بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم
شُروع اَللہ کے پاک نام سے جو بڑا مہر بان نہايت رحم والا ہےنوٹ:
میرے لکھے گئے تمام کردار اور وقعات فرضی ہیں حقیقی زندگی میں انکا کوئی عمل دخل نہیں.BISMILLAH
سورج ہوں زندگی کی رَمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شَفق چھوڑ جاؤں گاتاریخ کربلائے سخن! دیکھنا کہ میں
خونِ جگر سے لکھ کے ورق چھوڑ جاؤں گااِک روشنی کی موت مروں گا زمین پر
جینے کا اس جہان میں حق چھوڑ جاؤں گاروئیں گے میری یاد میں مہر و مہ و نجوم
ان آئنوں میں عکسِ قَلق چھوڑ جاؤں گاوہ اوس کے درخت لگاؤں گا جا بہ جا
ہر بوند میں لہو کی رَمق چھوڑ جاؤں گاگزروں گا شہرِ سنگ سے جب آئنہ لیے
چہرے کُھلے دریچوں میں فَق چھوڑ جاؤں گاپہنچوں گا صحنِ باغ میں شبنم رُتوں کے ساتھ
سوکھے ہوئے گُلوں میں عرق چھوڑ جاؤں گاہر سُو لگیں گے مجھ سے صداقت کے اشتہار
ہر سُو محبتوں کے سبق چھوڑ جاؤں گاساجدؔ گلاب چال چلوں گا روش روش
دھرتی پہ گلستانِ شَفق چھوڑ جاؤں گا•_•
ہنال روم کا دروازہ کھول کر اندر آئی اور لائٹ آن کی....کمرے کی دیواروں کا کلر بلکل باقی گھر کی دیواروں جیسا تھا.... اینڑر ہوتے ہی سامنے سنگل بیڈ تھا، رائٹ سائیڈ پہ واشروم تھا جسکے تھوڑا سا پیچھے سلائیڈ وارڈروب تھی..... اسنے ایک گہرا سانس بھر کے بائیں جانب دیکھا.....سامنے گلاس ڈور تھا جس پر پردے گرے ہوئے تھے اور آگے بالکنی تھی جسکے سائیڈ پہ ٹیرس کا دروازہ تھا.... بیڈ کے بالکل سامنے ایک چیئر اور ٹیبل پڑا تھا اور سائیڈ پہ کاؤچ رکھا ہوا تھا.
اسنے ہاتھ میں پکڑے بیگ کو بیڈ پر اچھالا اور خود چئیر کھینچ کر اس انداز سے بیٹھ گئی کہ اسکا چہرہ کرسی کی ٹیک کے ساتھ لگا ہوا تھا.....کچھ سیکنڈ یونہی خالی خالی نظروں سے سامنے گھورتی رہی تبھی اچانک ذہین میں ایک جھماکا سا ہوا.....
"ہنال....چلو مانا کے تمہیں باپ کی پرواہ نہیں لیکن ماں کا ہی خیال کر لو.....پانچ مہینے سے تمہاری آواز سننے کو ترس رہی ہے....کم از کم ایک فون کرکے اس اپنی خیریت ہی بتا دیا کرو."
کچھ سوچتے ہوئے اسنے اپنی جیکٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالا اور فون نکال کر ایک نمبر ڈائل کرکے فون سپیکر پر کیا.
بیل جا رہی تھی...... اور کچھ ہی سیکنڈز میں فون اٹھا لیا گیا."ہیلو......ہانی میری جان!......کیسی ہو بیٹا؟......میں نے تمہاری کال کا کتنا انتظار کیا..... آواز سننے کو کان ترس گئے تھے میرے......پر تمہیں تو ماں کو ستا کے خوشی ملتی ہے نا!....کوئی پرواہ نہیں میری.....کیا ہوا؟ اتنی خاموش کیوں ہو؟.... تم ٹھیک ہو نا؟" ہادیہ بیگم نے فون اٹھاتے ہی شکوؤں کے انبار لگا دئیے، لیکن ہنال کی ہنوز خاموشی نے انہیں فکرمند کر دیا تھا.

YOU ARE READING
راہِ حق ازقلم ندا فاطمہ
Actionنگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں جو ہو یقیں پیدا تو کٹ جاتیں ہیں زنجیریں یہ کہانی ہے ان نوجوانوں کی جن کے لئے انکا فرض ہمیشہ رشتوں سے آگے رہا. یہ کہانی اس لڑکی کی ہے جس نے اپنے سب پیاروں کو کھو دیا لیکن کبھی اللہ کے انصاف سے نا امید نہیں ہوئی...