپنی چہیتی کو میں یہاں ابھی تو اپنا کُچھ سامان لینے آئی ہوں اور باقی چیزیں بھی لے جاؤں گی یہ گھر اور اِس کی ہر چیز میرے بچوں کی ہے یہ بات رکھیے گا مگر جب تک اللہ نے رسی دراز کی ہوئی ہے تب تک آپ لوگ سکون میں رہیں جب وُہ کھینچے گا اپنی رسی تو گلے میں پھندا بن جائے گی یہی اور دیکھتی ہوں مُجھے کون روکتا ہے اپنی چیزیں لے جانے سے..."
اُس نے بے خوف منیرہ کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا...
"ہاں تو لے اپنا سب اور دفع ہو ویسے بھی میں پھینکتی ہی سب کو۔۔۔"
منیرہ نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے کہا...
عائشہ نے اندر جاکر الماری سے ثروت باجی کے گھر کی چابی نکالی اپنے اور بچوں کے سارے کپڑے بیگ اور پوٹلی میں بھرے اب باقی ضرورت کی چیزیں تھیلی میں اکھٹی کرکے اُس نے ایک ایک کرکے صحن میں لاکر رکھیں...
"معاذ دونوں چپل پہنو اور جاؤ جاکر ثروت خالہ کے گھر کا تالا کھولو میں آرہی ہوں سامان لے کر..."
اُس نے معاذ کے ہاتھ میں چابی دیتے ہوئے کہا تو وُہ زونیرہ کا ہاتھ پکڑ کر باہر چلا گیا...
"عائشہ نے سامان اٹھاتے وقت طنزیہ نظر منیرہ پر ڈالی اور رُک کر بولی...
"جب دِل پر مہر لگی ہو اور خون سفید ہوچکا ہو زمین پر سر پٹخنے سے خُدا راضی نہیں ہوتی نہ اندر کی کالک صاف ہوتی ہے اُس کے بندوں کو تکلیف پہنچا کر تُم لوگ اُس کے عذاب کے حقدار ہوسکتے ہو صرف رحم کے نہیں روزِ محشر ایسی نمازیں اللہ تمہارے منہ پر دے مارے گا منیرہ بیگم پُلِ صراط سے کٹ کٹ کر گرتے ہوۓ اپنی اصل ٹھکانے تک پہنچو گے تُم سب کیونکہ اللہ بھی تُمہیں تب تک معاف نہیں کرے گا جب تک میں نہیں کردیتی اور مُجھے میرے احسن اور بچوں کو قسم ہے زندگی بھر تم سے ایک شخص کو بھی معاف نہیں کروں گی یاد رکھنا...."
عائشہ کی آنکھوں میں آگ تھی منیرہ کو پہلی بار اُس کی باتوں سے انجانا سا خوف محسوس ہوا تھا...

(جاری ہے)

نوٹ : اگلی قسط جمعہ یا ہفتے کو آئے گی...

بھیگی پلکیں روٹھے خوابDonde viven las historias. Descúbrelo ahora