بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم
شُروع اَللہ کے پاک نام سے جو بڑا مہر بان نہايت رحم والا ہےنوٹ:
میرے لکھے گئے تمام کردار اور واقعات فرضی ہیں ان کا حقیقی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں.BISMILLAH
رات کے سائے بہت گہرے تھے. ہر طرف سکوت تھا ایسے میں کہیں دور سے وقفے وقفے سے آوارہ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں لیکن کسی ذی روح کی موجودگی کے کوئی آثار نہیں تھے آسمان پر چاند بادلوں کی اوٹ میں تھا. یہ سب مل کے منظر کو ہولناک بنا رہے تھے.
تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کے ماحول کی خاموشی کو گولی کی آواز نے توڑا. بھاگتے قدموں کی آوازیں اب آسانی سے سنی جا سکتی تھیں
ایک تیس پینتیس سالہ آدمی ہاتھ میں پستول پکڑے سر پٹ دوڑ رہا تھا کچھ کچھ لمحوں بعد ایک نظر اپنے پیچھے بھاگتے سیاہ نقاب پوشوں پہ ڈالتا اور بغیر پیچھے مڑے اور اپنی رفتار کم کئے گولی چلا دیتا.
لیکن اب کی بار شاید قسمت بھی اس کا ساتھ دینے سے انکاری تھی
وہ پیچھے دیکھتے ہوئے ابھی کچھ قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ اندھیرا ہونے کے باعث سڑک پر موجود سپیڈ بر یکر سے ٹھوکر کھا کر نیچے گرا. ٹھوکر لگنے کی وجہ سے اسکی گرفت پستول پر ڈھیلی ہوئی اور وہ اچھل کر اس سے دور جا گری
وہ جلدی سے اٹھنے ہی والا تھا کے اسے اپنی گردن کے پچھلے حصے پر کسی کی مضبوط گرفت محسوس ہوئی. اسکی گردن اور کسی کے نہیں بلکہ انہی دو سیاہ نقاب پوشوں میں سے ایک کے ہاتھ میں تھی اور دوسرا نقاب پوش اب جھک کر سڑک سے اسکی پستول اٹھا چکا تھا
مسلسل 3 منٹ بھاگنے سے اسکی سانس پھول چکی تھی اور گرنے کی وجہ سے دائیں ٹانگ میں بھی ٹیس اٹھ رہی تھی.
سیاہ نقاب پوش نے ایک جھکٹے سے اس کے گریبان کو پکڑتے ہوئے اسے کھڑا کیا
گرنے کی وجہ سے چال میں لڑکھڑاہٹ واضح تھی.
"تمہیں کیا لگا تھا کے تم وہاں سے بھاگ جاو گے اور ہم تمہیں نہیں پکڑ پائیں گے تو یہ صرف تمہاری سوچ تھی.
اب کی بار تم بھاگ نہیں سکتے موت کو تم نے خود دستک دی ہے" نقاب پوش کی غراہٹ سن کے اسکے رونگٹے کھڑے ہو گئے."دیکھو تم لوگ پلیز مجھے جانے دو میں بالکل انجان ہوں تم لوگوں کو جو کچھ چاہیے میں وہ تمہیں دوں گا لیکن پلیز مجھے چھوڑ دو مجھے کچھ مت کرنا" اسکی آواز کپکپا رہی تھی
"ہمیں جو چائیے وہ تو ہم حاصل کر کے ہی رہیں گے اور یہ بھی پتا لگا لیں گے کہ تم کتنے انجان ہو" یہ کہتے ہی دوسرے نقاب پوش نے کلوروفوم لگا رومال اسکے منہ پہ رکھ دیا اور تھوڑی سی مزاحمت کے بعد وہ اپنے ہوش کھو بیٹھا.
"سر کیا کرنا ہے اسکا؟" اب وہ نقاب ہٹا چکے تھے لیکن اندھیرے کی وجہ سے انکے نقوش واضح نہیں ہو رہے تھے." اسے ہم اپنے ساتھ لے چلتے ہیں تھوڑے دن خاطر داری کریں گے تو خود بخود سب کچھ اگل دے گا" جواب نسوانی آواز میں ملا
"جی سر" اسی مودب لھجے میں کہا گیا.
YOU ARE READING
راہِ حق ازقلم ندا فاطمہ
Actionنگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں جو ہو یقیں پیدا تو کٹ جاتیں ہیں زنجیریں یہ کہانی ہے ان نوجوانوں کی جن کے لئے انکا فرض ہمیشہ رشتوں سے آگے رہا. یہ کہانی اس لڑکی کی ہے جس نے اپنے سب پیاروں کو کھو دیا لیکن کبھی اللہ کے انصاف سے نا امید نہیں ہوئی...