قسط نمبر 8

738 64 20
                                    


کالج سے واپسی پر وہ بہت تھک گئی تھی۔آ کر چینج کیے بنا ہی وہ کچھ دیر  کے لیے لیٹ گئی۔مگر اس کی آنکھ لگ گئی۔
سو کر اٹھی تو اب بھی اسی حلیے میں  نیچے آگئی
نیچے آتے ہی ڈرائینگ روم کی طرف بڑھ گئی جہاں پر حمزہ اور شہری گپ شپ کر رہے تھے
"کیا ہو رہا ہے گائز ؟؟"
حمزہ کو دیکھ کر اس کا موڈ خودبخود فریش ہو گیا
"ہم لوگ باہر جا رہے تھے سیلیبریٹ کرنے"
"کس چیز کی سیلیبریشن ؟؟"
"بھئی ڈاکٹر شہرین نے اپنی ہاوس جاب کی خوشی میں تو ٹریٹ دی نہیں میں نے سوچا میں اپنے رزلٹ کی ٹریٹ دے دوں"
"رئیلی۔کب آیا تمہارا رزلٹ۔اور کیا جی پی اے رہا۔"
" آج ہی 3 پوائنٹ 9 "
"واو ۔مبارک ہو بھئی۔نیکسٹ کیا پلان ہے؟"
"شہری بھائی دی گریٹ۔۔ان کے نقش قدم ہی چلوں گا۔"
(ہاں وہ اتنا ہی عظیم ہے کہ اس کے نقش قدم پر چلا جائے)۔وہ مغموم سا مسکرائی

"شہری نے بھی تو آج آنا تھا ناں"
اس نے شہرین سے پوچھا
"ہاں ان کا منڈے کو فرسٹ پیپر ہے سیکنڈ سمسٹر کا۔تو شاید نہ آ سکیں آج"
"باقی باتیں گاڑی میں کر لینا۔اب چلیں؟؟حمزہ نے دونوں سے پوچھا
"جانا کہاں ہے؟؟"
"ابھی تو ماما کی بوتیک پر چلتے ہیں ۔۔باقی بعد میں ڈیسائیڈ کرلیں گے"
اس نے ایک نظر اپنے حلیے پر ڈالی
بلیک جینز پر پلیٹس والا ہلکا نیلا شارٹ فراک جس پر دو تین جگہوں پر کچھ رنگ لگے تھے
مگر شہرین نے اسے چینج کرنے کا ٹائم نہیں دیا اور اس کا ہاتھ کھینچ کر باہر لے آئی
"ایک منٹ میں روم سے اپنا فون اٹھا لوں
کمرے میں آکر اس نے جلدی سے بالوں کو کیچڑ میں جھکڑا ۔آنکھوں میں کاجل کے ڈورے ڈالے اور ہاتھوں میں اپنے بینڈز اور وہی رنگز دوبارہ سے پہنیں کہ اس کا فون بجنے لگا
عدن کی کال تھی۔اس نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا کال ریسیو کی
یہ سچ تھا کہ دل اس کو دیکھنے کو، اس سے بات کرنے کو ہمکتا تھا۔ مگر اس  کا نمبر ہونے کے باوجود اس نے کبھی ایسی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔وہ خود ہی کال کرتا تھا۔وہ بھی صرف کام کے وقت،،
اس نے کال ریسیو کی۔ابتدائی سلام دعا کے بعد وہ اصل مدعے پر آگیا

" میں مور کے پنکھ بنوانا چاہتا ہوں اور اس طرح سے بنوانا چاہتا ہوں کہ دس پنکھ ہوں۔ترتیب میں پانچ نیچے اور پانچ ان کے درمیان نسبتا اوپر اور اس پینٹنگ کا بیک گراؤنڈ بالکل بلیک ہو۔میں آپ کو ایک کارڈ بھیج رہا ہوں اس پر ایک پوئٹری ہے وہ آپ اس پینٹنگ کی سائیڈ پر لکھ دینا
"اس کے بعد فریم کروائیے گا "
"جی ٹھیک ہے "
"اور پیمنٹ کی آپ فکر مت کریں اس بار ایڈوانس مل جائے گی "
روزینہ کو ایک دم غصہ آیا
جب اس نے پیمنٹ کے کوئی بات نہیں کی تھی تو پھر یہ شخص آخر کیا ظاہر کرنا چاہتا تھا
اس نے اپنے اندر کا غصہ دباتے ہوئے پوچھا "کب تک چاہیے آپ کو ؟"
"جب بھی آپ فری ہو بنا دیجئے گا ۔اگر ایک ویک میں دے دیں؟؟
"جی ٹھیک ہے"
اس نے اللہ حافظ کہہ کر کال بند کر دی
فون بند کرنے کے بعد فون ہاتھ میں لے  کر جلدی سے نیچے آئی
ماما کے بوتیک سے شاپنگ کرنے کے بعد وہ بے مقصد ہی پیکجز مال میں پھرنے لگے
حمزہ نے ان دونوں کو شاپنگ کروائی تھی شہرین روکتی ہی رہ گئی مگر
"یار تمہیں کیا پرابلم ہے حمزہ صاحب جب اپنی خوشی سے شاپنگ کروا رہے ہیں"
وہ حمزہ کے بولنے سے پہلے ہی بولی
" بلکہ میں تو کہتی ہوں گھر کی گروسری بھی کرنی ہے تو کچھ کر لو
وہ شہرین کو کہنی مار کر ہلکی آواز میں کہہ رہی تھی
مگر آواز حمزہ کے ساتھ کھڑے سیلز مین تک بھی پہنچ رہی تھی۔ جس کے لبوں پر اب مسکراہٹ تھی
"ہاں نا ٹھیک کہہ رہی ہے روز"
حمزہ نے مسکراتے ہوئے شہرین سے کہا "ایکسیوزمی روز نہیں روزی یا روزینہ کہہ سکتے ہیں آپ "
وہ یکدم پلٹی اور انگلی اٹھا کر اسے تنبیہ کی
اوکے اوکے ۔۔اتنا مائنڈ کیوں کر رہی ہو حمزہ نے فورا ہاتھ کھڑے کردیے
اسے لگا تھا کہ شاید اسے روز کا لفظ اچھا نہیں لگتا مگر سچ یہ تھا کہ اسے شہری کے علاوہ کسی اور کے منہ سے روز کا لفظ اچھا نہیں لگتا تھا
وہ اگلی آوٹ لیٹ پر داخل ہوئے
"یار ذرا دیکھو یہ سیلز مین ہمارے ساتھ ساتھ یوں آ رہا ہے جیسے ہم چوری کرکے بھاگنے والے ہیں"
روزینہ کے زبان بند نہیں ہو سکتی تھی ۔وہ ہر چیز پر کمنٹس کر رہی تھی ۔حمزہ کی مسکراہٹ قابو میں نہیں آرہی تھی
" اب کچھ کھلاو گے بھی یا ایسے ہی مسکراتے رہو گے؟؟
" بتاؤ کہاں لے کر چلوں؟؟"
" کہاں لے کر جا سکتے ہو؟؟"
اسی کے انداز میں جواب دیا۔ لہجہ ذرا چیلنجنگ تھا
"تم بتاؤ کہاں جانا ہے؟؟
حمزہ نے پھر اسی سے پوچھا
اس نے لاہور کے سب سے مشہور اور مہنگے ترین ہوٹل کا نام لیا
" لے جا سکتے ہو ؟؟
ابرو اٹھائے اس سے پوچھ رہی تھی
ارے نہیں۔ یہ تو مذاق کر رہی ہے"
شہرین نے روزینہ کو گھرکا
مگر وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی
آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد وہ اسی ہوٹل کے ہال میں بیٹھے تھے
شہرین روزینہ اور حمزہ نے اپنی اپنی پسند کا آرڈر لکھوایا
وہ تینوں ہنسی مذاق میں مصروف تھے اردگرد بیٹھے ہوئے لوگوں کی نظریں ان کے ٹیبل کی طرف اٹھ رہی تھیں مگر وہ سب سے بے نیاز اپنا ڈنر انجوائے کر رہے تھے
روزینہ یہاں آکر بھی ذرا مرعوب نہیں ہوئی تھی البتہ شہرین شرمندہ نظر آ رہی تھی
یار کیا ہوگیا ہے ۔اپنی ممی پاپا کا اکلوتا بیٹا ہے ہم پر نہیں خرچے گا تو اور کس پر خرچے گا ؟؟
شہرین اور حمزہ بیک وقت مسکرائے
جبکہ روزینہ نہیں جانتی تھی وہ اپنی انہی شرارتوں اور اداؤں سے حمزہ کے دل میں اترتی جارہی ہے
وہ لوگ واپس آئے تو شہریار آیا ہوا تھا
وہ اٹھ کر حمزہ سے گلے ملا شہرین کو ساتھ لگا کر پیار کیا اور روزینہ سے ہاتھ ملایا
کہاں کی سیریں ہو رہی تھیں بھائی کا انتظار بھی نہیں کیا ؟؟
وہ شہرین سے گلہ کر رہا تھا
مما کی بوتیک پر گئے تھے اور اس کے بعد شاپنگ کے لیے چلے گئے اور اب بہت تھک گئے ہیں
پلیز روزی ایک کپ کافی ملے گی ۔ روزینہ ابھی صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھی ہوئی تھی کہ حمزہ نے فرمائش کردی
" ہاں یار پلیز میرے لیے بھی"
شہرین نے بھی اس کی تائید کی
ویسے تو کچن کے کاموں کے لیے انہوں نے بوا رکھی ہوئی تھی مگر روزینہ کے ہاتھ کی کافی سب کو پسند تھی اور کبھی کبھی روزینہ کو اس بات پر بہت غصہ آتا تھا جیسے اب اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا مگر اٹھ کر جانا پڑا
اس نے ایک نظر شہر یار کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو
" آپ کیا لیں گے ؟؟"
مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ اٹھ کر کچن میں آگئی
اور جب واپس آئی تو ہاتھ میں ایک ٹرے میں دو کپ کافی اور دو کپ چائے تھی
اسے زبان سے پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی تھی
وہ اور شہریار چائے کے اتنی عادی تھے کہ رات کے 2 بجے بھی کوئی اٹھا کر کہتا تو وہ چائے کو انکار نہیں کرتے
روزینہ اپنا چائے کا کپ لیکر وہاں سے اٹھنے لگی کہ اچانک شہریار نے اس کو پکارا
" تمہارے لئے عدن کا ڈرائیور ایک کارڈ دے کر گیا ہے اور یہ بھی
روزینہ نے اس کے ہاتھ سے چیک اور کارڈ تھام لیا
لیکن اس کو شہریار کی نظر خود پر جمی محسوس ہو رہی تھی وہ عجیب سی نظروں سے اس کو دیکھ رہا تھا
اس نے وہیں کھڑے ہوئے ہی کارڈ کھولا
"سفر میں اپنے حصے کی مسافت یاد رہتی ہے کہیں آباد ہونے پر بھی ہجرت یاد رہتی ہے"
"وہ چاہے دوستی ہو محبت ہو یا دشمنی ہو یہاں ہر حال میں اپنی ضرورت یاد رہتی ہے"
"کبھی صحرا کو پیاسا چھوڑ جاتا ہے دریا کبھی پیاسے کو دریا کی سخاوت یاد رہتی ہے"
"یہ سچ ہے پہلا پیار ہی بسا رہتا ہے سانسوں میں
یہ سچ ہے عمر بھر پہلی محبت یاد رہتی ہے"

رنگ ریزہ(مکمل)Wo Geschichten leben. Entdecke jetzt