episode 9

124 10 18
                                    

اک دکھ پہ ہزار آنسو
اُف! یہ آنکھوں کی فضول خرچیاں
(Copied)

زینب اپنے کمرے میں پیٹ کے بل لیتی ہوئی تھی اور منہ تکیہ کے اندر دیا ہوا تھا۔ کمرے میں اچانک موبائل کی آواز گونجی۔ زینب نے تکیہ سے سر اٹھا کر دیکھا تو موبائل سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا تھا زینب نے اسے نظر انداز کر کے دوبارہ منہ تکیہ میں دے کر لیٹ گئی۔ لیکن کال کرنے والا بھی ڈھیٹ تھا جو بار بار کال کر رہا تھا۔ زینب تنگ آ کر اٹھی اور سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھایا۔  زینب نے جب تک موبائل اٹھایا تب تک کال آنا بند ہو گئی تھی۔ وہ موبائل سائیڈ پر ہی رکھنے لگی تھی کہ ایک دفعہ پھر سے کال آنے لگ گئی۔ زینب نے موبائل اٹھا کر سکرین کی طرف دیکھا تو وہاں کوئی انجانا نمبر جگمگا رہا تھا۔
"السلام علیکم!" زینب نے جیسے ہی کال اٹھا کر موبائل کان سے لگایا تو دوسری طرف سے کچھ جانی پہچانی آواز سنائی دی۔
"وعلیکم السلام!" زینب نے کہا۔
"تم رو رہی تھی؟" دوسری طرف موجود شخص نے آواز سنتے ساتھ ہی پوچھا۔
"آپ کون؟" زینب کو آواز جانی پہچانی لگ رہی تھی لیکن وہ ابھی کچھ بھی نہیں سوچنا چاہتی تھی۔
"تم نے بتایا نہیں کہ تم رو رہی تھی۔" دوسری طرف موجود شخص نے زینب کے سوال کو مکمل نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔
"آپ نے بتایا نہیں آپ کون؟" زینب نے بھی اسی کے انداز میں پوچھا۔
"یہ جاننا ضروری نہیں ہے۔ ضروری یہ ہے کہ تم رو کیوں رہی تھی۔" اس شخص نے ایک دفعہ پھر زینب کے سوال کو نظر انداز کیا۔
"دوبارہ کال مت کرنا۔" زینب غصے سے کہہ کر کال بند کرنے لگی تھی جب دوسری طرف موجود شخص نے کہا۔
"ایک منٹ! تم مجھے بتا کیوں نہیں دیتی کہ تم کس بات پر اپنے قیمتی آنسو ضائع کر رہی ہو۔" دوسری طرف موجود شخص نے آب کی بار سختی سے کہا۔
"آپ میرے کچھ نہیں لگتے جو آپ کو بتاؤں اور اپنے لہجے کو کنٹرول میں رکھے۔" زینب کو اس کی بات سے زیادہ اس کے لہجے کی سختی سن کر غصہ آیا۔
"اور اگر میں کہوں میں ہی تمہارا سب کچھ لگتا ہوں تو تب بھی نہیں بتاؤں گی؟" اُس نے اب کی بار نرمی سے پوچھا۔
"پلیز میں اپنے قیمتی آنسو تو ضائع کر چکی ہوں اب میں اپنا قیمتی وقت آپ پر ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ اس لئے آپ جو کوئی بھی ہیں اب دوبارہ کال نا کرنا" زینب نے غصے سے کہہ کر کال بند کر دی اور موبائل سوئچ اف کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ اور خود اٹھ کر بائیں طرف چلی گئی۔ وہ ابھی فلحال کسی سے کسی قسم کی بحث نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اس نے دیوار کے سامنے کھڑے ہو کر اسے سائیڈ پر دکھیلا اور اس چھوٹے سے کمرے میں جا کر دروازے کو بند کر کے لاک کردیا۔ فلحال وہ ابھی کسی سے بھی کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ اس وقت مکمل تنہائی میں رہنا چاہتی تھی۔جہاں کسی قسم کا کوئی شور نا ہو۔مکمل خاموشی ہو جو اسے صرف اس کمرے میں ہی مل سکتی تھی۔ وہ متریس پر لیٹ گئی اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔
آدھا گھنٹہ، ایک گھنٹہ،دو گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی اسے نیند نہیں آئی۔ وہ جب بھی آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرتی آسیہ بیگم کی کہیں ہوئی باتیں دوبارہ سے یاد آنے لگ جاتی۔ زینب نے تنگ آ کر سونے کا ارادہ ترک کیا اور کمرے سے باہر نکل کر واش روم میں چلی گئی۔
زینب نے جب پانی چلا کر شیشے کی طرف دیکھا تو اپنی لال سوجی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر پریشانی ہوئی۔
"اب میں اچھے بابا کو کیا بتاؤں گی۔" زینب نے سوچتے ہوئے اپنے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور پھر سے شیشے کی طرف دیکھا لیکن آنکھیں اور ناک ابھی تک لال تھی۔ زینب نے پانی بند کیا اور باہر آ کر منہ صاف کیا۔
اتنی دیر تک رونے کے بعد زینب کو اب بھوک کا احساس ہونے لگ گیا تھا۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل پر موجود ٹیشو کے ڈبے سے دو تین ٹیشو نکالے اور کمرے کی لائٹ بند کر کے نیچے کچن میں چلی گئی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
زینب نے نیچے کچن میں جا کر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ البتہ باہر لان سے آوازیں آرہی تھی۔ زینب نے کچن میں موجود کھڑکی سے باہر دیکھا تو شام ہوگئی تھی۔ زینب نے فریج کھول کر دیکھا تو اندر اس کی بریانی کی پلیٹ ویسی ہی پڑی تھی۔ زینب نے پلیٹ نکال کر اوون میں رکھی اور فریج سے پانی کی بوتل نکال کر پانی گلاس میں ڈالا اور گلاس کو ٹیبل پر رکھ کر بوتل کو واپس فریج میں رکھ دیا۔ تب تک بریانی بھی گرم ہوگئی تھی۔ اس نے پلیٹ نکال کر ٹیبل پر رکھی اور کرسی باہر نکال کر اس پر بیٹھ کر کھانا خانے لگی۔ کھانا کھانے کے بعد برتن سنک میں رکھے۔ اس نے چائے کے لیے پانی چولہے پر چڑھایا اور ساتھ برتن بھی دھونے لگ گی۔ برتن دھونے کے بعد پانی میں پتی دودھ  وغیرہ ڈال کر اس کے پاکنے کا انتظار کرنے لگی۔ چائے بن جانے کے بعد اسے کپ میں ڈالا اور کچن کی لائٹ بند کر کے باہر لان میں چلی گئی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
درمیان میں پڑی ٹیبل پر چائے کے خالی برتن پڑے تھے۔ ایک کرسی پر احمد بیٹھے تھے اور ان کی ساتھ والی کرسی پر آمنہ بیٹھی ہوئی تھی جبکہ ان کے سامنے والی کرسی پر آسیہ اور زارہ بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ سب باتوں میں مصروف تھے اس لیے کسی کو بھی زینب کے آنے کا پتا نہیں چلا۔ زینب نے احمد کے قریب جا کر اپنا سر احمد کے پاس کر کے سلام کیا۔
"السلام علیکم! اچھے بابا۔"
"وعلیکم السلام!" احمد نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا۔ آسیہ بیگم کو ایک دفعہ پھر زینب کو دیکھ کر غصہ آیا تھا۔
زینب نے اپنا سر اوپر کرتے ہوئے آمنہ کی طرف دیکھا۔ آمنہ نے جب اس کی لال ہوئی آنکھوں کو دیکھا تو انہیں دکھ ہوا۔ زینب نے جب آمنہ کی آنکھوں میں اداسی دیکھی تو وہ مسکرائی۔ جو بھی تھا وہ آمنہ کو دکھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔
زینب نے جوتے ایک سائیڈ پر اتارے اور احمد کی تانگوں کے پاس بیٹھ کر سر ان کی گود میں رکھ دیا۔
"کہا تھا میرا بچا؟ آج تو میں آیا بھی لیٹ تھا پھر بھی آپ مجھے نظر نہیں آئی۔ آپ کی اچھی ماما سے پوچھا تو انہوں نے بتایا اپ سو رہی تھی طبیعت تو ٹھیک تھی آپ کی؟" احمد نے زینب کا منہ اپنی طرف کرتے ہوئے کہا۔
زینب جو ابھی جواب دینے ہی لگی تھی احمد کے بولنے پر چپ ہوگئی۔
"یہ آپ کی آنکھوں کو کیا ہوا ہے اتنی لال کیوں ہوئی ہیں۔ اور یہ آپ کی ناک بھی لال ہے۔ روئی تھی کیا؟" احمد نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
احمد کا سوال سن کر آمنہ نے آسیہ بیگم کی طرف دیکھا جبکہ آسیہ بیگم اپنی جگہ پر پہلو بدل کے رہ گئی۔ زارہ نے بھی پہلے زینب کی طرف دیکھا پھر آمنہ اور آسیہ بیگم کی طرف دیکھا۔
"وہ اچھے بابا زکام ہوگیا ہے بس اس لیے۔" زینب جو ٹشو ساتھ لے کر آئی تھی اس سے اپنی ناک صاف کرتے ہوئے کہا تاکہ احمد کو یہی لگے اسے واقعی میں زکام ہوا ہے۔
"کب سے ہے زکام صبح تو آپ بلکل ٹھیک تھی اور آمنہ آپ اسے ڈاکٹر کے پاس نہیں لے کر گئی۔ احمد نے زینب سے پوچھنے کے بعد اپنا رخ آمنہ کی طرف کیا۔
"وہ میں۔۔۔۔۔" آمنہ کو سمجھ نہیں آیا وہ کیا بولے۔
"اچھے بابا میں ٹھیک ہوں بس تھوڑا سا زکام ہے وہ بھی ٹھیک ہوجائے گا۔" زینب نے اپنا چہرہ احمد کی طرف کر کے مسکراتے ہوئے کہا۔
"آپ جلدی سے اپنی چائے ختم کرو میں  آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتا ہوں۔" احمد نے چائے کے کپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"اچھے بابا تھوڑا سا زکام ہے کل تک خودی ٹھیک ہوجائے گا۔" زینب نے احمد کے ہاتھ کے اوپر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"لیکن میرے بچے۔۔۔۔۔!" احمد نے کچھ بولنے کی کوشش کی۔
"اچھے بابا۔۔۔۔۔۔۔" زینب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"اچھا ٹھیک ہے۔" احمد نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
زینب نے مسکراتے ہوئے سائیڈ سے اپنا کپ اٹھایا اور احمد کی ٹانگوں کے ساتھ ٹیک لگا کر چائے پینے لگ گئی۔ زینب نے آسیہ بیگم کی طرف دیکھنے کی غلطی نہیں کی وہ فلحال دوبارہ اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔
وہ لوگ دوبارہ سے اپنی باتوں میں مشغول ہوگئے۔ زینب نے چائے پی کر کپ سائیڈ پر رکھا اور ایک دفعہ پھر اپنا سر احمد کی گود میں  رکھ دیا۔ احمد بھی آہستہ آہستہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگ گئے۔ آمنہ ان دونوں کی طرف دیکھ کر مسکرائی جبکہ آسیہ بیگم کو غصہ آرہا تھا لیکن وہ احمد کے سامنے زینب کے بارے میں کچھ نہیں بول سکتی تھی۔
زینب سکون سے احمد کی گود میں سر رکھے بیٹھی ہوئی تھی جب احمد کے فون پر کال آنے لگ گئی۔ احمد نے فون اٹھا کر کان سے لگایا۔
"وعلیکم السلام!" میں ٹھیک ہوں۔ تم سناؤ کیا حال ہے اور پڑھائی کیسی جا رہی ہے۔" احمد نے دوسری طرف موجود شخص کے سلام پر جواب دیا۔
"بھائی زینب ٹھیک ہے؟ کب سے کال کر رہا ہوں لیکن اس کا فون بند جا رہا ہے۔" زارون نے فکر مندی سے پوچھا۔
"ہاں ٹھیک ہے بس کہہ رہی ہے زکام ہوگیا ہے۔ میں نے کہا بھی ہے ڈاکٹر کے پاس چلو لیکن وہ مان ہی نہیں رہی۔" احمد نے زینب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ جبکہ زینب نے اپنا سر اٹھا کر احمد کی طرف دیکھا۔
"اب کہاں ہے وہ؟" زارون نے پوچھا۔
"ادھر میرے پاس ہی بیٹھی ہے۔ دو فون اسے؟" احمد نے ایک دفعہ پھر زینب کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"جی دے دیں۔" زارون نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
احمد نے فون زینب کی طرف بھرایا۔ زینب نے سوالیہ نظروں سے احمد کی طرف دیکھا۔
"زارون ہے۔ کافی دیر سے آپ کو کال کر رہا ہے لیکن آپ کا فون بند ہے۔"
زینب نے فون پکڑ کر کان سے لگایا۔
"السلام علیکم!" زینب نے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام!"
"کہاں تھی آپ اور فون کیوں بند جا رہا ہے۔" زارون نے پوچھا۔
"وہ۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔" زینب کو سمجھ ہی ہی نہیں آرہی تھی وہ کیا بولے۔
"وہ کیا؟" زارون نے ایک دفعہ دوبارہ پوچھا۔
"وہ۔۔۔ وہ چارجنگ ختم ہوگئی تھی۔" زینب کے ذہن میں جو آیا وہ بول گئی۔
"اچھا۔۔۔۔۔۔!!" زارون نے اچھا کو لمبا کرتے ہوئے کہا۔
"اور آپ کے پاس چارجر نہیں تھا اس لیے موبائل چارج بھی نہیں ہوسکا۔" زارون نے طنزً کہا۔
"وہ۔۔۔ وہ میں بھول گئی تھی۔" زینب نے کہا
"اچھا لیکن آپ کو پتا ہے نا میں آپ کو دوپہر کو بھی کال کرتا ہوں پھر بھی آپ بھول گئی۔" زارون نے ایک دفعہ پھر سچ جاننے کی کوشش کی۔
"جی وہ۔۔۔" زینب کو سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کیا کہے۔
زینب نے اپنا سر اٹھا کر سب کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہے تھے اور زراہ کچھ زیادہ ہی غور سے دیکھ رہی تھی کہ شاید اسے آواز آجائے زارون کیا کہہ رہا ہے۔
"با۔۔۔" وہ جو بابا بولنے لگی تھی آسیہ بیگم کی طرف دیکھ کر خاموش ہوگئی۔
"میں رات میں بات کرو گی۔" زینب سے جب کچھ بولا نہیں گیا تو اس نے رات کو بات کرنے کا کہا۔ کیونکہ اسے پتا تھا کہ جس طرح اس نے احمد سے بات چھپائی تھی وہ زارون سے نہیں چھپا سکتی تھی۔
"ٹھیک ہے میں رات کو کال کرو گا اور مجھے سب کچھ سچ سچ جاننا ہے۔ اوکے!" ذاراون کو پتا چل گیا تھا وہ ابھی سب کے سامنے بات نہیں کرنا چاہتی اس لیے اس نے زینب کی بات مان لی۔
"اوکے!" زینب نے ہلکی سی آواز میں کہا۔
"اپنا خیال رکھنا اور اب رونا نہیں۔ اللّه حافظ!" ذاراون نے کہا
"آپ بھی اپنا خیال رکھنا۔ اللّه حافظ!" زینب نے فون بند کر کی احمد کو دے دیا۔ اور ان کی گود میں سر رکھ کر بیٹھ گئی۔
احمد نے فون پکڑ کر ٹیبل پر رکھ دیا اور دوبارہ سے زینب کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگ گئے۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°

زینب اپنے کمرے میں پیٹ کے بل لیتی ہوئی تھی اور منہ تکیہ کے اندر دیا ہوا تھا۔ کمرے میں اچانک موبائل کی آواز گونجی۔ زینب نے تکیہ سے سر اٹھا کر دیکھا تو موبائل سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا تھا زینب نے اسے نظر انداز کر کے دوبارہ منہ تکیہ میں دے کر لیٹ گئی۔ ل...

Oops! This image does not follow our content guidelines. To continue publishing, please remove it or upload a different image.
You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Jun 02, 2021 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

کیسے بتاؤں تجھےWhere stories live. Discover now