قسط نمبر 12

807 71 28
                                    

آفس میں پھر وہی بات ہونے لگی ۔وہ گم صم کھڑی تھی
مس روزینہ آپ نے کہا تھا آپ میری فیور کریں گی۔ پلیز آپ ان سے کہیں کہ وہ مجسمہ آپ مجھے سیل کرنا چاہتی ہیں"
عدن شاہ اب اس سے ڈائریکٹ مخاطب تھا جبکہ شہریار کی نظر بھی اس پر ہی جمی تھی۔ جیسے وہ واقعی میں ہی اس کی فیور کرنے کا منتظر تھا
وہ دو قدم چلی اور اس کے برابر آکر کھڑی ہوئی
"آپ وہ مجسمہ اسے دے دیں پلیز "
وہ شہریار سے نظر ملائے بغیر بولی تھی
اسے بہت مان تھا کہ شہریار اس کی بات نہیں ٹالے گا ۔اس نے عدن کو قول دے دیا تھا۔اور اب وہ اس کو اس کا قول پورا کرنے میں مدد کرے گا اس کو رسوا نہیں ہونے دے گا

اور ایسا ہی ہوا تھا
شہریار نے اس کی نگاہوں میں جھانک کر دیکھا مگر وہ اپنی نظریں چرانے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ وہ شہریار سے سخت شرمندہ تھی
مگر شہریار نے اس کو کسی اور ہی مطلب میں لیا تھا
دکھ کی ایک لہر شہری کے وجود کو گھیرنے لگی
عدن نے اسے اسی ہزار میں خریدا تھا گیلری کے رولز کے مطابق تیس ہزار شہریار خان اور باقی پچاس ہزار آرٹسٹ کے تھے۔ یہ نئے خریدار کے لیے ایک پینلٹی ہی تھی
شہریار وہ تیس ہزار اٹھائے بغیر آفس سے باہر نکل گیا
وہ وہی مینجمنٹ آفس میں کھڑی اپنی پینٹنگز کا حساب کلئیر کرکے روزینہ جب باہر نکلی تو شہریار کو اپنا منتظر پایا
اس کا خیال تھا وہ اسے چھوڑ کر گھر چلا گیا ہوگا مگر وہ اپنے تمام تر تکلیف کے باوجود اس کے لیے وہیں کھڑا تھا
وہ ان سولڈ پینٹنگ گاڑی میں رکھوانے لگی جب عدن نے ان دونوں کو اپنے گھر چائے کی آفر دی
شہریار نے کوئی جواب نہیں دیا وہ روزینہ کی طرف دیکھنے لگا
" آپ نے تو کبھی اپنے گھر بلایا نہیں ،،چائے کے بہانے ہی سہی بھابھی سے بھی مل جائیے گا
"آئیے گا کسی دن۔آج بہت تھکاوٹ ہوگئی ہے اس لیے آج دعوت نہیں دے سکتے"
وہ عدن سے مخاطب تھی
" شہری میں گاڑی میں بیٹھی ہوں آپ آجائیے گا"
وہ یہ کہہ کر منظر سے غائب ہوگئی تو شہریار بھی عدن سے مصافحہ کرتا ہوا گاڑی میں آ کر بیٹھا
جبکہ پیچھے وہ حیران کھڑا رہ گیا ۔اس کو اس شخص کا نام پتا چل گیا تھا جس کے لیے روزینہ نے اسے ٹھکرایا تھا۔وہ شہری سے محبت کرتی تھی مگر شہری کو ابھی تک یہ بات محسوس نہیں ہو سکی تھی
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
وہ تقریبا شام کے پانچ بجے گیلری سے لوٹی تھی اور تھکن سے چور تھی آتے ہی وہ سو گئی
رات کو آٹھ بجے کے قریب اس کی آنکھ کھلی تو چائے کی شدید طلب ہو رہی تھی۔ ماما پاپا ابھی تک گھر نہیں آئے تھے۔اور شہرین کی ان دنوں ہاسپٹل میں نائٹ ڈیوٹی تھی
روزینہ لاؤنج میں آئی تو شہریار کو جیوگرافی پر کچھ دیکھتا ہوا پایا
"آپ کے لئے چائے بناؤں"
اس نے جواب نہیں دیا وہ اپنے لئے چائے بنانے کچن میں آگئی۔ وہ بھی پیچھے ہی آن کھڑا ہوا ۔آج شام کو جو ہوا اس کے بعد وہ اس کی چیختی چلاتی ہوئی آواز سننے کی منتظر تھی لیکن وہ خاموش تھا
اور اس کو اس کی خاموشی سے وحشت ہو رہی تھی
" آپ چیئر پر بیٹھیے میں بنا کر آتی ہوں"
آئی تھنک چئیر کی ضرورت تمہیں ہے۔۔ میں چائے بناتا ہوں ،،تم بیٹھو یہاں
وہ ڈائننگ کی چئیر گھسیٹتا اسے زبردستی بٹھا کر چائے بنانے لگا
خفگی اپنی جگہ مگر اس کی تکلیف کسی صورت قابل برداشت نہیں تھی
"آپ کو چائے بنانی آتی ہے؟؟
ارادتا وہ ہلکی پھلکی گفتگو کرنے لگی
" پہلے نہیں آتی تھی مگر ہوسٹل میں کافی کچھ سیکھ گیا ہوں ۔یہ دیکھو اس نے اپنے بازو اس کے آگے کی جس پر جلنے کا کافی بڑا نشان تھا۔ اور ابھی زخم تھوڑا کچا تھا یقینا اس نے اس کی زیادہ پروا نہیں کی
روزینہ کا دل چاہا وہ اس کی کلائیاں تھام لے اور ان پر اپنے لب رکھ دے یا ان کو اپنے آنکھوں سے لگا لے لیکن وہ یہ نہیں کر سکتی تھی
" اور کیا کیا سیکھا؟؟
"ہاسٹل آپ کو ان اپنوں کے بغیر رہنا بھی سکھا دیتا ہے جن سے آپ اپنی ذات سے زیادہ محبت کرتے ہو"
وہ بہت سادہ لہجے میں بول رہا تھا
روزینہ اس کی آنکھیں دیکھنا چاہتی تھی مگر وہاں کوئی تاثر نہیں تھا
"آپ مجھ سے ناراض ہیں ؟؟"
"کیا مجھے ایسا کرنا چاہیے ؟؟"
"شاید"
وہ جواب دے کر چپ ہو گئی مگر وہ کچھ نہ بولا
"میں آپ کو وہ سکلپچر بنا دوں گی کچھ دنوں تک بلکہ اس سے بھی بہتر "
شہریار اب بھی خاموش رہا اور اسے یہ خاموشی بے حد تکلیف دے رہی تھی
"شہری کچھ بولتے کیوں نہیں آپ؟؟"
وہ کچھ لمحوں کے توقف سے بولا
"میرے لیے تم ایک کوبرا کا سکلپچر بنانا اور اس کی آنکھیں ،،
آنکھیں؟؟
"اس کی آنکھوں میں وہ جیت کا نشہ ہو جو کسی کی ہار پر ہوتا ہے ۔جیسے کوئی انسان کسی کی محبت پر مغرور ہوتا ہے تو اس کی آنکھوں کی چمک اس کی تباہی پر کتنی بڑھ جاتی ہے"
وہ سر جھکائے اس کی بات سنتی رہی
"ہو سکے تو مجھے وہ آنکھیں بنا دو "
وہ عجیب سے لہجے میں بول رہا تھا ۔اس کی آواز میں ایک کاٹ تھی جو روزینہ کے وجود کو کئ حصوں میں کاٹ گئی
وہ اس کے آگے چائے کا کپ رکھ کر کچن سے نکل گیا
روزینہ کی آنکھوں میں نمی ابھری

رنگ ریزہ(مکمل)Onde histórias criam vida. Descubra agora