وہ تیز تیز قدموں سے عدن کے آفس سے نکلی تھی کہ اس کے آفس سے باہر والے کوریڈور میں اچانک اس کی نظر دیوار پر لگی ہوئی ایک پینٹنگ پر ٹھہری۔
اس کے تیز تیز چلتے قدموں کو بریک لگی ۔اس نے ذرا آگے بڑھ کر قدرے جھک کر تصویر کو دیکھا اور پھر سیدھی ہوئی،، دو قدم پیچھے گئی اور از سر نو اس کا جائزہ لیا۔ بنانے والے کے ہاتھ میں بہت پرفیکشن تھی اس کی آنکھوں میں ایک چمک ابھری۔وہ جب بھی کسی کے کام سے خوش ہوتی تھی اس کی آنکھیں چمک اٹھتیں
روزینہ ایک آرٹسٹ تھی کسی بھی پینٹنگ کی خامی اور نقائص کو منٹوں میں پہچان لیتی تھی مگر اس تصویر میں کوئی نقص نہ تھا
اسٹروکس کمال کے لگائے گئے تھے۔۔ آئی ٹریول اور اینگل میں بھی کوئی غلطی نہیں تھی اور شیڈز بھی متوازن و مناسب تھے
وہ ایک نظر میں ہی اندازہ لگا چکی تھی کہ یہ پینٹنگ عبد الرحمٰن چغتائی(پاکستان کے نیشنل آرٹسٹ) یا سید صادقین احمد سے کم کسی آرٹسٹ کی نہیں ہو سکتی
اس کو پرسنلی پاکستان کے ان دونوں آرٹسٹ کے کام سے عشق تھا
مگر پینٹنگ کا فریم غیرملکی طرز کا تھا
اس نے ذرا آگے ہو کر تصویر کے بائیں ہاتھ پر نیچے کی طرف بنانے والے کا نام پڑھا اور آرٹسٹ کے سگنیچر دیکھ کر اس کو ایک زبردست حیرت کا جھٹکا لگا
وہ پیبلو پکاسو کے آفیشیل سگنیچر اور اس کے ساتھ اس کی سٹمپ تھی
مطلب وہ پینٹنگ اوریجنل تھی ۔اس کی مالیت ڈالرز میں بھی ملینز میں ہو گیپیبلو پکاسو صرف ایک پینٹر ، پرنٹ میکر، سرامکس ڈیزائنر ہی نہیں بلکہ ایک سکلپچر بھی تھا اور روزینہ اس کو اپنا آئیڈیل مانتی تھی
اسی لیے اس نے پینٹنگ کے تیسرے سال میں سکلپچیرنگ سلیکٹ کی تھی
روزینہ حیرت کا بت بنی اس تصویر کو دیکھے جا رہی تھی
اس کو یقین نہیں ہو رہا تھا عدن شاہ نے اتنی قیمتی تصویر اپنے آفس کے کوریڈور میں لگا رکھی ہے
بے ساختہ ہی روزینہ نے اس تصویر کے نیچے بائیں طرف آرٹسٹ کے سگنیچر پر ہاتھ رکھے۔ اس طرح ہاتھ رکھنے سے اس کے دل کی تمام جذبات اس کے چہرے پر عیاں تھے
"میں ساری زندگی دن رات بھی محنت کرکے کے کمانا چاہوں تو اتنا نہیں کما سکتی کہ اس طرح کی خواہشات افورڈ کر سکوں "
وہ بے حد حسرت سے اس پینٹنگ کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی
کچھ پل اسی ٹرانس میں گزر گئے اور پھر اس نے نے باہر کی طرف قدم بڑھا دیے
البتہ اب اس کے قدموں میں وہ تیزی نہیں رہی تھی
میٹنگ روم کی طرف جانے کے لئے آفس سے نکلتے ہوئے عدن شاہ نے یہ سارا منظر چپکے سے اپنی آنکھوں میں قید کر لیا تھا⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
شہرین کو اندھیرے سے ڈر لگتا تھا وہ واش روم میں تھی اور روزینہ باہر سے واشروم کی لائٹ بند کرکے بھاگی۔
شہرین بھی اس کے پیچھے ہی بھاگی ان دونوں کی ہنسی نہیں رک رہی تھی
جب وہ دونوں بھاگتے ہوئے آگے پیچھے لاؤنج میں داخل ہوئیں تو وہاں پر حمزہ کے والدین بیٹھے تھے
ان دونوں نے اپنی ہنسی دبانے ہوئے انتہائی مدبرانہ انداز میں ان کو سلام کیا اور صوفے پر بیٹھیں
اس وقت کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ دونوں لڑکیاں کتنی شیطان ہیں
حمزہ کے والد سعودیہ سے آئے تھے اور اب اس کی ماما بھی اپنے ہسبینڈ کے ساتھ عمرے پر جانے کی تیاری کر رہی تھیں
روزینہ حمزہ کے والد سے پہلے کبھی نہیں ملی تھی شہرین نے اس کا تعارف کروایا تو انہوں نے روزی کے پیرنٹس کا پوچھا
شہرین کے جواب دینے سے پہلے ہی حمزہ کی والدہ بول پڑیں
" میں نے آپ کو بتایا تھا نا روزینہ بچے کا" انہوں نے آنکھوں میں ہی کوئی اشارہ کیا
"ہاں میں بھول گیا تھا "
حمزہ کے والد نے روزینہ کے سر پر دست شفقت رکھا
یہ لمحہ زندگی کا سب سے ترحم آمیز ہوتا تھا۔ جب کوئی اس کی اس گھر میں رہنے کی حیثیت پوچھتا تھا
وہ ان کے درمیان بیٹھی خود کو بہت مس فٹ محسوس کر رہی تھی پھر ان سے ایکسیوز کرکے اسٹوڈیو میں آ گئی ۔جو اس کی فرصت اور مصروفیت دونوں کا سامان تھا خوشی اور اداسی دونوں میں اس کا ساتھی تھا
حمزہ نے شہرین کو اشارہ کیا مگر وہ اسے بلانے نہیں آئی وہ سب ڈنر کے لئے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے
"یار کھانے پر تو بلا لو اس کو"
" میں جاؤ گی اور وہ نیند کا بہانہ کر دے گی پھر میں لاکھ کہوں مگر وہ نہیں آئے گی "
شہرین حمزہ کو بتانے لگی
"چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں دیکھنا فورا آجائے گی"
ان دونوں نے جب اس کے سٹوڈیو میں قدم رکھا تو وہ ایک پینٹنگ پر پر متوجہ تھی شہرین کے ساتھ حمزہ کو دیکھ کر وہ فورا باہر آنے کے لئے تیار ہو گئی
حمزہ سے کوئی بعید نہیں تھی کہ وہ اس کی چیزیں سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دیتا تھا
YOU ARE READING
رنگ ریزہ(مکمل)
Fantasyیہ کہانی ہے اک لڑکی کی جو رنگوں کی دیوانی ہے۔وہ رنگوں سے نہیں بلکہ رنگ اس سے کھیلتے ہیں۔وہ جہاں بھی جاتی ہے لوگوں کی زندگی رنگوں سے بھر دیتی ہے۔مگر ایک دن اس کی اپنی زندگی کے کینوس سے سب رنگ غائب ہو جاتے ہیں