Ep 7

209 36 52
                                    

بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم
شُروع اَللہ کے پاک نام سے جو بڑا مہر بان نہايت رحم والا ہے

نوٹ:
میرے لکھے گئے تمام کردار اور وقعات فرضی ہیں حقیقی زندگی میں انکا کوئی عمل دخل نہیں...

BISMILLAH

آج ہم عہد کرتے ہیں
پھر سے ایک ہونے کا
خود کو اس وطن کے نام وقف کرنے کا
اس پاک وطن کے پرچم کو
پھر سے بلند کرنے کا
تلواروں کی نوک پر چڑھ کر
اپنے ملک کا ترانہ پڑھنے کا
بکھرے ہوؤں کو مل کر
اک مرکز پر لانے کا
محمد بن قاسم کی طرح
لوگوں کےدلوں کو فتح کرنے کا
حسین ابن علی کی طرح
آج کے یزیدوں کا مقابلہ کرنے کا
آنے والی چودہ اگست تک
اک نئی قیادت رقم کرنے کا
آج ہم عہد کرتے ہیں
پھر سے ایک ہونے کا
زمین پر خود سے محنت کرنے کا
قائد ملت بننے کا
اقبال کے خواب کو
تعبیر میں بدلنے کا
قائد کی محنت کو
انکے ڈھنگ سے سجانے کا
اپنے جانبازوں کی شہادت کو
مل کر سلام کرنے کا
بجھتے اپنے چراغوں کو
اپنے خون سے روشن کرنے کا
آج ہم عہد کرتے ہیں
اس پرچم کے سائے تلے
پھر سے ایک ہونے کا
اپنے آبا کی قربانیوں کو
رائیگاں ہونے سے بچانے کا
آج ہم عہد کرتے ہیں
پھر سے ایک ہونے کا
اس وطن عزیز کی خاطر
ہو سکا تو جان دینے کا
اپنی ہر دعا میں
وطن کی سلامتی مانگنے کا
اپنے ملک کے دشمنوں کے ہر داؤ
کو مل کر ہرانے کا
آج ہم عہد کرتے ہیں
پھر سے ایک ہونے کا
(ازخود ندافاطمہ)

•_•

نہیں ملا آج تک کوئی تجھ جیسا ہم کو
اور ستم تو یہ ہے کہ ملا تو بھی نہیں

ستمبر کے مہینے کا آغاز ہونے کی وجہ سے اسلام آباد کی ہوا میں کافی خنکی تھی.... سورج اپنے معمول سے ہٹ کر گرم تھا.... ہوا کے جھونکے موسم کو خوشگوار بنا رہے تھے.....بادل آسمان پر اپنا ڈیرہ جمائے بیٹھے تھے.

وہ اپنے بیگ کو کندھے پر لٹکائے، بلیک جینز اور وائٹ شرٹ پر کالی لیدر جیکٹ پہنے، دائیں ہاتھ میں کچھ بینڈز پہنے، گلے میں پینک کلر کا مفلر لپیٹے یونیورسٹی کے اردگرد سے بے نیاز اپنے بھورے بالوں سے الجھتی گراؤنڈ سے گزر رہی تھی....ہوا کی وجہ سے اسکے بال چہرے پر اٹھکھیلیاں کر رہے تھے....

لڑکے تو لڑکے، لڑکیاں بھی اس کالی آنکھوں والی مغرور حسینہ کو مڑ مڑ کر دیکھ رہی تھیں، پر پرواہ کسے تھی...وہ تو بس خود سے الجھتی ہوئی اپنی کلاس کی طرف بڑھتی پیچھے لوگوں کو حیران کئے جا رہی تھی....

آخر کار کوریڈور میں پہنچ کر اسکے بالوں نے ہار مان لی اور اسنے انہیں ٹیل کی شکل میں باندھا اور کلاس کے سامنے جا کر رکی.

"May I come in sir...."
اس نے کلاس میں لیکچر دیتے سر ولی سے اجازت طلب کی.
اسکی آواز نے ولی کے ساتھ ساتھ، کلاس کے باقی لوگوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا.

سر ولی نے اکتاہٹ سے دروازے کی طرف دیکھا، لیکن اسکی نظریں پلٹنے سے انکاری ہوئیں...
کالی آنکھیں، بھوری آنکھوں میں گڑھی تھیں...
کلاس میں بھی اب سامنے کھڑی لڑکی پر تبصرے شروع ہو چکے تھے.
اسنے ایک سرد نگاہ ان سب پر ڈالی اور دوبارہ اجازت مانگی.
"May I come in Siiiirrr."
اسنے سر کو کھینچتے ہوئے پہلے سے اونچی آواز میں کہا.
اسکی آواز پر ولی کا تسلسل ٹوٹا، اسے اپنی بےاختیاری پر جی بھر کے غصہ آیا.

راہِ حق ازقلم ندا فاطمہWhere stories live. Discover now