"Family isn't defined only by last names or by blood; it's defined by commitment and by love"
(Dave wills)آج پھر آئمہ زینب کے ساتھ آکر بیٹھ گئی تھی۔ زینب نے موبائل سے نظریں اٹھا کر آئمہ کی طرف دیکھا تو اسے اپنا کل والا روایہ یاد آیا۔ زینب نے موبائل اپنے بیگ میں رکھا اور آئمہ کی طرف متوجہ ہوئی۔
"السلام عليكم! کیا حال ہے آپ کا؟" زینب نے آئمہ کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
"وعلیکم السلام! میں بلکل ٹھیک۔ تم سناؤ؟" آئمہ نے خوشگوار حیرت لئے زینب کو جواب دیا۔
"الحمداللہ!"
"آئم سوری! میرا کل موڈ تھوڑا خراب تھا اس لیے اتنے برے طریقے سے بات کی آپ سے۔ آئی ہوپ یو ڈونٹ مائنڈ(i hope u don't mind)" زینب نے معافی مانگتے ہوئی اپنے کل کے روایے کی وضاحت دی۔
"تھوڑا نہیں بہت زیادہ خراب تھا۔" آئمہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ زینب بھی مسکرانے لگ گئی۔
"سو فرینڈ؟" آئمہ نے زینب کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
"شور" زینب نے بھی اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
ابھی ان کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ سر کلاس میں داخل ہوگئے تو وہ دونوں مسکراتے ہوئے سر کی طرف متوجہ ہوگئی۔
وہ دونوں لیکچر لے کر گراؤنڈ میں آ کر بیٹھ گئی۔
"تمہاری کسی دوست نے ایڈمیشن نہیں لیا اس یونیورسٹی میں؟" آئمہ نے زینب سے پوچھا۔
"نہیں اصل میں مجھے لندن سے آئے ہوئے ابھی کچھ ہی دن ہوئے ہیں سو میری کوئی دوست نہیں ہے ادھر۔" زینب نے آئمہ کو کہا۔
"تم شروع سے لندن میں ہی رہی ہو؟ تمہاری اردو دیکھ کر لگتا تو نہیں ہے" آئمہ نے ایک اور سوال کیا۔
"نہیں پہلے ہم پاکستان میں ہی رہتے تھے جب میں ساتھ سال کی تھی تب گئے تھے لندن اور پھر اچھے بابا اور اچھی ماما کے ساتھ اردو ہی بولتی تھی اس لئے۔" زینب ابھی آئمہ کی بتا رہی تھی کہ اس کے موبائل پہ میسج آیا زینب نے اپنا فون بیگ سے نکالا تو کسی unknown نمبر سے میسج آیا ہوا تھا۔ ابھی وہ لاک کھولنے ہی لگی تھی جب آئمہ نے اسے کہا۔
"یہ تمہارے ماما بابا ہیں؟" آئمہ نے تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جزس میں زینب آمنہ اور احمد کے درمیان کھڑی ہوئی تھی۔
"ہاں" زینب نے مسکرا کر تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"کافی ینگ(young) لگ رہے ہیں لگتا ہے جلدی شادی ہو گی تھی۔" آئمہ نے دوبارہ تصویر دیکھتے ہوئے کہا
"ہاں! جلدی شادی ہوگئی تھی جب میں سات سال کی تھی تب ہوئی تھی۔" زینب نے مسکراہٹ دبا کر کہا۔
"اچھا اچھا!" آئمہ نے بڑی سمجھداری سے اثبات میں سر ہلایا لیکن ایک دم حیرت سے زینب کی طرف دیکھا۔
"کیا مطلب جب تم سات سال کی تھی؟" آئمہ نے حیرت سے پوچھا۔
"بتاتی ہوں۔" زینب نے میسج دیکھے بغیر ہی فون بیگ میں رکھتے ہوئے کہا۔
"اصل میں اچھی ماما اور اچھے بابا میرے سگے ماں باپ نہیں ہیں۔ اچھے بابا میرے تایا زاد کزن ہیں اور اچھی ماما میری پھپھو زاد کزن۔" زینب نے آئمہ کو حقیقت بتائی۔
"افففف تم ایک دفعہ ساری بات نہیں بتا سکتی۔" آئمہ نے الجھتے ہوئے کہا۔
"بتا تو رہی ہوں صبر کرو۔" زینب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"میرے بابا کی ڈیتھ میرے پیدا ہونے سے کچھ مہینے پہلے ہی ہوگئی تھی۔ اس کے بعد مجھے میرے بڑے بابا اور بڑی ماما نے سمبھلا۔ جب میں چار سال کی ہوئی تو ان دونوں کی بھی ڈیتھ ہوگئی کار ایکسیڈنٹ میں۔ لیکن بعد میں پتا چلا کہ ان کا کسی نے قتل کیا تھا۔ بڑے بابا کے دو بیٹے ہیں۔ تو بڑے بابا کی ڈیتھ کے بعد مجھے اچھے بابا اور گندے بابا نے ہی سمبھالا۔ دونوں میرے تایا زاد کزن ہیں۔ جب میں سات سال کی ہوئی تو اچھے بابا نے شادی کر لی۔ نکاح ان کا پہلے ہی پھپھو کی بیٹی(اچھی ماما) سے ہوا تھا۔ اچھے بابا کی شادی کے بعد ہم لندن چلے گئی۔ اور اب پتا نہیں کیوں اچھے بابا نے واپس آنے کا فیصلہ کیا۔" زینب نے بہت مختصر الفظ میں اپنے ماضی کے بارے میں بتایا۔
"اور تمہاری ماما؟" آئمہ نے ایک اور سوال کیا۔
"جب میں پیدا ہوئی اور ماما کی عدت پوری ہوگئی تو بڑے بابا نے ان کی شادی اپنے دوست کے بھائی کے ساتھ کروا دی۔ ان کے دوست کے بھائی کی بیوی اپنے بیٹے کی پیدائش پر فوت ہوگئی تھی اس لئے بڑے بابا نے ماما کی شادی ان سے کروا دی۔" زینب نے جواب دیا۔
"تمہیں نہیں لگتا تمہارے بڑے بابا کو تمہاری ماما کی شادی نہیں کروانی چاہیے تھی۔" آئمہ نے جیسے اس کے چہرے پہ کچھ تلاش کرنا چاہا۔
"نہیں بلکل بھی نہیں۔ ماما کو کسی مرد کے سہارے کی ضرورت تو تھی نا ہر عورت کو ہوتی ہے اس کے ان کے لیے یہی بہتر تھا۔" زینب نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
"تمہاری اچھی ماما کا رویہ ٹھیک ہے تمہارے ساتھ؟" آئمہ نے فکر مندی سے پوچھا
"ان کا رویہ میرے ساتھ بہت بہت بہت....... اچھا ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے مجھے کبھی بھی کسی دوست کی کسی کی بھی ضرورت نہیں پڑی۔" زینب کی آنکھوں میں ہی آمنہ کے لیے محبت نظر آ رہی تھی۔
"تمہارے اچھے بابا اچھی ماما کی کوئی اولاد نہیں کیا؟" آئمہ نے پھر سے سوال کیا۔
"نہیں" زینب نے بس ایک لفظی جواب دیا۔
"تمہیں تمہارے اصلی ماما بابا کی یاد نہیں آتی؟" آئمہ نے ایک اور سوال کیا۔
"میں نے جب سے ہوش سمبھالا ہے اچھے بابا اور اچھی ماما کو ہی دیکھا ہے اور انہیں ہی اپنے ماما بابا مانا ہے اس لیے یاد ہی نہیں آئی کبھی۔" زینب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"بس! اب اور کوئی سوال نہیں۔" آئمہ جو ابھی کچھ اور پوچھنے ہی لگی تھی زینب کے چپ کروانے پر خاموش ہوگئی۔
______________________________________
دن آہستہ آہستہ گزرتے جا رہے تھے۔ زینب کو روزانہ ہی صبح گیٹ کے پاس کالے گلاب کے پھول ملتے تھے شروع شروع میں تو وہ انہیں اٹھا کر اندر لے جاتی تھی لیکن اب وہ بھی اس سے تنگ آنے لگ گئی تھی۔ اب وہ ان پھولوں کو اٹھانے کی بجائے انہیں وہی پڑے رہنے دیتی۔ جس دن اسے غصہ آتا کہ اسے ابھی تک اس شخص کا پتا نہیں چلا جو اسے گلاب بھیجتا ہے وہ غصے میں ان پھولوں کو پاؤں سے ٹھوکر مار کر چلی جاتی۔
"اچھی ماما! میری فرینڈ کی برتھڈے ہے تو کیا میں وہاں پہ جا سکتی ہوں؟" زینب نے دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے کہا۔
"جانا کہاں پر ہے؟"
"اچھی ماما اصل میں مجھے سمجھ نہیں آرہا اسے کیا گفت دوں تو میں نے سوچا کہ میں اسے کسی ریسٹورنٹ میں لنچ کروا دوں۔ تو آپ پلیز اچھے بابا سے اجازت لے دیں۔ زینب نے معصوم سی شکل بنا کر کہا۔
"میں کیوں لے کر دوں تمہارے بابا ہیں خود ہی پوچھا۔" آمنہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"اچھی ماما! پلیز پلیز پلیز نا۔" زینب نے آمنہ کے گلے میں بازو ڈالتے ہوئے کہا۔
"اچھا وہ رات کو آتے ہیں تو میں بات کرتی ہوں۔" آمنہ نے برتن اٹھائے اور کچن کی طرف چلی گئی۔
_________________________________________________________________________
رات کو احمد آئے تو آمنہ نے کھانے کے بعد ان سے پوچھا
"آپ کی مرضی ہے آپ کو جو بہتر لگے۔" احمد نے آمنہ کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں تو سوچ رہی ہوں چلی جائے جب سے پاکستان آئی ہے ایک دو دفعہ ہی کہیں گئی ہے اور پہلی دفعہ تو اس نے کوئی دوست بنائی ہے۔" آمنہ نے ہنستے ہوئے کہا تو احمد بھی مسکرا دئیے۔
_________________________________________________________________________
زینب یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہورہی تھی اور ساتھ آئمہ سے بات بھی کر رہی تھی۔
"آئمہ کیا تم یونیورسٹی کے بعد تھوڑی دیر کے لئے میرے ساتھ چل سکتی ہو؟" زینب نے حجاب سیٹ کر کے حجاب پن لگاتے ہوئے کہا۔
"ارے! تمہارے ساتھ تو جہنم میں بھی جا سکتی ہوں۔ لیکن صرف گیٹ تک آگے تم خود ہی چلی جانا۔" آئمہ نے شرارت سے کہا۔ زینب نے اس کی بات سن کر آنکھیں گھمائی۔
"اچھا تم اپنے گھر والوں سے پوچھ لینا انہیں بتا دینا میں تمہیں ڈراپ کر دوں گی۔" زینب نے اپنا بیگ اٹھایا اور کمرے سے باہر آگئی۔
"وہ تو بتا دوں گی لیکن جانا کہا ہے؟" آئمہ نے سوال پوچھا۔
"وہ تم بعد میں خود ہی دیکھ لینا۔ اللہ حافظ۔" زینب کچن کے اندر گئی جہاں پر روز کی طرف آمنہ اور احمد ناشتہ کر رہے تھے۔ زینب احمد اور آمنہ کے پاس گئی اور اپنا سر ان کے پاس کیا تو آمنہ اور احمد نے اس کا ماتھا چوما۔ زینب جا کر کرسی پر بیٹھ گئی تو آمنہ نے اس کے سامنے اس کا ناشتہ رکھ دیا۔
"زینب آرام سے کھاؤ۔" آمنہ نے اسے جلدی جلدی کھاتے دیکھ کر ٹوکا۔
"اچھی ماما دیر ہو رہی ہے اس لئے۔" زینب نے جلدی جلدی ناشتہ ختم کیا اور آمنہ اور احمد کے سر کو چوم کر باہر کی طرف بھگ گئی۔
وہ گاری کے اندر بیٹھی ہوئی تھی جب اس کے موبائل پہ میسج آیا اس نے موبائل بیگ سے نکال کر دیکھا تو کسی unknown نمبر سے میسج آیا ہوا تھا۔ زینب نے میسج کھولا جسے پڑھنے کے بعد اسے سمجھ نہیں آئی کہ یہ کس کا نمبر ہے اور اسے کیوں یہ میسج بھیجا ہے۔
"I will be seeing u soon and it will b better than anything else."
"کہیں بابا تو نہیں آرہے۔ لیکن ان کا نمبر تو ہے میرے پاس تو پھر یہ کس کا نمبر ہے۔" زینب اپنی سوچوں میں اتنی گم تھی اسے پتا ہی نہیں چلا کب یونیورسٹی آگئی۔ ہوش تو تب آیا جب ڈرائیور نے اسے آواز دی۔
"بیٹا یونیورسٹی آگئی ہے۔"
"اچھا انکل!" زینب نے موبائل اپنے بیگ میں رکھا اور گاڑی سے اتر کر اندر چلی گئی۔
_________________________________________________________________________
"تم مجھے یہاں کیوں لائی ہو؟" آئمہ نے زینب سے پوچھا جو اسے یونیورسٹی کے بعد ریسٹورنٹ میں لے آئی تھی۔
"بتاتی ہوں۔" زینب نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کاؤنٹر تک لے گئی اور اپنے ٹیبل کا پوچھا جو اسے نے کل بک کروایا تھا۔
"میم! معذرت کے ساتھ آپ نے جو ٹیبل بک کروائی تھی وہ تو آج ہی کسی اور نے لے لی ہے۔" ادھر کھڑے ایک آدمی نے کہا۔
"ایسے کیسے کسی اور نے لے لی ہے میں نے آپ کو پیسے بھی دے دئیے تھے ساری ڈیکوریشن کے تو پھر ایسے کیسے کسی اور نے بک کروا لی۔" زینب کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
"میم ہم نے ساری ڈیکوریشن کر دی تھی لیکن وہ آج صبح مینیجر کے دوست نے آ کر وہ ٹیبل بک کر لیا۔ انہوں نے صرف آپ کا ٹیبل نہیں پورا ریسٹورنٹ ہی ایک دن کے لیے ان سے لیا ہے آپ اپنے پیسے واپس لے لے اور ادھر کسی اور ٹیبل پہ آپ بیٹھ جائے بیشک۔ ان کے دوست نے کہا تھا آپ اس ٹیبل کے علاوہ جہاں مرضی بیٹھ سکتی ہے۔" اس آدمی نے نظریں نیچے رکھتے ہوئے کہا۔
زینب نے اس کی بات سنتے ہی پورے ریسٹورنٹ میں نظریں ڈورائی وہاں پر واقعی کوئی نہیں تھا سوائے آئمہ اس آدمی اور ایک ٹیبل پر جس پہ دو لڑکے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس ٹیبل پر برتھڈے تھیم کی ہی ڈیکوریشن ہوئی تھی۔ ان لڑکوں کا منہ دوسری طرف تھا اس لئے زینب ان کا چہرہ نہیں دیکھ سکی۔ زینب نے غصے میں اس کی طرف قدم بڑھائے۔ اور آئمہ اب بھی نا سمجھی سے زینب کے پیچھے چل دی۔
"ایکسوزمی!" زینب نے ان کے پاس جا کر کہا۔
"یس!" ان میں سے ایک لڑکا کھڑا ہو کر زینب کی طرف مرا جب کے دوسرے لڑکے کے وہ بس بال ہی دیکھ سکی جو ایک پونی میں بندھے ہوئے تھے۔
"تم۔۔۔۔۔!" زینب نے حیران نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
YOU ARE READING
کیسے بتاؤں تجھے
Mystery / Thrillerکہانی ایک لڑکی کی جو خوش رہنے کی کوشش کرتی ہے کیوں کہ اسے پتا ہے اگر وہ خوش رہے گی تو اس کے اپنے بھی خوش رہے گے ____________________________________________________________________ کہانی ایک لڑکے کی جس نے اپنے ماں باپ کے قتل کا بدلنا لینے کو اپنی زن...