episode 8

170 14 7
                                    

(Unedited)

آمنہ اور آسیہ بیگم نیچے باتیں کر رہے تھے جبکہ زارہ (آمنہ کی بہن) بیٹھی موبائل استعمال کر رہی تھی۔ آسیہ بیگم باتیں کرتے کرتے ایک دم چپ ہوگئی جیسے انھیں کچھ یاد آیا ہو۔
"زینب کہاں ہے؟ اس کی ماں آ کر لے گئی اسے۔" آسیہ بیگم نے آمنہ سے پوچھا۔ زارہ نے بھی اس بات پر چہرہ اٹھا کر آسیہ بیگم اور آمنہ کی طرف دیکھا۔
"وہ تھوڑی دیر پہلے ہی یونیورسٹی سے آئی تھی اپنے کمرے میں آرام کر رہی ہے۔" آمنہ بس چھوٹا سا جواب دے کر خاموش ہوگئی۔ وہ ان سے اور بحث نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"ماما!" آمنہ نے کچھ سیکنڈ بعد حیرت سے آسیہ بیگم کو مخاتب کیا۔
"ماما کیا آپ نے صفیہ مامی کو ہمارے واپس آنے کا بتایا تھا۔" آمنہ کو اب سمجھ آگئی تھی کہ صفیہ بیگم کو کیسے پتا چلا زینب کے واپس آنے کا۔
"زینب بس آرام ہی کرتی رہتی ہے یا تمہارے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بھی بٹاتی ہے؟" آسیہ بیگم نے آمنہ کے سوال کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئی سوال کیا۔
"میں بھی کہوں صفیہ مامی کو کہاں سے پتا چلا ہمارے واپس آنے کا۔ ضرور آپ نے ہی بتایا ہوگا۔ ماما اب تو اتنے سال گزر گئے ہیں اب تو بس کر دیں آپ۔ کیوں اتنی نفرت کرتی ہیں آپ اس سے۔ ہماری کوئی بھی اولاد نہیں ہے۔ ہم نے زینب کو ہی اپنی اولاد سمجھا ہے۔ آپ کو وہ کیوں نہیں برداشت ہوتی۔"آمنہ کو اس دن سے زینب کے دور جانے کا غم تھا جو وہ اب غصہ کر کے نکال رہی تھی۔
آمنہ کو لگا تھا اتنے سال گزر گئے ہیں اب تو آسیہ بیگم اسے قبول کر لے گی لیکن انہوں نے ابھی تک اسے قبول نہیں کیا تھا۔
"دیکھا تم نے اس کی منحوسیت کی وجہ سے تمہاری اب تک کوئی اولاد نہیں ہوئی۔" آسیہ بیگم نے آمنہ کی بات میں سے اپنے مطلب کی بات نکال کر ایک دفعہ پھر زینب کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا۔
"پلیز ماما! یہ آپ کو بھی پتا ہے کہ رخصتی سے پہلے جو میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اس وجہ سے یہ مسلہ ہوا تھا اور آپ اس کا الازم بھی زینب پر لگا رہی ہے۔ آپ کو تو شکر ادا کرنا چاہئے کہ احمد نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس نکاح کو ختم نہیں کیا تھا۔ آپ کی بیٹی کو قبول کیا تھا اور آپ پھر بھی۔" آمنہ کو آسیہ بیگم کی باتیں سن کر دکھ ہو رہا تھا۔
"میں تو اللہ‎ کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے زینب کی صورت میں مجھے اولاد دے دی ورنہ ہم ساری زندگی بے اولاد ہی رہتے۔ بیشک وہ ہماری سگی اولاد نہیں لیکن وہ ہمہیں اپنے ماں باپ ہی مانتی ہے۔ جہاں آپ نے اتنے سال صبر کیا تھا وہاں کچھ دیر اور کر لیتی۔ تین چار سال تک اس کی پڑھائی پوری ہوجاتی تو ہم نے اس کی شادی کر دینی تھی اور اس نے چلے جانا تھا لیکن آپ نے صفیہ مامی کو بتا دیا اب وہ زینب کو ہم سے لے کر جا رہی ہیں۔" بات کرتے کرتے ایک آنسو آمنہ کی آنکھ سے نکل کر گال پر گرا۔
"تم اس لڑکی کی وجہ سے اپنی ماں سے لڑ رہی ہو۔" آسیہ بیگم نے غصے سے کہا۔
"میں اس لڑکی کی وجہ سے نہیں اپنی بیٹی کی وجہ سے لڑ رہی ہوں آپ سے۔" آمنہ نے اپنے گال سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔
"تم نے پہلے بھی صرف اس لڑکی کی وجہ سے تین چار سال مجھ سے بات نہیں کی تھی اور اب بھی تم اس کی وجہ سے لڑائی کر رہی ہو۔"آسیہ بیگم نے اسے پیچھلی بات یاد کروائی جب آسیہ بیگم نے آمنہ سے کہا تھا کہ وہ زینب کو اس کی ماں کے پاس چھوڑ آئے یا آمنہ ان سے بات کرنا چھوڑ دے۔
"چھوڑے پیچھلی باتوں کو چلے چل کا کھانا کھاتے ہیں۔ میں بس زینب کو بلا لاؤ۔" آمنہ نے اس بات کو یہیں پر ختم کرنے کی کوشش کی۔ وہ نہیں چاہتی تھی زینب یہ سب باتیں سنے اور اسے دکھ ہو۔
"آپی آپ ماما کے ساتھ جا کر کھانا وغیرہ لگائے میں زینب کو بلا لاتی ہوں۔" زارہ تب سے اب پہلی دفعہ بولی تھی۔
"چلو ٹھیک ہے۔ اوپر جاؤ گی تو پہلا کمرہ چھوڑ کر دوسرا کمرہ زینب کا ہے۔" آمنہ نے آسیہ بیگم کے ساتھ کچن میں جاتے ہوئے کہا
____________________________________________________________________
زارہ نے زینب کے کمرے کی دروازے کی باہر کھڑے ہو کر دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازے پر سیڑھیاں بنی تھی۔ اگر وہاں پر دروازے کا ہینڈل نا ہوتا تو زارہ کو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ ایک دروازہ ہے۔ دروازے پر پینٹنگ اتنی اچھی ہوئی تھی کہ دیکھ کر یہی لگتا تھا کہ وہاں سے سیڑھیاں اوپر کی طرف جا رہی ہیں۔ زارہ نے آنکھیں گھومائی اور دروازہ کھولا۔ زارہ نے دروازے میں کھڑے ہو کر پورے کمرے کا جائزہ لیا۔ سامنے بیڈ پڑا تھا اور اس کے ساتھ سائیڈ ٹیبل جہاں پر لیمپ اور دو تین کتابیں پڑی تھی۔ بیڈ کے پیچھے بڑی سی تصویر لگی تھی جس میں ایک لڑکی اور ساتھ لڑکا کھڑا ہوا تھا۔ تصویر میں لڑکی نے لائٹ پنک کلر کی پاؤں کو چھوتی فراک پہنا تھی۔ کمر سے نیچے آتے ریشمی بھوری رنگ کے بال اور سر پر تاج پہنے وہ واقعی کوئی شہزادی لگ رہی تھی۔ زارہ کو وہ زینب کی تصویر لگی تھی کیونکہ وہ کمرہ زینب کا تھا۔ تصویر میں زینب کے ساتھ تقریبن ستایس سال کا نوجوان لڑکا کھڑا تھا۔ ہلکی بھوری رنگ کی آنکھیں اور بھوری رنگ کے بال جو سر پر بکھرے ہوئے تھے پھر بھی بہت اچھے لگ رہے تھے، ہلکی ہلکی سی داڑھی، گلابی بھرے بھرے ہونٹ، تھری پیس سوٹ پہنے بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ زارہ دیکھتے ہی پہچان گئی تھی تصویر میں زینب کے ساتھ کھڑا نوجوان لڑکا زارون ہے۔ کیونکہ وہ فیس بک پہ پہلے ہی زارون کی تصویر دیکھ چکی تھی البتہ اس سے ملے ہوئے کافی عرصہ ہی ہوگیا تھا۔
زارہ نے تصویر سے نظریں ہٹا کر باقی کمرے کا جائزہ لیا۔ کمرے کی دیواریں پیچ کلر کی تھی۔ دائیں طرف سنگل صوفہ پڑا تھا اور ساتھ ایک چھوٹی سی ٹیبل۔ صوفے کے پیچھے بھی کافی تصویریں تھی۔ کچھ تصویریں زینب کی آمنہ اور احمد کے ساتھ تھی جبکہ زیادہ تر تصویریں زارون کے ساتھ ہی تھی۔ دائیں طرف ایک دروازہ بھی تھا جو تھوڑا سا کھولا ہوا تھا اور اندر سے تھوڑا سا واشروم نظر آرہا تھا۔ زارہ نے دائیں طرف سے نظریں ہٹا کر بائیں طرف دیکھا۔ بائیں طرف کی دیوار بلکل خالی تھی۔ وہاں پر کچھ بھی نہیں لگا تھا۔
زارہ نے سارا کمرہ دیکھا لیا لیکن اس کہیں بھی زینب نظر نہیں آئی۔ زارہ نے باہر نکل کر دروازہ بند کیا اور نیچے کچن کی طرف چلی گئی جہاں پر آمنہ اور آسیہ بیگم تھی۔
"آپی مجھے زینب کمرے میں کہیں پر بھی نظر نہیں آئی۔" زارہ نے آمنہ کے پاس آ کر کہا۔
"نہیں وہ اپنے کمرے میں ہی ہوگی میں دیکھتی ہوں۔" آمنہ نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔
آمنہ کو پتا چل گیا تھا زینب کہا ہے۔ آمنہ نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ اس نے آسیہ بیگم کی باتیں نہیں سنی کیوں آمنہ کو پتا تھا وہ جہاں پر ہے اس کمرے کی دیواریں ساؤنڈ پروف ہے۔
آمنہ کچن سے نکل کر سیڑھیاں کی طرف گئی۔زارہ بھی آمنہ کے پیچھے پیچھے چلی گئی۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ زینب ہے کہا کیونکہ اس نے سارا کمرہ دیکھا تھا لیکن اسے زینب کہیں نہیں ملی اور آمنہ کہا رہی تھی کہ وہ اپنے کمرے میں ہی ہے۔
آمنہ نے زینب کے کمرے کا دروازہ کھولا اور بائیں طرف والی دیوار کی طرف چلی گئی۔
آمنہ نے اس دیوار کے سامنے کھڑے ہو کر اسے دائیں طرف کیا تو وہ دیوار کسی سلائڈنگ دور کی طرح دائیں طرف ہوگئی۔ زارہ جو آمنہ کے پیچھے کھڑی تھی اس کا یہ سب کچھ دیکھ کر حیرت سے منہ کھل گیا۔ سامنے نیچے زمین پر میٹرس پڑا تھا جس پر زینب لیتی فون پکڑے شاید کسی سے ویڈیو کال پر بات کر رہی تھی۔ آمنہ کے دروازے کھولنے سے کمرے میں موجود روشنی اس چھوٹے سے کمرے پر پڑی تو زینب نے فون سے نظریں اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں پر آمنہ کھڑی تھی۔ زینب نے آمنہ کے پیچھے دیکھا تو زارہ کو دیکھ کر فورن اٹھی اور آمنہ کی طرف گئی۔
"زارون سے بات کر رہی ہو۔ میں نے آپ کو کہاں تھا نا تھوڑی دیر تک نیچے آجانا لیکن آپ نہیں آئی۔" فون سے زارون کے بولنے کی آوازیں آ ررہی تھی جس وجہ سے آمنہ کو پتا چلا وہ زارون سے بات کر رہی ہے۔
"وہ اچھی ماما بس آرہی تھی تو بابا کا فون آگیا اس لئے بس۔" زینب نے ہلکی سے آواز میں کہا اور پیچھے آمنہ کی طرف کھڑی زارہ کو دیکھا جو ابھی بھی حیرت سے زینب کے پیچھے چھوٹے سے کمرے کو دیکھ رہی تھی۔
آمنہ نے زینب سے فون پکڑا۔
"السلام عليكم بھابی۔ کیا حال ہے آپ کا؟" زارون نے جب ویڈیو میں آمنہ کو دیکھا تو سلام کیا۔
"وعلیکم السلام! الحمداللہ میں ٹھیک ہوں۔ آپ سناؤ؟" آمنہ نے زینب کے کمرے میں موجود الماری کی طرف جاتے ہوئے زارون سے کہا۔
"الحمداللہ میں بھی بلکل ٹھیک ہوں۔" زارون نے کہا
"سب کھانا کھانے لگے ہیں تو آپ بعد میں کال کر لینا۔ اور ماما نہیں آئی ہیں تو زینب ان سے مل لے۔" آمنہ نے الماری سے ایک سوٹ نکالا اورزینب کی طرف گئی۔
"اوکے! بھابی اللہ‎ حافظ۔" زارون نے کہا اور کال بند کر دی۔
آمنہ نے فون جا کر زینب کو پکڑایا۔ آمنہ نے زینب کی طرف دیکھا جو سوالیہ نظروں سے زارہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"یہ زارہ ہے۔" آمنہ نے زینب سے کہا
"السلام عليكم!" زینب نے اپنا ہاتھ آگے بھراتے ہوئے کہا۔
"او! وعلیکم السلام" زارہ نے کچھ حیرت سے جواب دیا۔
"کیسی ہیں آپ۔" زینب نے زارہ سے پوچھا
"ٹھیک" زارہ نے ایک لفظی جواب دیا۔
"زینب یہ کپڑے پکڑو اور جلدی سے چینج کر کے آؤ۔ پھر کھانا کھاتے ہیں۔" آمنہ نے زینب کو کپڑے پکڑاتے ہوئے کہا۔ زارہ کمرے سے باہر جا چکی تھی۔
"اچھی ماما! ان کپڑوں کو کیا ہے؟" زینب نے اپنے پہنے ہوئے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
آمنہ نے اس کے کپڑوں کی طرف دیکھا۔ تین چار سال پرانی بلیک ٹی- شرٹ جس کا رنگ بھی اب سفید ہونے لگ گیا تھا ساتھ ریڈ کلر کا ٹروثر پہنے اور گلے میں وائٹ دوپٹہ لئے کھڑی تھی۔
"جی یہ تین چار سال پرانی شرٹ اور اس کے ساتھ کسی اور سوٹ کا ٹروثر اور ساتھ کسی اور کا دوپٹہ بہت پیارا لگ رہا ہے۔" آمنہ نے طنز کرتے ہوئی کہا۔
"میری جان مجھے پتا ہے آپ ان کپڑوں میں زیادہ کمفرٹیبل رہتی ہو لیکن فلحال ماما سے ملنے سے پہلے اپنا حلیہ ٹھیک کر لو۔ اوکے!" آمنہ نے زینب کے گالوں کو نرمی سے چھوا اور ہاتھ میں پکڑے کپڑوں کو بیڈ پہ رکھ کر باہر چلی گئی۔
"اف اچھی ماما تو اس طرح کر رہی ہیں جیسے پھپھو میرا رشتہ لے کر آئی ہو۔" زینب نے بیڈ پر پڑے کپڑوں کو دیکھتے ہوئے کہا
"استغفرالله! پھپھو اور ساس توبہ توبہ۔" زینب نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔
"چلو اب اچھی ماما کو خوش کرنے کے لئے اتنا تو کرنا پرے گا۔" زینب نے بیڈ سے کپڑے اٹھائے اور چینج کرنے چلی گئی۔
____________________________________________________________________
"السلام عليكم!" زینب نے آسیہ بیگم کے سامنے سر نیچے کرتے ہوئے کہا۔
"وعلیکم السلام!" آسیہ بیگم نے بغیر اس کے سر پر پیار دیتے ہوئے کہا۔
زینب نے سر نیچے رکھے ہی سامنے آمنہ کی طرف دیکھا۔ زینب نے آسیہ بیگم کی اس حرکت پر مسکراہٹ دبائی اور آمنہ کی طرف دیکھ کر ایک آنکھ دبائی۔ آمنہ نے فوراً اسے آنکھیں دیکھا کر اپنے سر سے اشارہ کر کے اپنی ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کا کہا۔
"کیا حال ہے پھپھو؟" زینب نے آمنہ کے ساتھ بیٹھتے ہوئی مسکراہٹ دبائے آسیہ بیگم سے پوچھا۔
"پہلے بہت بہتر حال تھا۔" آسیہ بیگم نے کچھ بےزاری سے کہا۔
"سیم پھپھو۔" زینب نے تھکی ہوئی آواز میں کہا۔
"ماما کھانا شروع کرے۔" آمنہ نے آسیہ بیگم کو کہا جو زینب کا جواب سن کر اس کی طرف غصے سے دیکھ رہی تھی۔
زینب نے آسیہ بیگم کے دیکھنے پر اپنا چہرہ نیچے رکھ کر مسکراہٹ روکنے کی کوشش کی۔
آسیہ بیگم نے آمنہ کی بات سن کر زینب کی طرف سے نظریں ہٹا کر کھانا کھانا شروع کیا۔
"کیا ڈال کر دوں۔" آمنہ نے کھانا شروع کرنے سے پہلے زینب سے پوچھا۔
"چھوٹی بچی ہے وہ جو خود نہیں ڈال سکتی۔ تم اپنا کھانا کھاؤ۔" آسیہ بیگم نے آمنہ کو غصے سے کہا۔
"ماما اسے شروع سے عادت ہے۔ ہم میں سے کوئی کھانا ڈال کر دے تو کھاتی ہے۔" آمنہ نے زینب کی پلیٹ میں بریانی ڈالتے ہوئے کہا۔
"یہ کیا بات ہوئی کوئی ڈال کر دے تو کھاتی ہے۔ اگلے گھر جائے گی تو تب کیا کرے گی۔ عادتیں بدلوں اس کی بچی نہیں رہی۔" آسیہ بیگم نے اپنا کھانا چھوڑ کر آمنہ کو سمجھانا شروع کر دیا۔
"پھپھو ٹنشن کیوں لے رہی ہے جب دوسرے گھر جا کر اپنے شوہر کے لئے کھانا بنایا کرو گی تو وہ مجھے کھانا ڈال کر تو دے ہی دیا کرے گا۔" زینب اب اپنی زبان کو اور نہیں روک سکتی تھی۔
"سہی کہا نا اچھی ماما۔" زینب نے آسیہ بیگم کے حیرت سے کھلے منہ کی طرف دیکھنے کے بعد آمنہ کی طرف دیکھ کر اپنی بات کی تصدیق کرنی چاہی۔
"اف کتنی بےشرم لڑکی ہے خود اپنے منہ سے کیسے اپنی شادی کی بات کر رہی ہے۔" آسیہ بیگم نے حیرت سے کہا۔
"ہیں۔۔۔۔۔!"
"اچھا آپ میری شادی کی بات کرے تو ٹھیک اگر وہی بات میں کروں تو بےشرم۔" زینب نے اپنی آنکھیں چھوٹی چھوٹی کرتے ہوئے کہا۔
"خدا کا واسطہ ہے کھانا تو خاموشی سے کھا لے۔ اور زینب بڑوں سے ایسے بات کرتے ہیں۔ سوری بولو۔" آمنہ نے آسیہ بیگم کو کہنے کے بعد زینب سے کہا۔
"لیکن اچھی ماما۔" زینب نے کچھ کہنا چاہا۔
"میں نے کہا ہے نا۔" آمنہ نے اسے دوبارہ سے کہا۔
"سوری!" زینب نے آسیہ بیگم کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ اور کھانا کھانا شروع کر دیا۔
آسیہ بیگم بھی خاموشی سے کھانا کھانے لگ گئی۔ آمنہ نے بھی سکون کا سانس لیا اور کھانا شروع کیا۔
"اچھی ماما پانی دینا۔" زینب نے آمنہ سے کہا کیونکہ گلاس دور پڑے تھے۔
زارہ نے زینب کی آواز سن کر چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
"تم آپی کو اچھی ماما کیوں کہتی ہوں۔ آپی تو تمہاری بھابی ہیں نا۔" زارہ نے حیران ہوتے ہوئے زینب سے پوچھا۔
"کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" آمنہ نے زینب کی جگہ کچھ کہنا چاہا۔ جب آسیہ بیگم نے درمیان میں ٹوکا۔
"او لڑکی! یہ تمہاری ماں نہیں ہے جو تم اسے ماما ماما کہتی پھر رہی ہو" آسیہ بیگم نے غصے سے کہا۔
زینب نے کرب سے اپنی آنکھیں بند کی۔ اس بات پہ وہ انھیں کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔
"ماما!" آمنہ نے آسیہ بیگم کو روکنا چاہا۔
"اور احمد بھی تمہارا باپ نہیں ہے کزن ہے یہ تمھارے بھائی بھابی کہا کروں ماما پاپا نہیں آئی سمجھ۔ بچی نہیں رہی جو اب سمجھ نہیں آئی گی بات۔" آسیہ بیگم نے پانی کا گلاس اٹھاتے ہوئے کہا۔
"امی بس کریں۔" آمنہ نے زینب کے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
زارہ کی آنکھوں میں یہ سب دیکھ کر زارون اور زینب کی ایک ساتھ تصویر آئی تھی۔ زارہ نے پانی کا گلاس لبوں پہ لگاتے ہوئے اپنی مسکراہٹ چھپائی تھی۔
زینب نے آمنہ کے ہاتھ کے نیچے سے اپنا ہاتھ نکلا اور کرسی پیچھے دھکیل کر سیڑھیوں کی طرف چلی گئی۔ آمنہ نے اداسی سے کرسی پر پڑے اپنے ہاتھ کو دیکھا جو ابھی کچھ دیر پہلے زینب کے ہاتھ کے اوپر تھا۔
زینب ابھی سیڑھیاں چھڑنے ہی لگی تھی جب اسے آسیہ بیگم کی آواز آئی۔
"کیا بس کروں؟ صیح تو کہہ رہی ہوں۔ اس کے کہنے سے تم لوگ اس کے ماں باپ تو نہیں بن جاؤ گے نا۔" زینب نے یہ سن کر اپنے ہاتھ سے مضبوطی سے سیڑھیوں کی ریلنگ کو پکڑا۔ اس نے اتنی زور سے پکڑا ہوا تھا جس وجہ سے اس کے ہاتھ سفید ہوگئے تھے۔آنسو روکنے کی کوشش کرنے کے باوجود بھی ایک آنسو اس کی گال پر گرا۔
"اب بچی تو نہیں نا رہی جو اسے سمجھ نہیں آئی گی اس لئے بہتر ہے تم اسے۔۔۔۔۔۔۔" آسیہ بیگم اور بھی کچھ کہہ رہی تھی لیکن زینب پہلے ہی بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔
____________________________________________________________________

کیسے بتاؤں تجھےWhere stories live. Discover now