"اری او مہرانی! ناشتہ لگا بھی دو یہاں بھوک سے میرا برا حال ہے اور اس کے نخرے ختم نہیں ہو رہے" ناشثے کی میز پر بیٹھے ہوئےہاجرہ بیگم نے اسے آواز دی جو پکار کم طنز زیادہ تھا......
"جی تائی جی بس ہو گیا آ رہی ہوں" ناشتہ ٹرے میں رکھتے ہوئے اس نے بتایا......
حجاب کرنے کے بعد آئینے میں اپنا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے باہر چل دی جہاں اس نے بھی ناشتے کے برتن بھی سمیٹے تھے......
ناشتے کے سارے برتن سنک میں رکھ کر اپنے لئے ایک بیڈ پر جام لگاتے ہوئے گھر سے نکل پڑی.....
ماضی......
ہاجرہ بیگم اپنی بہن کی شادی حسن صاحب یعنی اپنے دیور سے کرانا چاہتی تھیں مگر حسن صاحب نے اپنی پسند سے امنہ سے نکاح کر لیا جس کی وجہ سے ہاجرہ بیگم ان سے حسد کرنے لگیں البتہ ظہیر صاحب اپنے بھائی کی خوشی میں خوش تھے کیوں کہ انھیں اپنے بھائی سے بے حد محبت تھی.......
دو سال بعد حسن صاحب اور آمنہ بیگم کی گود میں ایک چھوٹی سی پری ہے جس کا نام انہوں نے حیا رکھا البتہ خدا کی تقسیم کچھ ایسی تھی کہ ظہیر صاحب اور ہاجرہ بیگم اولاد کی نعمت سے محروم تھے......
ظہیر صاحب کو حیا سے بے حد محبت تھی کیونکہ وہ اسے اپنی اولاد کی طرح مانتے تھے
مگر ہاجرہ بیگم کے دل میں موجود حسد حیا کی پیدائش کے بعد نفرت میں بدل گیا..... انہیں ظہیر صاحب کا حیا سے محبت کرنا اپنے منہ پر اولاد نہ ہونے کے طمانچے کی طرح لگتا تھا.....
حیا اس وقت صرف چھ برس کی تھی جب ایک حادثے میں حسن صاحب اور آمنہ بیگم وفات پا گئے اس واقعہ کے بعد ظہیر صاحب اپنے بھائی کی نشانی کو اپنے پاس لے آئے اور آولاد کی طرح پالنے لگے.....
حیا شروع کے دنوں میں اپنے ماں باپ کو یاد کر کے روتی تھی مگر پھر تایا کی محبت اور وقت نے اس کے زخم پر بھی مرہم رکھ دیا.....
ظہیر صاحب اس کے بولنے سے پہلے اس کی ہر خواہش اور ضرورت پوری کر دیتے تھے مگر ہاجرہ بیگم ظہیر صاحب کی غیر موجودگی میں اسے یتیم اور اپنے اوپر بوجھ ہونے کا احساس دلاتی رہتی تھی جس کی وجہ سے حیا کو اپنے نے اپنے آپ کو کمرے تک مقیم کر لیا تھا......
اب یہ اس کے روز کا معمول تھا کہ نماز کے بعد تائی کیلئے پرتکلف ناشتہ بنانا پھر یونی جانے کے لیے دوسری بس کا انتظار کرنا کیونکہ پہلی بس عموما تائی کے پرتکلف ناشتے کے چکر میں چھوٹ جاتی تھی اسے واپس آکر گھر کے سارے کام نپٹانے ہوتے تھے اسے اپنی پڑھائی کے لئے بھی بہت مشکل سے وقت ملتا تھا اس کے باوجود 24 گھنٹوں میں اسے 48 بار نالائق اور نکمی ہونے کا طعنہ دیا جاتا تھا جو وہ صبر سے سہہ لیتی تھی کیوں کہ اس کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا-----------------------------------------------------------
تو یہ میرے تھی میرے ناول "عشق اور جنون" کی دوسری قسط......
امید کرتی ہوں آپ سب کو پسند آئی ہو گی......
فیڈ بیک ضرور دیجئے گا.....
آپ کی دعاؤں کی طلب گار "مریم اکبر"....
شکریہ....جاری ہے.....!!!!!
YOU ARE READING
جنونِ عشق
Romanceیہ کہانی ہے, ایک ایسے عشق کی جو ادھورا رہ کر بھی پورا ہوا.... ایک ایسے جنون کی جس میں ظلم کی ہر حد پار کی گئی..... ایک ایسے سفاک انسان کی جسے عشق اس کے گھٹنوں پر لے آیا......