#بھیگی_پلکیں_روٹھے_خواب
قسط نمبر ۵
از قلم #مصطفیٰ_چھیپانیلگوں آسمان پر طائروں کے غول کے غول اڑ رہے تھے سارے میں پرندوں کی چہچہاہٹوں کی گونج صحن میں اوس سے بھیگی گھاس کی باس بکھری ہوئی تھی۔ سورج ابھی نکلا نہ تھا مگر افق کے مشرقی کناروں پر شوخ رنگ لہریئے نظر آنے لگے تھے۔
اُس نے دوپٹے کو نماز پڑھنے کے انداز میں اپنے چہرے کے گِرد لپیٹا اور صحن میں رکھے تخت پر پیر اوپر کر کے بیٹھ گئی اور آنکھیں آسمان پر ٹکا لیں جہاں چاند ابھی تک موجود تھا۔۔۔
"آپکے جانے کے بعد یوں لگا تھا جیسے سب ختم ہوگیا اب میں بھی جی نہ سکوں گی جب آپکے دُنیا سے جانے کی خبر مُجھ تک پہنچی تو یوں لگا اگلے لمحے میں بھی اِس دُنیا سے رخصت ہوجاؤں گی یوں لگا تھا پورا آسمان مُجھ پر آگرا ہو تب مُجھے وُہ وقت یاد آیا جب میں بابا کے چلے جانے کے بعد امی کو خود کو سنبھالنے کی تلقین کیا کرتی تھیں تو اکثر وُہ رونے لگ جاتی تھیں اور روتے میں سے یکدم مسکرا کر کہتیں خُدا کسی پر یہ وقت نہ لائے اور زندگی کے آخری ایام میں تو بالکل نہیں جب پاس جینے کی وجہ ہی نہ ہو اولاد پل بڑھ کر اپنی اپنی گرہستیوں میں مصروف ہوجائے اُن کا فرض صرف اتنا رہ جائے کہ
امّاں کھانا کھایا،امّاں تمھارے لیے کپڑے لایا ہوں سلوا لینا،امّاں دوائی کھائی، امّاں مرجاؤ دفنا آؤں گا،مرگئی امّاں دفنا آیا، سال میں ایک رات عرفہ کر آؤں گا شبِ برات کو.. میں نے امّاں کو ٹوکا تھا ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو تو اُس نے میرے کان میں کہا اچھا اور نیک شوہر بڑی نعمت ہے جوانی، ادھیڑ عمری تو بچوں کے پیچھے بھاگتے کٹ جاتی ہے مگر بڑھاپا جیون ساتھی کے سہارے ہی کٹتا ہے تب آپ اپنے اور اس کے بیچ میں بچے کو نہیں سلا سکتے کیونکہ وُہ بچہ کسی اور کے پہلو میں سو رہا ہوتا ہے تب جاکر شادی کی اہمیت معلوم ہوتی ہے جوانی تو بیچ بونے اور ادھیڑ عمری اُس بیج سے نکلنے والی فصل کی دیکھ بھال میں گزرتی ہے اور مُجھے جب تیرے باپ کی ضرورت تھی تب وُہ چلا گیا میں منتظر ہوں کب بلاوا آتا ہے اکیلے کمرے میں نیند نہیں آتی اِس لیے پوتا یا پوتی لے آتی ہوں اپنے پاس سلانے مگر یہ بھی تو عارضی ہے ناں زندگی بہت بے درد ہے عائشہ اچھے ہمسفر کا ہونا بہت ضروری ہے... میری ماں نے تو زندگی کے دو موسم گزار لیے تھے اپنے جیون ساتھی کے ساتھ مگر میں تو اُس سے بھی بدنصیب زندگی کی پہلی خزاں میں ہی اُجڑ گئی ..."
وُہ شکوہ کناں تھی...
"نہ میری بچی میری جان غم مت کر بڑھاپے کی بیوگی اگر اذیت ہے تو جوانی کی بیوگی امتحان تُجھے ابھی کُچھ برداشت کرنا ہوگا..."
عائشہ کو ایسا لگا جیسے اُس کی امی اِرد گِرد ہی موجود ہو...
"اللہ اکبر اللہ اکبر..."
مسجدوں سے اذان کی آوازیں آنا شروع ہوگئی تھیں اُس نے جھٹ اپنے آنسوؤں کو صاف کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑی ہوگئی...._________________________________________
"ویسے امی یہ ٹھیک نہیں کررہیں اُس بیچاری کے ساتھ دو چھوٹے چھوٹے بچوں کا ساتھ ہے کہاں خوار ہوگی وُہ..."
زبیدہ نے کتری ہوئی پیاز گرم تیل میں ڈالتے ہوئے کہا...
"آپ کو بہت ہمدردی ہورہی ہے اُس منحوس سے اُس کی وجہ سے میری امی اِس دُنیا سے گئی ہیں.."
راشدہ نے نفرت سے کہا...
"جیسے میں تو جانتی نہیں تمہیں اپنی ماں کے جانے کے غم سے زیادہ احسن کی بیوی نہ بن پانے کا غم ہے جس کا بدلہ تُم عائشہ سے لینا کا سوچ رہی ہو.."
زبیدہ نے بغیر لگی لپٹی رکھے بغیر کہا...
"مُجھے کس بات کا غم ہونا بھابھی بلکہ اچھا ہی ہے کہ میری شادی احسن سے نہیں ہوئی ورنہ چھ سال میں ہی اُجڑ جاتی.."
راشدہ نے سفاکی سے کہا...
"یہی میں کہہ رہی ہوں وہ بیچاری پہلے ہی اُجڑی ہوئی ہے اب اُسے بے گھر تو نہ کرو اور کس برتے پر اُس کی واحد چھینی جارہی ہے کیا ہم سب نہیں جانتے جیسے اُن دونوں کی شادی کے بعد ہم سب نے اُن سے ہر قسم کا تعلق ختم کردیا تھا اسی طرح عائشہ کے گھر والوں نے تعلق ختم کردیا تھا اُن دونوں سے کیوں یتیموں کی بد دعائیں لینے والے کام کرنا.."
زبیدہ نے سمجھانا چاہا...
"ہاں سارے گناہ ہم ہی کر رہے ہیں سارے عذاب ہم پر ہی آئیں گے آپ کو اگر اتنی ہی ہمدردی ہورہی ہے اُس کے بیوہ اور بے آسرا ہونے سے تو پڑھوا دیں اپنے امریکہ پلٹ بھائی سے اُس کے تین بول..."
راشدہ نے تپ کر کہا...
"تُمہیں پتا ہے راشدہ تُم کینہ پرور ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی بدتمیز اور بد لحاظ بھی ہو اور بے حسی میں تمہارا اور امی کا کوئی ثانی نہیں زندگی کے آخری دن چل رہے ہیں اُس بڑھیا کے مگر طے کر کے بیٹھی ہے کہ مرتے دم تک بس گناہ اور زیادتیاں کرنی ہیں اُس نے پتا نہیں مر کر کس منہ سے رب کے حضور پیش ہوگی.."
اُس نے پلیٹ سنک میں تقریباً پھینکی تھی...
"ہوش میں تو ہو بہن کُچھ عقل کو ہاتھ مارو تُم جس کے لیے ایسی زبان استعمال کر رہی ہو وُہ ساس ہے تمہاری اگر سن لیا تو تمہارے اگلے پچھلوں کو رگڑا دے دی گی بڑی خبیثن ہے اوپر سے اِس عمر میں بھی زبان کے جوہر ایسے کے ہر کوئی عش عش کرے کیوں اپنے مرحوم پیاروں کو قبروں میں ہچکیوں کا دورہ لگوانے پر تُلی ہو.."
راشدہ نے ارد گرد دیکھتے ہوئے ہولے سے ہنس کر کہا...
"ایسی بد بدروح کے لیے کون اچھے لفظوں کا استعمال کرسکتا ہے میرا تو اِس کی شکل دیکھ کر دل کرتا ہے سل بٹے پر پیس دوں یا اِمام دستے میں کوٹ دوں بہت ہی کوئی سنگدل ہے اور تُم بھی آخر اسی کا خون ہو تب ہی اتنی سفاک ہو..."
زبیدہ نے پتیلی میں کفگیر گھماتے ہوئے کہا...
"جو کہنا ہے کہہ لو میں تو اپنا بدلہ ہر صورت لے کر رہوں گی..."
راشدہ نے بے فکری سے کہا اور باہر سے آتی منیرہ کی آواز پر سر دھنتی کچن سے باہر چلی گئی...
_________________________________________"اسلام علیکم مما آپ کہاں گئی تھیں...؟"
گیٹ بند کرتے ہی معاذ نے سوال کیا...
"وعلیکم السلام بیٹا ایک ضروری کام سے گئی تھی آپ ایک گلاس پانی لے کر آؤ میرے لئے.."
عائشہ نےاپنی سیاہ چادر اُتار کر ایک طرف رکھا اور تخت پر بیٹھ گئی...
"یہ لیجئے.."
معاذ نے گلاس اُسے دیا اور ساتھ ہی بیٹھ کر تھیلیاں چیک کرنے لگا...
"برف لے کر آنے کی کیا ضرورت تھی ثروت باجی سے بیٹا ویسے ہی سردی ہے گلا خراب ہوجائے گا.."
عائشہ نے گلاس واپس رکھتے ہوئے کہا...
"نہیں مما یہ تو میں فریج سے لے کر آیا ہوں لائٹ آگئی ہے ناں.."
"کب آئی؟"
"صبح جب آپ گئی تھیں اُس کے تھوڑی دیر بعد ہی آگئی تھی زونی تو جب سے اُٹھی ہے ٹی وی پر کارٹون دیکھ رہی ہے باربی بیکار۔۔"
معاذ نے منہ بناتے ہوئے کہا..
"میرا بچہ..." عائشہ کو اُس کے منہ پُھلانے پر بہت پیار آیا...
"چلو آپ مما کی مدد کرو میں آج آپ کا پسندیدہ مٹر پلاؤ بناؤں گی آپ میری مٹر چھیلنے میں مدد کرو شاباش..."
عائشہ نے چادر اور پرس اٹھاتے ہوئے کہا اور اندرونی کمروں کی طرف چلی گئی...
"اسلام علیکم مما..."
زونیرہ نے اُسے دیکھتے ہی سلام کیا...
"وعلیکم السلام بیٹا.."
اُس نے مسکرا کر کہا...
"مما یہ لیں مٹر کی تھیلی اور باؤل.."
معاذ کی بس ایک ہی کوشش ہوتی تھی کہ بس اپنی مما کے پاس پاس رہے...
"چلو ہم بھی باربی کارٹون دیکھتے ہیں آج.."
عائشہ نے معاذ کو اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے کہا...
"بیٹا جاکر دیکھو باہر دروازے پر کون ہے اور پوچھ کر کھولنا.."
عائشہ نے دروازے کی دستک سن کر معاذ سے کہا...
"جی مما..."(جاری ہے)
نوٹ: اگلے قسط بدھ کو پوسٹ ہوگی انشاءاللہ