قسط نمبر....15

187 14 37
                                    

"وہ دیکھو کون آ رہا ہے وہ ....." زینب نے حیا کو کہنی مارتے ہوۓ چھیڑا....
"کون ....؟" حیا نے سوالیہ نظروں سے اس جانب دیکھا.....
المیر کو آتے دیکھ کر وہ بےساختہ مسکرا دی .....
اس کی وہ مسکراہٹ المیر اور منہاج سے چھپی نہ رہ سکی.....
"تمھیں دیکھ کر نہیں مسکرائیں.....اپنے معصوم دیور کو دیکھ اپنی قسمت پر ان کو رشک ہوا.....یہ وجہ ہے ان کے مسکرانے کی....." منہاج نے اتراتے ہوۓ کہا.....
"لیکن مجھے ادھر کوئی معصوم انسان نظر نہیں آ رہا....." المیر نے اردگرد نظر دوڑاتے ہوۓ اسے کہا.....
"تو اس کا مطلب ہے کہ تم اندھے ہو گئے ہو..... "جھٹ سے جواب آیا......
"اسلام و علیکم..... آج کلاس میں آنے کا ارادہ نہیں ہے آپ کا..... "وہ بظاہر مخاطب زینب سے تھا مگر اس کی نظروں کا مرکز حیا تھی......
اس کے مسلسل دیکھنے پر حیا بری طرح پزل ہو رہی تھی.....
آج پہلی بار المیر اسے اتنا قریب سے دیکھ رہا تھا....
المیر اس کی بڑی بڑی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا....اس کی اٹھتی گرتی پلکوں کا منظر کافی دلفریب تھا المیر کے لیے.....اس کے قدرتی گلابی ہونٹ اور گالوں پر موجود ہلکی سی لالی..... اس پر اس کی چھوٹی سی ناک میں چمکتی وہ لونگ اس کے حسن کو چار چاند لگا رہی تھی...... میک اپ کے بغیر ہی وہ قیامت ڈھا رہی تھی......
یقیناً خدا نے اسے کافی فرصت میں تخلیق کیا ہو گا........
حیا نے نظریں اٹھائیں....کچھ لمحے دونوں کی نظریں ٹکرائیں مگر احساس ہونے پر وہ واپس نظریں جھکا گئی......
"وعلیکم السلام...... ہم بس جا ہی رہے تھے کلاس میں...... میرا تو بڑا موڈ ہے کلاس بنک کرنے کا مگر یہ حیا میڈیم کرنے دیں تب نہ...... "زینب نے جان بوجھ کر حیا کا ذکر چھیڑا جس پر حیا نے اسے ایک سخت گھوری سے نوازہ جسے زینب سکون سے نظرانداز کر گئی........
"لگتا ہے آپ پڑھائی کے معاملے میں کافی سخت ہیں..... " ان کی بار وہ براہ راست حیا سے مخاطب تھا.......
"نہیں وہ بس اب فائنل ہونے والے ہیں تو اس باعث..... " اس نے جھجھکتے ہوۓ جواب دیا......
المیر نے مسکراہٹ کے ساتھ اس کا جواب موصول کیا اور ساتھ ہی ان دونوں کو جانے کا راستہ بھی دیا......
"واہ بھائی میرے ساتھ تو تم نے کبھی اتنے پیار سے بات نہیں کی..... " منہاج نے لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑائی کی تیاری شروع کرتے ہوئے کہا......
"نہیں میں نے تم پر کون سے ظلم کے پہاڑ توڑ دیے جو یہ بکواس کر رہے ہو......؟" المیر نے اس کی بازو مروڑ دیتے ہوئے پوچھا.......
"دیکھو دیکھو ابھی بھی میری بازو توڑنے کی کوشش کر رہے ہو..... اور گھر میں بھی مجھ پہ غصہ کرتے ہو اور ڈانٹتے بھی ہو......" انتہائی معصومیت سے شکوہ کیا گیا......
"تو انسان غصہ بھی تو اسی سے ہوتا ہے جس سے پیار کرتا ہوتا ہے..... اور پھر سوری بھی تو بول دیتا ہوتا ہوں......" المیر نے ہاتھ سے اس کے بال بگاڑتے ہوئے نرم لہجے میں کہا.......
"ہاں یہ بڑا اچھا کام کرتے ہو تم بندا مار کے سوری..... تمہارے سوری بولنے سے بھلا اگلے کی روح کو سکون آ جانا ہے کیا..... اور یہ تم نے کس خوشی میں میرے بال خراب کئے ہیں..... آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا....." منہاج نے تڑخ کر جواب دیا......
"اچھا کوئی نہیں اب چلو کلاس میں......" المیر نے اسے بازو سے کھنچتے ہوئے کہا.....
"کیا کر رہے ہو.....؟" منہاج نے المیر کے کمرے میں داخل ہوتے ہی سوال کیا......
"ڈانس کر رہا ہوں..... اندھے ہو نظر نہیں آتا بیٹھا ہوں......" المیر جو کسی سوچ میں گم تھا اس کے آنے پر ڈسٹرب ہوتے ہوئے جل کر کہا.......
"ہاں لگے رہو...... شاباش میں بھی تو ذرا تمہارا ڈانس دیکھ لوں......" منہاج نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا اور ساتھ ہی اس کے بیڈ پر دراز ہو گیا........
"اگر تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک زندہ نہ ہوتا..... تمہیں اپنے کمرے میں سکون نہیں ملتا جو آدھی رات کو یہاں آ ٹپکتے ہو......" آلمیر نے اُس سے کہا......
"یار کیا یاد کرا دیا...... میں بھی سوچ رہا ہوں کہ اب شادی کر ہی لوں...... پھر آدھی رات کو تمہارے کمرے میں نہیں آؤں گا......." منہاج نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا......
"بہت نیک خیالات ہیں تمہارے....... مگر یہ تو بتاؤ کہ کس بچاری کی قسمت کو پھوٹنے والی ہے......" المیر نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا......
"اب ایسی بھی بات نہیں ہے ......تم نے ہلکا لے رکھا ہے اپنے بھائی کو....... لڑکیاں مرتی ہیں مجھ پر......." منہاج نے فرضی کالر جھاڑتے ہوئے کہا......
"ہاں اس بات کا تو اچھے سے اندازہ ہے مجھے......."المیر نے اس کا مذاق اڑانے والے انداز میں کہا.......
"دفع مرو تم......ذرا برابر قدر نہیں ہے تمہیں میری...... جب مر جاؤں گا تو یاد کرو گے....." منہاج نے منہ بناتے ہوئے کہا.......
"میرا نہیں خیال کہ ہر جگہ بکواس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے......آئندہ میرے سامنے سوچ سمجھ کر بات کی کرو......" اس کی آخری بات پر المیر جی جان سے کانپ کر رہ گیا تھا......
"ہاں یہ صحیح ہے....... ایک تو میں ناراض ہوں اور مجھے منانے کے بجائے تم خود روٹھی ہوئی محبوبہ کی طرح پھیل کر بیٹھ جاؤ....... منہاج نے اسے غصے میں آتے دیکھ کر ماحول کو نارمل کرنے کی کوشش کی......
"اچھا خیر چھوڑو میں نے کچھ ضروری بات کرنی ہے......" بولو منہاج نے اس کی طرف رخ موڑتے ہوئے کہا......
"کس بارے میں......؟" منہاج نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا
"حد کرتے ہو تم بھی...... میں کہہ رہا ہوں کہ میں اس کے لئے جو جذبات رکھتا ہوں ان سے آگاہ کروں اسے...... تمہارا کیا خیال ہے......؟" المیر نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
"پر المیر......" منہاج کی آنکھوں میں ایک خوف تھا جو المیر بخوبی سمجھ گیا تھا.......
"تم فکر نہ کرو...... میں نے سب سوچ لیا ہے......" المیر نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا......
"کیا مطلب.....؟؟؟ تم کیا کرنے والے ہو.....؟؟؟" منہاج نے کچھ الجھ کر اس سے سوال کیا.......
"ہم اپنی اس موجودہ زندگی سے دور چلے جائیں گے......" المیر نے باظاہر سکون سے جواب دیا..... مگر اس کے اندر بھی ایک طوفان برپا تھا...... وہ جانتا تھا کہ وہ وہ جو کہہ رہا ہے وہ اتنا آسان نہیں ہے.....
"المیر تم جانتے بھی ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو.....؟؟؟" منہاج نے حیرت زدہ ہوتے ہوئے کہا......
"جانتا ہوں میں......" علمیر نے جواب دیا.....
"المیر تو تم سمجھ کیوں نہیں رہے..... ایسا کہنا بہت آسان ہے مگر تم خود جانتے ہو کہ یہ ہمیں کس آزمائش میں ڈال سکتا ہے....." منہاج نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا.....
"آزمائش بلکل..... مگر ہر آزمائش کے بعد سکون ضرور ملتا ہے..... بس ایک وجہ کا محتاج ہوتا ہے اور وجہ کے ملتے ہیں درندہ صفت انسان بھی راہ راست پر آ جاتا ہے ....اور یے یہ وجہ اللہ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا.... اس نے ہم پر رحم کیا اور ہمیں وجہ دے دی..... ہر انسان کو اس کے صبر کا پھل ضرور ملتا ہے بس وہ خود کو آزمائشوں کے راستے پر چلنے کے قابل بنا لے...... ہر سکون سے پہلے آزمائش کا سفر ضروری ہے..... مانا کہ ہم بہت گنہگار ہیں مگر وہ بھی تو رحیم اور کریم ہے..... مانا کہ ہم اپنا راستہ بھول گئے تھے مگر اب احساس ہو گیا ہے تو اب واپس اسی کے پاس لوٹ چلتے ہیں...... وہ تو ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے اپنے بندوں سے .....اب اگر ہم ندامت کا سجدہ کریں گے تو مجھے پورا یقین ہے کہ وہ معاف کر دے گا ہمیں....." المیر نے نم آنکھوں سے کہا.....
"کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک ہمیں معاف کر دے....." منہاج نے کھوئے کھوئے لہجے میں اس سے سوال کیا.....
"ہاں کیوں نہیں ہو سکتا .....ہم سچے دل سے معافی مانگیں گے تو وہ ضرور ہمیں معاف کر دے گا....."
"پر المیر ایک بات ہے.... اگر ہم چھوڑ بھی دیں تو ہمارا ماضی ہمارا پیچھا کبھی نہیں چھوڑے گا......" منہاج نے اس سے بولا......
"ہاں مگر ہمیں صرف اللہ پر بھروسہ رکھنا ہے...... وہ تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے تو ہم کیوں دنیا میں سہاروں کی تلاش میں مارے مارے پھریں......"
"تو میں آج اسے بول دوں نا..... "پچھلے آدھے گھنٹے میں المیر یہ سوال کوئی دس بار پوچھ چکا تھا.....
"ہاں میرے بھائی بول دے....."منہاج بھی اب زچ ہو چکا تھا......
"پر میں بولوں گا کیا....."المیر کے سوال پر منہاج کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے......
"ہر بات میں بتاؤں....."منہاج کو اسے دیکھ کر ہنسی آ رہی تھی کہ وہ المیر شاہ جس کے خوف سے ایک دنیا کانپتی تھی ایک لڑکی نے اس کی حالت خراب کر دی تھی......
"وہ دیکھ آ رہی ہیں بھابی.....خدا کا واسطہ ہے ان کے سامنے انسان بن کے بات کرنا...... " حیا کو آتے دیکھ منہاج نے اسے جھڑکا......
وہ سلام کرتی وہاں سے گزر گئی جبکہ المیر بس سوچتا رہ گیا کہ بات کیسے شروع کرے.....
"حیا میں نے کچھ بات کرنی ہے آپ سے....."کلاس سے فارغ ہونے کے بعد المیر نے اسے پکارا.....
"جی..... "حیا کو حیرت ہوئی اور کچھ نروس بھی ہو رہی تھی اور اس جو ہمت دینے کو آج تو زینب بھی نہیں تھی.....
"دیکھیں میں کوئی گھما پھرا کر بات نہیں کروں گا آپ سے..... ایک سیدھی سی بات کہنی تھی آپ سے کہ جب میں نے پہلی بار آپ کو دیکھا تھا تو آپ کافی پسند آئیں تھیں مجھے........مگر اس بار کا احساس مجھے خود بھی نہ ہو سکا کہ یہ پسندگی کے جذبات کب محبت میں تبدیل ہوگیۓ........"ایک ہی سانس میں وہ سب کہہ گیا.....
حیا تو گویا چکرا کر رہ گئی تھی...... اسے ایک حد تک المیر کے جذبات کا علم تھا مگر اس نے کبھی سوچا تھا کہ وہ اس انداز سے بیان کرے گا.......
"جی شکریہ..... "حیا کے منہ میں جو الفاظ آۓ اس نے ادا کر دیۓ.........
"کیا شکریہ..... " المیر کا دماغ اس کے جواب پر چکرا کر رہ گیا.......
-------------------------------------------------------
جاری ہے......!!!!

جنونِ عشقDove le storie prendono vita. Scoprilo ora