قسط نمبر 7

725 60 14
                                    

"عطا دیکھی تو صرف رب کی دیکھی
ورنہ کون دیتا ہےکسی کو محبوب اپنا "
شہریار نے اس کی زندگی آسان کرنے کے لئے اپنے لئے ایک بہت مشکل فیصلہ کیا تھا ۔
اس نے دماغ سے فیصلہ کیا تھا۔بہت سوچ سمجھ کر پورے ہوش وحواس میں۔اس کا دل مطمئن تھا مگر آنکھیں کبھی کبھی دل کے فیصلے کا بھرم رکھنے میں ناکام ہو جاتی تھیں
وہ نگاہ کے سامنے تھی تو اس کی عادت تھی
نگاہ سے اوجھل ہونے کا خیال آیا تو معلوم پڑا ۔ضرورت اور عادت میں ویسے ہی فرق ہوتا ہے جیسے محبت اور عشق میں ۔۔
محبت اگر عادت ہے تو عشق سراسر مجبوری،،

شہریار نے اس کی خوبصورتی سے عشق نہیں کیا تھا
یہ الگ بات ہے کہ جب کوئی دل میں سما جائے تو اس کی ہر ادا ہی خوبصورت لگنے لگتی ہے
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐شہریار کی کلاسز ایک ویک بعد سٹارٹ ہونی تھیں۔یعنی اسے ہاسٹل ایک ویک بعد جانا تھا۔پورا ہفتہ ان دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔وہ اس کے سامنے ضرور آتی تھی مگر دونوں ایک دوسرے سے نظر چرا کر رہتے
چھ روز بعد اس کے جانے کا وقت آ گیا تھا۔وہ لاؤنج میں کھڑا اپنی ماں اور بہن کے آنسو پونچھ رہا تھا جو اس کے جانے پر بالکل بھی خوش نہیں تھیں
روزینہ اس منظر کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس منظر کا حصہ نہیں لگتی تھی ۔۔وہ کونے میں چپ چاپ کھڑی ان کو دیکھتی رہی سب اپنے اندر جل رہے تھے ۔۔ اس کی طرف کون دھیان دیتا
شہریار نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا جو سر جھکائے اپنی انگلیاں چٹخا رہی تھی اور چپ چاپ لائونج سے نکل گیا
شہرین اور اس کی ماما بھی اس کے پیچھے ہی دروازے تک آئیں جبکہ روزینہ صرف اینٹرس کے گیٹ تک رہی
"بیٹا مہرین کے بعد مجھ میں اب کسی کو کھونے کی ہمت نہیں "
شہرین اس کے گلے لگی رو رہی تھی اس نے ماں اور بہن کے گرد بازو لپیٹا ۔ان دونوں نے اس کے دونوں کندھوں پر سر رکھا
شہریار کی نگاہ بلا اختیار ہے اینٹرس کے دروازے تک اٹھی وہ ابھی یہی کھڑی تھی مگر اب وہاں نہیں تھی
ایک اداس مسکراہٹ اس کے لبوں کا احاطہ کر گئی
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
وہ دوڑتی ہوئی اپنے کمرے تک آئی تھی۔۔ پتہ نہیں کس چیز کا احساس زیاں اس کو گھیر رہا تھا
اس نے نے ونڈو کے آگے سے پردہ ہٹایا ۔۔شہریار اب باہر نکل رہا تھا
بے اختیار روزینہ کا دل چاہا وہ ایک نظر اوپر ان کے روم کی طرف ڈال لے مگر وہ بغیر کسی طرف دیکھے بائیک سٹارٹ کر کے نظروں سے اوجھل ہو گیا
گاڑی وہ اس کے لیے ہی چھوڑ گیا تھا۔شہرین کو گاڑی کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔وہ میڈیکل کی بکس لکھ کر دے دیتی تھی اور ڈرائیور لے آتا تھا۔مگر روزینہ کو اپنا پینٹنگ کا سامان خود ہی لانا ہوتا تھا۔
چیزوں میں اتنی ویری ایشن ہوتی ہے کہ ڈرائیور لے بھی آتا تو کچھ غلط ہوتا۔اس کو اپنا مطلوبہ سامان لینے پھر جانا پڑتا تھا۔ اس معاملے میں اب وہ کسی پر انحصار نہیں کرتی تھی۔
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
زندگی کو اپنی روٹین پر تو آنا ہی تھا ۔۔
مسز اختر ، شہرین اور وہ سب اپنے اپنے کاموں میں مگن ہوگئے

شہریار کے ہوسٹل شفٹ ہونے کے بعد شروع شروع میں تو وہ ہر ویک اینڈ گھر  پر آ جاتا تھا
لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد اس نے باقاعدگی سے ہر ویک اینڈ پر گھر آنا چھوڑ دیا
روزینہ خود کو اس کا مجرم قرار دیتی تھی اور جب وہ ماما اور شہرین کو اسے یاد کرتے ہوئے دیکھتی تو اس کا یہ احساس جرم اور بڑھنے لگتا
وہ اس کے سامنے بہت کم آتی تھی وہ جب بھی گھر آتا تو وہ اپنی کسی اسائنمنٹ یا ٹیسٹ کا بہانہ کرکے اپنی اسٹڈی میں قید ہو جاتی تھی

رنگ ریزہ(مکمل)Where stories live. Discover now